مولانا جلال الدین رومی

مولانا رومی کی پیدائش سے چند سال پہلے صلاح الدین ایوبی اس دنیا سے وصال پاتے ہیں جو ایک کرد سپہ سالار تھے

Jvqazi@gmail.com

30 ستمبر مولانا جلال الدین رومی کی تاریخ پیدائش ہے، رومی 1207 میں پیدا ہوئے ، یہ بات ایک ہزار سال پہلے کی ہے، انھوں نے 66 برس کی عمر پائی۔

مولانا رومی نے محبت کی تشریح جس انداز سے کی ہے آج وہ تشریح کی نسبت مشرق و مغرب میں اور تمام مذاہب کے پیروکاروں میں وہ ہمارے سفیر ٹھہرتے ہیں۔ وقت گذرنے کے ساتھ ان کی اہمیت میں مزید وسعت اور نکھار آیا۔شاید محبت چیز ہی ایسی ہے، جس نے محبت کے سروں کو گایا وہ امر ہو گیا۔

مولانا رومی کی ادبیات اور شعر گوئی پر بہت تحقیق بھی کی گئی۔یہ تحقیقات نہ صرف مشرق میں کی گئیں بلکہ مغرب نے بھی مولانا رومی کی تصنیفات پر بہت کام کیا،مگرجو مادی پہلو ہیں ان کی ادبیات کے ان پر مروج طریقے سے ریسرچ کرکے پیش کیا جاسکتا ہے۔

مولانا رومی کی پیدائش سے چند سال پہلے صلاح الدین ایوبی اس دنیا سے وصال پاتے ہیں جو ایک کرد سپہ سالار تھے، جس نے عیسائیوں کو شکست دے کر ایک وسیع مسلم سلطنت قائم کی، جس کا پھیلاؤ مصر سے لے کر شام اور ترکی سے لے کر ایران تک تھا۔

مولانا رومی جب پچاس برس کے ہوئے تو تاتاریوں نے بغداد پر حملہ کیا،تاتاریوں نے بغداد کی دجلا و فراط کو لہو سے بھر دیا تھا ۔ تاتاریوں نے مسلمانوں کی اس قدیم تہذیب کو پامال کیا جو بعد کے ادوار میں پھر کبھی قائم نہ ہو سکی۔یہ سب کچھ مولانا رومی کی زندگی میں ہوا۔

خوارزمی، جابر بن حیان،البیرونی،ابن سینا، ابن خلدون اورایسے سیکڑوں جو فلسفے، کیمسٹری، فزکس، ریاضیات اور آرکیٹکچرکے بہت بڑے نام تھے، اس وقت صرف بغداد کی لائبریریاں ان کی تصنیفات سے مالامال تھیں اور باقی دنیا علم کے ان خزانوں سے محروم تھی۔ مولانا رومی اسی تہذیبی دور کی پیدائش ہیں،وہ ان ہی چراغوں کی روشنی تھے اور اسی تمدن کے امین تھے۔

ان ادوار میں مذہبی اجار ہ داری،شدت پسندی اور نفر توں کا بازار گرم تھا۔با دشاہوں نے ریاست کے دو ستونوں کو اپنے ساتھ شامل کرلیا یعنی قاضی اور ملا۔ ریاست کے اندر وہ سماج نہ تھا جو تہذیب کی روشنی میں پروان چڑھے اور علم کی روشنی میںپھلے پھولے۔

یہ وہ زمانے تھے جب رومی نے اپنا کام مخفی طور پر شروع کیا تاکہ وہ ظالموں کی نظروں میں نہ آسکیں۔مولانا رومی کی دو کتابیں شاعری کی، تیسری کتاب ''فیہ مافیہ '' نثر پر مبنی ہے مگر ان کا موضوع ہے محبت، جدائی، جمالیات کی وسعتوں پر قصے اور کہانیاں ہیں جس میں خدا کی قربت کے درس ہیں۔

