مستونگ اور ہنگو میں دہشت گردی
دہشت گردوں کو پاکستان کے اندر سے بھی سہولت کاری مل رہی ہے
بلوچستان کے ضلع مستونگ میں جشن میلاد النبیؐ کے جلوس سے قبل مسجد کے قریب خودکش دھماکے میں 53 افراد شہید ہوگئے ہیں، شہید ہونے والوں ڈی ایس پی محمد نواز گشگوری بھی شامل ہیں، متعدد لوگ شدید زخمی ہیں، جن میں سے کئی زخمیوں کی حالت نازک بیان کی گئی ہے۔
میڈیا نے ضلعی انتظامیہ کے حوالے سے خبر دی ہے کہ یہ خود کش دھماکا مستونگ کی مدینہ مسجد کے قریب ہوا،جمعتہ المبارک اور عید میلاد النبی کی وجہ سے نمازیوں کا رش تھا، کیونکہ نماز کے بعد لوگوں نے یہاں سے عیدمیلاد النبیؐ کے جلوس میں شرکت کرنا تھی۔
آئی جی پولیس بلوچستان عبدالخالق شیخ کے مطابق مستونگ دھماکے میں ڈی ایس پی نے خودکش بمبار کو روکتے ہوئے جام شہادت نوش کیا۔ صوبائی حکومت نے بلوچستان میں سانحہ مستونگ پر تین روزہ سوگ منانے کا اعلان کیا ہے۔
بلوچستان کے علاقے مستونگ میں مسجد کے قریب خودکش دھماکے کے بعد خیبر پختونخوا کے ضلع ہنگو میں ایک مسجد میں خود کش دھماکا ہوا، اس خود کش دھماکے میں 5 افراد شہید ہوئے جب کہ بارہ کے قریب افراد زخمی ہوئے۔ میڈیا کے مطابق یہ خودکش دھماکا تھانہ دوآبہ کے اندر مسجد میں نماز جمعہ کے خطبے کے دوران ہوا۔ دھماکے کے وقت مسجد کے اندر 30 سے 40 نمازی موجود تھے۔ خودکش دھماکا اتنا شدید تھا کہ مسجد کی چھت گر گئی اورنمازی ملبے میں دب گئے۔
ہنگو پولیس نے مسجد میں ہونے والے خودکش دھماکے کی ابتدائی رپورٹ میں بتایا ہے کہ دو خودکش حملہ آور مسجد میں داخل ہونے کے لیے پہنچے تھے، پولیس رپورٹ میں یہ دعویٰ کیا ہے کہ پولیس کی بروقت کارروائی کی وجہ سے جانی نقصان کم ہوا کیونکہ پولیس نے ایک خودکش حملہ آورکو مسجد کے باہر ہلاک کردیا جب کہ دوسرا خودکش حملہ آور مسجد میں داخل ہونے میں کامیاب ہوا اور اس نے اندر پہنچ کر خود کو دھماکے سے اڑا لیا۔پولیس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ حملہ آور کی آمد و رفت کے حوالے سے ہر پہلو سے تحقیقات جاری ہیں۔
ہنگو پولیس نے جو دعویٰ کیا ہے،اس میں کتنی صداقت ہے، اس کے بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا ہے البتہ جو سامنے کی حقیقت یہ ہے کہ مسجد کے اندر خود کش دھماکا ہوا، دھماکے کی شدت سے مسجد کی چھت گر گئی اور نمازی شہید ہوئے۔ اس سے یہ واضح ہو گیا کہ خودکش مسجد کے اندر داخل ہو گیا تھا۔ میڈیا نے ہنگو پولیس کے حوالے سے یہ خبر بھی دی ہے کہ خودکش حملہ آور اور پولیس اہلکاروں کے مابین فائرنگ کا تبادلہ بھی ہوا۔
فائرنگ کی آواز سن کر کئی نمازی مسجد سے باہر نکلنے میں کامیاب ہو گئے۔ اس لیے بھی جانی نقصان کم ہوا۔ یہ ابتدائی اطلاعات ہیں، ابھی مکمل تحقیقات نہیں ہوئی ہیں۔ اسی طرح بلوچستان کے ضلع مستونگ میں بھی خودکش دھماکا ہی ہوا ہے۔ یہاں شہداء کی تعداد پچاس سے بھی زیادہ ہے۔ اس سانحہ میں ایک ڈی ایس پی بھی شہید ہوا ہے۔ ان دونوں واقعات کو باہم یکجا کیا جائے تو دونوں خودکش دھماکوں کی ٹائمنگ ایک ہے اور دھماکوں کا پیٹرن بھی ایک جیسا ہی ہے۔
