سفر کے غلط آغاز کا خمیازہ آخری حصہ
دکھ سے اعتراف کرنا چاہیے کہ اس حوالے سے ہم نے نہ صرف اپنا بڑا قیمتی وقت گنوا دیا
آزادی کے بعد جس سمت میں سفر کا آغاز کیا گیا تھا، اس کا ایک اور فطری نتیجہ 24 اکتوبر 1954 کو ہمارے سامنے آیا جس کے بعد مستقبل کا تاریک منظر نامہ سب کے سامنے کھل کر عیاں ہو گیا۔ اس تاریخ کو گورنر جنرل غلام محمد نے ایک اور وار کرتے ہوئے دستور ساز اسمبلی تحلیل کر دی۔ جب یہ اقدام کیا گیا تھا تو اس وقت آئین کی تشکیل کا عمل تمام رکاوٹوں کے باوجود بڑی حد تک مکمل ہو چکا تھا۔
مولوی تمیزالدین خان، قائداعظم کے انتقال کے بعد دستور ساز اسمبلی کے اسپیکر منتخب ہوئے تھے۔وہ مشرقی پاکستان کے شہر فریدپور کے متوسط گھرانے میں پیدا ہوئے تھے۔اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد وکالت کے پیشے سے وابستہ ہوئے اور پاکستان کا خواب آنکھوں میں سجائے مسلم لیگ میں سرگرم ہو گئے۔
گورنر جنرل کے اقدام کے خلاف انھوں نے سندھ چیف کورٹ(ہائی کورٹ) میں رٹ دائر کی اور یہ موقف اختیار کیا کہ گورنر جنرل کو اس اقدام کا آئینی اور قانونی اختیار حاصل نہیں تھا۔اسپیکر نے یہ بھی کہا کہ دستور ساز اسمبلی آئین سازی کا کام مکمل کر چکی ہے اور ملک میں کسی قسم کا کوئی آئینی یا سیاسی بحران نہیں ہے۔
دستور ساز اسمبلی کے صدر مولوی تمیز الدین خان نے جب گورنر جنرل غلام محمد کے غیرآئینی فیصلے کے خلاف سندھ چیف کورٹ جانے کا فیصلہ کیا تو ان کو روکنے کی پوری کوشش کی گئی۔ ان کے گھر پر پولیس کاپہرہ لگادیا گیا اور وہ برقعہ پہن کر گھر کے پچھلے دروازے سے باہر نکلے اور ایک رکشے میں بیٹھ کر غلام محمد کے فیصلے کو چیلنج کرنے کے لیے سندھ کورٹ جا پہنچے۔
چیف کورٹ کے چیف جسٹس جارج کانسٹنٹائین کی سربراہی میں قائم فل کورٹ نے 9 فروری1955 کو اپنے تاریخی فیصلے میں گورنر جنرل کے اقدام کو غیر قانونی اور غیر آئینی قرار دے کر اسمبلی کو بحال کر دیا۔اس فیصلے کے خلاف گورنر جنرل نے اس وقت کی وفاقی کورٹ(سپریم کورٹ) میں اپیل دائر کر دی۔
گورنر جنرل غلام محمد نے سندھ فیڈرل کورٹ میں اپنی مرضی کا فیصلہ کرانے کے لیے ایک سازش کے ذریعے اس وقت کے سینئر ترین بنگالی جج ایس ایم اکرم کے بجائے جونیئر جج جسٹس منیر کو فیڈرل کورٹ کا چیف جسٹس بنوایا بلکہ اپنی حامی بینچ بھی بنوائی۔
چیف جسٹس منیر احمد کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ نے21 مارچ 1955کو چار،ایک کی اکثریت سے سندھ چیف کورٹ کا فیصلہ کالعدم کر کے گورنر جنرل کے اقدام کو جائز قرار دے دیا۔عدالت نے حالات کو نازک مان کر گورنر جنرل کو حکومت کے معاملات چلانے کا اختیار بھی دے دیا۔اس فیصلے سے اختلاف کرنے والے واحد جج جسٹس کارنیلیئس تھے۔
