معاشی صورتحال ایک پیچیدہ مسئلہ
پاکستان کواپنے بنیادی ڈھانچے کوبہتر بنانے کی ضرورت ہے، بشمول ٹرانسپورٹیشن نیٹ ورک، بجلی کی پیداوار اورٹیلی کمیونیکیشن
نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ نے کہا ہے کہ پاکستان میں ناسازگار ماحول کا تاثر درست نہیں، کسی سیاسی جماعت کو انتخابی عمل میں حصہ لینے سے نہیں روکا جائے گا۔
نیو یارک میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے، انھوں نے کہا کہ مجموعی طور پر دورہ نیو یارک کامیاب رہا، قوم کی بھرپور انداز میں نمایندگی کی۔ پاکستان کے سفارتی تنہائی کے شکار ہونے کا تاثر درست نہیں، ہم معیشت کو استحکام کی سمت پر گامزن کر کے اقتدار منتخب حکومت کے حوالے کرنے کے خواہاں ہیں۔
کسی بھی ملک میں معاشی ترقی کو وسیع تر سیاسی، سماجی، ثقافتی اور ادارہ جاتی صورتحال سے الگ نہیں کیا جاسکتا۔ معاشی ترقی کے لیے سازگار ماحول ضروری ہوتا ہے۔
دنیا کا کوئی بھی ملک پولیٹیکل انجینئرنگ کے غیر مستحکم اور عوام مخالف ماحول کے تحت معاشی ترقی نہیں کرسکتا، لہٰذا نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ کا اس تاثر کی تردید کرنا ضروری تھا، جو کہ بروقت کی گئی ہے۔ مناسب جمہوری اصولوں کو لاگو کیے بغیر ہم ملک کے اندر مسائل پر قابو نہیں پاسکیں گے۔ سیاسی ہم آہنگی تب ہی آتی ہے، جب سیاست دان اور جماعتیں سیاسی اختلافات کے باوجود قومی مسائل پر متفق ہوں۔
اس وقت ریاست کو سب سے اہم مسئلہ معیشت کے استحکام کا درپیش ہے، معیشت کیسے بہتر ہوسکتی ہے؟ یہ سوال ہر پاکستانی کے ذہن میں موجود ہے، اور اس کا جواب نگران وزیراعظم انوار الحق نے کسی حد تک دینے کی کوشش کی ہے۔
دراصل معیشت کے مضبوط ہونے کا سفر کٹھن اور طویل ہے۔ البتہ گزرے دو ہفتوں کے دوران نگران حکومت نے ملک میں کچھ اچھے اقدامات اٹھائے ہیں جن کی وجہ سے معاشی صورتحال میں بہتری کے آثار پیدا ہوئے ہیں۔
ڈالر کی اسمگلنگ کی روک تھام اور ذخیرہ اندوزوں کے خلاف بھرپور کارروائی کے مثبت اثرات سامنے آرہے ہیں۔ کرنسی کی قدر میں ستمبر کے اوائل سے ہی خاطر خواہ اضافہ دیکھا گیا ہے۔ روپے کی مضبوطی سے بین الاقوامی تجارت کو فروغ ملنے کا امکان ہے۔ قیمتوں کو کنٹرول کرنے کے اقدامات سے مہنگائی کی شرح میں بھی کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔
ملکی معیشت بارے جاری کردہ تازہ ترین رپورٹ کے اعداد و شمار کے مطابق مالی سال 2023 میں اپنے تجارتی خسارے میں 40 فیصد اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کو 85 فیصد تک کم کرنے میں نمایاں پیش رفت دیکھی گئی، جو ادائیگیوں کے بہتر توازن کو ظاہر کرتا ہے۔ چیلنجوں کے باوجود پاکستان کی آئی ٹی برآمدات میں 10 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
درآمدات میں نمایاں طور پر 28.4 فیصد کمی واقع ہوئی ہے، جو تجارتی توازن اور زرمبادلہ کے ذخائر پر مثبت اثر ڈال سکتی ہے، کوئلہ، ڈولومائٹ، بیریٹس اور دیگر اہم معدنیات کی پیداوار میں اضافہ کان کنی کی بڑھتی ہوئی سرگرمیوں کی نشاندہی کرتا ہے جو اقتصادی ترقی میں معاون ہے۔
