ایک عظیم کتاب کا ترجمہ
ہمارا دعویٰ ہے جس کی کوئی تردید نہیں کرسکتا کہ یاسرجواد نے کسی بھی سرکاری ادارے سے زیادہ اردوکو مالامال کیاہے
ہمارے ہاتھ میں اس وقت ایک بہت قیمتی، نادرونایاب اورخوبصورت تحفہ ہے اورہماری حالت غالب کی سی ہورہی ہے ۔
وہ آئے گھر میں ہمارے خداکی قدرت ہے
کبھی ہم ان کو کبھی اپنے گھر کو دیکھتے ہیں
اتنا بے مثل اوربیش بہا تحفہ اورپھر ہم کو اتنی محبت اورخلوص کے ساتھ ، ایک پشتو ٹپہ ہے کہ
اے محبوب تم نے مجھے پھول دیاہے ہنسی ہنسی
میں پھول سے زیادہ اس ''ہنسی'' سے خوش ہوں
یہ حقیقت ہے کہ بعض ہونٹوں کی ہنسی یامسکراہٹ ہزارپھولوں بلکہ باغوں پر بھاری ہوتی ہے کیوں کہ
ہرغنچہ کہ گل شد دگرے غنچہ نہ گرد
قربان زلب یارکہے غنچہ گہے گل
یعنی ہرغنچہ جب کھل کرپھول بن جاتاہے دوبارہ کبھی غنچہ نہیں بنتا لیکن قربان جاؤں یارکے ہونٹوں کے جو کبھی غنچہ بنتے ہیں اورکبھی پھول۔
یہ جس تحفے کاہم ذکر کررہے ہیں ،مشہورامریکی مورخ ،محقق، دانشور اورفلسفی ول ڈیورانٹ کی اس عظیم کتاب کی پہلی جلد کا اردوترجمہ ہے جس کانام ہے ''تہذیب کی کہانی'' دی اسٹوری آف سوئیلائزیشن۔ یہ کتاب گیارہ ضخیم جلدوں پر مشتمل ہے جوول ڈیورانٹ اوراس کی بیوی ایرئیل کی زندگی بھر کانچوڑ ہے ۔''تہذیب کی کہانی ''دراصل پوری انسانیت کی تاریخ، ثقافت اورتہذیب وتمدن کااحاطہ کرتی ہے کہ انسان نے زینہ بہ زینہ کیاکیاکیا؟ اور کیسے موجودہ مقام تک پہنچا۔
ہم انگریزی زبان پرکچھ زیادہ عبورنہیں رکھتے، روزمرہ کی رواں اورچلتی ہوئی انگریزی میں تو گزارہ کرلیتے ہیں لیکن بات جب گہرے علوم اورپھرخاص طورپر فلسفیانہ زبان اوراصطلاحات کی ہوتو یوں سمجھ لیجیے کہ ترکی تمام ہوجاتی ہے ۔
یہ تحفہ ہمیں اس کے مترجم یاسرجواد نے بھیجاہے اورہم حیران ہیں کہ ان کوہمارے اندر ایسا کیانظر آیا کہ ہمیں اس تحفے سے سرفرازکیا۔ جناب یاسرجواد کے بارے میں ایک مرتبہ پہلے بھی ہم تھوڑا بہت کہہ چکے ہیں جب کہ وہ ''بہت کچھ '' کہنے کے مستحق ہیں کیوں کہ انھوں نے اردو زبان کو علم سے جنتا مالا مال کیاہے اتنا اورکسی نے بھی نہیں کیاہے بلکہ ان ''نام'' والے اداروں نے بھی نہیں کیا جن میں بڑے بڑے نام والے سرکاری فنڈزکو آپس میں بانٹے کے علاوہ اورکچھ بھی نہیں کرتے۔