جن اضلاع میں یہ دھماکے ہوئے ہیں، وہ قبائلی طرز معاشرت والے علاقے ہیں اور ان اضلاع میں صوبائی انتظامیہ کا کنٹرول خاصا کمزور ہے۔ ضلعی انتظامیہ اور ضلعی پولیس کا انٹیلی جنس سسٹم نہ ہونے کے برابر ہے۔ پولیس کے پاس جدید ہتھیاروں اور جدید سکینرز بھی موجود نہیں ہیں۔ پولیس کی ٹریننگ اور کمٹمنٹ کا معیار بھی انتہائی پست ہے۔ ان علاقوں میں قبائلی سردار اور عمائدین وغیرہ طاقتور ہیں۔ ایسے کمزور انتظامی اسٹرکچر والے علاقوں میں دہشت گردی کی واردات کرنا زیادہ مشکل نہیں ہے۔
بلوچستان اور خیبرپختونخوا کی نگران حکومتوں کے اہم افراد روایتی مذمتی بیانات جاری کر کے اپنی ذمے داری ادا کر چکے ہیں۔ پولیس بھی یہ بتا چکی ہے کہ یہ خودکش دھماکے تھے، اور مزید تحقیقات جاری ہیں۔ یوں پولیس نے بھی اپنا فرض ادا کر دیا ہے۔ پاکستان کے نگران وزیراعظم سے لے کر تمام سیاسی جماعتوں کے قائدین نے بھی مذمتی بیانات جاری کر کے اپنا فرض ادا کر دیا ہے، یوں اب دہشت گردی کی اگلی واردات کا انتظار کیا جائے گا۔
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے بھی پاکستان میں دہشت گرد حملوں کی مذمت کی ہے۔ سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر اپنے مذمت بیان میں انھوں نے کہا ہے کہ میں جمعہ کو پاکستان میں ہونے والے دہشت گردانہ حملوں کی مذمت کرتا ہوں۔ انتونیو گوتریس نے مزید کہا ہے کہ یہ ایک گھناؤنا عمل ہے، حملوں کے ذمے داروں کا محاسبہ ہونا چاہیے۔
امریکا نے بھی بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں ہونے والے خودکش حملوں میں قیمتی جانوں کے ضیاع کی مذمت کی ہے۔ سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر اپنے مذمتی بیان میں امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نے کہا ہے کہ امریکا بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں ہونے والے خودکش حملوں کی مذمت کرتا ہے۔
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس اور امریکا کے محکمہ خارجہ کے ترجمان چترال میں ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں کے حملے کی بھی مذمت کر چکے ہیں۔ جناب انتونیو گوتریس نے تو یہ بھی کہہ رکھا ہے کہ افغانستان میں دہشت گردی اور منشیات اسمگلنگ پر عالمی برادری کو تشویش ہے۔ دہشت گردی اور منشیات کے کاروبار کا ایک دوسرے سے گہرا تعلق ہے۔ منشیات کی اسمگلنگ سے حاصل ہونے والی بھاری رقوم کے ذریعے دہشت گردی کے لیے وسائل پیدا کیے جاتے ہیں۔
افغانستان میں طویل جنگ وجدل میں شریک مختلف گروپس نے اپنے غیرمعمولی اخراجات پورے کرنے کے لیے اغوا برائے تاوان، بھتہ خوری اور راہداری جگا ٹیکس کی وصولی وغیرہ کا سہارا لیا لیکن منشیات کا کاروبار اور پوست کی وسیع پیمانے پر کاشت ان برسرپیکار گروپوں کے لیے سب سے بڑا مالی سورس تھا اور یہ سورس اب بھی قائم ہے۔
