سکھ قوم انصاف کی تلاش میں
بھارتی حکمران طبقے نے سکھوں کی تحریک آزادی دبانے کے لیے ظلم وستم کی انتہا کر دی
یہ بنی نوع انسان کی بہت بڑی بدقسمتی ہے کہ سائنس وٹکنالوجی کی جدتوں کے سبب اس نے آسائشوں بھری زندگی تو پا لی مگر اخلاقیات کے شعبے میں وہ اب بھی حیوانیات کے درجے سے بلند نہیں ہو سکا۔
خاص طور پہ عالمی سیاست میں عدل انصاف ، قانون، سچائی ، رحم ، محبت جیسے آفاقی اصولوں کا کم ہی گذر ہے اور حکمران طبقہ اپنے مفاد پورے کرنے کی خاطر ظاہر یا پوشیدہ ایسے لرزہ خیز اقدامات کر گذرتا ہے جنھیں دیکھ کر شیطان بھی حیرت و پریشانی سے کانپ اٹھتا ہو گا۔
سکھ قوم اور بھارتی حکمران طبقے کا معاملہ ہی دیکھیے ۔ آج لاکھوں سکھ بھارتی ریاست پنجاب میں اپنی آزاد وخودمختار مملکت ''خالصتان ''قائم کرنا چاہتے ہیں جہاں اکیس اضلاع میں سے سترہ اضلاع میں سکھوں کی اکثریت ہے۔
عدل وانصاف کا تقاضا یہ ہے کہ بھارتی حکومت اس معاملے پر ریاست میں رائے شماری یا ریفرنڈم کرا لے۔ جیسے سکاٹ لینڈ میں ہزارہا اسکاٹش باشندے برطانیہ سے الگ ہونا چاہتے ہیں۔ لہذا وہاں 2014ء میں ریفرنڈم کرایا گیا جس میں آزادی کے حامی اسکاٹشوں کو شکست ہو گئی۔ دو اقوام کے مابین آزادی و خودمختاری کا مسئلہ حل کرنے کا یہ صائب اور عدل و انصاف پہ مبنی طریقہ ہے۔
بھارتی حکمران طبقہ مگر پنجاب میں ریفرنڈم کرانے کو تیار نہیں بلکہ وہ خالصتان کے حامی سکھوںکا دشمن بن گیا۔ وہ انھیں ''دہشت گرد'' اور ''فسادی'' کہتا ہے۔اس نے ہر ممکن کوشش کی ہے کہ تحریک خالصتان ختم کر دی جائے مگر سکھوں میں اس کی مقبولیت کم نہیں ہو سکی۔ بلکہ بھارت کے باہر آباد لاکھوں سکھوں میں یہ تحریک بہت مقبول ہو گئی اور خالصتان بنانے کا مطالبہ زور پکڑ گیا۔
تحریک خالصتان کی مقبولیت جانچنے کی خاطر اس کے رہنما پچھلے ڈیرھ دو سال سے کینیڈا، برطانیہ، آسٹریلیا، امریکا، اٹلی اور دیگر ممالک میں ریفرنڈم کرا رہے ہیں ۔ ان ریفرنڈموں میں لاکھوں سکھوں نے خالصتان کے حق میں ووٹ ڈالے۔ ریفرنڈموں کی کامیابی نے بھارتی حکمران طبقے کو پریشان کر دیا اور اسے محسوس ہونے لگا کہ تحریک خالصتان خصوصاً پنجاب کی نوجوان سکھ نسل میں مقبول ہو سکتی ہے۔
یہ واضح رہے کہ سکھوں کی آزاد ریاست کا مطالبہ نئی بات نہیں بلکہ سکھ پچھلے ایک سو سال سے اس کے قیام کی کوششیں کر رہے ہیں۔ 1947ء میں گاندھی جی اور پنڈت نہرو نے سہانے سبز باغ دکھا کر سکھوں کو ساتھ ملا لیا۔
حتی کہ انھیں ایک ہندو ذیلی فرقہ قرار دے ڈالا۔ گو اس امر کو بیسشتر سکھ تسلیم نہیں کرتے۔بیسیویں صدی کی آخری دہائیوں میں بیرون بھارت مقیم سکھ خالصتان کے قیام کا مطالبہ کرنے لگے۔ اس تحریک کو 1984ء میں عالمی شہرت ملی جب بھارتی حکومت نے آزادی پسند سکھ لیڈر ، جرنیل سنگھ بھنڈروالا کے خلاف آپریشن بلیوسٹار شروع کیا اور اسے بے دردی سے مار ڈالا۔