گزشتہ ماہ بجلی کے بلوں کی قیمتوں میں بڑا اضافہ کیا گیا جس کے باعث غم و غصہ اور بڑے پیمانے پر احتجاج کا سامنا کرنا پڑا، جس کے بعد پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھا دی گئیں، حکومت آئی ایم ایف کے ساتھ اپنے وعدوں کی وجہ سے عوام کو ریلیف دینے کے اپنے وعدوں میں ناکام رہی۔ دراصل پاکستان میں ٹیکس کا رجعتی نظام ہے جس کا بوجھ عوام پر پڑتا ہے۔ قیمتوں میں اضافہ اور ٹیکس ان کی آمدنی سے بڑا حصہ لے جاتے ہیں۔
ٹیکس کی بنیاد کو وسیع کرنے کے بجائے، حکومت بوجھ تلے دبے تنخواہ دار طبقے پر مزید ٹیکس عائد کرنے کا سہارا لے رہی ہے۔ کئی شعبے بغیر ٹیکس یا انڈر ٹیکس سے محروم رہتے ہیں کیونکہ حکومت کو اشرافیہ کے غضب کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
آئی ایم ایف کی مالی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے زراعت، رئیل اسٹیٹ، ہول سیل اور ریٹیل جیسے کم ٹیکس والے شعبوں پر ٹیکس بڑھانے کی ضرورت ہے۔ رئیل اسٹیٹ پر ٹیکس لگانے کی حقیقی صلاحیت کا تخمینہ 500 ارب روپے اور خوردہ اور ہول سیل کے شعبوں کے لیے 234 ارب روپے لگایا گیا ہے۔ زرعی شعبہ جی ڈی پی کے پانچویں حصے کے لیے ذمے دار ہے لیکن ٹیکس محصولات میں صرف ایک فیصد حصہ ڈالتا ہے۔ پاکستان بدقسمتی سے ٹیکسوں کو بڑھانے میں ناکام رہا ہے۔
دوسری جانب حکمرانوں نے امپورٹ بل کم کرنے، اپنی انڈسٹری کو مضبوط کرنے کے لیے کوئی کام نہیں کیا۔ ستم ظریفی ہے کہ یہ لوگ باہر سے منگوانے والی اپنے استعمال کی اشیا کو آخر تک بچانے کی کوششیں کر رہے ہیں۔ قوم سے قربانی کا تقاضا کرنے والے خود کوئی قربانی دینے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ قرضوں کے بوجھ تلے دبے عوام اشرافیہ کے ٹھاٹ باٹ دیکھ کر حیران رہ جاتے ہیں۔ مختلف حکومتوں کی طرف سے سخت ترین شرائط پر لیے گئے قرضوں کی وجہ سے عوام پس رہے ہیں۔
حکومت میں شامل اکثریتی وزراء سرمایہ دار طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں ان کی تنخواہیں اور ٹی اے ڈی اے کے نام پر ملنے والے الاؤنسز، ہوائی سفری سہولیات کے اخراجات بھی کروڑوں میں بنتے ہیں، اس کو ختم کیا جانا چاہیے۔ہمارے ملک میں ایک بڑا طبقہ رضاکارانہ طور پر ملکی سالمیت، ملکی ترقی کے لیے کردار ادا کرنا چاہتا ہے، اگر روایتی سیاستدان اس پر اعتراض کریں تو انھیں پیچھے دھکیل کر ایسے لوگوں کی خدمات حاصل کی جائیں جو رضاکارانہ خدمات سرانجام دینے کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔
اسی طرح اعلیٰ ججز، بیوروکریسی جن کی تنخواہیں لاکھوں میں ہیں، ان کی بھی ذمے داری بنتی ہے کہ وہ اپنی تنخواہوں کو آدھی کرکے بقایہ رقم قومی خزانہ میں جمع کروائیں۔ قومی اسمبلی کے ایک اجلاس کا خرچہ بھی کروڑوں روپے بنتا ہے۔
خواہ مخواہ اجلاس ملتوی کرنے، یا بے بنیاد اجلاس کے انعقاد کے بجائے آئینی کام جس کی ضرورت ناگزیر ہو، اس کے لیے انعقاد کیا جائے۔ سرکاری اداروں کے افسران سے 1300سی سی گاڑی سے اوپر والی گاڑی کی سہولت ختم کرتے ہوئے بجلی فری سمیت دیگر مراعات میں کمی کی جائے۔