اسلحہ اور ڈرگز کا دھندہ عالمی سطح پر زیرزمین مافیا گینگز اور دہشت گردوں کی مالی معاونت کو ممکن بناتا ہے۔ اس معاشی لائف لائن کی وجہ سے دہشت گرد اور مافیا گینگز کا نیٹ ورک بہت وسعت اختیار کر گیا ہے اور ان کے پاس جدید ترین ہتھیار اور تربیت یافتہ لڑاکا فورس موجود ہے۔
ڈرگز فیکٹر دہشت گرد گروہوں کے فائٹرز اور سوئیسائیڈرز کو بے خوف اور احساسات سے عاری کر دیتا ہے۔ ان دونوں کا یہ باہمی میل ایک الگ طرح کی دہشت گردی کا باعث ہے جسے ماہرین Narcoterror کا نام دیتے ہیں۔ یوں دہشت گرد گروہ اور بلیک اکانومی پر قابض مافیاز آئینی اور قانونی نظام والی ریاستوں کے لیے سنگین خطرات کا باعث بن رہے ہیں کیونکہ انھیں کمزور نظام والی ریاستیں زیادہ سوٹ کرتی ہیں۔
سوچنے والی بات یہ ہے کہ امریکا اور یورپ کی پابندیوں کے باوجود یمن، صومالیہ اور دیگر ممالک میں لڑنے والے گروہ کیسے اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اسی طرح افغانستان میں طالبان کی حکومت پر بھی پابندیاں عائد ہیں لیکن اس کے باوجود اس حکومت کو کہیں نہ کہیں سے مالی سہارا مل رہا ہے۔ ادھر پاکستان ایک آرگنائزڈ ریاست ہونے کے باوجود معاشی بحران کا شکار ہے اور یہ بحران ابھی تک کم نہیں ہو رہا۔
پاکستان میں دہشت گردی کے پے در پے واقعات سے یہ حقیقت مزید واضح ہوجاتی ہے کہ دہشت گردوں کو پاکستان کے اندر سے بھی سہولت کاری مل رہی ہے۔ افغان طالبان اور ٹی پی پی کے درمیان گہرے رشتے اب ڈھکے چھپے نہیں رہے، افغانستان کی قیادت خود پیچھے رہ کر ٹی ٹی پی کے ذریعے پاکستان کے لیے مشکلات پیدا کرنے کی حکمت عملی پر کاربند ہے۔ زیرزمین مافیاز بھی اپنی بقاء کے لیے پاکستانی عوام کے مفادات کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ اس حقیقت کو جھٹلایا نہیں جا سکتا کہ پاکستان کے شمال مغرب میں جو ہمسائے ہیں، ان پر عالمی اقتصادی پابندیاں عائد ہیں۔
مشرقی ہمسایہ بھی پاکستان کے خلاف ہر قسم کے گروہوں کی مدد کے لیے ہمہ وقت تیار رہتا ہے۔ سب سے زیادہ افسوس اس بات پر ہے کہ افغانستان کی ہر حکومت نے اپنے اپنے دور میں ہمیشہ پاکستان کے مفادات کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی۔ افغانستان پر ظاہر شاہ حکمران ہو، سردار داؤد کی حکومت ہو، سوویت حمایت یافتہ سوسشلسٹ حکومت ہو، طالبان کی پہلی حکومت ، کرزئی اور اشرف غنی کی امریکی حمایت یافتہ ماڈریٹ حکومت ہو یا آج کی طالبان حکومت، سب نے پاکستان کے لیے ہمیشہ مشکلات پیدا کیں۔
پاکستان کے پالیسی ساز اور اسٹیک ہولڈرز چھہتر برس سے جس شمال مغربی اور مشرقی پالیسی پر عمل پیرا چلے آ رہے ہیں، اب اس پالیسی میں جوہری تبدیلیاں لانے کی ضرورت ہے۔ مقصد کسی سے جنگ یا دشمنی نہیں ہونا چاہیے بلکہ پہلا مقصد پاکستان کی جغرافیائی حدود میں بسنے والے شہریوں کی جان و مال کا تحفظ ہونا چاہیے۔
اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے خارجہ معاملات اور داخلی معاملات میں انقلابی تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔ ریاستی مشینری کی جوابدہی کے لیے نئے قوانین بنانے کی ضرورت ہے کیونکہ دہشت گرد گروہ اپنے نظریاتی اورمالی مفاداتی عناصر کو پاکستان کے سسٹم میں داخل کرانے میں کامیاب ہو چکے ہیں اس لیے سب سے پہلے ریاستی سسٹم کو اوورہال کیا جانا چاہیے۔
