محمدمقبول رضا راجوروی
کشمیر کی تحریک آزادی کے مجاہد
چوہدری مقبول رضا راجوروی مقبوضہ صوبہ جموں کے اضلاع جموں اور راجوروی کے ممتاز سیاسی اور اعلیٰ زمیندار گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔
صوبہ جموں کے اعلیٰ زعماء میں ان کے دادا مرحوم چوہدری دیوان علی خان کا نام گرامی نمایاں تھا۔ ریاست جموں وکشمیر کی سب سے بڑی نمائندہ سیاسی جماعت آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس کے وہ برسوں ممبر مجلس عاملہ رہے تھے۔
وہ قائد ملت رئیس الاحرار چوہدری غلام عباسؒ کے رفیقِ خاص۔ چوہدری دیوان علی راجوروی کو جموں و کشمیر گوجر جاٹ کا نائب صدر بنایا گیا تھا، جب کہ حضرت قبلہ میاں نظام الدین لاروی صدر گوجر جاٹ کانفرنس تھے۔ 1947ء میں تحصیل اکھنور ضلع جموں میں چوہدری دیوان علی راجوروی کا سارا خاندان شہید ہو گیا تھا۔ اس اعتبار سے اور عددی لحاظ سے ان کے خاندان کی شہادتیں تحریک آزادی کا ایک ناگزیر اثاثہ ہیں۔
راجوری میں جب ڈوگرہ حکومت کے خاتمہ کے بعد آزاد کونسل کے نام سے سول حکومت قائم ہوئی تو زیلدار راجوری مرزا محمد حسین خان (مرحوم) کی سربراہی میں وہ کابینہ کے سنیئر وزیر تھے۔ چوہدری مقبول رضا، راجوری کے موضع دنہور میں 8اگست 1940ء میں پیدا ہوئے۔ پرائمری تک تعلیم انہوں نے اپنے گاؤں کے اسکول میں حاصل کی۔ 1948ء میں بھارتی افواج کے بھرپور زمینی اور فضائی حملے میں راجوری پر بھارت کا قبضہ ہوگیا۔
راجوری سے سارے مسلمان ہجرت کرکے آزادکشمیر /پاکستان میں پنا گزین ہوئے تو چوہدری دیوان علی راجوروی اپنے ساتھ پچاس ہزار قافلہ کے ساتھ سرائے عالمگیر ضلع گجرات میں اقامت پذیر ہوگئے۔ قائدملت چوہدری غلام عباس ؒ اکثر راولپنڈی سے لاہور کے سفر کے دوران چوہدری دیوان علی راجوروی سے ملاقات کیے بغیر نہ جاتے۔ چوہدری مقبول رضا صاحب نے میٹرک تک تعلیم یہاں ہی سے حاصل کی اور بعد ازآں تحریک آزادیٔ کشمیر میں مصروف ہوگئے۔
27جون1958 کو قائدملت چوہدری غلام عباس (مرحوم) نے کے ایل ایم کے نام سے ایک ہمہ گیر تحریک کا آغاز کیا، جس کے تحت مقبوضہ جموں و کشمیر میں دو لاکھ رضا کار داخل کر کے بھارت پر خارجی اور داخلی دباؤ ڈالنا تھا۔
اور عالمی ہمدردیاں حاصل کر کے بھارت کو جموں و کشمیر چھوڑ دینے پر مجبور کرنا تھا، مگر اس وقت کے وزیر اعظم پاکستان ملک فیروزخان نون اور بھارت کے وزیراعظم آنجہانی پنڈت جواہر لال نہرو دونوں لیاقت نہرو معاہدہ کے پابند تھے۔ چناںچہ ملک فیروز خان کی حکومت نے ہزاروں رضا کاروں کو آزاد کشمیر اور پاکستان کی جیلوں میں پابند سلاسل کردیا۔ سرائے عالمگیر سے نوجوانوں کے قافلے کے سالار مقبول رضا راجوروی تھے۔
شیشیانوالا چوک گجرات میں ان کے جلوس کو لاٹھیوں، ہاکیوں اور ڈنڈوں کا بے رحمانہ استعمال کرکے گھائل کیا گیا۔ اور گجرات جیل میں بند کردیا گیا تھا۔ اس وقت ان کی عمر 18سال تھی۔ بعدازآں چوہدری مقبول رضا ایک قافلہ کے ہمراہ واپس راجوری جانے میں کام یاب ہوگئے، مگر قائدملت چوہدری غلام عباس کے افکار اور تعلیم اور مسلم کانفرنس کی تربیت نیز چوہدری دیوان علی راجوروی کے ہاتھوں پرورش جیسے جرأت مندانہ اوصاف اور حب الوطنی کے جذبے سے سر شار مقبول رضا راجوروی کب بلا مقصد زندگی بسر کرنا برداشت کر سکتے تھے۔
چناںچہ راجوری، پونچھ اور جموں، کٹھوعہ، اودھم پور کے نوجوانوں سے مل کر انہوں نے ڈیموکریٹک نیشنل کانفرنس کے زیراہتمام بخشی غلام محمد وزیراعلیٰ جموں و کشمیر کے خلاف اس کے مظالم اور علاقے کے عوام کے حقوق غصب کرنے پر سخت احتجاجی تحریک کا آغاز کرکے ایک سال کے اندر ہی عوام کے اندر گہرا اثر و رسوخ پیدا کرلیا۔ جب 1961-62 کے اسمبلی کے انتخابات کا اعلان ہوا تو چوہدری مقبول رضا راجوروی شہر کے حلقے سے ڈیمو کریٹک کانفرنس کے امیدوار تھے۔