بھارتی حکمران طبقہ پچھلے چالیس برس کے دوران خالصتان کے حامی سکھوں کی کثیر تعداد قتل کرا چکا۔ سکھ ان مقتولوں کو شہید کہتے اور ان کا احترام کرتے ہیں۔مقتولین میں تحریک خالصتان کے رہنما اور کارکن شامل ہیں۔حالیہ ریفرنڈموں کے بعد نوجوان سکھوں میں مطالبہ ِ خالصتان کی مقبولیت بھارتی حکمران طبقے کے لیے خطرے کی گھنٹی ثابت ہوئی۔
یہ طبقہ پنجاب پہ اپنا قبضہ برقرار رکھنا چاہتا ہے کہ یہ زرخیز علاقہ ہے۔ بھارت میں استمال ہونے والی کثیر گندم، چاول، گنا، سبزیاں اور پھل اسی ریاست میں پیدا ہوتے ہیں۔ اسی لیے پنجاب بھارت کی'' اناج کوٹھی ''کہلاتا ہے۔
بھارت میں آج ہندو قوم پسند نریندر مودی کی قیادت میں حکومت کر رہے ہیں۔ یہ متشدد اور انتہا پسند گروہ ہے جو اپنے مفادات اور فوائد کے لیے ظلم وجبر کو بھی روا سمجھتا ہے۔ چناں چہ مودی جنتا نے تحریک خالصتان ختم کرنے کے لیے فیصلہ کیا کہ اس کے سرگرم رہنماؤں اور کارکنوں کو قتل کر دیا جائے۔
یہی وجہ ہے، پچھلے ڈیرھ سال کے دوران دنیا بھر میں کئی سکھ رہنما پُراسرار حالات میں مارے جا چکے۔ سکھوں کی سبھی عالمی تنظیموں نے مقتولین کی موت کا ذمے دار بھارتی حکومت کو قرار دیا۔ اس سال مارے گئے اہم سکھ لیڈروں میں درج ذیل نمایاں ہیں:
٭... لاہور کے علاقے جوہر ٹاؤن میں ملک سردار سنگھ رہائش پذیر تھے۔ ان کا اصل نام پرمجیت سنگھ منجوار تھا وہ طویل عرصے سے ایک مسلح تنظیم، خالصتان کمانڈو فورس کے اہم رہنما چلے آرہے تھے۔ اکثر لوگ انھیں ہی تنظیم کا لیڈر قرار دیتے۔ جب بھارتی حکومت نے خالصتانی رہنماؤں پہ ظلم وستم کے پہاڑ توڑ دئیے تو وہ پاکستان چکے آئے اور یہاں سیاسی پناہ لے لی۔
پرمجیت سنگھ کا معمول تھا کہ وہ صبح کی سیر کرتے تھے۔ ساتھ میں ایک مسلح گارڈ ہوتا۔ انھیں علم تھا کہ بھارتی خفیہ ایجنسی، را کے غنڈے ان کی جان کے درپے ہیں۔ 6 مئی 2023ء کی صبح موٹرسائیکل پہ سوار دو افراد ان کے قریب پہنچے اور خودکار ہتھیاروں سے فائرنگ کر دی۔ گارڈ کو سنبھلنے کا موقع نہیں ملا۔پرمجیت سنگھ گولیاں لگنے کی وجہ سے وہیں دم توڑ گئے۔ گارڈ کی فائرنگ سے بھی ایک حملہ آور ہلاک ہوا۔
٭...12جون 2023ء ، لندن کے ایک اسپتال میں اوتار سنگھ کھنڈا کو تشویش ناک حالت میں لایا گیا۔ اوتار سنگھ برطانیہ میں تحریک آزادی خالصتان کے ممتاز رہنما تھے۔ سال رواں کے آغاز میں لندن ہائی کمیشن کے سامنے سکھوں نے قیام خالصتان کی خاطر بھرپور مظاہرہ کیا تھا۔ تب ہائی کمیشن پہ خالصتان کا جھنڈا بھی لہرایا گیا ۔اسے کامیاب بنانے میں اوتار سنگھ پیش پیش تھے۔ ان کا جوش وجذبے دوسرے سکھوں کو بھی ایسی ہمت عطا کرتا تھا کہ وہ ظالم وجابر بھارتی حکمرانوں سے ٹکرا جائیں۔اسپتال میں اوتار سنگھ کا علاج ہوا مگر وہ جانبر نہ ہو سکے اور پْراسرار حالات میں چل بسے۔ برطانیہ میں نامور سکھ رہنماؤں نے یہ خیال ظاہر کیا کہ اوتار سنگھ کو ''را''کے ایجنٹوں نے ایسا زہر دے کر مارا ہے جو اپنے پیچھے اثرات نہیں چھوڑتا۔ انھوں نے مقتول کو تحریک آزادی خالصتان کا شہید قرار دیا۔
