اندھے علاج نے آنکھوں سے روشنی چھین لی
چاہے آپ ڈاکٹر ہوں یا فارماسسٹ، ہر دوا آپ ہر بیماری میں استعمال نہیں کرسکتے۔ یہ دوا کب کھانی ہے یا استعمال کرنی ہے، کس بیماری میں، کتنے وقفے سے، کتنی خوراک اور طریقہ استعمال وغیرہ کو جانچا، پرکھا اور منظور کیا جاتا ہے۔
دوا کے متعلق دعوے کا مضبوط سائنسی ثبوت فراہم کرنے کےلیے ریسرچ اور مطالعہ کرنا لازمی ہوتا ہے اور نتائج کو متعلقہ مضامین کے ماہر اچھی طرح جانچتے اور آزادانہ رائے تحریر کرتے ہیں۔ یہ سب جانتے ہیں کہ وجوہات کے بغیر رائے علم نہیں صرف پروپیگنڈا ہوتی ہے۔
گہرے مشاہدات، بھرپور تحقیق، مرحلہ وار آزمائش اور مستند شواہد کسی دوا کے بازار میں آنے کی بنیاد ہوتے ہیں۔ مذکورہ دوا سال 2004 میں آنتوں کے کینسر کےلیے منظور کی گئی۔ بعد ازاں اسے گردے اور بریسٹ کینسر کےلیے بھی منظور کیا گیا۔ 2011 میں امریکی ایف ڈی اے نے بتایا کہ اس دوا سے بریسٹ کینسر کے مریضوں کو فائدہ پہنچانے کے شواہد کمزور ہیں، اس لیے وہ اس دوا کے بریسٹ کینسر کے استعمال میں منظوری کو واپس لے رہے ہیں۔ دوا کی سالانہ قیمت تقریباً ایک لاکھ ڈالر یعنی پاکستانی ڈھائی سے تین کروڑ روپے تھی۔ جیسے ہی امریکی ایف ڈی اے نے منظوری ختم کردی، انشورنس کمپنیاں اس کی ادائیگی نہیں کرتیں۔ دوا بنانے اور بازار میں بیچنے والی کمپنیوں نے بہت کوشش کی، کئی جذباتی مریض ٹی وی پر روئے لیکن سائنس جذبات سے الگ حقائق کا مطالعہ کررہی تھی۔ اس دوا کی تاریخ کچھ الگ ہے۔
آزمائش نہیں لیکن خطرات مول لینے کی ذمے داری کے ساتھ ڈاکٹرز کسی منظور شدہ دوا کو کسی اور بیماری میں ضروری احتیاط کے ساتھ استعمال کرنے کا حق رکھتے ہیں۔ اس دوا ایوسٹین کے ساتھ بھی کچھ یہ ہوتا رہا۔ کمپنیاں خاموشی سے ڈاکٹرز کو استعمال کرنے پر اکساتی رہیں۔ ادویہ کی تاریخ میں بہت سارے ایسے جرائم دنیا کی بڑی بڑی کمپنیوں کے بےنقاب ہوچکے ہیں۔ یہ دوا بے لگام بڑھتے ہوئے آنکھوں کے اندر تہوں کے پیچھے شریانوں کے گچھے پر اثر انداز ہوکر گرتی بینائی کو لوٹانے کا باعث بنتی نظر آئی، اس لیے ڈاکٹرز احتیاط سے استعمال کرتے ہیں۔ اس دوا کے غیر محفوظ استعمال سے آنکھوں کی بینائی کا مستقل جانا کوئی نئی بات نہیں۔ ہر شخص معلومات رکھ سکتا ہے اور ڈاکٹرز کا معلومات نہ رکھنا شعوری گراوٹ کی بدترین مثال ہے۔
ادویہ کی بڑی شیشی سے چھوٹی چھوٹی خوراک بنانا بہت خطرناک بھی ہے مگر بدقسمتی سے ہمارے یہاں بے احتیاطی بڑے سے بڑے اسپتالوں میں بھی عام ہوگئی ہے۔ اس طرح اس ایک چار ملی لیٹر کے انجکشن کی شیشی سے 0.05 ملی لیٹر انجکشن کے 70 اور 80 چھوٹی خوراک نکالنا اور سب سے انجکشن کی پوری قیمت وصول کرنا ہی محرک ہے۔ انجکشن کو جب آپ نکالتے ہیں تو سب سے بڑا خطرہ جراثیم کی آلودگی کا ہوتا ہے اور اگر ایک شیشی میں 70 اور 80 بار سوئی سے سوراخ کریں گے تو اندازہ کریں کہ کتنے آنکھوں سے نظر نہ آنے والے جراثیم وہاں پہنچ سکتے ہیں۔ بیرونی ماحول سے ایکسپوز ہوکر یہ دوا کس حد تک خراب ہوسکتی ہے۔
ادویہ کی کمپاؤنڈنگ اگر کسی فارمیسی میں ہورہی ہے تو اسے کمپنی کی ہدایات پر عمل کرنا لازمی ہوگا۔ میری نظر میں کمپنی کی لکھی ہوئی ہدایات سے باہر یا اس کے برخلاف استعمال کرنا سنگین پیشہ ورانہ جرم ہے، کیونکہ آپ اس دوا کی کیمسٹری اور بنانے کی کیمسٹری سے واقف نہیں۔ دوسری طرف جراثیم کی ممکنہ آلودگی ناقابل تلافی نقصان پہنچاتی ہے۔
ہوا کچھ یوں ہی ہے۔ یہ خالصتاً ادویہ سازی اور قانونی استعمال میں ہیر پھیر کا معاملہ ہے، جس کے ذمے دار کمپنی، ڈاکٹرز، فارمیسی اور ریگولیٹری اتھارٹی ہے۔ کمپنی دانستاً اس عمل کی حوصلہ افزائی کرتی رہی اور منافع سمیٹتی رہی۔ معلوم ہونے کے بعد کمپنی نے اس عمل کی حوصلہ شکنی کےلیے اخبار میں کتنے اشتہار دیے۔ ڈاکٹرز جانتے تھے کہ اس عمل سے بینائی ضائع ہونے کے واقعات ہوچکے ہیں، وہ کیوں ایسا نسخہ لکھ رہے تھے جس کی خوراک دستیاب نہیں تھی؟ وہ کیوں یہ نسخے تجویز کرتے وقت متوقع ہولناک انجام سے لاپرواہ تھے؟ فارمیسی والے کیوں اتنی غیرمحفوظ کمپاؤنڈنگ کا خطرہ مول رہے تھے، وہ کیوں کمپنی کی ہدایات کو نظر انداز کررہے تھے؟ ریگولیٹری اتھارٹی نے کیوں فارمیسی میں اتنے غیر پیشہ ورانہ فعل پر آنکھیں بند رکھیں، کیوں بے جا استعمال پر خاموش رہے؟
یہ درجنوں لوگوں کی بینائی کھونے کا معاملہ ہے۔ معلوم نہیں آج کتنے لوگ علاج کے نام پر خاموش دردناک انجام سے دوچار ہوِ گے۔ اللّہ لالچ، کم ظرفی اور جہالت سے قوم کو محفوظ کرے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