اس ملک میں اوسطاً آبادی لوئر مڈل کلاس ہے اگر ایک عام آدمی اپنا گھر ماہوار چالیس ہزار کی آمدن میں چلاسکتا ہے تو تیرہ لاکھ ماہانہ تنخواہ لینے والا جج چھ لاکھ میں گھر کیوں نہیں چلاسکتا؟ ملک کو درپیش معاشی بحران سے نکالنے کے لیے ضروری ہے کہ کسی خاص طبقے تک محدود رہنے کے بجائے ملک بھر سے معاشی ماہرین کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کیا جائے اور ان سے معیشت کی بہتری کے لیے تجاویز طلب کی جائیں۔ قرضے لے کر ریاستیں عیاشی کی متحمل نہیں سکتیں' ضروری ہے کہ حکمران اپنے خرچے کم کریں اور یہی پیسہ عوام کی فلاح پر خرچ کریں۔
پاکستان کی معاشی صورتحال کو بہتر بنانا ایک پیچیدہ مسئلہ ہے جس کے لیے کثیر الجہتی نقطہ نظر کی ضرورت ہے۔ سرمایہ کاری کو فروغ دینا بہت اہم ہے۔ پاکستان کو غیر ملکی سرمایہ کاروں کو ٹیکس میں چھوٹ، ٹیرف میں کمی، اور بہتر قواعد و ضوابط، قوانین سمیت دیگر مراعات کی پیشکش کر کے اپنی طرف متوجہ کرنے کی ضرورت ہے۔ کاروبار کرنے میں آسانی کو بہتر بنانا پاکستان کو سرمایہ کاروں کے لیے مزید پرکشش بنا سکتا ہے۔
پاکستان کو اپنے بنیادی ڈھانچے کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے، بشمول ٹرانسپورٹیشن نیٹ ورک، بجلی کی پیداوار، اور ٹیلی کمیونیکیشن۔ اس کے لیے اہم سرمایہ کاری کی ضرورت ہوگی، لیکن یہ بالآخر اقتصادی سرگرمیوں اور پیداواری صلاحیت میں اضافہ کا باعث بنے گا۔ تعلیم اور تربیت ملک کی معاشی ترقی کے لیے ضروری ہے۔ حکومت کو بدعنوانی سے نمٹنے کے لیے سخت کارروائی کرنے کی ضرورت ہے، جس میں قانونی نظام کو مضبوط کرنا اور سرکاری کاموں میں شفافیت کو بڑھانا شامل ہے۔ گزشتہ تین سالوں کے دوران فی کس آمدنی میں اتنی کمی آئی ہے کہ تاریخ میں پہلے کبھی نہیں ہوئی۔
قرضوں کی ادائیگی کے بعد ہماری خالص آمدنی صفر رہ جاتی ہے۔ گزشتہ تین سالوں کے دوران اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں 35 سے 40 فیصد اضافہ ہوا ہے جو ملک کے عوام کے لیے پریشانی کا باعث ہے۔ ہمارا بیرونی قرضہ 125 بلین ڈالر ہے اور ہمیں اس سال 11 بلین ڈالر کے قرض کی ادائیگی کرنی ہے۔
ملک میں ٹیکس اصلاحات کی ضرورت ہے کیونکہ 85 فیصد ٹیکس بالواسطہ اور صرف 15 فیصد ڈائریکٹ ٹیکس ہیں۔ معاشی بحران سنگین ہوچکا ہے۔ مہنگائی کی شدید لہر اب تک قابو میں نہیں آسکی۔ موجودہ حکومت بتدریج اس میں بہتری لانے کے لیے اپنی توانائیاں صَرف کررہی ہے۔
پاکستان ایسی اہم جگہ واقع ہے جہاں وہ خطے میں تجارت کا مرکز بننے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے۔ حکومت کو پڑوسی ممالک کے ساتھ قریبی تعلقات استوار کرکے اور سرحد پار تجارت کو فروغ دے کر علاقائی انضمام کو بہتر بنانے کے لیے کام کرنا چاہیے۔
پاکستان کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ ایک اہم چیلنج ہے۔ حکومت ملکی پیداوار کو فروغ دے کر اور مقامی صنعتوں کو ترقی دے کر درآمدات کو کم کرنے پر توجہ دے۔ اس سے ملک کا درآمدات پر انحصار کم کرنے اور ادائیگیوں کے توازن کو بہتر بنانے میں مدد مل سکتی ہے۔
