سو افراد کی ہلاکت
شہریوں کو ڈاکوؤں کے ہاتھوں قتل ہونے سے بچانے کے لیے بنیادی تبدیلیوں کی ضرورت ہے
اٹھارہ سالہ علی عباس کی ڈاکوؤں کے ہاتھوں ہلاکت کے بعد کراچی میں پچھلے نو ماہ کے دوران ڈاکوؤں کے ہاتھوں قتل ہونے والوں کی تعداد 100تک پہنچ گئی ہے۔ علی عباس کورنگی کراسنگ پر ورکشاپ میں اپنے والد مظہر علی شاہ کا ہاتھ بٹاتا تھا۔
ڈاکوؤں نے ورکشاپ میں لوٹ مار کے لیے حملہ کیا۔ باپ بیٹے نے مزاحمت کی، مظہر علی شاہ ڈاکوؤں کی فائرنگ سے فوراً ہلاک ہوا۔ علی عباس کو جناح اسپتال لے جایا گیا جہاں گزشتہ بدھ کو وہ زخموں کی تاب نہ لا کر جاں بحق ہوگیا۔
جب یہ آرٹیکل شایع ہوگا تو ڈاکوؤں کے ہاتھوں قتل ہونے والوں کی تعداد میں مزید اضافہ ہوچکا ہوگا۔ پولیس کے ترجمان کا کہنا ہے کہ اس سال 755 پولیس مقابلے ہوئے جن میں 123 ملزمان ہلاک ہوئے اور زخمی ہونے والے 926 ملزمان کو گرفتار کیا گیا جب کہ 5 ہزار سے زائد ملزمان کو بغیر زخمی ہوئے گرفتار کیا گیا۔
پولیس کے ذرایع کہتے ہیں کہ چند سال قبل ڈاکوؤں کے ہاتھوں ہلاک ہونے والے افراد کی سالانہ تعداد اوسطاً 30 کے قریب ہوتی تھی مگر 2022سے صورتحال خراب ہونا شروع ہوئی۔
اس سال ڈاکوؤں اور رہزنوں نے 120 افراد کو دوران واردات قتل کیا تھا، اس سال صورتحال مزید خراب ہوگئی ہے۔ پولیس ذرایع کہتے ہیں کہ پہلے اسٹریٹ کرائم میں ملوث گروہوں کی تعداد 25 سے 30 کے درمیان ہوتی تھی، اب پولیس حکام کہتے ہیں کہ ان گروہوں کی تعداد 50سے 60 تک پہنچ گئی ہے۔
اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ موبائل چھیننے کی وارداتیں بڑھ گئی ہیں، پھر موٹر سائیکل چھیننے کا نمبر آتا ہے۔ کراچی پولیس یہ دعویٰ کرتی ہے کہ اغواء برائے تاوان، ٹارگٹ کلنگ، بھتہ اور دہشت گردی کی وارداتوں پر قابو پا لیا ہے۔
اخبارات میں شایع ہونے والی رپورٹوں کے مطابق کراچی میں ٹارگٹ کلنگ کے معاملات میں پولیس کسی ملزم کا سراغ نہیں لگا سکی۔
مذہبی جماعتوں اور کالعدم تنظیموں کے عہدیداروں کی ٹارگٹ کلنگ کی خبریں ہر پندرہ بیس دن بعد اخبارات کی زینت بنتی ہیں، اگرچہ نگراں وزیر داخلہ سندھ بریگیڈیئر (ریٹائرڈ) حارث نواز شہریوں کو یہ مشورہ دے چکے ہیں کہ شہری موبائل اور موٹر سائیکل چھیننے کی وارداتوں میں مزاحمت نہ کریں، حکومت چھینے گئے موٹر سائیکل واپس کرائے گی مگر وزیر داخلہ کا یہ محض بیان ہی ہے۔
گزشتہ ہفتہ ناظم آباد کے علاقے میں ایک باپ، اپنی بیٹی کو اسکول چھوڑنے جارہا تھا تو باپ کو بیٹی کی چیخ سنائی دی۔ پتہ چلا کہ نامعلوم سمت سے آنے والی گولی بچی کے سر پر لگی۔ بعد میں پولیس ذرایع یہ بتا رہے تھے کہ علاقہ میں سیکیورٹی گارڈ اور ڈاکوؤں فائرنگ کا تبادلہ ہورہا تھا۔