جسٹس منیر کے مذکورہ فیصلے نے آنے والے آمروں کے لیے نظریہ ضرورت کے تحت ماورائے آئین مداخلتوں کی راہ ہموار کر دی۔اس تباہ کن فیصلے کے بعد پارلیمنٹ کی خود مختاری اور آئین کی بالا دستی محدود ہو کر رہ گئی، جمہوری عمل کا تسلسل ختم ہو گیا اور پائیدار و مستحکم جمہوریت کا قیام ایک خواب بن گیا۔
قیام پاکستان کے اس ابتدائی دور میں مزید دو ایسے اقدامات کیے گئے جن سے وفاق پاکستان کو سنگین نقصان پہنچا۔مغربی پاکستان کے تمام صوبوں اور علاقوں کا انضمام کر کے ایک یونٹ میں تبدیل کردیا گیا۔پاکستان وفاقی اکائیوں کے مشترکہ فیصلے سے وجود میں آیا تھا۔یہ صرف انتظامی نوعیت کی اکائیاں نہیں تھیں بلکہ ہزاروں سال کی تہذیبی اور ثقافتی شناخت رکھنے والی تاریخی اکائیاں تھیں اور پاکستان ، ان اکائیوں کے درمیان ایک عمرانی معاہدے کا نتیجہ تھا۔
ون یونٹ کی تجویز نومبر 1954 میں وزیراعظم محمد علی بوگرہ نے پیش کی تھی جسے1955 میں وزیراعظم چوہدری محمد علی نے عملی طور پر نافذ کر دیا۔ون یونٹ کے علاوہ پیریٹی(برابری)کے اصول کو منوانے کے لیے ہر حربہ استعمال کیا گیا۔اس اصول کے تحت مشرقی پاکستان کی عددی اکثریت ختم کر دی گئی۔ اس نامنصفانہ اصول کو منوانے کے بعد بھی1956 کے آئین کے مطابق 1958 میں عام انتخابات کرانے کے بجائے پورے ملک پر مارشل لا نافذ کر کے ملک کی سلامتی سے جو کھیل کھیلا گیا، اس کا نتیجہ 1971 میں ہم سب کے سامنے آچکا ہے۔
اپنی تخلیق کے محض 25 سال بعد ملک کا دو لخت ہوجانا ایک بڑا المناک واقعہ تھا۔ اسے المناک اس لیے کہنا چاہیے کہ مشرقی پاکستان میں رہنے والے پاکستانی اکثریت میں تھے۔ 1970 کے عام انتخابات میں انھیں پارلیمنٹ میں اکثریت حاصل ہو چکی تھی۔ تاریخ میں شاید ہی کوئی مثال ایسی ملے جہاں آبادی کی اکثریت نے ریاست سے الگ ہونے کا فیصلہ کیا ہوگا۔ عوامی لیگ مغربی بازو میں موجود اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر باآسانی اپنی حکومت بنا سکتی تھی۔ اس موضوع پر بہت کچھ لکھا اور کہا جاچکا ہے۔
ایک زیادہ تکلیف دہ امر یہ تھا کہ ہم نے ملک کے دو ٹکڑے ہوجانے سے بھی کوئی سبق حاصل نہیں کیا۔ سب جانتے ہیں کہ کتنی مشکلوں کے بعد عوام کے منتخب نمایندوں نے آئین بنانے پر اتفاق کیا۔ ملک کو ایک آئین اس وقت ملا جب دنیا کے نقشے پر 1947 میں تشکیل پانے والا پاکستان موجود نہیں تھا۔ 1973 کے آئین پر بھی عمل درآمد نہیں ہوسکا۔ پہلے منتخب وزیر اعظم اپنی آئینی معیاد پوری نہ کرسکے اور ان کا تختہ الٹ دیا گیا۔