٭...18 جون 2023 ء ، ہردیپ سنگھ نجر کینیڈا کے شہر، سرے میں واقع گردوارہ نانک سکھ کے باہر اپنی گاڑی میں بیٹھے تھے۔ وہ کینیڈا میں خالصتان کے حامی سکھ رہنماؤں میں ممتاز حیثیت رکھتے تھے۔ اچانک ایک گاڑی وہاں آئی جس میں تین افراد سوار تھے۔ انھوں نے ہردیپ سنگھ پہ فائرنگ کر دی۔آٹومیٹک رائفل کا پورا برسٹ ان کے جسم میں اتار دیا گیا۔ وہ وہیں جاں بحق ہو گئے۔
قتل کے درج بالا واقعات تین مختلف ممالک میں انجام پائے مگر ان میں ایک قدر مشترک ہے...یہ کہ تینوں قتل بھارتی حکمران طبقے کی ایما پہ اس کی خفیہ ایجنسی'' را ''کے ایجنٹوں نے انجام دئیے۔ یہ حقیقت 18 ستمبر کو کھل کر سامنے آئی جب کینیڈا کے وزیراعظم ،جسٹین ٹروڈو نے اپنی پارلیمان میں یہ بیان دے کر گویا بم پھوڑ دیا کہ ہردیپ سنگھ نجر کے قتل میں بھارتی حکمران طبقہ ملوث ہے۔بعد ازاں کینیڈین حکومت نے ایک بھارتی سفارتکار، پوّن کمہار رائے کو ملک سے نکال باہر کیا جو کینیڈا میں ''را''کا سربراہ تھا۔ کینیڈین سکھوں نے اپنی حکومت سے مطالبہ کیا کہ بھارت کے سفیر کو بھی ملک بدر کیا جائے۔
یاد رہے کہ عالمی سیاست میں مفادات و فوائد کے چلن کی وجہ سے خاص طور پہ عالمی طاقتیں قانون و انصاف کی مٹی پلید ہی کرتی ہیں۔ مثلاً ماضی میں مغربی قوتوں نے جدید اسلحے کے بل بوتے پہ کئی اسلامی ممالک پر قبضہ کر لیا۔ جب وہاں مجاہدین نے آزادی پانے اور مغربی استعمار کے خاتمے کے لیے تحریکیں چلائیں تو انھیں ''دہشت گرد''قرار دے دیا گیا۔یوں مغربی طاقتوں نے تحریک آزادی اور دہشت گردی کو غلط ملط کر دیا حالانکہ یہ دو بالکل مختلف عمل ہیں۔ یہ طرز فکر آج تک چلا آ رہا ہے۔
بھارت کا حکمران طبقہ پچھلے پچھتر برس سے کشمیری مسلمانوں پہ ظلم ستم کر رہا ہے۔ وہ سکھوں کی طرح مسلمانان ِ جموں وکشمیر کو بھی ریفرنڈم کرانے کا حق نہیں دینا چاہتا۔ جب ریاست کے مسلمانوں نے تحریک آزادی کا آغاز کیا تو بھارتی حکومت نے لاکھوں مجاہدین شہید کرا دئیے اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ اس دوران مقبوضہ جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے نام پر کینیڈین حکمران طبقے نے وقتاً فوقتاً بھارتی حکومت کو تنقید کا نشانہ ضرور بنایا مگر اُس کو مسلمانان ِ ریاست پہ ظلم وستم سے روکنے کے لیے کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھایا، بلکہ کئی شعبوں میں بھارتی حکومت کو کینیڈا کا مالی تعاون حاصل رہا۔
