کلائنٹس سرپرست معیشت

مسئلہ وہاں پیدا ہوتا ہے جہاں سیاست اور معاشیات آپس میں ملتے ہیں

ہم میں سے شاید ہی کوئی ہو جسے اس سوال سے واسطہ نہ پڑا ہو؛ دنیا کے بیشتر ممالک مسائل کے باوجود ترقی کر رہے ہیں لیکن ہم ہیں کہ کولہو کے بیل کی طرح گھوم پھر کر وہیں کے وہیں ہیں۔ مسلسل حالت سفر میں ہیں ، سفر کی تھکان پاؤں سے اٹھ کر پورے بدن میں پھیل گئی ہے لیکن سفر ہے کہ کٹتا نہیں، آخر کیوں؟۔

ہم کسی گنبد بے در میں رہ رہے ہوتے تو معذرت خواہی کے جواب تراش لیتے لیکن کیا کیجیے کہ دنیا کی مسابقتی کھینچا تانی اور ہر طرح کا ڈیٹا اب اصل حقیقت جھٹ سے آشکار کر دیتا ہے۔ دنیا ہمارے خلاف ہے، ہم سے خوفزدہ ہے جیسے بیانئے اب حلق سے اترنے سے انکاری ہیں۔ نوجوان اور سوشل میڈیا گھسے پٹے جوابات سے مطمئن ہونے کے بجائے نئے اور تیکھے سوالات کرنے پر اتر آتے ہیں۔ روایتی اور اشرافیہ کے رٹے رٹائے جوابات کی گاہکی کم ہو گئی ہے۔

کچھ کمزور سہی مگر متوازن اور تاریخی شعور سے بہرہ ور چند آوازیں اس نقار خانے میں بہر طور بلند ہوتی رہی ہیں۔ خلاصہ جن کا کچھ یوں ہے کہ ملک کی گورننس اور معیشت اشرافیہ کی گرفت میں ہے۔ آئی ایم ایف کے دولت کدے پر ہر حکومت کی شرف باریابی اور مشکل فیصلوں کی آڑ میں مہنگائی، بجلی گیس تیل کی قیمتوں میں ڈھٹائی سے اضافہ، اسٹیس کو پالیسیوں کے تسلسل میں'' ہم ایک ہیں سب ایک ہیں'' جیسا مثالی اتحاد اس اشرافیہ کی شناخت اور سوچی سمجھی چال ہے۔

یہ باتیں ہم ایسے عام تام یا کچھ ماہرین کریں تو اشرافیہ اسے دامن پر ناخوشگوار چھینٹے کی طرح جھاڑ دیتے ہیں۔ تاہم یہی باتیں کوئی یورپی اور وہ بھی آکسفورڈ یونیورسٹی کا پروفیسر کرے تو ہماری اشرافیہ اور میڈیا اسے بادل ناخواستہ سننے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ اﷲ بھلا کرے اس ہفتے ایسے ہی ایک صاحب اسلام آباد کے مہمان تھے ، نگران وزیر خزانہ سمیت بہتوں سے ملے۔ ایکسپریس ٹریبیون کے ساتھی اور معروف معاشی نامی نگار شہباز رانا نے ان سے اس موضوع پر بہت عمدہ اور علمی گفتگو کی۔

دیکھنا تقریر کی لذت کہ جو اس نے کہا

میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے

برطانوی ماہر اقتصادیات اور آکسفورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر اسٹیفن ڈیرکون کا کہنا ہے کہ پاکستان کی اشرافیہ ایک کلائنٹسٹ سرپرست ریاست کے حصے کے طور پر وسائل اور طاقت پر قبضہ کرنے کی جنگ میں مصروف ہیں۔ ان کا محرک ملک میں اقتصادی ترقی اور ترقی کو ترجیح نہیں۔ اشرافیہ کے گروپوں کے درمیان'' جمود'' یعنی اسٹیشن کو ایک بنیادی سمجھوتہ ہے جس میں معروف سیاسی طبقے، معروف کاروباری طبقے، سول سوسائٹی کی شخصیات، سول سروس کے سرکردہ اراکین، دانشور اور صحافی شامل ہیں۔


ان کا خیال تھا کہ ان تمام گروہوں کا جمود کو برقرار رکھنے کے لیے ایک خاموش سمجھوتہ ہے جس میں ملکی ترقی بنیادی محرک نہیں ہے۔انھوں نے وضاحت کی کہ اشرافیہ کی معاشی پالیسیاں کلائنٹ ازم کی سرپرستی اور اقتدار کو برقرار رکھنے کی جستجو سے چلتی ہیں۔ جو لوگ اقتدار میں نہیں ہیں وہ اقتدار حاصل کرنے اور ریاست کو کنٹرول کرنے کے لیے کسی بھی استحکام میں خلل ڈالنے کی کوشش کریں گے۔