انگریزی سے ترجمے اورلوگوں نے بھی کیے ہوں گے اورکررہے ہیں لیکن وہ زیادہ تر چلتے ہوئے موضوعات فکشن ، شاعری اورعمومی موضوعات پر ہوتے ہیں لیکن یاسرجواد ایسی کتب کاترجمہ کرتے ہیں جن کی شدید کمی اورضرورت ہوتی ہے ۔
یاسر جواد ترجمہ کے میدان میں وسیع اورمتنوع تجربہ رکھتے ہیں، وہ نہایت مشکل علمی اصطلاحات کو ایسے الفاظ میں ڈھالتے ہیں کہ عام پڑھے لکھے لوگوں کی سمجھ میں آجاتے ہیں ۔ان کاپہلا ترجمہ فرانزکافکا کے ناول مقدمہ کا تھا ، اب تک وہ سائنس ،فلسفہ ، تاریخ ، مذاہب اورنفسیات کے موضوع پر ایک سو پچاس سے زیادہ کتب کے تراجم کرچکے ہیں۔
جن میں سیمون ڈی بووا کی عورت ، ہیروڈئس کی تواریخ ،کارل ساگان کی کاسموس ،سٹیفن ہاکنگ کی ڈی بریف اسٹوری آف ٹائم،کیرن آرمسٹرانگ کی خداکی تاریخ اوربہت ساری ایسی کتابیں شامل ہیں جن کی اردو میں ضرورت تھی ، ان کی تحقیقی کتاب ، سو عظیم فلسفی کے چار ایڈیشن شایع ہوچکے ہیں ، ''انسائیکلوپیڈیا ادبیات عالم'' اور دو ہزار پانچ سو صفحات پر مشتمل عالمی انسائیکلوپیڈیا بھی ان کے کارنامے ہیں۔ یاسر جواد ان لوگوں میں سے ہیں جو نام کے بجائے کام کرتے ہیں ، اکبرالہ آبادی اکثر سرسید احمد خان کا مذاق اڑایا کرتے تھے لیکن ان کی وفات پرکہا۔
ہماری باتیں ہی باتیں ہیں ''سید'' کام کرتا تھا
ہمارا دعویٰ ہے جس کی کوئی تردید نہیں کرسکتا کہ یاسرجواد نے کسی بھی سرکاری ادارے سے زیادہ اردوکو مالامال کیاہے کیوں کہ وہ ادارے تومحض ہاتھی دانت ہوتے ہیں جو فنڈزٹھکانے لگانے اورکچھ ''منظورشدہ''کو پالنے کے لیے ہوتے ہیں، کام کے لیے نہیں۔ایک واقعہ یادآیا ہمارے ایک مرحوم دوست جو ہندکو اکیڈمی قائم کرنے کے لیے پرزورتحریک چلارہے تھے۔
ایک دن ہم نے ان سے کہا کہ آپ ہندکواکیڈمی بنواکر کیاکریں گے، اس میں وہی تو ہوگا جو ہماری اکیڈمی میں ہوتا ہے تو وہ ہنس کر بولے اسی لیے تو ہم بھی اکیڈمی چاہتے ہیں ۔
یاسر جواد نے ول ڈیورانٹ کی کتاب کی پہلی جلد کایہ ترجمہ ایک مخصوص پروجیکٹ ''لوٹس پروجیکٹ'' کے ذریعے شایع کیاہے۔کیوں کہ وہ بھی ناشروں، پبلشروں اورکتب فروشوں کے استحصال کاشکارہیں جب کہ یہ ادارہ لوٹس پروجیکٹ غیرپیشہ ور علم دوستوں پر مشتمل ہے اورجس کی تفصیل اور اس میں شامل دوستوں کاذکر بھی کتاب کی ابتدامیں کیا گیاہے۔
اس کی پہلی جلد کاذیلی عنوان ہے، ہمارا مشرقی ورثہ ۔اس میں ان تہذیبوں کی تاریخ بیان کی گئی ہے جو مشرق یعنی مصر، عرب ،ایران، ہندوستان اورچین میں پیداہوئیں ، پلی بڑھیں اورانسانیت کو بہت کچھ دیا۔سب سے اچھی بات یہ ہے کہ یاسر جواد نے اردو ترجمے کو عام آدمی کے لیے قابل فہم بنایاہے ۔