کسی فریق کی چلائی ہوئی گولی نے معصوم بچی کی جان لے لی۔ گزشتہ ہفتہ مزدوروں کو فیکٹری لے جانے والی بس میں جس میں 70 کے قریب افراد سوار تھے اور بس شاہ فیصل کالونی سے کورنگی انڈسٹریل ایریا جارہی تھی تو دو سائیکل سوار نوجوانوں نے بس کو یرغمال بنایا۔ بس میں سوار افراد نے 65 موبائل چھینے اور خواتین ورکرز کے ساتھ بدتمیزی کی۔
یہ افراد فوراً قریبی شاہ فیصل کالونی تھانہ گئے مگر پولیس کے عملہ نے فوری کارروائی کے بجائے متاثرین کو شام کو آنے کا مشورہ دیا۔
یوں ملزمان آسانی سے اپنا ہدف پورا کر کے روپوش ہوگئے۔ موبائل فون کے ماہرین کہتے ہیں کہ ملزمان کے لیے فوری طور پر 65 موبائل فون بند کرنا مشکل تھا، اگر پولیس آئی ٹی ٹیکنالوجی استعمال کرتی تو ملزمان قانون کی گرفت میں آسکتے تھے۔
گزشتہ ہفتہ نگراں وزیر اعلیٰ سندھ جسٹس ریٹائرڈ مقبول باقر سے ملاقات کے دوران اس خبر پر ان کی توجہ مبذول کرائی گئی تو وزیر اعلیٰ نے اس بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ اب تو ہوٹلوں میں بیٹھے ہوئے افراد کو بھی لوٹا جارہا ہے۔
پیپلزپارٹی کی حکومت نے اپنے اقتدار کے مسلسل 15برسوں میں کئی بار یہ اعلان کیا کہ شہری نگرانی کے انفارمیشن ٹیکنالوجی کے منصوبے شروع کیے جائیں گے، یوں حکومت نے کروڑوں روپے سے سیف سٹی پروجیکٹ شروع کرنے کا اعلان کیا، مگر پہلے سید قائم علی شاہ کا دور مکمل ہوا، پھر امریکا سے ڈگری یافتہ سید مراد علی شاہ وزیر اعلیٰ کے عہدہ پر تعینات ہوئے لیکن اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ ان کے دور میں جرائم کی شرح بڑھ گئی۔
ماہرین کہتے ہیں کہ مخدوش معاشی حالات کی بناء پر نوجوان جرائم کو خوشحالی کا راستہ سمجھ رہے ہیں۔ نوجوانوں کو روزگار مل نہیں رہا ، مہنگائی کی شرح ہر مہینے بڑھ رہی ہے۔ ہر مہینے پٹرول، بجلی اور گیس کے نرخوں میں اضافہ کی بناء پر بے روزگار نوجوانوں کو کوئی دوسرا راستہ نہیں نظر آتا۔ کرائم کے بڑھنے کی یہ ایک بنیادی وجہ تو ہے مگر اور وجوہات بھی ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ پولیس کا نظام بوسیدہ ہوچکا ہے۔
وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے دعوؤں کے باوجود ناجائز اسلحہ آسانی سے دستیاب ہے۔ روزنامہ ایکسپریس میں شایع ہونے والی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کراچی میں اسلحہ اسمگل کرنے والا اور کرائے پر دینے والا نیٹ ورک بدستور فعال ہے۔ اسٹریٹ کرائمز اور ٹارگٹ کلنگ میں نئے ہتھیار استعمال ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔
خفیہ ایجنسیوں کی شایع ہونے والی رپورٹوں میں کہا گیا ہے کہ امریکی فوج جو اسلحہ افغانستان میں چھوڑ گئی تھی وہ منظم گروہوں نے ملک میں فروخت کرنا شروع کردیا تھا۔