اب کینیڈین حکومت کو مرچیں اس لیے لگی ہیں اور وہ تلملا رہی ہے کہ بھارتی خفیہ ایجنسی ''را''نے کینیڈا کی سرزمین پہ اپنا ایک شکار مار کر ثابت کر دیا کہ را کینیڈا جیسے اہم مغربی ملک میں بھی بہت اثرورسوخ رکھتی ہے۔ یہی نہیں، بھارتی خفیہ ایجنسی نے خالصتان کے حامی سکھوں کے خلاف کارروائیاں کرتے کرتے کینیڈا کو اپنا گڑھ بنا لیا کیونکہ وہاں بڑی تعداد میں سکھ آباد ہیں جو خالصتان کا قیام چاہتے ہیں۔ جب یہ حقیقت سامنے آئی تو کینیڈین اسٹیبلشمنٹ حیران پریشان ہو گئی۔ اس کو محسوس ہوا کہ بھارتی حکمران طبقے نے کینیڈا کی خودمختاری، آزادی اور سلامتی پہ حملہ کیا اور کینیڈین حکومت کی عزت داؤ پہ لگا دی۔
امریکا وبرطانیہ ،دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کم کرانے کی بھرپور کوششیں کررہے ہیں کیونکہ وہ بھارت کو ساتھ ملا کر اسے چین کے خلاف کھڑا کرنا چاہتے ہیں۔ لہذا لگتا یہی ہے کہ رفتہ رفتہ کشیدگی کم ہو جائے گی۔ مگر کینیڈین وزیراعظم کے الزامات سے یہ سچائی کھل کر سامنے آ گئی کہ بھارتی حکمران طبقہ دہشت گرد ، ظالم اور مطلبی ہے جو اپنے مفادات کی تکمیل کے لیے ہر غیر اخلاقی و قانونی عمل اپنا لینے کو بھی بجا سمجھتا ہے۔ مگر مغربی ملک تو ایک طرف، کئی اسلامی ممالک بھی صرف معاشی ومادی مفاد کی خاطر تمام تلخ وچشم کشا سچائیوں سے صرف نظر کر بھارتی حکمرانوں کے ساتھ دوستی کی پینگیں جھول رہے ہیں۔بقول شاعر
غیرت زدہ تو ڈوب گیا ایک بوند میں
بے غیرتوں کو کوئی سمندر نہیں ملا
خاص طور پہ عالمی سیاست میں عدل انصاف ، قانون، سچائی ، رحم ، محبت جیسے آفاقی اصولوں کا کم ہی گذر ہے اور حکمران طبقہ اپنے مفاد پورے کرنے کی خاطر ظاہر یا پوشیدہ ایسے لرزہ خیز اقدامات کر گذرتا ہے جنھیں دیکھ کر شیطان بھی حیرت و پریشانی سے کانپ اٹھتا ہو گا۔
سکھ قوم اور بھارتی حکمران طبقے کا معاملہ ہی دیکھیے ۔ آج لاکھوں سکھ بھارتی ریاست پنجاب میں اپنی آزاد وخودمختار مملکت ''خالصتان ''قائم کرنا چاہتے ہیں جہاں اکیس اضلاع میں سے سترہ اضلاع میں سکھوں کی اکثریت ہے۔
عدل وانصاف کا تقاضا یہ ہے کہ بھارتی حکومت اس معاملے پر ریاست میں رائے شماری یا ریفرنڈم کرا لے۔ جیسے سکاٹ لینڈ میں ہزارہا اسکاٹش باشندے برطانیہ سے الگ ہونا چاہتے ہیں۔ لہذا وہاں 2014ء میں ریفرنڈم کرایا گیا جس میں آزادی کے حامی اسکاٹشوں کو شکست ہو گئی۔ دو اقوام کے مابین آزادی و خودمختاری کا مسئلہ حل کرنے کا یہ صائب اور عدل و انصاف پہ مبنی طریقہ ہے۔
بھارتی حکمران طبقہ مگر پنجاب میں ریفرنڈم کرانے کو تیار نہیں بلکہ وہ خالصتان کے حامی سکھوںکا دشمن بن گیا۔ وہ انھیں ''دہشت گرد'' اور ''فسادی'' کہتا ہے۔اس نے ہر ممکن کوشش کی ہے کہ تحریک خالصتان ختم کر دی جائے مگر سکھوں میں اس کی مقبولیت کم نہیں ہو سکی۔ بلکہ بھارت کے باہر آباد لاکھوں سکھوں میں یہ تحریک بہت مقبول ہو گئی اور خالصتان بنانے کا مطالبہ زور پکڑ گیا۔