خواجہ غلام محمد صادق جو بعد میں وزیراعلیٰ بنے وہ جماعت کے صدر تھے۔ راجوری کے حلقہ انتخاب میں مقبول رضا کی زبردست عوامی تائید و حمایت دیکھ کر ان کے مدمقابل امیدوار عبدالعزیز شال نے سری نگر جاکر بخشی غلام محمد کو صورت حال سے آگاہ کیا۔ بخشی غلام محمد اقتداراعلیٰ کے ناخدا تھے اور سیاہ کو سفیدکرنے کی قدرت رکھتے تھے۔
انہوں نے محکمۂ جنگلات کے ڈی ایف او مسٹر عبد الرشید پٹرے کو راجوری کا ریٹرننگ آفیسر مقرر کیا اور چوہدری مقبول رضا کا نام زدگی فارم پاکستانی قرار دے کر مسترد کردیا اور ان ہیں گرفتار کر کے جموں جیل میں قید کردیا، مگر علاقے کے عوام کے جلسے جلوسوں اور منتخب ارکان اسمبلی کے دباؤ پر مقبول رضا کو پیرُول پر رہا کیا گیا۔
چوہدری مقبول رضا راجوروی اپنی جوانی کے وقت انتھک اور متحرک نوجوان سیاست داں تھے۔ انہوں نے اپنا مشن جاری رکھا۔ اتنے میں بخشی غلام محمد کے ہوم سیکرٹری نے مقبول رضا کو سیاست سے Push Back کرنے کے احکامات جاری کردیے۔ بخشی حکومت نے سیکڑوں جوانوں کو پُش بیک کی آڑ میں بارڈر پر لے جا کر گولی مار دینے کا اذیت ناک سلسلہ قائم کر رکھا تھا۔ چناںچہ اس بھیانک اور جان لیوا صورت حال سے بچنے کی خاطر ان کی جماعت ڈیموکریٹک کانفرنس نے جس کے صوبہ جموں کے راہ نما رام پیارا صراف اور کرشن دیو سیٹھی تھیم دونوں نے مقبول رضا راجوروی کو پراسرار طریقے سے جموں سے دہلی بھیج دیا۔
آل انڈیا کیمونسٹ پارٹی کے راہ نما بھوپیش گُپتا اور مسٹر غوفری پد ممبران پارلیمنٹ کے تعاون سے بھارت کے وزیرداخلہ گردھاری لعل نندہ نے اسپیکر پارلیمنٹ سے توجہ دلا کر بخشی غلام محمد کے جاری کردہ پُش بیک آرڈر کو غیرآئینی قرار دلوادیا۔
چوہدری مقبول رضا راجوروی حکم امتناعی لے کر واپس جموں آئے تو بعدازآں عوام میں ان کی مقبولیت اور اثرورسوخ کو دیکھ کر بخشی غلام محمد نے دربار عالیہ لار شریف کے گدی نشین میاںنظام الدین گوجر قبیلہ جموں و کشمیر کی قائداعلیٰ اور ممبر قانون ساز اسمبلی سے بخشی غلام محمد نے ملاقات کرکے چوہدری مقبول رضا کو وقتی طور پر شدید مخالفت سے باز رہنے اور سیاسی سرگرمیوں کو سرحدی اضلاع راجوری پونچھ میں معطل کرنے کا فیصلہ ہوا۔ بہرحال بخشی غلام محمد کا دورحکومت جہاں عوام کی تعمیروترقی کے حوالے سے اچھا تھا۔ وہاں دوسری طرف بخشی غلام محمد نے شیخ عبداللہ کو نکیل ڈال کر جیل میں بند کر رکھا تھا۔ ایسے حالات میں سرحدی اضلاع کا رہائشی کوئی بھی شہری جو عوامی حقوق کی جنگ لڑتا ہے اسے اپنی زندگی بچانے کی فکر لاحق رہتی ہے۔
چاروناچار چوہدری مقبول رضا راجوروی نے ملازمت اختیار کرلی۔ اگست 1965ء میں مجاہدین آزادی (پاک آرمی اور آزاد جموں کشمیر کی فوج کے مجاہد) علاقہ راجوری پونچھ میں داخل ہوگئے۔ آپریشن جبرالٹر کے تحت جس کے کمانڈر اختر ملک تھے، مجاہدین آزادی نے بھارتی فوجی تسلط کے خلاف بھرپور حملے شروع کردیے۔ شب خون مارنے اور کیمپوں کو تباہ کرنے کے واقعات نے بھارت کے 25 ویں ڈویژن کے بھارتی جرنیل امریک سنگھ کے اُوسان خطا کردیے اور وہ راجوُری میں دبک کر بیٹھ گئے۔ مجاہدین آزادی کے فورس کمانڈر کیپٹن شیراحمد کے ایمان افروز کردار اور جرأت مندانہ اقدامات کے نتیجے میں بھارتی افواج کا مُورال ڈاؤ ن ہوگیا۔
مجاہدین آزادی کو پے در پے فتوحات حاصل ہو رہی تھیں۔ انقلابی کونسل راجوری کے قیام سے علاقے کے اندر استحکام اور ٹھہراؤ پیدا ہوگیا تھا۔ راجوری کے تمام قبائل شیروشکر ہوکر میدان کارزار میں اپنا کردار ادا کر رہے تھے۔ چوہدری مقبول رضا راجوروی نے ملازمت سے بغاوت اختیار کرکے مجاہدین آزادی کی تحریک میں شمولیت اختیار کی۔