میڈیا نے ضلعی انتظامیہ کے حوالے سے خبر دی ہے کہ یہ خود کش دھماکا مستونگ کی مدینہ مسجد کے قریب ہوا،جمعتہ المبارک اور عید میلاد النبی کی وجہ سے نمازیوں کا رش تھا، کیونکہ نماز کے بعد لوگوں نے یہاں سے عیدمیلاد النبیؐ کے جلوس میں شرکت کرنا تھی۔
آئی جی پولیس بلوچستان عبدالخالق شیخ کے مطابق مستونگ دھماکے میں ڈی ایس پی نے خودکش بمبار کو روکتے ہوئے جام شہادت نوش کیا۔ صوبائی حکومت نے بلوچستان میں سانحہ مستونگ پر تین روزہ سوگ منانے کا اعلان کیا ہے۔
بلوچستان کے علاقے مستونگ میں مسجد کے قریب خودکش دھماکے کے بعد خیبر پختونخوا کے ضلع ہنگو میں ایک مسجد میں خود کش دھماکا ہوا، اس خود کش دھماکے میں 5 افراد شہید ہوئے جب کہ بارہ کے قریب افراد زخمی ہوئے۔ میڈیا کے مطابق یہ خودکش دھماکا تھانہ دوآبہ کے اندر مسجد میں نماز جمعہ کے خطبے کے دوران ہوا۔ دھماکے کے وقت مسجد کے اندر 30 سے 40 نمازی موجود تھے۔ خودکش دھماکا اتنا شدید تھا کہ مسجد کی چھت گر گئی اورنمازی ملبے میں دب گئے۔
ہنگو پولیس نے مسجد میں ہونے والے خودکش دھماکے کی ابتدائی رپورٹ میں بتایا ہے کہ دو خودکش حملہ آور مسجد میں داخل ہونے کے لیے پہنچے تھے، پولیس رپورٹ میں یہ دعویٰ کیا ہے کہ پولیس کی بروقت کارروائی کی وجہ سے جانی نقصان کم ہوا کیونکہ پولیس نے ایک خودکش حملہ آورکو مسجد کے باہر ہلاک کردیا جب کہ دوسرا خودکش حملہ آور مسجد میں داخل ہونے میں کامیاب ہوا اور اس نے اندر پہنچ کر خود کو دھماکے سے اڑا لیا۔پولیس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ حملہ آور کی آمد و رفت کے حوالے سے ہر پہلو سے تحقیقات جاری ہیں۔
ہنگو پولیس نے جو دعویٰ کیا ہے،اس میں کتنی صداقت ہے، اس کے بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا ہے البتہ جو سامنے کی حقیقت یہ ہے کہ مسجد کے اندر خود کش دھماکا ہوا، دھماکے کی شدت سے مسجد کی چھت گر گئی اور نمازی شہید ہوئے۔ اس سے یہ واضح ہو گیا کہ خودکش مسجد کے اندر داخل ہو گیا تھا۔ میڈیا نے ہنگو پولیس کے حوالے سے یہ خبر بھی دی ہے کہ خودکش حملہ آور اور پولیس اہلکاروں کے مابین فائرنگ کا تبادلہ بھی ہوا۔
فائرنگ کی آواز سن کر کئی نمازی مسجد سے باہر نکلنے میں کامیاب ہو گئے۔ اس لیے بھی جانی نقصان کم ہوا۔ یہ ابتدائی اطلاعات ہیں، ابھی مکمل تحقیقات نہیں ہوئی ہیں۔ اسی طرح بلوچستان کے ضلع مستونگ میں بھی خودکش دھماکا ہی ہوا ہے۔ یہاں شہداء کی تعداد پچاس سے بھی زیادہ ہے۔ اس سانحہ میں ایک ڈی ایس پی بھی شہید ہوا ہے۔ ان دونوں واقعات کو باہم یکجا کیا جائے تو دونوں خودکش دھماکوں کی ٹائمنگ ایک ہے اور دھماکوں کا پیٹرن بھی ایک جیسا ہی ہے۔