مجموعی طور پر، پاکستان کی معاشی صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے حکومت اور نجی شعبے کی جانب سے بنیادی ڈھانچہ جاتی مسائل کو حل کرنے کے لیے مسلسل کوششوں کی ضرورت ہوگی جو اقتصادی ترقی کو روک رہے ہیں۔ حکومت اس سلسلہ میں بلاتفریق کارروائیاں کرے اور طبقات کی حمایت کے بجائے ریاست کے وسیع تر مفاد میں فیصلے کرے۔
نیو یارک میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے، انھوں نے کہا کہ مجموعی طور پر دورہ نیو یارک کامیاب رہا، قوم کی بھرپور انداز میں نمایندگی کی۔ پاکستان کے سفارتی تنہائی کے شکار ہونے کا تاثر درست نہیں، ہم معیشت کو استحکام کی سمت پر گامزن کر کے اقتدار منتخب حکومت کے حوالے کرنے کے خواہاں ہیں۔
کسی بھی ملک میں معاشی ترقی کو وسیع تر سیاسی، سماجی، ثقافتی اور ادارہ جاتی صورتحال سے الگ نہیں کیا جاسکتا۔ معاشی ترقی کے لیے سازگار ماحول ضروری ہوتا ہے۔
دنیا کا کوئی بھی ملک پولیٹیکل انجینئرنگ کے غیر مستحکم اور عوام مخالف ماحول کے تحت معاشی ترقی نہیں کرسکتا، لہٰذا نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ کا اس تاثر کی تردید کرنا ضروری تھا، جو کہ بروقت کی گئی ہے۔ مناسب جمہوری اصولوں کو لاگو کیے بغیر ہم ملک کے اندر مسائل پر قابو نہیں پاسکیں گے۔ سیاسی ہم آہنگی تب ہی آتی ہے، جب سیاست دان اور جماعتیں سیاسی اختلافات کے باوجود قومی مسائل پر متفق ہوں۔
اس وقت ریاست کو سب سے اہم مسئلہ معیشت کے استحکام کا درپیش ہے، معیشت کیسے بہتر ہوسکتی ہے؟ یہ سوال ہر پاکستانی کے ذہن میں موجود ہے، اور اس کا جواب نگران وزیراعظم انوار الحق نے کسی حد تک دینے کی کوشش کی ہے۔
دراصل معیشت کے مضبوط ہونے کا سفر کٹھن اور طویل ہے۔ البتہ گزرے دو ہفتوں کے دوران نگران حکومت نے ملک میں کچھ اچھے اقدامات اٹھائے ہیں جن کی وجہ سے معاشی صورتحال میں بہتری کے آثار پیدا ہوئے ہیں۔
ڈالر کی اسمگلنگ کی روک تھام اور ذخیرہ اندوزوں کے خلاف بھرپور کارروائی کے مثبت اثرات سامنے آرہے ہیں۔ کرنسی کی قدر میں ستمبر کے اوائل سے ہی خاطر خواہ اضافہ دیکھا گیا ہے۔ روپے کی مضبوطی سے بین الاقوامی تجارت کو فروغ ملنے کا امکان ہے۔ قیمتوں کو کنٹرول کرنے کے اقدامات سے مہنگائی کی شرح میں بھی کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔
ملکی معیشت بارے جاری کردہ تازہ ترین رپورٹ کے اعداد و شمار کے مطابق مالی سال 2023 میں اپنے تجارتی خسارے میں 40 فیصد اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کو 85 فیصد تک کم کرنے میں نمایاں پیش رفت دیکھی گئی، جو ادائیگیوں کے بہتر توازن کو ظاہر کرتا ہے۔ چیلنجوں کے باوجود پاکستان کی آئی ٹی برآمدات میں 10 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
درآمدات میں نمایاں طور پر 28.4 فیصد کمی واقع ہوئی ہے، جو تجارتی توازن اور زرمبادلہ کے ذخائر پر مثبت اثر ڈال سکتی ہے، کوئلہ، ڈولومائٹ، بیریٹس اور دیگر اہم معدنیات کی پیداوار میں اضافہ کان کنی کی بڑھتی ہوئی سرگرمیوں کی نشاندہی کرتا ہے جو اقتصادی ترقی میں معاون ہے۔
گزشتہ ماہ بجلی کے بلوں کی قیمتوں میں بڑا اضافہ کیا گیا جس کے باعث غم و غصہ اور بڑے پیمانے پر احتجاج کا سامنا کرنا پڑا، جس کے بعد پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھا دی گئیں، حکومت آئی ایم ایف کے ساتھ اپنے وعدوں کی وجہ سے عوام کو ریلیف دینے کے اپنے وعدوں میں ناکام رہی۔ دراصل پاکستان میں ٹیکس کا رجعتی نظام ہے جس کا بوجھ عوام پر پڑتا ہے۔ قیمتوں میں اضافہ اور ٹیکس ان کی آمدنی سے بڑا حصہ لے جاتے ہیں۔