ان کو پاک آرمی کے کمانڈرون نے انقلابی کونسل راجوری کا اہم ترین مگر حساس عہدہ دیا اور انھیں ڈائریکٹر سول آفیسر و ملٹری انٹیلی جنس کا سربراہ بنایا۔ یہ ایک بڑی نازک اور حساس ذمے داری تھی، مگر رضا راجوروی کے کمال تدبر اور فراست سے اپنی ذمے داریاں نبھائیں۔ پاک بھارت حکومتوں نے معاہدۂ جنگ بندی کرکے اہل راجوری ، پونچھ کی تمام امیدیں خاک میں ملادیں اور ڈیڑھ لاکھ سے زائد حرماںنصیب صوبہ جموں کے باشندے تیسری بار ہجرت کرنے پر مجبور ہوگئے۔
1965ء میں ہجرت کے بعد مقبول رضا راجوروی اور چوہدری محمد شریف طارق نے اپنے رفقاء کے ساتھ لاہور میں پریس کانفرنس کر کے حکومت پاکستان سے مطالبہ کیا کہ صوبہ جموں کے مسلم علاقوں میں جنگ آزادی جاری رکھنے کے لیے مجاہدین کو اسلحہ دیا جائے۔ آپریشن جبرالٹر کے بعد جب لاکھوں کی تعداد میں راجوری ، پونچھ سے مہاجرین نے آزاد کشمیر کا رخ کیا تو آپ نے ان کی فلاح و بہبود کے لیے اپنے آپ کو وقف کردیا، کیوںکہ آپ نے ان کے ساتھ ہی بھارتی سام راج کے خلاف مسلح جدو جہد کی تھی۔
مہاجرین کی فلاح و بہبودکے لیے شب و روز مصروف رہے۔ کچھ عرصہ سرکاری ملازمت بھی کی لیکن ملازمت کو ترک کر کے مکمل طور پر اپنے آپ کو عوم کے لیے وقف کردیا۔ اپنے چچا غلام احمد رضا کی وفات کے بعد آپ نے بھرپور طریقے سے ان کے سیاسی خلاء کو پُر کرنے کی کوشش کی۔ سابق صدر بریگیڈیئر محمد حیات خان آپ کے خاندان اور ان کی قربانیوں سے بخوبی آگاہ تھا۔ بریگیڈیئر صاحب کے ساتھ آپ کے خصوصی تعلقات تھے۔
آزاد جموں و کشمیر میں جب بریگیڈیئر محمد حیات خان نے ترقیاتی کاموں کا آغاز کیا تو آپ کی اس میں مشاورت شامل تھی۔ مہاجرین کی آبادکاری کے لیے اپنے خصوصی تعلقات کو استعمال کرتے ہوئے ہزاروں مہاجرین کو آباد کرنے کے لیے خصوصی کوٹا منظور کروایا۔ اس طرح مہاجرین کی کثیر تعداد چھمب اور جھنگ میں آباد ہوئی۔ اسی طرح ہزاروں کی تعداد میں لوگوں کو ملازمت بھی دلوائی۔ ایک صاحب جو حال ہی میں آزاد جموں و کشمیر کے اعلیٰ منصب سے ریٹائرڈ ہوئے ہیں وہ انٹرویو میں ناکام ہوئے تو آپ نے حیات خان سے بات کرکے ان کو بھرتی کروایا۔
آپریشن جبرالٹر کے بعد ہی جب حکومت پاکستان نے آپ کے علاقہ اور قبیلہ کے لوگوں کی قربانیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے مرکزی رہنماؤں کو راولپنڈی آنے کی دعوت دی تو اس سے قبل آپ نے باہمی مشاورت کی۔ اور مکمل تیاری کے بعد جب آپ کے رفیق خاص حاجی رانا فضل حسین کی قیادت میں وفد صدر محمد ایوب خان سے ملاقات کے لیے صدر ہاؤس پنڈی گیا تو ایوب خان نے رانا فضل حسین کے کنبے کے بیس سے زائد افراد کے شہادت کے بعد ان کی خدمات کے اعتراف میں پلاٹ پرمٹ اور دیگر سہولتوں کی بات کی تو انہوں نے جواب دیا کہ ہم نے اس سے قبل پاکستان اور اسلام کے لیے قربانیاں دی ہیں اور آئندہ بھی دیتے رہیں گے۔ اس بات سے متاثر ہوکر رانا فضل حسین کو (تمغہ پاکستان) کا سول اعزاز دیا گیا۔
شہید چوک میرپور کے قریب آپ کی قیام گا ہ پر ہر وقت لوگوں کی آمدو رفت جاری رہتی تھی اور آپ ان کے مسائل حل کرنے کے لیے شب و روز مصروف رہتے تھے۔ سیاسی طور پر مسلم کانفرنس سے آخری وقت میں وابستہ تھے۔ 1988ء میں میرپور کے مقام پر جو قبیلے کا شان دار کنوینشن منعقد ہوا اس کے لیے آپ کی خدمات شان دار الفاظ میں لکھنے کے قابل ہیں۔
چوہدری مقبول رضا راجوروی کے خاندان کے ستر افراد 1947ء میں اکھنور میں شہید کردیے گئے مگر راجوروی میں موجود خاندان بچ گیا تھا۔ ہجرت کے پر آشوب دور میں چوہدری مقبول رضا راجوروی نے جس اعلیٰ ظرفی، گہرے تدبر اور وسیع النظری سے زندگی گزارنے کے ڈھب اور اصول رقم کیے اور اپنے خاندان کی اعلیٰ روایات اور ملکی و قومی سیاست میں اپنا عمل جاری رکھ کر ایک قابل فخر کردار کی حامل شخصیت کا اعزاز حاصل کیا ہے۔ آپ کی خدمات کاا عتراف ان الفاظ میں کیا جاسکتا ہے۔