1971 میں متحدہ پاکستان کی منتخب پارلیمنٹ میں اکثریتی جماعت کو اقتدار منتقل نہ کرکے ملک توڑ دیا گیا اور پھر 1977 میں ایک بار پھر باقی ماندہ پاکستان کی پارلیمنٹ کی اکثریتی جماعت کے وزیر اعظم کو اقتدار سے معزول کر کے تختہ دار پر چڑھا دیا گیا۔ اس صورتحال سے یہ حقیقت اجاگر ہوتی ہے کہ خواہ کوئی بھی سانحہ یا المیہ رونما کیوں نہ ہوجائے، ہم جمہوریت کی راہ پر چلنے سے گریزاں رہتے ہیں۔
جب تک دنیا میں سرد جنگ جاری تھی اس وقت تک امریکا اور اس کے اتحادی اپنے مفادات کے تحت ہماری کفالت کرتے رہے، اب حالات یکسر بدل چکے ہیں۔ اب ماضی کے دوست بھی غیر مشروط مدد کے لیے آمادہ نہیں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم معاشی طور پر تاریخ کے بدترین بحران کا شکار ہوچکے ہیں۔ پڑوسی ملک ہندوستان کی بات تو جانے دیں، نہ صرف بنگلہ دیش بلکہ جنوبی ایشیا کے ہر ملک کے معاشی اور انسانی ترقی کے اشاریے ہم سے کہیں بہتر ہیں۔
ہر نو آزاد ملک کے لیے اس کے ابتدائی سال فیصلہ کن اہمیت کے حامل ہوتے ہیں کیونکہ اس دوران ایک ایسے قابل عمل جمہوری نظام پر اتفاق رائے پیدا کر لیا جاتا ہے جس کے تحت ریاست میں شامل تمام شہریوں کو بلاامتیاز ،آزادی ،انسانی اور جمہوری حقوق کی مساوی فراہمی یقینی بنائی جاتی ہے۔
دکھ سے اعتراف کرنا چاہیے کہ اس حوالے سے ہم نے نہ صرف اپنا بڑا قیمتی وقت گنوا دیا بلکہ اپنے ان اہم ابتدائی برسوں میں ہر وہ کام کیا جس سے ہمیں ہر صورت میں گریز کرنا چاہیے تھا۔ درست سمت میں سفر کا آغاز کیا جاتا تو ہمیں آدھے ملک سے محروم نہ ہوناپڑتا اور پاکستان کوریا سے بھی آگے ہوتا۔بہت کچھ گنوانے کے بعد خود سے یہ سوال پوچھنا ہو گا کہ کیا ہم ماضی سے سبق سیکھنے اور ایک نئے سفر کا آغاز کرنے پر اب بھی تیار ہیں یا نہیں؟
مولوی تمیزالدین خان، قائداعظم کے انتقال کے بعد دستور ساز اسمبلی کے اسپیکر منتخب ہوئے تھے۔وہ مشرقی پاکستان کے شہر فریدپور کے متوسط گھرانے میں پیدا ہوئے تھے۔اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد وکالت کے پیشے سے وابستہ ہوئے اور پاکستان کا خواب آنکھوں میں سجائے مسلم لیگ میں سرگرم ہو گئے۔
گورنر جنرل کے اقدام کے خلاف انھوں نے سندھ چیف کورٹ(ہائی کورٹ) میں رٹ دائر کی اور یہ موقف اختیار کیا کہ گورنر جنرل کو اس اقدام کا آئینی اور قانونی اختیار حاصل نہیں تھا۔اسپیکر نے یہ بھی کہا کہ دستور ساز اسمبلی آئین سازی کا کام مکمل کر چکی ہے اور ملک میں کسی قسم کا کوئی آئینی یا سیاسی بحران نہیں ہے۔
دستور ساز اسمبلی کے صدر مولوی تمیز الدین خان نے جب گورنر جنرل غلام محمد کے غیرآئینی فیصلے کے خلاف سندھ چیف کورٹ جانے کا فیصلہ کیا تو ان کو روکنے کی پوری کوشش کی گئی۔ ان کے گھر پر پولیس کاپہرہ لگادیا گیا اور وہ برقعہ پہن کر گھر کے پچھلے دروازے سے باہر نکلے اور ایک رکشے میں بیٹھ کر غلام محمد کے فیصلے کو چیلنج کرنے کے لیے سندھ کورٹ جا پہنچے۔