تحریک خالصتان کی مقبولیت جانچنے کی خاطر اس کے رہنما پچھلے ڈیرھ دو سال سے کینیڈا، برطانیہ، آسٹریلیا، امریکا، اٹلی اور دیگر ممالک میں ریفرنڈم کرا رہے ہیں ۔ ان ریفرنڈموں میں لاکھوں سکھوں نے خالصتان کے حق میں ووٹ ڈالے۔ ریفرنڈموں کی کامیابی نے بھارتی حکمران طبقے کو پریشان کر دیا اور اسے محسوس ہونے لگا کہ تحریک خالصتان خصوصاً پنجاب کی نوجوان سکھ نسل میں مقبول ہو سکتی ہے۔
یہ واضح رہے کہ سکھوں کی آزاد ریاست کا مطالبہ نئی بات نہیں بلکہ سکھ پچھلے ایک سو سال سے اس کے قیام کی کوششیں کر رہے ہیں۔ 1947ء میں گاندھی جی اور پنڈت نہرو نے سہانے سبز باغ دکھا کر سکھوں کو ساتھ ملا لیا۔
حتی کہ انھیں ایک ہندو ذیلی فرقہ قرار دے ڈالا۔ گو اس امر کو بیسشتر سکھ تسلیم نہیں کرتے۔بیسیویں صدی کی آخری دہائیوں میں بیرون بھارت مقیم سکھ خالصتان کے قیام کا مطالبہ کرنے لگے۔ اس تحریک کو 1984ء میں عالمی شہرت ملی جب بھارتی حکومت نے آزادی پسند سکھ لیڈر ، جرنیل سنگھ بھنڈروالا کے خلاف آپریشن بلیوسٹار شروع کیا اور اسے بے دردی سے مار ڈالا۔
بھارتی حکمران طبقہ پچھلے چالیس برس کے دوران خالصتان کے حامی سکھوں کی کثیر تعداد قتل کرا چکا۔ سکھ ان مقتولوں کو شہید کہتے اور ان کا احترام کرتے ہیں۔مقتولین میں تحریک خالصتان کے رہنما اور کارکن شامل ہیں۔حالیہ ریفرنڈموں کے بعد نوجوان سکھوں میں مطالبہ ِ خالصتان کی مقبولیت بھارتی حکمران طبقے کے لیے خطرے کی گھنٹی ثابت ہوئی۔
یہ طبقہ پنجاب پہ اپنا قبضہ برقرار رکھنا چاہتا ہے کہ یہ زرخیز علاقہ ہے۔ بھارت میں استمال ہونے والی کثیر گندم، چاول، گنا، سبزیاں اور پھل اسی ریاست میں پیدا ہوتے ہیں۔ اسی لیے پنجاب بھارت کی'' اناج کوٹھی ''کہلاتا ہے۔
بھارت میں آج ہندو قوم پسند نریندر مودی کی قیادت میں حکومت کر رہے ہیں۔ یہ متشدد اور انتہا پسند گروہ ہے جو اپنے مفادات اور فوائد کے لیے ظلم وجبر کو بھی روا سمجھتا ہے۔ چناں چہ مودی جنتا نے تحریک خالصتان ختم کرنے کے لیے فیصلہ کیا کہ اس کے سرگرم رہنماؤں اور کارکنوں کو قتل کر دیا جائے۔
یہی وجہ ہے، پچھلے ڈیرھ سال کے دوران دنیا بھر میں کئی سکھ رہنما پُراسرار حالات میں مارے جا چکے۔ سکھوں کی سبھی عالمی تنظیموں نے مقتولین کی موت کا ذمے دار بھارتی حکومت کو قرار دیا۔ اس سال مارے گئے اہم سکھ لیڈروں میں درج ذیل نمایاں ہیں:
٭... لاہور کے علاقے جوہر ٹاؤن میں ملک سردار سنگھ رہائش پذیر تھے۔ ان کا اصل نام پرمجیت سنگھ منجوار تھا وہ طویل عرصے سے ایک مسلح تنظیم، خالصتان کمانڈو فورس کے اہم رہنما چلے آرہے تھے۔ اکثر لوگ انھیں ہی تنظیم کا لیڈر قرار دیتے۔ جب بھارتی حکومت نے خالصتانی رہنماؤں پہ ظلم وستم کے پہاڑ توڑ دئیے تو وہ پاکستان چکے آئے اور یہاں سیاسی پناہ لے لی۔
پرمجیت سنگھ کا معمول تھا کہ وہ صبح کی سیر کرتے تھے۔ ساتھ میں ایک مسلح گارڈ ہوتا۔ انھیں علم تھا کہ بھارتی خفیہ ایجنسی، را کے غنڈے ان کی جان کے درپے ہیں۔ 6 مئی 2023ء کی صبح موٹرسائیکل پہ سوار دو افراد ان کے قریب پہنچے اور خودکار ہتھیاروں سے فائرنگ کر دی۔ گارڈ کو سنبھلنے کا موقع نہیں ملا۔پرمجیت سنگھ گولیاں لگنے کی وجہ سے وہیں دم توڑ گئے۔ گارڈ کی فائرنگ سے بھی ایک حملہ آور ہلاک ہوا۔
٭...12جون 2023ء ، لندن کے ایک اسپتال میں اوتار سنگھ کھنڈا کو تشویش ناک حالت میں لایا گیا۔ اوتار سنگھ برطانیہ میں تحریک آزادی خالصتان کے ممتاز رہنما تھے۔ سال رواں کے آغاز میں لندن ہائی کمیشن کے سامنے سکھوں نے قیام خالصتان کی خاطر بھرپور مظاہرہ کیا تھا۔ تب ہائی کمیشن پہ خالصتان کا جھنڈا بھی لہرایا گیا ۔اسے کامیاب بنانے میں اوتار سنگھ پیش پیش تھے۔ ان کا جوش وجذبے دوسرے سکھوں کو بھی ایسی ہمت عطا کرتا تھا کہ وہ ظالم وجابر بھارتی حکمرانوں سے ٹکرا جائیں۔اسپتال میں اوتار سنگھ کا علاج ہوا مگر وہ جانبر نہ ہو سکے اور پْراسرار حالات میں چل بسے۔ برطانیہ میں نامور سکھ رہنماؤں نے یہ خیال ظاہر کیا کہ اوتار سنگھ کو ''را''کے ایجنٹوں نے ایسا زہر دے کر مارا ہے جو اپنے پیچھے اثرات نہیں چھوڑتا۔ انھوں نے مقتول کو تحریک آزادی خالصتان کا شہید قرار دیا۔
٭...18 جون 2023 ء ، ہردیپ سنگھ نجر کینیڈا کے شہر، سرے میں واقع گردوارہ نانک سکھ کے باہر اپنی گاڑی میں بیٹھے تھے۔ وہ کینیڈا میں خالصتان کے حامی سکھ رہنماؤں میں ممتاز حیثیت رکھتے تھے۔ اچانک ایک گاڑی وہاں آئی جس میں تین افراد سوار تھے۔ انھوں نے ہردیپ سنگھ پہ فائرنگ کر دی۔آٹومیٹک رائفل کا پورا برسٹ ان کے جسم میں اتار دیا گیا۔ وہ وہیں جاں بحق ہو گئے۔
قتل کے درج بالا واقعات تین مختلف ممالک میں انجام پائے مگر ان میں ایک قدر مشترک ہے...یہ کہ تینوں قتل بھارتی حکمران طبقے کی ایما پہ اس کی خفیہ ایجنسی'' را ''کے ایجنٹوں نے انجام دئیے۔ یہ حقیقت 18 ستمبر کو کھل کر سامنے آئی جب کینیڈا کے وزیراعظم ،جسٹین ٹروڈو نے اپنی پارلیمان میں یہ بیان دے کر گویا بم پھوڑ دیا کہ ہردیپ سنگھ نجر کے قتل میں بھارتی حکمران طبقہ ملوث ہے۔بعد ازاں کینیڈین حکومت نے ایک بھارتی سفارتکار، پوّن کمہار رائے کو ملک سے نکال باہر کیا جو کینیڈا میں ''را''کا سربراہ تھا۔ کینیڈین سکھوں نے اپنی حکومت سے مطالبہ کیا کہ بھارت کے سفیر کو بھی ملک بدر کیا جائے۔