صوبہ جموں کے عوام نے تاریخ آزادی میں مثالی خدمات اور قربانیاں دی ہیں اور ہمیں کامل یقین ہے کہ جب تک چوہدری مقبول رضا راجوروی جیسے محب وطن اور بلند نظریہ و نصب العین کے حامل لوگ معاشرہ کے اندر سر گرم عمل رہیں گے ملک اور قوم کے وسیع مفادات کی خاطر لوگ قیمتی جانوں کی قربانی اور ہجرت کی پرآشوب مگر بامقصد صعوبتیں اور آزمائشیں برداشت کرنے کے باوجود ہمت نہ ہاریں گے۔
یہ شہادت گہہ الفت میں قدم رکھنا ہے
لوگ آسان سمجھتے ہیں مُسلمان ہونا
چوہدری مقبول رضا راجوروی ریاست جموں و کشمیر کے سیاسی و سماجی زعماء میں ایک منفرد مقام رکھتے تھے۔ تحریک آزادی میں ان کی ذاتی خدمات کا گراف نہایت ہی بلند اور مثالی ہے۔ مقبوضہ صوبہ جموں کی تاریخ اور جغرافیہ کا گہرا ادراک رکھتے تھے ۔ ان کی تعلیم بی اے تک تھی۔ مگر چالیس سالہ سیاسی زندگی میں انہوں نے جو تجربات اور تاریخی کارنامے سر انجام دیئے ہیں ان کو اہل راجوری اور مقبوضہ صوبہ جموں کے عوام کبھی فراموش نہیں کر سکتے۔ اردو، گوجری، پنجابی، اور انگریزی میں وہ سامعین کو بے حد متاثر کرتے تھے۔
بالخصوص اردو میں ان کی تسلسل اور تاریخی شواہد کے ساتھ تقاریر عوام سننے کے متمنی رہتے۔ آپ دربار عالیہ وانگت لار شریف میں نظام الدین نظامی لاروی کے مرید خاص تھے۔ نظریہ الحاق پاکستان کے شیدائی اور ان کی ساری زندگی اس مقصد کی سچائی کی بذات خود گواہ ہے۔ ان کے خاندان کے ستر کے قریب افراد موضع ڈگہا، گُڑھا، تحصیل اکھنور میں شہید ہوئے اور شہدائے جموں میں ان کے خاندان کی شہادتیں تاریخ کا ایک حصہ ہیں۔
ان کے دادا مرحوم چوہدری دیوان علی راجوروی ریاست جموں و کشمیر کی سیاست میں نہایت ہی محترم اور ذہین شخصیت شمار ہوتے ہیں اور جموں کشمیر گوجر جاٹ کانفرنس کے مرکزی نائب صدر تھے، جو ایک تعلیمی اور سماجی تنظیم تھی۔ وہ آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس وار قائد ملت چوہدری غلام عباس شیدائیوں میں گنے جاتے تھے۔ ان کے فرزند چوہدری گلزار احمد راجوروی برسوں مقبوضہ جموں کشمیر قانون ساز کونسل کے ممبر رہے۔ وہ ایک شعلہ بیاں مقرر اور خوش الحان شخصیت ہیں۔ چوہدری مقبول رضا کے دوسرے چچا چوہدری غلام احمد رضا مرحوم آزاد جموں و کشمیر کی سیاست میں نمایاں مقام کے حامل تھے۔
آزاد کشمیر اسمبلی کے ممبر اور وزیر تعلیم رہے۔ ان کی ذات گرامی آزاد کشمیر کے عوام میں کمال درجہ محترم اور ہر دل عزیز تھی، مگر ڈیڑھ سال کے بعد وزیرتعلیم کے عہدہ پر کام کر رہے تھے کہ عمر نے وفا نہ کی اور وہ اللہ کو پیارے ہو گئے۔ مقبوضہ صوبہ جموں اور پاکستان میں مقیم مہاجرین کے نزدیک چوہدری مقبول رضا راجوروی اور ان کے خاندان کا گہرا سیاسی عمل دخل تھا۔
آپ نے قیام میر پور کے دوران ایک ماہنامہ رسالہ بھی جاری کیا۔ جب وطن کی یاد ستاتی تو اکثر اس کا ذکر کرتے۔ اپنے دادا چوہدری دیوان علی کا ذکر خاص طور پر کرتے جن کی تعلیم و تربیت سے یہ مقام پایا تھا۔ چن دیس راجوری کے بارے میں ایک بار اپنی بیٹی سے کہا کہ میں تو وہاں نہیں جا سکتا تم بیرون ملک سے وہاں سے ہو کر آؤ اور بیٹی نے کہا کہ ابو اس سے کیا ہوگا۔
کہنے لگے آ کر مجھے بتانا کہ میرا دیس اس کی گلیاں کھیت کھلیان اور میرے لوگ کیسے ہیں تو مجھے قرار آجائے گا۔ آخری عمر میں سرطان جیسے موذی مرض کا مقابلہ کر تے کرتے 7ستمبر2012ء کو میر پور میں اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ آپ کا خاندان میرپور میں مقیم ہے۔ آپ کی بیٹیاں بیرون ملک جب کہ اکلوتا بیٹا فہد رضا میرپور میں ہے۔ وفات کے بعد آپ کو ایف ون کوٹلی روڈ کے مرکزی قبرستان میں والدہ کے پہلو میں دفن کیا گیا۔