اپر سندھ میں ڈاکوؤں کے پاس یہ جدید اسلحہ موجود ہے اور کراچی حیدرآباد میں رہزنوں اور ڈاکوؤں کے پاس بھی یہ اسلحہ وافر مقدار میں موجود ہے مگر خفیہ ایجنسیوں کی رپورٹوں اور اپر سندھ کے مختلف شہروں میں کام کرنے والے صحافی امریکی اسلحہ کی دستیابی کی تصدیق کرتے رہے ہیں مگر ایک سال زیادہ عرصہ گزرنے کے باوجود وفاقی حکومت نے سرحدوں سے پاکستان میں اسلحہ اسمگلنگ روکنے کے لیے ٹھوس اقدامات نہیں کیے۔
امن و امان اور کرائمز کی رپورٹنگ کرنے والے سینئر رپورٹروں کا کہنا ہے کہ بہت بڑی مافیاز اسلحہ کی اسمگلنگ کے کاروبار میں ملوث ہیں اور یہ اربوں کھربوں روپوں کا کاروبار ہے۔
ان منظم مافیاز میں سردار، سیاسی رہنما اور بیوروکریٹس اور سیکیورٹی ایجنسیوں کے افسران شامل ہیں اور بتایا جاتا ہے کہ یہ کاروبار اتنا منظم ہے کہ اپر سندھ کے ڈاکوؤں کا ذکر تو چھوڑیں کراچی میں بھی جرائم پیشہ افراد کو اسلحہ ان کے گھروں میں فراہم کرنے کی سروس موجود ہے۔ پیپلز پارٹی کے پندرہ سالہ دور میں میرٹ کو یکسر نظرانداز کیا گیا۔ '' سسٹم '' میں شامل افسروں کو اہم پوسٹیں دی گئیں۔
ایک صحافی کا کہنا ہے کہ سسٹم سے مراد وہ نظام ہے جو اعلیٰ ترین قیادت اور افسران سے منسلک ہوتا ہے اور کروڑوں روپے کی ادائیگی پر پوسٹنگ دی جاتی ہیں۔
بعض صحافیوں کا کہنا ہے کہ نگراں حکومت نے جب پولیس اور انتظامی افسروں کے بڑے پیمانے پر تبادلے کیے تو بلاول بھٹو زرداری نے ان ٹرانسفر پوسٹنگ پر اعتراضات کیے کیونکہ نئے افسران ابھی '' سسٹم'' کا حصہ نہیں بنے ہیں، یوں پولیس کا نظام کمزور ہوتا چلا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ پندرہ برسوں میں جتنے آئی جی تعینات ہوئے، ان میں سے بیشتر کے صوبائی حکومت سے تعلقات کشیدہ رہے اور ان سب کا صوبائی حکومت کی سفارش پر تقرر ہوا تھا۔
پولیس کے جب بھی نئے سربراہ آتے ہیں تو امن و امان کو بہتر بنانے کے لیے مختلف منصوبوں کا اعلان ہوتا ہے۔ ان منصوبوں میں شاہین فورس کا قیام اور کمیونٹی پولیس کی مدد سے CCTV کیمرے نصب کرنا اور پرو ایکٹو پولیسنگ شامل ہے۔
جن علاقوں میں کمیونٹی کو امن و امان کو بہتر بنانے کے کاموں میں شریک کیا گیا ہے وہاں حالات بہتر ہوئے ہیں۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ پیپلز پارٹی کی حکومت نے پرویز مشرف کے دور کا پولیس کی نگرانی کا قانون منسوخ کرکے انگریزوں کے دور کا قانون نافذ کیا، یوں منتخب نمایندوں کی پولیس کے نظام کی نگرانی کا معاملہ کہیں کھو گیا۔
سینئر صحافی سہیل سانگی کا کہنا ہے کہ سندھ پولیس کے پاس جرائم پر تحقیق کا جدید نظام موجود نہیں ہے، مجرموں کو عدالتوں سے سزائیں ملنے کا تناسب انتہائی کم ہے۔ گزشتہ حکومت نے گواہوں کو تحفظ دینے کا قانون نہیں بنایا۔ بہرحال شہریوں کو ڈاکوؤں کے ہاتھوں قتل ہونے سے بچانے کے لیے بنیادی تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔ صرف نو ماہ میں سو افراد کی ہلاکت خطرے کی گھنٹی ہے۔
