سخن آرائیاں

شعراء و ادباء کی حاضرجوابی، فقرے بازی، بذلہ سنجی، برجستہ گوئی اور خوش کلامی کے واقعات

شعراء و ادباء کی حاضرجوابی، فقرے بازی، بذلہ سنجی، برجستہ گوئی اور خوش کلامی کے واقعات

(دوسری قسط )

شیخ ناسخؔ ایک دن نواب نصیر الدین حیدر کے حضور میں حاضر تھے۔ حقہ سامنے تھا، فرمایا کہ شیخ صاحب اس پر کچھ کہیے، تو ناسخ ؔنے فی البدیہہ یہ کہا:

؎حقہ جو ہے حضورِ معلٰی کے ہاتھ میں

گویا کہ کہکشاں ہے ثریا کے ہاتھ میں

ناسخؔ یہ سب بجا ہے ولیکن تو عرض کر

بے جان بولتا ہے مسیحا کے ہاتھ میں

مولوی نظام الدین صاحب کا مرزا رفیع سودا ؔسے کافی گہرا ربط و ضبط تھا۔ ایک دن وہ اور سودا ؔ دونوں ایک خیمے میں بیٹھے ہوئے تھے کہ خیمہ کے ایک چھوٹے سے سوراخ سے شعاعِ آفتاب چھن کر فرش پر پڑ رہی تھی۔

یوں معلوم ہوتا تھا گویا فرش پر کوئی موتی پڑا ہے۔ مولوی صاحب نے سودا ؔکی توجہ شعاع کی جانب مبذول کراتے ہوئے کہا،''حضرت! حسبِ حال کچھ فی البدیہہ ہوجائے؟''مرزا ؔنے شعاع پر نظر کی اور ذرا سی فکر کے بعد بولے:

؎عرصۂ دنیا میں اپنا تنگ کیا کاشانہ ہے

پرتو خورشید یاں موتی کا جیسے دانہ ہے

ابوالکلام آزادؔ جن دنوں قلعہ احمد نگر میں نظر بند تھے، ان دنوں قلعے کے احاطے میں انہوں نے باغ بانی کا شغل شروع کیا۔ ان کے ساتھ بنال کے ایک صاحب تھے جنہوں نے بتایا کہ اگر پھول کے پودوں کو حیوانی خون سے سینچا جائے تو ان میں نباتاتی درجے سے بلند ہوکر حیوانی درجے میں قدم رکھنے کا ولولہ پیدا ہوجائے گا اور یوں بڑھوتری کے معاملے میں یہ ہفتوں کی راہ دنوں میں طے کرنے لگیں گے۔

لہٰذا قلعے کے فوجی میس میں ذبح ہونے والی مرغیوں کا خون نئے کاشت کیے جانے والے پودوں کی جڑوں میں ڈالنے کا فیصلہ ہوا۔ اس پر ابولکلام آزاد ؔنے ایک شعر کہا:

؎کلیوں میںاہتزاز ہے پروازِحسن کی!

سینچا تھا کس نے باغ کو مرغی کے خون سے؟

اب اگر دوسرے مصرعے میں ''مرغی'' کی جگہؔ ''بلبل'' کر دیجیے تو خیال کے حوالے اچھا خاصا شعر ہوجائے گا۔

جوش ؔملیسانی ایک بار مشاعرے میں شرکت کے لیے کراچی آئے۔ انہوں نے سر پر پگڑی باندھ رکھی تھی۔ جوش ؔصاحب نے کئی افراد کو اپنی پگڑی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے دیکھا تو یہ شعر کہا:

؎جوشؔ جب تک بزم میں شامل رہے

انگلیاں اٹھتی رہیں دستار پر

اکبرؔالہ آبادی علامہ اقبال ؔکے مخلص دوست تھے، مگر ان کے کچھ نظریات سے اختلاف بھی تھا۔ خواجہ حسن نظامی کے نام اپنے ایک خط میں تحریر کرتے ہیں کہ ''اقبالؔ کی ستائش ان کا حق بنتا ہے اور میرا فرض، مگر اس طرح کہ:

؎آپ کے ہاتھ میں میں ہاتھ نہیں دے سکتا

داد دیتا ہوں مگر ساتھ نہیں دے سکتا!!!