دیس کی دھرتی اپنے اندر میت میری ڈھک لیتی آ
ظفر اس ارمان کے باہجوں ھور ارمان کوئے رہیو نہ
صوبہ جموں کے اعلیٰ زعماء میں ان کے دادا مرحوم چوہدری دیوان علی خان کا نام گرامی نمایاں تھا۔ ریاست جموں وکشمیر کی سب سے بڑی نمائندہ سیاسی جماعت آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس کے وہ برسوں ممبر مجلس عاملہ رہے تھے۔
وہ قائد ملت رئیس الاحرار چوہدری غلام عباسؒ کے رفیقِ خاص۔ چوہدری دیوان علی راجوروی کو جموں و کشمیر گوجر جاٹ کا نائب صدر بنایا گیا تھا، جب کہ حضرت قبلہ میاں نظام الدین لاروی صدر گوجر جاٹ کانفرنس تھے۔ 1947ء میں تحصیل اکھنور ضلع جموں میں چوہدری دیوان علی راجوروی کا سارا خاندان شہید ہو گیا تھا۔ اس اعتبار سے اور عددی لحاظ سے ان کے خاندان کی شہادتیں تحریک آزادی کا ایک ناگزیر اثاثہ ہیں۔
راجوری میں جب ڈوگرہ حکومت کے خاتمہ کے بعد آزاد کونسل کے نام سے سول حکومت قائم ہوئی تو زیلدار راجوری مرزا محمد حسین خان (مرحوم) کی سربراہی میں وہ کابینہ کے سنیئر وزیر تھے۔ چوہدری مقبول رضا، راجوری کے موضع دنہور میں 8اگست 1940ء میں پیدا ہوئے۔ پرائمری تک تعلیم انہوں نے اپنے گاؤں کے اسکول میں حاصل کی۔ 1948ء میں بھارتی افواج کے بھرپور زمینی اور فضائی حملے میں راجوری پر بھارت کا قبضہ ہوگیا۔
راجوری سے سارے مسلمان ہجرت کرکے آزادکشمیر /پاکستان میں پنا گزین ہوئے تو چوہدری دیوان علی راجوروی اپنے ساتھ پچاس ہزار قافلہ کے ساتھ سرائے عالمگیر ضلع گجرات میں اقامت پذیر ہوگئے۔ قائدملت چوہدری غلام عباس ؒ اکثر راولپنڈی سے لاہور کے سفر کے دوران چوہدری دیوان علی راجوروی سے ملاقات کیے بغیر نہ جاتے۔ چوہدری مقبول رضا صاحب نے میٹرک تک تعلیم یہاں ہی سے حاصل کی اور بعد ازآں تحریک آزادیٔ کشمیر میں مصروف ہوگئے۔
27جون1958 کو قائدملت چوہدری غلام عباس (مرحوم) نے کے ایل ایم کے نام سے ایک ہمہ گیر تحریک کا آغاز کیا، جس کے تحت مقبوضہ جموں و کشمیر میں دو لاکھ رضا کار داخل کر کے بھارت پر خارجی اور داخلی دباؤ ڈالنا تھا۔
اور عالمی ہمدردیاں حاصل کر کے بھارت کو جموں و کشمیر چھوڑ دینے پر مجبور کرنا تھا، مگر اس وقت کے وزیر اعظم پاکستان ملک فیروزخان نون اور بھارت کے وزیراعظم آنجہانی پنڈت جواہر لال نہرو دونوں لیاقت نہرو معاہدہ کے پابند تھے۔ چناںچہ ملک فیروز خان کی حکومت نے ہزاروں رضا کاروں کو آزاد کشمیر اور پاکستان کی جیلوں میں پابند سلاسل کردیا۔ سرائے عالمگیر سے نوجوانوں کے قافلے کے سالار مقبول رضا راجوروی تھے۔
شیشیانوالا چوک گجرات میں ان کے جلوس کو لاٹھیوں، ہاکیوں اور ڈنڈوں کا بے رحمانہ استعمال کرکے گھائل کیا گیا۔ اور گجرات جیل میں بند کردیا گیا تھا۔ اس وقت ان کی عمر 18سال تھی۔ بعدازآں چوہدری مقبول رضا ایک قافلہ کے ہمراہ واپس راجوری جانے میں کام یاب ہوگئے، مگر قائدملت چوہدری غلام عباس کے افکار اور تعلیم اور مسلم کانفرنس کی تربیت نیز چوہدری دیوان علی راجوروی کے ہاتھوں پرورش جیسے جرأت مندانہ اوصاف اور حب الوطنی کے جذبے سے سر شار مقبول رضا راجوروی کب بلا مقصد زندگی بسر کرنا برداشت کر سکتے تھے۔
چناںچہ راجوری، پونچھ اور جموں، کٹھوعہ، اودھم پور کے نوجوانوں سے مل کر انہوں نے ڈیموکریٹک نیشنل کانفرنس کے زیراہتمام بخشی غلام محمد وزیراعلیٰ جموں و کشمیر کے خلاف اس کے مظالم اور علاقے کے عوام کے حقوق غصب کرنے پر سخت احتجاجی تحریک کا آغاز کرکے ایک سال کے اندر ہی عوام کے اندر گہرا اثر و رسوخ پیدا کرلیا۔ جب 1961-62 کے اسمبلی کے انتخابات کا اعلان ہوا تو چوہدری مقبول رضا راجوروی شہر کے حلقے سے ڈیمو کریٹک کانفرنس کے امیدوار تھے۔