برطانوی ماہر معاشیات کی تشخیص درست معلوم ہوتی ہے، سیاسی جماعتیں بالعموم اقتدار میں آنے تک نظام کو مسلسل غیر مستحکم کرتی رہتی ہے جب تک اسے اقتدار میں حصہ نہیں مل جاتا، جس کے نتیجے میں ملک کی معیشت کو دھچکا ایک لازمی نتیجہ ہے۔ کئی تجزیہ کاروں نے ریاستی وسائل پر اشرافیہ کے قبضے اور جمہوری حکومتوں کو غیر مستحکم کرنے کے لیے ماضی کی کئی چالوں میں برضا و رغبت حصہ لینے کی پالیسی پر اسی بناء پر تنقید بھی کی۔

پاکستانی اشرافیہ کی توجہ جمود کو برقرار رکھنے اور کلائنٹ ازم کی سرپرستی کا ماحول برقرار رکھنے پر مرکوز رہی ہے۔ اس بات پر باہم سخت مقابلہ رہا کہ سرپرستی کس کو کرنی چاہیے۔ ان کے مطابق اسٹیٹس کو ناقابل برداشت اور پاکستان کے لیے نقصان دہ ہے، اور یہاں تک کہ اشرافیہ بھی اب ہار رہی ہے۔ انھوں نے ترقی اور ترقی کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لیے عوام کے مشترکہ مفادات کو بنیاد بنانے پر زور دیا۔

ڈیرکون کے مطابق کم ٹیکس وصولی اس اشرافیہ کی سوچی سمجھی چال ہے۔ اندھا دھند سبسڈیز، کم بچتیں اور سرمایہ کاری، خراب کاروباری ماحول کا مقصد براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کی حوصلہ شکنی کرنا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ یہ عوامل اکثر کمزور ریاستی فیصلہ سازی کا باعث بنتے ہیں جسکے نتیجے میں میکرو اکنامک مالیاتی بحران پیدا ہوتے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ اگرچہ کئی ایشیائی اور افریقی ممالک نے گزشتہ چند دہائیوں میں ترقی کی ہے، پاکستان فی کس جی ڈی پی کی شرح نمو کے لحاظ سے بھارت اور بنگلہ دیش سے پیچھے رہ گیا ہے۔ گھانا جیسے ممالک کا 1990 کی دہائی میں فی کس جی ڈی پی پاکستان کے برابر تھا لیکن اب وہ بھی اس سے آگے ہے۔

جن ممالک نے ترقی کی ہے ان کی جی ڈی پی فی کس شرح نمو 4 فیصد سے زیادہ سالانہ تھی۔ گھانا، ایتھوپیا، انڈونیشیا، سری لنکا، بنگلہ دیش، بھارت، اور چین نے 4.2% سے 12.7% کی حد میں سالانہ آمدنی میں اضافہ حاصل کیا۔اس کے برعکس، پاکستان اور نائیجیریا میں 1990 سے 2021 تک فی کس جی ڈی پی کی شرح نمو 2.6 فیصد تھی۔ جب کہ پاکستان 1990 میں گھانا کے برابر تھا، اب وہ ہندوستان اور بنگلہ دیش سے پیچھے ہے۔ ڈیرکون نے دلیل دی کہ ان ممالک کے مسائل میں گورننس، سیاسی مسائل اور بدعنوانی شامل ہیں۔ تاہم، یہ ممالک تب بھی ترقی کرنے میں کامیاب رہے۔

پاکستان کا مسئلہ قابلیت یا صلاحیت کی کمی نہیں ہے کیونکہ اس کے پاس ذہین اور قابل افراد موجود ہیں۔ مسئلہ وہاں پیدا ہوتا ہے جہاں سیاست اور معاشیات آپس میں ملتے ہیں۔ انھوں نے نشاندہی کی کہ اشرافیہ کے باہمی سمجھوتے عام طور پر اس بات کے گرد گھومتے ہیں کہ وسائل تک رسائی اور طاقتور عہدوں پر حکومت کیسے کی جائے۔ ڈیرکون نے نتیجہ اخذ کیا کہ ترقی اور گروتھ کے لیے اشرافیہ کا باہمی گٹھ جوڑ اسی ایک نکتے پر مرکوز ہے کہ وسائل پر مکمل دسترس اور کنٹرول کیسے ممکن بنایا جائے۔

کوئی بتلائے کہ ہم بتلائیں کیا!!
Load Next Story