''دربارِدُربار'' جیسے نثری شاہ کار سے شہرت پانے والے نظام حیدرآباد دکن کے دربار سے وابستہ شاعر صدق ؔجائسی کو ہجوگوئی میں بھی ملکہ حاصل تھا۔ اگرچہ بہت کم کہتے تھے، مگر ہجو میں بھی تہذیب اور شائستگی کا خیال اور ابتذال سے اپنا قلم پاک رکھتے۔

انہوں نے دہلی کے یک پروفیسر کی ہجو لکھی جس کے پیر میں ہلکا سا لنگ تھا۔ پروفیسر صاحب کبھی کبھی اپنی بیوی اور سالی کو لے کر ہوا خواری کے لیے نکلتے تھے۔ صدق ؔنے درج ذیل صورت کو برجستگی سے اپنے ہجویہ شعر میں اس طرح ڈھالا:

؎اک غیرتِ فجری ہے، اک رشکِ دسہری ہے

اور بیچ میں دونوں کے لنگڑا نظر آتا ہے

جب علی گڑھ کالج کے سیکریٹری نواب وقارالملک اور علی گڑھ کالج کے پرنسپل آرچ بولڈ کے مابین لڑائی ہوئی تو اس لڑائی میں نواب صاحب کا پلڑا بھاری رہا اور آرچ بولڈ کو مستعفی ہونا پڑا۔ اس موقع پر اکبرؔ الہ آبادی نے درج ذیل شعر کہا:

؎کالج کے در پہ لکھ دے کوئی آبِ گولڈ سے

خم ہوسکے نہ سیکرٹری ،آرچ بولڈ سے

ورنگل انٹر کالج میں سالانہ مشاعرہ منعقد ہوا۔ مشاعرے میں کالج کے پرنسپل اسماعیل ذبیح ؔنے اپنی غزل کا مطلع پڑھا:

؎نکلنے کوتو حسرت وصل کی اے نازنیں نکلی

مگر جیسی نکلنی چاہیے ویسی نہیں نکلی

ہال کے ایک گوشے سے آواز آئی، ''حضور!! ہماری رائے میں نازنین کا اتنا قصور نہیں، جتنا آپ کا ہے۔''

تحریک خلافت کے دوران جب علی برادران بریلی شہر پہنچے تو ان کے اعزاز میں ایک دعوت کا اہتمام کیا گیا، جس کے شرکاء میں امرائے شہر کے علاوہ صاحبان قلم بھی شامل تھے۔

ان حضرات میں موجود بریلی کے شاعر محمد خلیل حیرانؔ بھی شامل تھے، جنہوں نے تحریک کے دوران مسلمانوں کی بیداری کو اس انداز میں قلم بند کیا اور شرکاء کے گوش گزار کیا:

؎اب فرد بن رہی ہے قوم

لونڈی سے غلام ہوگئی ہے

نوائے وقت میں حالات حاضرہ پر اپنے قطعات اور سر راہے کے مصنف کی حیثیت سے شہرت پانے والے وقارؔ انبالوی کہتے ہیں کہ جب مجھے میرے بڑے بیٹے نے اطلاع دی کہ اس کے ہاں بیٹا پیدا ہوا ہے اور میں دادا بن گیا ہوں تو میں نے اس موقع پر ارتجالاً شعر کہا:

؎دشمنِ جاں ہے میری اولاد بھی

مجھ کو دلدادہ سے دادا کر دیا

جگرؔ مرادآبادی سردار عبدالرب نشتر ؔسے ملنے ان کے دفتر تشریف لے گئے۔ اس وقت وہ وزیر تھے، سو ان تک رسائی کچھ آسان نہ تھی۔

چوکی دار نے سمجھا کوئی مانگنے والا فرریاد لے کر آیا ہو گا۔ چناںچہ اس نے بے اعتنائی برتی۔ اس کے رویے سے نالاں ہوکر جگرؔ صاحب نے کاغذ کے ایک پرزے پر ایک مصرعہ لکھا اور سردار عبدالرب نشترؔ کی طرف بھجوایا۔ مصرع درج ذیل تھا:

؎نشتر ؔکو ملنے آیا ہوں میرا جگرؔ بھی دیکھ

جونہی کاغذ کا ٹکڑا اندر گیا تو سردار عبدالرب نشتر ؔبنفس نفیس اپنے دفتر سے باہر تشریف لائے اور جگر ؔصاحب کو عزت و احترام سے ساتھ لے گئے۔

لنگڑا آم بنارس سے لکھنؤ میںپنجاب میل کے ذریعے پہنچتا تھا۔ دوپہر کو لکھنؤ ریلوے اسٹیشن پر اس کے پارسل اہالیانِ لکھنؤ وصول کرتے تھے، جس پر ظریف لکھنوی نے کہا:

؎آتا ہے دوپہر میں بنارس سے لکھنؤ

کیا تیز رو ہے آم وہ لنگڑا کہیں جسے

خواجہ حسن نظامی نے اپنی عمر کے آخری حصے میں جب یہ حیرت انگیز انکشاف کیا کہ جارج برنارڈ شا بھی میرے مریدوں میں شامل ہوگئے ہیں تو تلوک چند محروم نے بے اختیار یہ قطعہ کہا:

؎خواجہ حسن نظامی نے کل بزم میں کہا

برنارڈ شا بھی میرے مریدوں میں مل گیا


یاد آیا مجھ کو ذوق کا مصرعہ یہ بر محل

'' کم بخت پاک ہوکے پلیدوں میں مل گیا''

ہندوستان کے شہر حیدرآباد میں محلہ ملک پیٹھ سے کچھ فاصلے پر درگاہ ''حضرت اجالے شاہ'' موجود ہے۔ وہاں نیاز کے لیے صرف سفید مرغوں کو ذبح کرنے کی اجازت ہے۔

شاید اجالے کی نسبت سے سفید رنگ کو ہی موزوں سمجھا گیا ہو۔ کسی منچلے نے اس روایت کے بارے میں شعر کہا جو بہت مشہور ہوا:

؎دن دہاڑے سیکڑوں مرغوں کا خوں

یا ''اجالے شاہ ''کیا اندھیر ہے!!

فروری ۱۹۲۶ میں ملکۂ برطانیہ کو پاکستان کا دورہ کرنا تھا۔ پاکستان کے قومی و مقامی سطح کے اخبارات نے ملکہ کی توصیف و تعریف میں ایڈیشنز چھاپنے شروع کردیے، مگر جنگ اخبار کے قطعہ نگار رئیسؔ امروہوی نے اس انداز میں۱۰ فروری کے جنگ میں دیگر اخباروں پر طنز کرتے ہوئے لکھا:

؎کشورِپاک میں سلطانۂ برٹش کا نزول

اور وہ شاہانہ سفر عالمِ سیاحی میں

کیوں نہ ہم لوگ پڑھیں ڈٹ کے قصیدے ان کے

پانچویں پشت ہے انگریز کی مداحی میں

اڑیسہ کے ایک مشاعرے کی صدارت وہاں کے وزیرِاعلٰی ڈاکٹر ہرے کشن مہتابؔ کو دی گئی، جو سیاہ رنگت کے حامل تھے۔ مشاعرے میںشامل مزاحیہ شاعر ظریف جبل پوری نہ صاحب ِ صدارت کی شخصیت سے واقف تھے اور نہ ان کے نام سے۔ انہوں نے ایک غزل پڑھی جس میں یہ شعر پڑھا:

؎چہرے پہ چمکتی ہے سیاہی ہی سیاہی

نام آپ کا مہتاب ہے معلوم نہیں کیوں؟

شعر پڑھنے کی دیر تھی کہ پوری محفل کشتِ زعفران بن گئی۔

میرا ؔجی چوںکہ شادی کے جھنجھٹ سے آزاد تھے۔ سو ان کے چھوٹے بھائی ایم آئی لطیفی ؔنے ان کا ایک شعر سنایا:

؎زباں سے کہہ نہیں سکتا کسی کا باپ ہوں میں

کہ اپنی نسل کے فقرے کا فل سٹاپ ہوں میں

ایک محفل میں جب صاحبان ذوق مومن خان مومنؔ کا درج ذیل شعر پڑھ کر جھوم رہے تھے:

؎تم میرے پاس ہوتے ہو گویا

جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا

قریب بیٹھے ظفر ؔعظیم آبادی صاحب نے داد وتحسین کے شور میں معمولی وقفہ آنے پر فرمایا،''حضرات! کہیں ایسا تو نہیں کہ مومن ؔنے مذکورہ شعر کا دوسرا مصرعہ اس طرح کہا ہو:

؎جب کوئی ''تیسرا'' نہیں ہوتا

اور محفل لوٹ پوٹ ہوگئی۔

شاعروادیب غلام حسین ساجدؔ نے جب اپنے زمانۂ طالب علمی میں اورینٹیئل کالج کی طلباء یونین کا الیکشن لڑا تو ان کے پوسٹر پر ان کی عینک والی تصویر کے نیچے ان کے مخالفین نے درج ذیل شعر لکھ دیا:

؎جانے کس ووٹ کی تلاش میں ہیں

تیری شو کیس میں سجی آنکھیں

مشہور فلمی پرڈیوسر سر آغا گل نے نخشب ذکی ؔکیفی اور علامہ ماہرؔ القادری کو چائے پر بلایا اور دونوں سے رخصت کرتے ہوئے اصرار کیا کہ ہمارے اسٹوڈیو میں فلم ''شورش'' کی شوٹنگ چل رہی ہے کچھ مناظر دیکھتے جائیے۔ وہ رک گئے۔ اسی اثناء میں وہاں شورش ؔکاشمیری اور حمید نظامی بھی پہنچ گئے۔ اگلے دن شورش ؔنے ماہرؔ القادری کو گذشتہ رات والے واقعے کو یاد کر کے چھیڑا اور کہا کہ میں اس پر نظم کہوں گا، جس پہ ماہرؔالقادری نے کہا میں نے نظم شروع بھی کردی ہے۔ یہ کہتے ہوئے شعر پڑھا:

؎لطف لینے کا جہاں جذبہ بھی تھا، کوشش بھی تھی

ہائے وہ محفل جہاں ''شورش'' بھی تھا، شورش بھی تھی

فراق ؔ گورکھ پوری صاحب لال قلعے کے مشاعرے میں شرکت کے لیے دلی تشریف لائے۔ مشاعرے میں ساحرؔ لدھیانوی سے ملاقات ہوئی تو بولے''ساحرؔ ! آج کل تم آثار ِقدیمہ کی بہت اچھی شاعری کر رہے ہو، تاج محل پر کیا خوب لکھا ہے:

؎اک شہنشاہ نے دولت کا سہارا لے کر

ہم غریبوں کی محبت کا اڑایا ہے مذاق

میرے محبوب کہیں اور ملا کر مجھ کو

اب ایسا کرو جامع مسجد دلی پر بھی ایک نظم لکھ ڈالو:

؎اک شہنشاہ نے دولت کا سہارالے کر

ہم غریبوں کی عبادت کا اڑایا ہے مذاق

میرے اللہ کہیں اور ملا کر مجھ کو

ظہور آزر ؔلاہور ریڈیو سٹیشن کے ڈائریکٹر مقرر ہوئے تو ریڈیو کے ملازم اور شاعر پرویز شامی نے اس تعیناتی پر درج ذیل قطعہ لکھا:

؎یہ دیپ مالا ہے راگوں کی آ گ کا گھر ہے

اسی میں دکھتا براہیم کا مقدر ہے

بتو! بناؤ سنوارو نگار خانے کو

کہ گھر میں آج تمہارے ''ظہورِ آزر'' ہے

ساغرؔ نظامی کی بہن بھی شاعرہ تھیں اور مینا ؔتخلص رکھتی تھیں۔ ساغرؔ صاحب کی ماجد ؔحیدرآبادی سے چشمکیں چلتی تھیں۔ اس لیے ساغرؔ صاحب مشاعرے میں اس شرط پر جاتے تھے کہ ماجدؔ کو نہیں بلایا جائے گا۔ ایک مشاعرے میں صدارت ساغرؔ نظامی کی تھی۔ چوںکہ ماجدؔ صاحب مدعو نہیں تھے اس لیے وہ مشاعرہ سننے کے لیے سامعین میں آکر بیٹھ گئے۔

لوگوں کو جب پتا چلا تو سب نے شور مچا دیا کہ ماجد ؔصاحب کو ضرور سنیں گے اور مجبوراً منتظمین کو ماجد صاحب کو دعوت سخن دینی پڑی۔ ماجدؔ مائیک پر آئے اور کہنے لگے ''چوںکہ مجھے مدعو نہیں کیا گیا تھا اس لیے کوئی غزل ساتھ نہیں ہے، البتہ دو شعر فی البدیہہ کہے ہیں، جناب صدر اجازت دیں تو پیش کروں۔ ساغرؔ صاحب نے بادلِ ناخواستہ اجازت دی جس پر ماجدؔ صاحب نے درج ذیل دو شعر سنائے:

؎پھر آگیا ہے لوگو برسات کا مہینہ

لازم ہوا ہے اب تو سب کو شراب پینا

پہنچا جو میکدے میں حیران رہ گیا میں

الٹا پڑا تھا 'ساغر' اوندھی پڑی تھی' مینا'
Load Next Story