ٹیکس کی بنیاد کو وسیع کرنے کے بجائے، حکومت بوجھ تلے دبے تنخواہ دار طبقے پر مزید ٹیکس عائد کرنے کا سہارا لے رہی ہے۔ کئی شعبے بغیر ٹیکس یا انڈر ٹیکس سے محروم رہتے ہیں کیونکہ حکومت کو اشرافیہ کے غضب کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
آئی ایم ایف کی مالی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے زراعت، رئیل اسٹیٹ، ہول سیل اور ریٹیل جیسے کم ٹیکس والے شعبوں پر ٹیکس بڑھانے کی ضرورت ہے۔ رئیل اسٹیٹ پر ٹیکس لگانے کی حقیقی صلاحیت کا تخمینہ 500 ارب روپے اور خوردہ اور ہول سیل کے شعبوں کے لیے 234 ارب روپے لگایا گیا ہے۔ زرعی شعبہ جی ڈی پی کے پانچویں حصے کے لیے ذمے دار ہے لیکن ٹیکس محصولات میں صرف ایک فیصد حصہ ڈالتا ہے۔ پاکستان بدقسمتی سے ٹیکسوں کو بڑھانے میں ناکام رہا ہے۔
دوسری جانب حکمرانوں نے امپورٹ بل کم کرنے، اپنی انڈسٹری کو مضبوط کرنے کے لیے کوئی کام نہیں کیا۔ ستم ظریفی ہے کہ یہ لوگ باہر سے منگوانے والی اپنے استعمال کی اشیا کو آخر تک بچانے کی کوششیں کر رہے ہیں۔ قوم سے قربانی کا تقاضا کرنے والے خود کوئی قربانی دینے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ قرضوں کے بوجھ تلے دبے عوام اشرافیہ کے ٹھاٹ باٹ دیکھ کر حیران رہ جاتے ہیں۔ مختلف حکومتوں کی طرف سے سخت ترین شرائط پر لیے گئے قرضوں کی وجہ سے عوام پس رہے ہیں۔
حکومت میں شامل اکثریتی وزراء سرمایہ دار طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں ان کی تنخواہیں اور ٹی اے ڈی اے کے نام پر ملنے والے الاؤنسز، ہوائی سفری سہولیات کے اخراجات بھی کروڑوں میں بنتے ہیں، اس کو ختم کیا جانا چاہیے۔ہمارے ملک میں ایک بڑا طبقہ رضاکارانہ طور پر ملکی سالمیت، ملکی ترقی کے لیے کردار ادا کرنا چاہتا ہے، اگر روایتی سیاستدان اس پر اعتراض کریں تو انھیں پیچھے دھکیل کر ایسے لوگوں کی خدمات حاصل کی جائیں جو رضاکارانہ خدمات سرانجام دینے کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔
اسی طرح اعلیٰ ججز، بیوروکریسی جن کی تنخواہیں لاکھوں میں ہیں، ان کی بھی ذمے داری بنتی ہے کہ وہ اپنی تنخواہوں کو آدھی کرکے بقایہ رقم قومی خزانہ میں جمع کروائیں۔ قومی اسمبلی کے ایک اجلاس کا خرچہ بھی کروڑوں روپے بنتا ہے۔
خواہ مخواہ اجلاس ملتوی کرنے، یا بے بنیاد اجلاس کے انعقاد کے بجائے آئینی کام جس کی ضرورت ناگزیر ہو، اس کے لیے انعقاد کیا جائے۔ سرکاری اداروں کے افسران سے 1300سی سی گاڑی سے اوپر والی گاڑی کی سہولت ختم کرتے ہوئے بجلی فری سمیت دیگر مراعات میں کمی کی جائے۔