چیف کورٹ کے چیف جسٹس جارج کانسٹنٹائین کی سربراہی میں قائم فل کورٹ نے 9 فروری1955 کو اپنے تاریخی فیصلے میں گورنر جنرل کے اقدام کو غیر قانونی اور غیر آئینی قرار دے کر اسمبلی کو بحال کر دیا۔اس فیصلے کے خلاف گورنر جنرل نے اس وقت کی وفاقی کورٹ(سپریم کورٹ) میں اپیل دائر کر دی۔
گورنر جنرل غلام محمد نے سندھ فیڈرل کورٹ میں اپنی مرضی کا فیصلہ کرانے کے لیے ایک سازش کے ذریعے اس وقت کے سینئر ترین بنگالی جج ایس ایم اکرم کے بجائے جونیئر جج جسٹس منیر کو فیڈرل کورٹ کا چیف جسٹس بنوایا بلکہ اپنی حامی بینچ بھی بنوائی۔
چیف جسٹس منیر احمد کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ نے21 مارچ 1955کو چار،ایک کی اکثریت سے سندھ چیف کورٹ کا فیصلہ کالعدم کر کے گورنر جنرل کے اقدام کو جائز قرار دے دیا۔عدالت نے حالات کو نازک مان کر گورنر جنرل کو حکومت کے معاملات چلانے کا اختیار بھی دے دیا۔اس فیصلے سے اختلاف کرنے والے واحد جج جسٹس کارنیلیئس تھے۔
جسٹس منیر کے مذکورہ فیصلے نے آنے والے آمروں کے لیے نظریہ ضرورت کے تحت ماورائے آئین مداخلتوں کی راہ ہموار کر دی۔اس تباہ کن فیصلے کے بعد پارلیمنٹ کی خود مختاری اور آئین کی بالا دستی محدود ہو کر رہ گئی، جمہوری عمل کا تسلسل ختم ہو گیا اور پائیدار و مستحکم جمہوریت کا قیام ایک خواب بن گیا۔
قیام پاکستان کے اس ابتدائی دور میں مزید دو ایسے اقدامات کیے گئے جن سے وفاق پاکستان کو سنگین نقصان پہنچا۔مغربی پاکستان کے تمام صوبوں اور علاقوں کا انضمام کر کے ایک یونٹ میں تبدیل کردیا گیا۔پاکستان وفاقی اکائیوں کے مشترکہ فیصلے سے وجود میں آیا تھا۔یہ صرف انتظامی نوعیت کی اکائیاں نہیں تھیں بلکہ ہزاروں سال کی تہذیبی اور ثقافتی شناخت رکھنے والی تاریخی اکائیاں تھیں اور پاکستان ، ان اکائیوں کے درمیان ایک عمرانی معاہدے کا نتیجہ تھا۔
ون یونٹ کی تجویز نومبر 1954 میں وزیراعظم محمد علی بوگرہ نے پیش کی تھی جسے1955 میں وزیراعظم چوہدری محمد علی نے عملی طور پر نافذ کر دیا۔ون یونٹ کے علاوہ پیریٹی(برابری)کے اصول کو منوانے کے لیے ہر حربہ استعمال کیا گیا۔اس اصول کے تحت مشرقی پاکستان کی عددی اکثریت ختم کر دی گئی۔ اس نامنصفانہ اصول کو منوانے کے بعد بھی1956 کے آئین کے مطابق 1958 میں عام انتخابات کرانے کے بجائے پورے ملک پر مارشل لا نافذ کر کے ملک کی سلامتی سے جو کھیل کھیلا گیا، اس کا نتیجہ 1971 میں ہم سب کے سامنے آچکا ہے۔