یاد رہے کہ عالمی سیاست میں مفادات و فوائد کے چلن کی وجہ سے خاص طور پہ عالمی طاقتیں قانون و انصاف کی مٹی پلید ہی کرتی ہیں۔ مثلاً ماضی میں مغربی قوتوں نے جدید اسلحے کے بل بوتے پہ کئی اسلامی ممالک پر قبضہ کر لیا۔ جب وہاں مجاہدین نے آزادی پانے اور مغربی استعمار کے خاتمے کے لیے تحریکیں چلائیں تو انھیں ''دہشت گرد''قرار دے دیا گیا۔یوں مغربی طاقتوں نے تحریک آزادی اور دہشت گردی کو غلط ملط کر دیا حالانکہ یہ دو بالکل مختلف عمل ہیں۔ یہ طرز فکر آج تک چلا آ رہا ہے۔
بھارت کا حکمران طبقہ پچھلے پچھتر برس سے کشمیری مسلمانوں پہ ظلم ستم کر رہا ہے۔ وہ سکھوں کی طرح مسلمانان ِ جموں وکشمیر کو بھی ریفرنڈم کرانے کا حق نہیں دینا چاہتا۔ جب ریاست کے مسلمانوں نے تحریک آزادی کا آغاز کیا تو بھارتی حکومت نے لاکھوں مجاہدین شہید کرا دئیے اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ اس دوران مقبوضہ جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے نام پر کینیڈین حکمران طبقے نے وقتاً فوقتاً بھارتی حکومت کو تنقید کا نشانہ ضرور بنایا مگر اُس کو مسلمانان ِ ریاست پہ ظلم وستم سے روکنے کے لیے کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھایا، بلکہ کئی شعبوں میں بھارتی حکومت کو کینیڈا کا مالی تعاون حاصل رہا۔
اب کینیڈین حکومت کو مرچیں اس لیے لگی ہیں اور وہ تلملا رہی ہے کہ بھارتی خفیہ ایجنسی ''را''نے کینیڈا کی سرزمین پہ اپنا ایک شکار مار کر ثابت کر دیا کہ را کینیڈا جیسے اہم مغربی ملک میں بھی بہت اثرورسوخ رکھتی ہے۔ یہی نہیں، بھارتی خفیہ ایجنسی نے خالصتان کے حامی سکھوں کے خلاف کارروائیاں کرتے کرتے کینیڈا کو اپنا گڑھ بنا لیا کیونکہ وہاں بڑی تعداد میں سکھ آباد ہیں جو خالصتان کا قیام چاہتے ہیں۔ جب یہ حقیقت سامنے آئی تو کینیڈین اسٹیبلشمنٹ حیران پریشان ہو گئی۔ اس کو محسوس ہوا کہ بھارتی حکمران طبقے نے کینیڈا کی خودمختاری، آزادی اور سلامتی پہ حملہ کیا اور کینیڈین حکومت کی عزت داؤ پہ لگا دی۔
امریکا وبرطانیہ ،دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کم کرانے کی بھرپور کوششیں کررہے ہیں کیونکہ وہ بھارت کو ساتھ ملا کر اسے چین کے خلاف کھڑا کرنا چاہتے ہیں۔ لہذا لگتا یہی ہے کہ رفتہ رفتہ کشیدگی کم ہو جائے گی۔ مگر کینیڈین وزیراعظم کے الزامات سے یہ سچائی کھل کر سامنے آ گئی کہ بھارتی حکمران طبقہ دہشت گرد ، ظالم اور مطلبی ہے جو اپنے مفادات کی تکمیل کے لیے ہر غیر اخلاقی و قانونی عمل اپنا لینے کو بھی بجا سمجھتا ہے۔ مگر مغربی ملک تو ایک طرف، کئی اسلامی ممالک بھی صرف معاشی ومادی مفاد کی خاطر تمام تلخ وچشم کشا سچائیوں سے صرف نظر کر بھارتی حکمرانوں کے ساتھ دوستی کی پینگیں جھول رہے ہیں۔بقول شاعر
غیرت زدہ تو ڈوب گیا ایک بوند میں
بے غیرتوں کو کوئی سمندر نہیں ملا