مولانا رومی اپنی سوچ میں صوفی تھے،وحدت الوجود کی بات کرتے تھے، وہ بندے کو سمندر سے بچھڑا، ایک قطرہ سمجھتے تھے یعنی بندہ شعور ہے اپنی ذات میں اور اس قطرے کو واپس اسی سمندر میں جانا ہے۔یعنی انسان وحدت الشعور اور وحدت الوجود میں کی لڑیوں میں پڑا ایک موتی ہے جو وقت کی دھار پر چلتا ہے، چرخے کی مانند اور چلتے چلتے ایک دن اس نے وہیں چلے جانا ہے جہاں سے وہ آیا تھا۔


مولانا رومی نے یقینا رابعہ بصری کے فلسفے کو پڑھا ہوگا۔حضرت جیند بغدادی سے لے کر باقی تمام صوفیائے کرام کے سلسلے سے روایت پائی ہوگی مگر جو ادبیات رومی نے رقم کیں وہ بے بہا ہیں ۔مولانا رومی کی مثنوی اور تمام تحریر فارسی زبان میں ہے۔

جب ہندوستان میں مسلمانوں کی بادشاہت قائم ہوئی تو ان کے ساتھ فارسی زبان کی بھی آمد ہوئی تو یہ کیسے ممکن تھا، رومی کی مثنوی یہاں اپنے اثرات قائم نہ کرسکے کیونکہ اگر فارسی پڑھنا تھی تو رومی کو پڑھنا تھا۔وہ چند عظیم کتابیں تھیں فارسی زبان میں۔ ہمارے صوفی شاعر کبیر پیدا تو مسلمان گھرانے میں ہوئے تھے مگر ان کی پرورش ایک ہندو گھرانے میں ہوئی تھی۔اس کی بات محدود تصدیق پائی جاتی ہے کہ کبیر نے مولانا رومی کو پڑھا تھا یا سنا تھا مگر ان کی شاعری کے جو رنگ ہیں اس میں رومی کا خیال پایا جاتا ہے۔

ہمارے صوفی شاعر بلھے شاہ ، باہو یا پھر فرید، رومی کے بہت بعد میں آئے مگر ان کی شاعری میں کبیر بھی ہے اور رومی بھی ۔یہ تمام صوفی لوگ اپنے عہد کے باغی لوگ تھے۔ان کی بادشاہوں سے، مفتیوں اور قاضیوں سے بنتی نہیں تھی۔ریاست نے کبھی ان کو پروان نہ چڑھایا ، ریاست جب زبوں ہوئی تو بادشاہوں کی قبریں مٹ گئیں،قاضی اور مفتی باقی نہ رہے۔ نہ مٹی اگر تو وہ ہے ان کی قبریں تھیں، یہ صوفی اور سادھو لوگ تھے جو لوگوں کی دلوں میں سما گئے۔ ان کی قبریں ہمیشہ کے لیے آباد ہوئیں ، میلے لگ گئے۔

بد نصیبی یہ تھی کہ سماج کے معاشی نہ بدل سکے ان ولیوں اور پیروں کی گدیوں پر ان کے سجادہ نشین آکے بیٹھ گئے اور لوگ معصومیت میں یہ سمجھ بیٹھے کہ یہ بھی ان کی طرح ہی بڑی ہستیاں ہیں اور بعد میں آنیوالی ریاستوں نے لوگوں کو اسی توہم پرستی کے اندھیرے میں رہنے دیا تاکہ وہ تعلیم حاصل نہ کر سکیں، شعور نہ پاسکیں۔اس میں نہ رومی کا قصور ہے اور نہ ہی شاہ لطیف، باہو یا پھر بلھے شاہ جیسے عظیم صوفیوں کا، وہ سب توسادگی کی بات کرتے تھے، اپنی ذات کی نفی کرتے تھے ، انا کو دھوکا کہتے تھے، ایک پردہ تھا ہونے اور نہ ہونے میں، وہ تو اس کی بات کرتے تھے۔