خواجہ غلام محمد صادق جو بعد میں وزیراعلیٰ بنے وہ جماعت کے صدر تھے۔ راجوری کے حلقہ انتخاب میں مقبول رضا کی زبردست عوامی تائید و حمایت دیکھ کر ان کے مدمقابل امیدوار عبدالعزیز شال نے سری نگر جاکر بخشی غلام محمد کو صورت حال سے آگاہ کیا۔ بخشی غلام محمد اقتداراعلیٰ کے ناخدا تھے اور سیاہ کو سفیدکرنے کی قدرت رکھتے تھے۔
انہوں نے محکمۂ جنگلات کے ڈی ایف او مسٹر عبد الرشید پٹرے کو راجوری کا ریٹرننگ آفیسر مقرر کیا اور چوہدری مقبول رضا کا نام زدگی فارم پاکستانی قرار دے کر مسترد کردیا اور ان ہیں گرفتار کر کے جموں جیل میں قید کردیا، مگر علاقے کے عوام کے جلسے جلوسوں اور منتخب ارکان اسمبلی کے دباؤ پر مقبول رضا کو پیرُول پر رہا کیا گیا۔
چوہدری مقبول رضا راجوروی اپنی جوانی کے وقت انتھک اور متحرک نوجوان سیاست داں تھے۔ انہوں نے اپنا مشن جاری رکھا۔ اتنے میں بخشی غلام محمد کے ہوم سیکرٹری نے مقبول رضا کو سیاست سے Push Back کرنے کے احکامات جاری کردیے۔ بخشی حکومت نے سیکڑوں جوانوں کو پُش بیک کی آڑ میں بارڈر پر لے جا کر گولی مار دینے کا اذیت ناک سلسلہ قائم کر رکھا تھا۔ چناںچہ اس بھیانک اور جان لیوا صورت حال سے بچنے کی خاطر ان کی جماعت ڈیموکریٹک کانفرنس نے جس کے صوبہ جموں کے راہ نما رام پیارا صراف اور کرشن دیو سیٹھی تھیم دونوں نے مقبول رضا راجوروی کو پراسرار طریقے سے جموں سے دہلی بھیج دیا۔
آل انڈیا کیمونسٹ پارٹی کے راہ نما بھوپیش گُپتا اور مسٹر غوفری پد ممبران پارلیمنٹ کے تعاون سے بھارت کے وزیرداخلہ گردھاری لعل نندہ نے اسپیکر پارلیمنٹ سے توجہ دلا کر بخشی غلام محمد کے جاری کردہ پُش بیک آرڈر کو غیرآئینی قرار دلوادیا۔
چوہدری مقبول رضا راجوروی حکم امتناعی لے کر واپس جموں آئے تو بعدازآں عوام میں ان کی مقبولیت اور اثرورسوخ کو دیکھ کر بخشی غلام محمد نے دربار عالیہ لار شریف کے گدی نشین میاںنظام الدین گوجر قبیلہ جموں و کشمیر کی قائداعلیٰ اور ممبر قانون ساز اسمبلی سے بخشی غلام محمد نے ملاقات کرکے چوہدری مقبول رضا کو وقتی طور پر شدید مخالفت سے باز رہنے اور سیاسی سرگرمیوں کو سرحدی اضلاع راجوری پونچھ میں معطل کرنے کا فیصلہ ہوا۔ بہرحال بخشی غلام محمد کا دورحکومت جہاں عوام کی تعمیروترقی کے حوالے سے اچھا تھا۔ وہاں دوسری طرف بخشی غلام محمد نے شیخ عبداللہ کو نکیل ڈال کر جیل میں بند کر رکھا تھا۔ ایسے حالات میں سرحدی اضلاع کا رہائشی کوئی بھی شہری جو عوامی حقوق کی جنگ لڑتا ہے اسے اپنی زندگی بچانے کی فکر لاحق رہتی ہے۔
چاروناچار چوہدری مقبول رضا راجوروی نے ملازمت اختیار کرلی۔ اگست 1965ء میں مجاہدین آزادی (پاک آرمی اور آزاد جموں کشمیر کی فوج کے مجاہد) علاقہ راجوری پونچھ میں داخل ہوگئے۔ آپریشن جبرالٹر کے تحت جس کے کمانڈر اختر ملک تھے، مجاہدین آزادی نے بھارتی فوجی تسلط کے خلاف بھرپور حملے شروع کردیے۔ شب خون مارنے اور کیمپوں کو تباہ کرنے کے واقعات نے بھارت کے 25 ویں ڈویژن کے بھارتی جرنیل امریک سنگھ کے اُوسان خطا کردیے اور وہ راجوُری میں دبک کر بیٹھ گئے۔ مجاہدین آزادی کے فورس کمانڈر کیپٹن شیراحمد کے ایمان افروز کردار اور جرأت مندانہ اقدامات کے نتیجے میں بھارتی افواج کا مُورال ڈاؤ ن ہوگیا۔
مجاہدین آزادی کو پے در پے فتوحات حاصل ہو رہی تھیں۔ انقلابی کونسل راجوری کے قیام سے علاقے کے اندر استحکام اور ٹھہراؤ پیدا ہوگیا تھا۔ راجوری کے تمام قبائل شیروشکر ہوکر میدان کارزار میں اپنا کردار ادا کر رہے تھے۔ چوہدری مقبول رضا راجوروی نے ملازمت سے بغاوت اختیار کرکے مجاہدین آزادی کی تحریک میں شمولیت اختیار کی۔