وہ آئے گھر میں ہمارے خداکی قدرت ہے
کبھی ہم ان کو کبھی اپنے گھر کو دیکھتے ہیں
اتنا بے مثل اوربیش بہا تحفہ اورپھر ہم کو اتنی محبت اورخلوص کے ساتھ ، ایک پشتو ٹپہ ہے کہ
اے محبوب تم نے مجھے پھول دیاہے ہنسی ہنسی
میں پھول سے زیادہ اس ''ہنسی'' سے خوش ہوں
یہ حقیقت ہے کہ بعض ہونٹوں کی ہنسی یامسکراہٹ ہزارپھولوں بلکہ باغوں پر بھاری ہوتی ہے کیوں کہ
ہرغنچہ کہ گل شد دگرے غنچہ نہ گرد
قربان زلب یارکہے غنچہ گہے گل
یعنی ہرغنچہ جب کھل کرپھول بن جاتاہے دوبارہ کبھی غنچہ نہیں بنتا لیکن قربان جاؤں یارکے ہونٹوں کے جو کبھی غنچہ بنتے ہیں اورکبھی پھول۔
یہ جس تحفے کاہم ذکر کررہے ہیں ،مشہورامریکی مورخ ،محقق، دانشور اورفلسفی ول ڈیورانٹ کی اس عظیم کتاب کی پہلی جلد کا اردوترجمہ ہے جس کانام ہے ''تہذیب کی کہانی'' دی اسٹوری آف سوئیلائزیشن۔ یہ کتاب گیارہ ضخیم جلدوں پر مشتمل ہے جوول ڈیورانٹ اوراس کی بیوی ایرئیل کی زندگی بھر کانچوڑ ہے ۔''تہذیب کی کہانی ''دراصل پوری انسانیت کی تاریخ، ثقافت اورتہذیب وتمدن کااحاطہ کرتی ہے کہ انسان نے زینہ بہ زینہ کیاکیاکیا؟ اور کیسے موجودہ مقام تک پہنچا۔
ہم انگریزی زبان پرکچھ زیادہ عبورنہیں رکھتے، روزمرہ کی رواں اورچلتی ہوئی انگریزی میں تو گزارہ کرلیتے ہیں لیکن بات جب گہرے علوم اورپھرخاص طورپر فلسفیانہ زبان اوراصطلاحات کی ہوتو یوں سمجھ لیجیے کہ ترکی تمام ہوجاتی ہے ۔
یہ تحفہ ہمیں اس کے مترجم یاسرجواد نے بھیجاہے اورہم حیران ہیں کہ ان کوہمارے اندر ایسا کیانظر آیا کہ ہمیں اس تحفے سے سرفرازکیا۔ جناب یاسرجواد کے بارے میں ایک مرتبہ پہلے بھی ہم تھوڑا بہت کہہ چکے ہیں جب کہ وہ ''بہت کچھ '' کہنے کے مستحق ہیں کیوں کہ انھوں نے اردو زبان کو علم سے جنتا مالا مال کیاہے اتنا اورکسی نے بھی نہیں کیاہے بلکہ ان ''نام'' والے اداروں نے بھی نہیں کیا جن میں بڑے بڑے نام والے سرکاری فنڈزکو آپس میں بانٹے کے علاوہ اورکچھ بھی نہیں کرتے۔
انگریزی سے ترجمے اورلوگوں نے بھی کیے ہوں گے اورکررہے ہیں لیکن وہ زیادہ تر چلتے ہوئے موضوعات فکشن ، شاعری اورعمومی موضوعات پر ہوتے ہیں لیکن یاسرجواد ایسی کتب کاترجمہ کرتے ہیں جن کی شدید کمی اورضرورت ہوتی ہے ۔