میں نے رومی کو پڑھنے اور سمجھنے کی بہت کوشش کی، باوجود اس کے کہ میں ایک محدود دنیا اور اس کی معروض حقیقتوں میں رہنے والا شخص ہوں مگر سفر روح میں ان کی کئی باتیں روح کو چھونے لگتی ہیں۔ مولانا رومی کے والد نے مریدوں کی ایک بہت بڑی روایت اور گدی چھوڑی تھی، بہت عالم وفاضل تھے۔ روحانی سلسلے سے تعلق رکھتے تھے، پھر ان کو شمس تبریز مل گئے۔

شمس تبریز نے ان کو عشق سے روشناس کروایا، وہ جو بھی ان سے سوال کرتے مو لانا رومی اس کا جواب نہ دے پاتے۔وہ بیمار ہو گئے اور اپنے مریدوں کو کہا کہ جاؤ اور شمس تبریزکو لے آؤ جس نے راہ چلتے چلتے مجھ سے کچھ سوال پوچھے تھے ۔پھر مولانا ان کے ساتھ رہتے تھے۔وہ تبریز کو سنتے رہتے تھے۔ شمس تبریز وہاں سے شام چلے آئے ۔ ان کے جانے کے بعد مولانا رومی بیمار رہنے لگے۔ مولانا رومی کے چھوٹے بیٹے کا اس بات پر بڑے بھائی سے اختلاف پیدا ہوا اور وہ شام پہنچ گئے شمس تبریز کو واپس لانے کے لیے۔

شمس تبریز کو واپس لے آ ئے اور پھر مولانا رومی تندرست ہو گئے۔ ایک دن شمس تبریز ، مولانا رومی کے ساتھ باہر نکلے اور روایت ہے کہ شمس تبریز پلٹ کر واپس نہ آئے۔اس کے بعد مولانا رومی مجذوب بن گئے۔ مولانا رومی نے یہ مثنوی اپنے شاگرد کے اصرار پر کہی وہ کہتے گئے اور ان کے شاگرد یہ مثنوی رقم کرتے گئے۔اس کی ابتداء ہی''بشنو اینی'' ہے جس کا مطلب جدائی ہے۔ان کا ایک دیوان ہے جس کا عنوان ''دیوانِ شمس'' ہے۔

پھریوں کہیے کہ مولانا رومی نے باقی زندگی سے یہ فرق مٹا دیا کہ شمس کون ہے اور رومی کون ہے۔ مولانا رومی نے مجذوبیت کی چادر اوڑھ لی اور بازاروں میں دیوانہ وار جھومتے پھرتے نظر آتے۔رقص کرتے۔ کونیہ (ترکی) میں آج بھی ان کے مداح یہ رقص ان کے مزار پر کرتے ہیں۔

میری یہ چھوٹی سی تحریر ہے جومولانا رومی کے جنم دن جو کل تھا اس حوالے سے میں نے لکھی کی ہے۔میرے کاندھوں پر یہ قرض تھا کہ ان کے بارے میں کچھ لکھوں کہ میں ان کو اپنا مرشد مانتا ہوں۔میں اور میرا سندھ ان کے مرید شاہ بھٹائی کے گرد گھومتے ہیں۔

شاہ بھٹائی مہینوں سفر کرتے تھے، طویل خلوتوں میں رہتے تھے،ایسا گمان کیا جاتا تھاکہ شاید اب وہ اس دنیا میں نہیں رہے لیکن پھر وہ کہیں سے اونٹنی پر بیٹھے آجاتے تھے۔عجب اتفاق ہے کہ آج میری بھی عمر ساٹھ برس کو پہنچی۔عین اس دن جس دن رومی کی پیدائش کا دن ہے اور میں بھی وقت کے ہزاروں میل کی مسافت میں ہوں۔
Load Next Story