اس ملک میں اوسطاً آبادی لوئر مڈل کلاس ہے اگر ایک عام آدمی اپنا گھر ماہوار چالیس ہزار کی آمدن میں چلاسکتا ہے تو تیرہ لاکھ ماہانہ تنخواہ لینے والا جج چھ لاکھ میں گھر کیوں نہیں چلاسکتا؟ ملک کو درپیش معاشی بحران سے نکالنے کے لیے ضروری ہے کہ کسی خاص طبقے تک محدود رہنے کے بجائے ملک بھر سے معاشی ماہرین کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کیا جائے اور ان سے معیشت کی بہتری کے لیے تجاویز طلب کی جائیں۔ قرضے لے کر ریاستیں عیاشی کی متحمل نہیں سکتیں' ضروری ہے کہ حکمران اپنے خرچے کم کریں اور یہی پیسہ عوام کی فلاح پر خرچ کریں۔
پاکستان کی معاشی صورتحال کو بہتر بنانا ایک پیچیدہ مسئلہ ہے جس کے لیے کثیر الجہتی نقطہ نظر کی ضرورت ہے۔ سرمایہ کاری کو فروغ دینا بہت اہم ہے۔ پاکستان کو غیر ملکی سرمایہ کاروں کو ٹیکس میں چھوٹ، ٹیرف میں کمی، اور بہتر قواعد و ضوابط، قوانین سمیت دیگر مراعات کی پیشکش کر کے اپنی طرف متوجہ کرنے کی ضرورت ہے۔ کاروبار کرنے میں آسانی کو بہتر بنانا پاکستان کو سرمایہ کاروں کے لیے مزید پرکشش بنا سکتا ہے۔
پاکستان کو اپنے بنیادی ڈھانچے کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے، بشمول ٹرانسپورٹیشن نیٹ ورک، بجلی کی پیداوار، اور ٹیلی کمیونیکیشن۔ اس کے لیے اہم سرمایہ کاری کی ضرورت ہوگی، لیکن یہ بالآخر اقتصادی سرگرمیوں اور پیداواری صلاحیت میں اضافہ کا باعث بنے گا۔ تعلیم اور تربیت ملک کی معاشی ترقی کے لیے ضروری ہے۔ حکومت کو بدعنوانی سے نمٹنے کے لیے سخت کارروائی کرنے کی ضرورت ہے، جس میں قانونی نظام کو مضبوط کرنا اور سرکاری کاموں میں شفافیت کو بڑھانا شامل ہے۔ گزشتہ تین سالوں کے دوران فی کس آمدنی میں اتنی کمی آئی ہے کہ تاریخ میں پہلے کبھی نہیں ہوئی۔
قرضوں کی ادائیگی کے بعد ہماری خالص آمدنی صفر رہ جاتی ہے۔ گزشتہ تین سالوں کے دوران اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں 35 سے 40 فیصد اضافہ ہوا ہے جو ملک کے عوام کے لیے پریشانی کا باعث ہے۔ ہمارا بیرونی قرضہ 125 بلین ڈالر ہے اور ہمیں اس سال 11 بلین ڈالر کے قرض کی ادائیگی کرنی ہے۔
ملک میں ٹیکس اصلاحات کی ضرورت ہے کیونکہ 85 فیصد ٹیکس بالواسطہ اور صرف 15 فیصد ڈائریکٹ ٹیکس ہیں۔ معاشی بحران سنگین ہوچکا ہے۔ مہنگائی کی شدید لہر اب تک قابو میں نہیں آسکی۔ موجودہ حکومت بتدریج اس میں بہتری لانے کے لیے اپنی توانائیاں صَرف کررہی ہے۔
پاکستان ایسی اہم جگہ واقع ہے جہاں وہ خطے میں تجارت کا مرکز بننے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے۔ حکومت کو پڑوسی ممالک کے ساتھ قریبی تعلقات استوار کرکے اور سرحد پار تجارت کو فروغ دے کر علاقائی انضمام کو بہتر بنانے کے لیے کام کرنا چاہیے۔
پاکستان کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ ایک اہم چیلنج ہے۔ حکومت ملکی پیداوار کو فروغ دے کر اور مقامی صنعتوں کو ترقی دے کر درآمدات کو کم کرنے پر توجہ دے۔ اس سے ملک کا درآمدات پر انحصار کم کرنے اور ادائیگیوں کے توازن کو بہتر بنانے میں مدد مل سکتی ہے۔
مجموعی طور پر، پاکستان کی معاشی صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے حکومت اور نجی شعبے کی جانب سے بنیادی ڈھانچہ جاتی مسائل کو حل کرنے کے لیے مسلسل کوششوں کی ضرورت ہوگی جو اقتصادی ترقی کو روک رہے ہیں۔ حکومت اس سلسلہ میں بلاتفریق کارروائیاں کرے اور طبقات کی حمایت کے بجائے ریاست کے وسیع تر مفاد میں فیصلے کرے۔