ان کو پاک آرمی کے کمانڈرون نے انقلابی کونسل راجوری کا اہم ترین مگر حساس عہدہ دیا اور انھیں ڈائریکٹر سول آفیسر و ملٹری انٹیلی جنس کا سربراہ بنایا۔ یہ ایک بڑی نازک اور حساس ذمے داری تھی، مگر رضا راجوروی کے کمال تدبر اور فراست سے اپنی ذمے داریاں نبھائیں۔ پاک بھارت حکومتوں نے معاہدۂ جنگ بندی کرکے اہل راجوری ، پونچھ کی تمام امیدیں خاک میں ملادیں اور ڈیڑھ لاکھ سے زائد حرماںنصیب صوبہ جموں کے باشندے تیسری بار ہجرت کرنے پر مجبور ہوگئے۔
1965ء میں ہجرت کے بعد مقبول رضا راجوروی اور چوہدری محمد شریف طارق نے اپنے رفقاء کے ساتھ لاہور میں پریس کانفرنس کر کے حکومت پاکستان سے مطالبہ کیا کہ صوبہ جموں کے مسلم علاقوں میں جنگ آزادی جاری رکھنے کے لیے مجاہدین کو اسلحہ دیا جائے۔ آپریشن جبرالٹر کے بعد جب لاکھوں کی تعداد میں راجوری ، پونچھ سے مہاجرین نے آزاد کشمیر کا رخ کیا تو آپ نے ان کی فلاح و بہبود کے لیے اپنے آپ کو وقف کردیا، کیوںکہ آپ نے ان کے ساتھ ہی بھارتی سام راج کے خلاف مسلح جدو جہد کی تھی۔
مہاجرین کی فلاح و بہبودکے لیے شب و روز مصروف رہے۔ کچھ عرصہ سرکاری ملازمت بھی کی لیکن ملازمت کو ترک کر کے مکمل طور پر اپنے آپ کو عوم کے لیے وقف کردیا۔ اپنے چچا غلام احمد رضا کی وفات کے بعد آپ نے بھرپور طریقے سے ان کے سیاسی خلاء کو پُر کرنے کی کوشش کی۔ سابق صدر بریگیڈیئر محمد حیات خان آپ کے خاندان اور ان کی قربانیوں سے بخوبی آگاہ تھا۔ بریگیڈیئر صاحب کے ساتھ آپ کے خصوصی تعلقات تھے۔
آزاد جموں و کشمیر میں جب بریگیڈیئر محمد حیات خان نے ترقیاتی کاموں کا آغاز کیا تو آپ کی اس میں مشاورت شامل تھی۔ مہاجرین کی آبادکاری کے لیے اپنے خصوصی تعلقات کو استعمال کرتے ہوئے ہزاروں مہاجرین کو آباد کرنے کے لیے خصوصی کوٹا منظور کروایا۔ اس طرح مہاجرین کی کثیر تعداد چھمب اور جھنگ میں آباد ہوئی۔ اسی طرح ہزاروں کی تعداد میں لوگوں کو ملازمت بھی دلوائی۔ ایک صاحب جو حال ہی میں آزاد جموں و کشمیر کے اعلیٰ منصب سے ریٹائرڈ ہوئے ہیں وہ انٹرویو میں ناکام ہوئے تو آپ نے حیات خان سے بات کرکے ان کو بھرتی کروایا۔
آپریشن جبرالٹر کے بعد ہی جب حکومت پاکستان نے آپ کے علاقہ اور قبیلہ کے لوگوں کی قربانیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے مرکزی رہنماؤں کو راولپنڈی آنے کی دعوت دی تو اس سے قبل آپ نے باہمی مشاورت کی۔ اور مکمل تیاری کے بعد جب آپ کے رفیق خاص حاجی رانا فضل حسین کی قیادت میں وفد صدر محمد ایوب خان سے ملاقات کے لیے صدر ہاؤس پنڈی گیا تو ایوب خان نے رانا فضل حسین کے کنبے کے بیس سے زائد افراد کے شہادت کے بعد ان کی خدمات کے اعتراف میں پلاٹ پرمٹ اور دیگر سہولتوں کی بات کی تو انہوں نے جواب دیا کہ ہم نے اس سے قبل پاکستان اور اسلام کے لیے قربانیاں دی ہیں اور آئندہ بھی دیتے رہیں گے۔ اس بات سے متاثر ہوکر رانا فضل حسین کو (تمغہ پاکستان) کا سول اعزاز دیا گیا۔
شہید چوک میرپور کے قریب آپ کی قیام گا ہ پر ہر وقت لوگوں کی آمدو رفت جاری رہتی تھی اور آپ ان کے مسائل حل کرنے کے لیے شب و روز مصروف رہتے تھے۔ سیاسی طور پر مسلم کانفرنس سے آخری وقت میں وابستہ تھے۔ 1988ء میں میرپور کے مقام پر جو قبیلے کا شان دار کنوینشن منعقد ہوا اس کے لیے آپ کی خدمات شان دار الفاظ میں لکھنے کے قابل ہیں۔
چوہدری مقبول رضا راجوروی کے خاندان کے ستر افراد 1947ء میں اکھنور میں شہید کردیے گئے مگر راجوروی میں موجود خاندان بچ گیا تھا۔ ہجرت کے پر آشوب دور میں چوہدری مقبول رضا راجوروی نے جس اعلیٰ ظرفی، گہرے تدبر اور وسیع النظری سے زندگی گزارنے کے ڈھب اور اصول رقم کیے اور اپنے خاندان کی اعلیٰ روایات اور ملکی و قومی سیاست میں اپنا عمل جاری رکھ کر ایک قابل فخر کردار کی حامل شخصیت کا اعزاز حاصل کیا ہے۔ آپ کی خدمات کاا عتراف ان الفاظ میں کیا جاسکتا ہے۔
