ڈالر کے نرخ میں مسلسل 17 ویں دن بھی کمی
ڈالر کے انٹربینک ریٹ 47 دن کی کم ترین سطح 289 روپے سے نیچے آگئے، اوپن ریٹ بھی 78 دن کی کم ترین سطح 290 روپے پر ہیں
حوالہ ہنڈی میں ملوث امپورٹڈ کار ڈیلرز، سونے کے تاجروں سمیت دیگر مشکوک شعبوں کے خلاف کریک ڈاؤن کے سبب بدھ کو سترہویں دن بھی ڈالر مسلسل بیک فٹ پر رہا جس سے ڈالر کے انٹربینک ریٹ 47 دن کے کم ترین 289 روپے سے نیچے آگئے جب کہ اوپن ریٹ بھی 78 دن کی کم ترین سطح 290 روپے پر آگئے۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق انٹربینک مارکیٹ میں کاروباری دورانیے کے دوران ایک موقع پر ڈالر کی قدر 1 روپے 15 پیسے کی کمی سے 288 روپے 65 پیسے کی سطح پر بھی آگئی تھی لیکن طلب و رسد کی وجہ سے ڈالر کی قدر میں اتار چڑھاؤ بھی دیکھا گیا اور کاروبار کے اختتام پر انٹربینک مارکیٹ میں ڈالر کی قدر 1 روپے 5 پیسے کی کمی سے 288 روپے 75 پیسے کی سطح پر بند ہوئی۔
اسی طرح اوپن کرنسی مارکیٹ میں بھی ڈالر کی قدر ایک روپے کی کمی سے 290 روپے پر بند ہوئی، انٹربینک اور اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی قدر کے درمیان فرق صفر اعشاریہ 43 فیصد یا 1 روپے 25 پیسے کا رہ گیا ہے۔
اسٹیٹ بینک کی غیرقانونی سرگرمیوں میں مبینہ طور پر ملوث ہر کیٹیگری کی ایکس چینج کمپنیوں کی سخت مانیٹرنگ اور تادیبی کارروائیوں، فارن کرنسی اسمگلنگ کے مشکوک شعبوں کی نگرانی کے بعد انٹیلی جنس بیسڈ کارروائیوں اور گرفتاریوں سے ڈالر کے اسمگلروں کی کمر ٹوٹ گئی ہے جس سے مارکیٹ میں ڈالر کی سپلائی میں بتدریج اضافہ ہورہا ہے جو ڈالر کے مقابلے میں روپیہ کو تگڑا کررہا ہے۔
حکومت کی جانب سے اوورسیز پاکستانیوں کے لیے ڈالر، پاؤنڈ اور یورو بانڈز پر ریٹ آف ریٹرن میں حالیہ اضافے سے روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹ میں 6 ارب 62 کروڑ ڈالر کے انفلوز آئے ہیں اور آنے والے دنوں میں مزید انفلوز سے نہ صرف ملکی زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہوسکے گا بلکہ افراط زر کی شرح پر قابو پانا ممکن ہوگا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ عالمی بینک کی پاکستان کے لیے 15 کروڑ ڈالر کا قرض دینے کی خبروں کے علاوہ افغان ٹرانزٹ ٹریڈ میں سرگرمیوں پر نظر رکھتے ہوئے اسمگلنگ پر قابو پانے کے تابڑ توڑ چھاپوں جیسے عوامل بھی ڈالر کی تنزلی کا باعث بن گئے ہیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ موجودہ حالات میں ڈالر کی اندھا دھند خریداری کرنے والے مارکیٹ سے غائب ہوگئے ہیں البتہ بیرون ملک سفر، علاج اور تعلیمی ضروریات کے لیے محدود پیمانے پر فارن کرنسی کی خریداری کی جارہی ہے۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق انٹربینک مارکیٹ میں کاروباری دورانیے کے دوران ایک موقع پر ڈالر کی قدر 1 روپے 15 پیسے کی کمی سے 288 روپے 65 پیسے کی سطح پر بھی آگئی تھی لیکن طلب و رسد کی وجہ سے ڈالر کی قدر میں اتار چڑھاؤ بھی دیکھا گیا اور کاروبار کے اختتام پر انٹربینک مارکیٹ میں ڈالر کی قدر 1 روپے 5 پیسے کی کمی سے 288 روپے 75 پیسے کی سطح پر بند ہوئی۔
اسی طرح اوپن کرنسی مارکیٹ میں بھی ڈالر کی قدر ایک روپے کی کمی سے 290 روپے پر بند ہوئی، انٹربینک اور اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی قدر کے درمیان فرق صفر اعشاریہ 43 فیصد یا 1 روپے 25 پیسے کا رہ گیا ہے۔
اسٹیٹ بینک کی غیرقانونی سرگرمیوں میں مبینہ طور پر ملوث ہر کیٹیگری کی ایکس چینج کمپنیوں کی سخت مانیٹرنگ اور تادیبی کارروائیوں، فارن کرنسی اسمگلنگ کے مشکوک شعبوں کی نگرانی کے بعد انٹیلی جنس بیسڈ کارروائیوں اور گرفتاریوں سے ڈالر کے اسمگلروں کی کمر ٹوٹ گئی ہے جس سے مارکیٹ میں ڈالر کی سپلائی میں بتدریج اضافہ ہورہا ہے جو ڈالر کے مقابلے میں روپیہ کو تگڑا کررہا ہے۔
حکومت کی جانب سے اوورسیز پاکستانیوں کے لیے ڈالر، پاؤنڈ اور یورو بانڈز پر ریٹ آف ریٹرن میں حالیہ اضافے سے روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹ میں 6 ارب 62 کروڑ ڈالر کے انفلوز آئے ہیں اور آنے والے دنوں میں مزید انفلوز سے نہ صرف ملکی زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہوسکے گا بلکہ افراط زر کی شرح پر قابو پانا ممکن ہوگا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ عالمی بینک کی پاکستان کے لیے 15 کروڑ ڈالر کا قرض دینے کی خبروں کے علاوہ افغان ٹرانزٹ ٹریڈ میں سرگرمیوں پر نظر رکھتے ہوئے اسمگلنگ پر قابو پانے کے تابڑ توڑ چھاپوں جیسے عوامل بھی ڈالر کی تنزلی کا باعث بن گئے ہیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ موجودہ حالات میں ڈالر کی اندھا دھند خریداری کرنے والے مارکیٹ سے غائب ہوگئے ہیں البتہ بیرون ملک سفر، علاج اور تعلیمی ضروریات کے لیے محدود پیمانے پر فارن کرنسی کی خریداری کی جارہی ہے۔