جن اضلاع میں یہ دھماکے ہوئے ہیں، وہ قبائلی طرز معاشرت والے علاقے ہیں اور ان اضلاع میں صوبائی انتظامیہ کا کنٹرول خاصا کمزور ہے۔ ضلعی انتظامیہ اور ضلعی پولیس کا انٹیلی جنس سسٹم نہ ہونے کے برابر ہے۔ پولیس کے پاس جدید ہتھیاروں اور جدید سکینرز بھی موجود نہیں ہیں۔ پولیس کی ٹریننگ اور کمٹمنٹ کا معیار بھی انتہائی پست ہے۔ ان علاقوں میں قبائلی سردار اور عمائدین وغیرہ طاقتور ہیں۔ ایسے کمزور انتظامی اسٹرکچر والے علاقوں میں دہشت گردی کی واردات کرنا زیادہ مشکل نہیں ہے۔
بلوچستان اور خیبرپختونخوا کی نگران حکومتوں کے اہم افراد روایتی مذمتی بیانات جاری کر کے اپنی ذمے داری ادا کر چکے ہیں۔ پولیس بھی یہ بتا چکی ہے کہ یہ خودکش دھماکے تھے، اور مزید تحقیقات جاری ہیں۔ یوں پولیس نے بھی اپنا فرض ادا کر دیا ہے۔ پاکستان کے نگران وزیراعظم سے لے کر تمام سیاسی جماعتوں کے قائدین نے بھی مذمتی بیانات جاری کر کے اپنا فرض ادا کر دیا ہے، یوں اب دہشت گردی کی اگلی واردات کا انتظار کیا جائے گا۔
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے بھی پاکستان میں دہشت گرد حملوں کی مذمت کی ہے۔ سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر اپنے مذمت بیان میں انھوں نے کہا ہے کہ میں جمعہ کو پاکستان میں ہونے والے دہشت گردانہ حملوں کی مذمت کرتا ہوں۔ انتونیو گوتریس نے مزید کہا ہے کہ یہ ایک گھناؤنا عمل ہے، حملوں کے ذمے داروں کا محاسبہ ہونا چاہیے۔
امریکا نے بھی بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں ہونے والے خودکش حملوں میں قیمتی جانوں کے ضیاع کی مذمت کی ہے۔ سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر اپنے مذمتی بیان میں امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نے کہا ہے کہ امریکا بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں ہونے والے خودکش حملوں کی مذمت کرتا ہے۔
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس اور امریکا کے محکمہ خارجہ کے ترجمان چترال میں ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں کے حملے کی بھی مذمت کر چکے ہیں۔ جناب انتونیو گوتریس نے تو یہ بھی کہہ رکھا ہے کہ افغانستان میں دہشت گردی اور منشیات اسمگلنگ پر عالمی برادری کو تشویش ہے۔ دہشت گردی اور منشیات کے کاروبار کا ایک دوسرے سے گہرا تعلق ہے۔ منشیات کی اسمگلنگ سے حاصل ہونے والی بھاری رقوم کے ذریعے دہشت گردی کے لیے وسائل پیدا کیے جاتے ہیں۔
افغانستان میں طویل جنگ وجدل میں شریک مختلف گروپس نے اپنے غیرمعمولی اخراجات پورے کرنے کے لیے اغوا برائے تاوان، بھتہ خوری اور راہداری جگا ٹیکس کی وصولی وغیرہ کا سہارا لیا لیکن منشیات کا کاروبار اور پوست کی وسیع پیمانے پر کاشت ان برسرپیکار گروپوں کے لیے سب سے بڑا مالی سورس تھا اور یہ سورس اب بھی قائم ہے۔
اسلحہ اور ڈرگز کا دھندہ عالمی سطح پر زیرزمین مافیا گینگز اور دہشت گردوں کی مالی معاونت کو ممکن بناتا ہے۔ اس معاشی لائف لائن کی وجہ سے دہشت گرد اور مافیا گینگز کا نیٹ ورک بہت وسعت اختیار کر گیا ہے اور ان کے پاس جدید ترین ہتھیار اور تربیت یافتہ لڑاکا فورس موجود ہے۔