ڈاکوؤں نے ورکشاپ میں لوٹ مار کے لیے حملہ کیا۔ باپ بیٹے نے مزاحمت کی، مظہر علی شاہ ڈاکوؤں کی فائرنگ سے فوراً ہلاک ہوا۔ علی عباس کو جناح اسپتال لے جایا گیا جہاں گزشتہ بدھ کو وہ زخموں کی تاب نہ لا کر جاں بحق ہوگیا۔
جب یہ آرٹیکل شایع ہوگا تو ڈاکوؤں کے ہاتھوں قتل ہونے والوں کی تعداد میں مزید اضافہ ہوچکا ہوگا۔ پولیس کے ترجمان کا کہنا ہے کہ اس سال 755 پولیس مقابلے ہوئے جن میں 123 ملزمان ہلاک ہوئے اور زخمی ہونے والے 926 ملزمان کو گرفتار کیا گیا جب کہ 5 ہزار سے زائد ملزمان کو بغیر زخمی ہوئے گرفتار کیا گیا۔
پولیس کے ذرایع کہتے ہیں کہ چند سال قبل ڈاکوؤں کے ہاتھوں ہلاک ہونے والے افراد کی سالانہ تعداد اوسطاً 30 کے قریب ہوتی تھی مگر 2022سے صورتحال خراب ہونا شروع ہوئی۔
اس سال ڈاکوؤں اور رہزنوں نے 120 افراد کو دوران واردات قتل کیا تھا، اس سال صورتحال مزید خراب ہوگئی ہے۔ پولیس ذرایع کہتے ہیں کہ پہلے اسٹریٹ کرائم میں ملوث گروہوں کی تعداد 25 سے 30 کے درمیان ہوتی تھی، اب پولیس حکام کہتے ہیں کہ ان گروہوں کی تعداد 50سے 60 تک پہنچ گئی ہے۔
اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ موبائل چھیننے کی وارداتیں بڑھ گئی ہیں، پھر موٹر سائیکل چھیننے کا نمبر آتا ہے۔ کراچی پولیس یہ دعویٰ کرتی ہے کہ اغواء برائے تاوان، ٹارگٹ کلنگ، بھتہ اور دہشت گردی کی وارداتوں پر قابو پا لیا ہے۔
اخبارات میں شایع ہونے والی رپورٹوں کے مطابق کراچی میں ٹارگٹ کلنگ کے معاملات میں پولیس کسی ملزم کا سراغ نہیں لگا سکی۔
مذہبی جماعتوں اور کالعدم تنظیموں کے عہدیداروں کی ٹارگٹ کلنگ کی خبریں ہر پندرہ بیس دن بعد اخبارات کی زینت بنتی ہیں، اگرچہ نگراں وزیر داخلہ سندھ بریگیڈیئر (ریٹائرڈ) حارث نواز شہریوں کو یہ مشورہ دے چکے ہیں کہ شہری موبائل اور موٹر سائیکل چھیننے کی وارداتوں میں مزاحمت نہ کریں، حکومت چھینے گئے موٹر سائیکل واپس کرائے گی مگر وزیر داخلہ کا یہ محض بیان ہی ہے۔
گزشتہ ہفتہ ناظم آباد کے علاقے میں ایک باپ، اپنی بیٹی کو اسکول چھوڑنے جارہا تھا تو باپ کو بیٹی کی چیخ سنائی دی۔ پتہ چلا کہ نامعلوم سمت سے آنے والی گولی بچی کے سر پر لگی۔ بعد میں پولیس ذرایع یہ بتا رہے تھے کہ علاقہ میں سیکیورٹی گارڈ اور ڈاکوؤں فائرنگ کا تبادلہ ہورہا تھا۔
کسی فریق کی چلائی ہوئی گولی نے معصوم بچی کی جان لے لی۔ گزشتہ ہفتہ مزدوروں کو فیکٹری لے جانے والی بس میں جس میں 70 کے قریب افراد سوار تھے اور بس شاہ فیصل کالونی سے کورنگی انڈسٹریل ایریا جارہی تھی تو دو سائیکل سوار نوجوانوں نے بس کو یرغمال بنایا۔ بس میں سوار افراد نے 65 موبائل چھینے اور خواتین ورکرز کے ساتھ بدتمیزی کی۔