اپنی تخلیق کے محض 25 سال بعد ملک کا دو لخت ہوجانا ایک بڑا المناک واقعہ تھا۔ اسے المناک اس لیے کہنا چاہیے کہ مشرقی پاکستان میں رہنے والے پاکستانی اکثریت میں تھے۔ 1970 کے عام انتخابات میں انھیں پارلیمنٹ میں اکثریت حاصل ہو چکی تھی۔ تاریخ میں شاید ہی کوئی مثال ایسی ملے جہاں آبادی کی اکثریت نے ریاست سے الگ ہونے کا فیصلہ کیا ہوگا۔ عوامی لیگ مغربی بازو میں موجود اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر باآسانی اپنی حکومت بنا سکتی تھی۔ اس موضوع پر بہت کچھ لکھا اور کہا جاچکا ہے۔
ایک زیادہ تکلیف دہ امر یہ تھا کہ ہم نے ملک کے دو ٹکڑے ہوجانے سے بھی کوئی سبق حاصل نہیں کیا۔ سب جانتے ہیں کہ کتنی مشکلوں کے بعد عوام کے منتخب نمایندوں نے آئین بنانے پر اتفاق کیا۔ ملک کو ایک آئین اس وقت ملا جب دنیا کے نقشے پر 1947 میں تشکیل پانے والا پاکستان موجود نہیں تھا۔ 1973 کے آئین پر بھی عمل درآمد نہیں ہوسکا۔ پہلے منتخب وزیر اعظم اپنی آئینی معیاد پوری نہ کرسکے اور ان کا تختہ الٹ دیا گیا۔
1971 میں متحدہ پاکستان کی منتخب پارلیمنٹ میں اکثریتی جماعت کو اقتدار منتقل نہ کرکے ملک توڑ دیا گیا اور پھر 1977 میں ایک بار پھر باقی ماندہ پاکستان کی پارلیمنٹ کی اکثریتی جماعت کے وزیر اعظم کو اقتدار سے معزول کر کے تختہ دار پر چڑھا دیا گیا۔ اس صورتحال سے یہ حقیقت اجاگر ہوتی ہے کہ خواہ کوئی بھی سانحہ یا المیہ رونما کیوں نہ ہوجائے، ہم جمہوریت کی راہ پر چلنے سے گریزاں رہتے ہیں۔
جب تک دنیا میں سرد جنگ جاری تھی اس وقت تک امریکا اور اس کے اتحادی اپنے مفادات کے تحت ہماری کفالت کرتے رہے، اب حالات یکسر بدل چکے ہیں۔ اب ماضی کے دوست بھی غیر مشروط مدد کے لیے آمادہ نہیں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم معاشی طور پر تاریخ کے بدترین بحران کا شکار ہوچکے ہیں۔ پڑوسی ملک ہندوستان کی بات تو جانے دیں، نہ صرف بنگلہ دیش بلکہ جنوبی ایشیا کے ہر ملک کے معاشی اور انسانی ترقی کے اشاریے ہم سے کہیں بہتر ہیں۔
ہر نو آزاد ملک کے لیے اس کے ابتدائی سال فیصلہ کن اہمیت کے حامل ہوتے ہیں کیونکہ اس دوران ایک ایسے قابل عمل جمہوری نظام پر اتفاق رائے پیدا کر لیا جاتا ہے جس کے تحت ریاست میں شامل تمام شہریوں کو بلاامتیاز ،آزادی ،انسانی اور جمہوری حقوق کی مساوی فراہمی یقینی بنائی جاتی ہے۔
دکھ سے اعتراف کرنا چاہیے کہ اس حوالے سے ہم نے نہ صرف اپنا بڑا قیمتی وقت گنوا دیا بلکہ اپنے ان اہم ابتدائی برسوں میں ہر وہ کام کیا جس سے ہمیں ہر صورت میں گریز کرنا چاہیے تھا۔ درست سمت میں سفر کا آغاز کیا جاتا تو ہمیں آدھے ملک سے محروم نہ ہوناپڑتا اور پاکستان کوریا سے بھی آگے ہوتا۔بہت کچھ گنوانے کے بعد خود سے یہ سوال پوچھنا ہو گا کہ کیا ہم ماضی سے سبق سیکھنے اور ایک نئے سفر کا آغاز کرنے پر اب بھی تیار ہیں یا نہیں؟