ڈرگز فیکٹر دہشت گرد گروہوں کے فائٹرز اور سوئیسائیڈرز کو بے خوف اور احساسات سے عاری کر دیتا ہے۔ ان دونوں کا یہ باہمی میل ایک الگ طرح کی دہشت گردی کا باعث ہے جسے ماہرین Narcoterror کا نام دیتے ہیں۔ یوں دہشت گرد گروہ اور بلیک اکانومی پر قابض مافیاز آئینی اور قانونی نظام والی ریاستوں کے لیے سنگین خطرات کا باعث بن رہے ہیں کیونکہ انھیں کمزور نظام والی ریاستیں زیادہ سوٹ کرتی ہیں۔
سوچنے والی بات یہ ہے کہ امریکا اور یورپ کی پابندیوں کے باوجود یمن، صومالیہ اور دیگر ممالک میں لڑنے والے گروہ کیسے اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اسی طرح افغانستان میں طالبان کی حکومت پر بھی پابندیاں عائد ہیں لیکن اس کے باوجود اس حکومت کو کہیں نہ کہیں سے مالی سہارا مل رہا ہے۔ ادھر پاکستان ایک آرگنائزڈ ریاست ہونے کے باوجود معاشی بحران کا شکار ہے اور یہ بحران ابھی تک کم نہیں ہو رہا۔
پاکستان میں دہشت گردی کے پے در پے واقعات سے یہ حقیقت مزید واضح ہوجاتی ہے کہ دہشت گردوں کو پاکستان کے اندر سے بھی سہولت کاری مل رہی ہے۔ افغان طالبان اور ٹی پی پی کے درمیان گہرے رشتے اب ڈھکے چھپے نہیں رہے، افغانستان کی قیادت خود پیچھے رہ کر ٹی ٹی پی کے ذریعے پاکستان کے لیے مشکلات پیدا کرنے کی حکمت عملی پر کاربند ہے۔ زیرزمین مافیاز بھی اپنی بقاء کے لیے پاکستانی عوام کے مفادات کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ اس حقیقت کو جھٹلایا نہیں جا سکتا کہ پاکستان کے شمال مغرب میں جو ہمسائے ہیں، ان پر عالمی اقتصادی پابندیاں عائد ہیں۔
مشرقی ہمسایہ بھی پاکستان کے خلاف ہر قسم کے گروہوں کی مدد کے لیے ہمہ وقت تیار رہتا ہے۔ سب سے زیادہ افسوس اس بات پر ہے کہ افغانستان کی ہر حکومت نے اپنے اپنے دور میں ہمیشہ پاکستان کے مفادات کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی۔ افغانستان پر ظاہر شاہ حکمران ہو، سردار داؤد کی حکومت ہو، سوویت حمایت یافتہ سوسشلسٹ حکومت ہو، طالبان کی پہلی حکومت ، کرزئی اور اشرف غنی کی امریکی حمایت یافتہ ماڈریٹ حکومت ہو یا آج کی طالبان حکومت، سب نے پاکستان کے لیے ہمیشہ مشکلات پیدا کیں۔
پاکستان کے پالیسی ساز اور اسٹیک ہولڈرز چھہتر برس سے جس شمال مغربی اور مشرقی پالیسی پر عمل پیرا چلے آ رہے ہیں، اب اس پالیسی میں جوہری تبدیلیاں لانے کی ضرورت ہے۔ مقصد کسی سے جنگ یا دشمنی نہیں ہونا چاہیے بلکہ پہلا مقصد پاکستان کی جغرافیائی حدود میں بسنے والے شہریوں کی جان و مال کا تحفظ ہونا چاہیے۔
اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے خارجہ معاملات اور داخلی معاملات میں انقلابی تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔ ریاستی مشینری کی جوابدہی کے لیے نئے قوانین بنانے کی ضرورت ہے کیونکہ دہشت گرد گروہ اپنے نظریاتی اورمالی مفاداتی عناصر کو پاکستان کے سسٹم میں داخل کرانے میں کامیاب ہو چکے ہیں اس لیے سب سے پہلے ریاستی سسٹم کو اوورہال کیا جانا چاہیے۔