یاسر جواد ترجمہ کے میدان میں وسیع اورمتنوع تجربہ رکھتے ہیں، وہ نہایت مشکل علمی اصطلاحات کو ایسے الفاظ میں ڈھالتے ہیں کہ عام پڑھے لکھے لوگوں کی سمجھ میں آجاتے ہیں ۔ان کاپہلا ترجمہ فرانزکافکا کے ناول مقدمہ کا تھا ، اب تک وہ سائنس ،فلسفہ ، تاریخ ، مذاہب اورنفسیات کے موضوع پر ایک سو پچاس سے زیادہ کتب کے تراجم کرچکے ہیں۔
جن میں سیمون ڈی بووا کی عورت ، ہیروڈئس کی تواریخ ،کارل ساگان کی کاسموس ،سٹیفن ہاکنگ کی ڈی بریف اسٹوری آف ٹائم،کیرن آرمسٹرانگ کی خداکی تاریخ اوربہت ساری ایسی کتابیں شامل ہیں جن کی اردو میں ضرورت تھی ، ان کی تحقیقی کتاب ، سو عظیم فلسفی کے چار ایڈیشن شایع ہوچکے ہیں ، ''انسائیکلوپیڈیا ادبیات عالم'' اور دو ہزار پانچ سو صفحات پر مشتمل عالمی انسائیکلوپیڈیا بھی ان کے کارنامے ہیں۔ یاسر جواد ان لوگوں میں سے ہیں جو نام کے بجائے کام کرتے ہیں ، اکبرالہ آبادی اکثر سرسید احمد خان کا مذاق اڑایا کرتے تھے لیکن ان کی وفات پرکہا۔
ہماری باتیں ہی باتیں ہیں ''سید'' کام کرتا تھا
ہمارا دعویٰ ہے جس کی کوئی تردید نہیں کرسکتا کہ یاسرجواد نے کسی بھی سرکاری ادارے سے زیادہ اردوکو مالامال کیاہے کیوں کہ وہ ادارے تومحض ہاتھی دانت ہوتے ہیں جو فنڈزٹھکانے لگانے اورکچھ ''منظورشدہ''کو پالنے کے لیے ہوتے ہیں، کام کے لیے نہیں۔ایک واقعہ یادآیا ہمارے ایک مرحوم دوست جو ہندکو اکیڈمی قائم کرنے کے لیے پرزورتحریک چلارہے تھے۔
ایک دن ہم نے ان سے کہا کہ آپ ہندکواکیڈمی بنواکر کیاکریں گے، اس میں وہی تو ہوگا جو ہماری اکیڈمی میں ہوتا ہے تو وہ ہنس کر بولے اسی لیے تو ہم بھی اکیڈمی چاہتے ہیں ۔
یاسر جواد نے ول ڈیورانٹ کی کتاب کی پہلی جلد کایہ ترجمہ ایک مخصوص پروجیکٹ ''لوٹس پروجیکٹ'' کے ذریعے شایع کیاہے۔کیوں کہ وہ بھی ناشروں، پبلشروں اورکتب فروشوں کے استحصال کاشکارہیں جب کہ یہ ادارہ لوٹس پروجیکٹ غیرپیشہ ور علم دوستوں پر مشتمل ہے اورجس کی تفصیل اور اس میں شامل دوستوں کاذکر بھی کتاب کی ابتدامیں کیا گیاہے۔
اس کی پہلی جلد کاذیلی عنوان ہے، ہمارا مشرقی ورثہ ۔اس میں ان تہذیبوں کی تاریخ بیان کی گئی ہے جو مشرق یعنی مصر، عرب ،ایران، ہندوستان اورچین میں پیداہوئیں ، پلی بڑھیں اورانسانیت کو بہت کچھ دیا۔سب سے اچھی بات یہ ہے کہ یاسر جواد نے اردو ترجمے کو عام آدمی کے لیے قابل فہم بنایاہے ۔