یہ افراد فوراً قریبی شاہ فیصل کالونی تھانہ گئے مگر پولیس کے عملہ نے فوری کارروائی کے بجائے متاثرین کو شام کو آنے کا مشورہ دیا۔
یوں ملزمان آسانی سے اپنا ہدف پورا کر کے روپوش ہوگئے۔ موبائل فون کے ماہرین کہتے ہیں کہ ملزمان کے لیے فوری طور پر 65 موبائل فون بند کرنا مشکل تھا، اگر پولیس آئی ٹی ٹیکنالوجی استعمال کرتی تو ملزمان قانون کی گرفت میں آسکتے تھے۔
گزشتہ ہفتہ نگراں وزیر اعلیٰ سندھ جسٹس ریٹائرڈ مقبول باقر سے ملاقات کے دوران اس خبر پر ان کی توجہ مبذول کرائی گئی تو وزیر اعلیٰ نے اس بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ اب تو ہوٹلوں میں بیٹھے ہوئے افراد کو بھی لوٹا جارہا ہے۔
پیپلزپارٹی کی حکومت نے اپنے اقتدار کے مسلسل 15برسوں میں کئی بار یہ اعلان کیا کہ شہری نگرانی کے انفارمیشن ٹیکنالوجی کے منصوبے شروع کیے جائیں گے، یوں حکومت نے کروڑوں روپے سے سیف سٹی پروجیکٹ شروع کرنے کا اعلان کیا، مگر پہلے سید قائم علی شاہ کا دور مکمل ہوا، پھر امریکا سے ڈگری یافتہ سید مراد علی شاہ وزیر اعلیٰ کے عہدہ پر تعینات ہوئے لیکن اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ ان کے دور میں جرائم کی شرح بڑھ گئی۔
ماہرین کہتے ہیں کہ مخدوش معاشی حالات کی بناء پر نوجوان جرائم کو خوشحالی کا راستہ سمجھ رہے ہیں۔ نوجوانوں کو روزگار مل نہیں رہا ، مہنگائی کی شرح ہر مہینے بڑھ رہی ہے۔ ہر مہینے پٹرول، بجلی اور گیس کے نرخوں میں اضافہ کی بناء پر بے روزگار نوجوانوں کو کوئی دوسرا راستہ نہیں نظر آتا۔ کرائم کے بڑھنے کی یہ ایک بنیادی وجہ تو ہے مگر اور وجوہات بھی ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ پولیس کا نظام بوسیدہ ہوچکا ہے۔
وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے دعوؤں کے باوجود ناجائز اسلحہ آسانی سے دستیاب ہے۔ روزنامہ ایکسپریس میں شایع ہونے والی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کراچی میں اسلحہ اسمگل کرنے والا اور کرائے پر دینے والا نیٹ ورک بدستور فعال ہے۔ اسٹریٹ کرائمز اور ٹارگٹ کلنگ میں نئے ہتھیار استعمال ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔
خفیہ ایجنسیوں کی شایع ہونے والی رپورٹوں میں کہا گیا ہے کہ امریکی فوج جو اسلحہ افغانستان میں چھوڑ گئی تھی وہ منظم گروہوں نے ملک میں فروخت کرنا شروع کردیا تھا۔