صوبہ جموں کے عوام نے تاریخ آزادی میں مثالی خدمات اور قربانیاں دی ہیں اور ہمیں کامل یقین ہے کہ جب تک چوہدری مقبول رضا راجوروی جیسے محب وطن اور بلند نظریہ و نصب العین کے حامل لوگ معاشرہ کے اندر سر گرم عمل رہیں گے ملک اور قوم کے وسیع مفادات کی خاطر لوگ قیمتی جانوں کی قربانی اور ہجرت کی پرآشوب مگر بامقصد صعوبتیں اور آزمائشیں برداشت کرنے کے باوجود ہمت نہ ہاریں گے۔
یہ شہادت گہہ الفت میں قدم رکھنا ہے
لوگ آسان سمجھتے ہیں مُسلمان ہونا
چوہدری مقبول رضا راجوروی ریاست جموں و کشمیر کے سیاسی و سماجی زعماء میں ایک منفرد مقام رکھتے تھے۔ تحریک آزادی میں ان کی ذاتی خدمات کا گراف نہایت ہی بلند اور مثالی ہے۔ مقبوضہ صوبہ جموں کی تاریخ اور جغرافیہ کا گہرا ادراک رکھتے تھے ۔ ان کی تعلیم بی اے تک تھی۔ مگر چالیس سالہ سیاسی زندگی میں انہوں نے جو تجربات اور تاریخی کارنامے سر انجام دیئے ہیں ان کو اہل راجوری اور مقبوضہ صوبہ جموں کے عوام کبھی فراموش نہیں کر سکتے۔ اردو، گوجری، پنجابی، اور انگریزی میں وہ سامعین کو بے حد متاثر کرتے تھے۔
بالخصوص اردو میں ان کی تسلسل اور تاریخی شواہد کے ساتھ تقاریر عوام سننے کے متمنی رہتے۔ آپ دربار عالیہ وانگت لار شریف میں نظام الدین نظامی لاروی کے مرید خاص تھے۔ نظریہ الحاق پاکستان کے شیدائی اور ان کی ساری زندگی اس مقصد کی سچائی کی بذات خود گواہ ہے۔ ان کے خاندان کے ستر کے قریب افراد موضع ڈگہا، گُڑھا، تحصیل اکھنور میں شہید ہوئے اور شہدائے جموں میں ان کے خاندان کی شہادتیں تاریخ کا ایک حصہ ہیں۔
ان کے دادا مرحوم چوہدری دیوان علی راجوروی ریاست جموں و کشمیر کی سیاست میں نہایت ہی محترم اور ذہین شخصیت شمار ہوتے ہیں اور جموں کشمیر گوجر جاٹ کانفرنس کے مرکزی نائب صدر تھے، جو ایک تعلیمی اور سماجی تنظیم تھی۔ وہ آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس وار قائد ملت چوہدری غلام عباس شیدائیوں میں گنے جاتے تھے۔ ان کے فرزند چوہدری گلزار احمد راجوروی برسوں مقبوضہ جموں کشمیر قانون ساز کونسل کے ممبر رہے۔ وہ ایک شعلہ بیاں مقرر اور خوش الحان شخصیت ہیں۔ چوہدری مقبول رضا کے دوسرے چچا چوہدری غلام احمد رضا مرحوم آزاد جموں و کشمیر کی سیاست میں نمایاں مقام کے حامل تھے۔
آزاد کشمیر اسمبلی کے ممبر اور وزیر تعلیم رہے۔ ان کی ذات گرامی آزاد کشمیر کے عوام میں کمال درجہ محترم اور ہر دل عزیز تھی، مگر ڈیڑھ سال کے بعد وزیرتعلیم کے عہدہ پر کام کر رہے تھے کہ عمر نے وفا نہ کی اور وہ اللہ کو پیارے ہو گئے۔ مقبوضہ صوبہ جموں اور پاکستان میں مقیم مہاجرین کے نزدیک چوہدری مقبول رضا راجوروی اور ان کے خاندان کا گہرا سیاسی عمل دخل تھا۔
آپ نے قیام میر پور کے دوران ایک ماہنامہ رسالہ بھی جاری کیا۔ جب وطن کی یاد ستاتی تو اکثر اس کا ذکر کرتے۔ اپنے دادا چوہدری دیوان علی کا ذکر خاص طور پر کرتے جن کی تعلیم و تربیت سے یہ مقام پایا تھا۔ چن دیس راجوری کے بارے میں ایک بار اپنی بیٹی سے کہا کہ میں تو وہاں نہیں جا سکتا تم بیرون ملک سے وہاں سے ہو کر آؤ اور بیٹی نے کہا کہ ابو اس سے کیا ہوگا۔
کہنے لگے آ کر مجھے بتانا کہ میرا دیس اس کی گلیاں کھیت کھلیان اور میرے لوگ کیسے ہیں تو مجھے قرار آجائے گا۔ آخری عمر میں سرطان جیسے موذی مرض کا مقابلہ کر تے کرتے 7ستمبر2012ء کو میر پور میں اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ آپ کا خاندان میرپور میں مقیم ہے۔ آپ کی بیٹیاں بیرون ملک جب کہ اکلوتا بیٹا فہد رضا میرپور میں ہے۔ وفات کے بعد آپ کو ایف ون کوٹلی روڈ کے مرکزی قبرستان میں والدہ کے پہلو میں دفن کیا گیا۔
دیس کی دھرتی اپنے اندر میت میری ڈھک لیتی آ
ظفر اس ارمان کے باہجوں ھور ارمان کوئے رہیو نہ