اپر سندھ میں ڈاکوؤں کے پاس یہ جدید اسلحہ موجود ہے اور کراچی حیدرآباد میں رہزنوں اور ڈاکوؤں کے پاس بھی یہ اسلحہ وافر مقدار میں موجود ہے مگر خفیہ ایجنسیوں کی رپورٹوں اور اپر سندھ کے مختلف شہروں میں کام کرنے والے صحافی امریکی اسلحہ کی دستیابی کی تصدیق کرتے رہے ہیں مگر ایک سال زیادہ عرصہ گزرنے کے باوجود وفاقی حکومت نے سرحدوں سے پاکستان میں اسلحہ اسمگلنگ روکنے کے لیے ٹھوس اقدامات نہیں کیے۔
امن و امان اور کرائمز کی رپورٹنگ کرنے والے سینئر رپورٹروں کا کہنا ہے کہ بہت بڑی مافیاز اسلحہ کی اسمگلنگ کے کاروبار میں ملوث ہیں اور یہ اربوں کھربوں روپوں کا کاروبار ہے۔
ان منظم مافیاز میں سردار، سیاسی رہنما اور بیوروکریٹس اور سیکیورٹی ایجنسیوں کے افسران شامل ہیں اور بتایا جاتا ہے کہ یہ کاروبار اتنا منظم ہے کہ اپر سندھ کے ڈاکوؤں کا ذکر تو چھوڑیں کراچی میں بھی جرائم پیشہ افراد کو اسلحہ ان کے گھروں میں فراہم کرنے کی سروس موجود ہے۔ پیپلز پارٹی کے پندرہ سالہ دور میں میرٹ کو یکسر نظرانداز کیا گیا۔ '' سسٹم '' میں شامل افسروں کو اہم پوسٹیں دی گئیں۔
ایک صحافی کا کہنا ہے کہ سسٹم سے مراد وہ نظام ہے جو اعلیٰ ترین قیادت اور افسران سے منسلک ہوتا ہے اور کروڑوں روپے کی ادائیگی پر پوسٹنگ دی جاتی ہیں۔
بعض صحافیوں کا کہنا ہے کہ نگراں حکومت نے جب پولیس اور انتظامی افسروں کے بڑے پیمانے پر تبادلے کیے تو بلاول بھٹو زرداری نے ان ٹرانسفر پوسٹنگ پر اعتراضات کیے کیونکہ نئے افسران ابھی '' سسٹم'' کا حصہ نہیں بنے ہیں، یوں پولیس کا نظام کمزور ہوتا چلا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ پندرہ برسوں میں جتنے آئی جی تعینات ہوئے، ان میں سے بیشتر کے صوبائی حکومت سے تعلقات کشیدہ رہے اور ان سب کا صوبائی حکومت کی سفارش پر تقرر ہوا تھا۔
پولیس کے جب بھی نئے سربراہ آتے ہیں تو امن و امان کو بہتر بنانے کے لیے مختلف منصوبوں کا اعلان ہوتا ہے۔ ان منصوبوں میں شاہین فورس کا قیام اور کمیونٹی پولیس کی مدد سے CCTV کیمرے نصب کرنا اور پرو ایکٹو پولیسنگ شامل ہے۔
جن علاقوں میں کمیونٹی کو امن و امان کو بہتر بنانے کے کاموں میں شریک کیا گیا ہے وہاں حالات بہتر ہوئے ہیں۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ پیپلز پارٹی کی حکومت نے پرویز مشرف کے دور کا پولیس کی نگرانی کا قانون منسوخ کرکے انگریزوں کے دور کا قانون نافذ کیا، یوں منتخب نمایندوں کی پولیس کے نظام کی نگرانی کا معاملہ کہیں کھو گیا۔
سینئر صحافی سہیل سانگی کا کہنا ہے کہ سندھ پولیس کے پاس جرائم پر تحقیق کا جدید نظام موجود نہیں ہے، مجرموں کو عدالتوں سے سزائیں ملنے کا تناسب انتہائی کم ہے۔ گزشتہ حکومت نے گواہوں کو تحفظ دینے کا قانون نہیں بنایا۔ بہرحال شہریوں کو ڈاکوؤں کے ہاتھوں قتل ہونے سے بچانے کے لیے بنیادی تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔ صرف نو ماہ میں سو افراد کی ہلاکت خطرے کی گھنٹی ہے۔