معہ برادران فرزندان و دختران
ہر رکن اسمبلی کو اپنے حلقوں میں ترقیاتی کام کروانے کے لیے بجٹ سے کروڑوں روپے دیے جاتے ہیں
ہمارے ملک میں اسمبلیوں کے اندر اور اسمبلیوں کے باہر حکمرانوں پر سخت تنقید تو ہوتی ہے لیکن چونکہ یہ تنقید حکمرانوں کی بد عنوانیوں کی تفصیل اور لوٹ مار کے حقائق کے بغیر ایک رسمی سی تنقید ہوتی ہے جس کی وجہ سے عوام اس کا نوٹس سنجیدگی سے نہیں لیتے۔ مثلاً حکمرانوں پر اربوں روپوں کی لوٹ مار کے الزامات تو لگائے جاتے ہیں لیکن اس لوٹ مار کی تفصیلات اور مستند حوالے نہیں دیے جاتے اس لیے نہ عوام پر اس کا کوئی خاص اثر ہوتا ہے نہ خواص ہی ان الزامات کا سنجیدگی سے جائزہ لیتے ہیں۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ الزامات کو صحیح ثابت کرنے اور عوام میں اس کے خلاف رد عمل پیدا کرنے کے لیے لوٹ مار، بد عنوانیوں کے مستند اعداد و شمار حاصل کرنے کی ضرورت ہوتی ہے، چونکہ سیاسی اشرافیہ اور حکمران طبقات اب یہ دھندے غیر معمولی احتیاط، مکمل رازداری اور ممکنہ تحفظات کے ساتھ کر رہے ہیں اس لیے لوٹ مار کی ان وارداتوں کے ثبوت حاصل کرنے کے لیے بہت محنت کرنی پڑتی ہے، بہت پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ اس فرینڈلی تنقید اور الزام تراشی کی ایک وجہ یہ بھی ہوتی ہے کہ چونکہ تنقید کرنے اور حکومت پر الزام لگانے والوں کو یہ احساس بھی رہتا ہے کہ کل کلاں کو اگر وہ اقتدار میں آئیں تو پھر ان کو بھی با ثبوت الزامات کا سامنا کرنا پڑے گا۔
ہر رکن اسمبلی کو اپنے حلقوں میں ترقیاتی کام کروانے کے لیے بجٹ سے کروڑوں روپے دیے جاتے ہیں، لیکن کسی کو پتہ نہیں ہوتا کہ ان بھاری رقوم کا استعمال کس طرح ہو رہا ہے، کتنا روپیہ ترقیاتی کاموں پر لگایا جا رہا ہے کتنی رقم بد عنوانیوں کا شکار ہو رہی ہے۔ مرکز اور صوبوں کے بجٹ میں اربوں روپے مختلف ترقیاتی پروگراموں کے لیے مخصوص کیے جاتے ہیں لیکن ان کے غلط یا صحیح استعمال کا کسی کو کچھ پتہ نہیں چلتا جو لوگ ان خطیر رقومات کا ترقیاتی استعمال کرتے ہیں اگر وہ حکومت کو اس کی تفصیلات سے آگاہ بھی کرتے ہیں تو اس کا کوئی ثبوت نہیں ہوتا کہ ان کی فراہم کردہ تفصیلات درست ہیں یا غلط۔ آئی ایم ایف، ورلڈ بینک، ایشیائی بینک اور ترقی یافتہ ملکوں کی طرف سے قرضوں اور امداد کی شکل میں اربوں ڈالر ملتے ہیں، لیکن کیا یہ اربوں ڈالر کا استعمال درست ہو رہا ہے؟ اس کا کسی کے پاس کوئی جواب نہیں۔
اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ ان اربوں ڈالر کے استعمال کے حوالے سے ہمارے پاس کوئی کڑا غیر جانبدار بے خوف ہر قسم کے دبائو سے آزاد مانیٹرنگ نظام سرے سے موجود نہیں جو نام نہاد سسٹم موجود ہے ان میں چونکہ اسی طبقے کے لوگ شامل ہوتے ہیں لہٰذا یہ سسٹم کرپشن کو روک تو نہیں سکتا البتہ اسے تحفظ ضرور فراہم کر سکتا ہے۔ ایک تازہ مثال اس حوالے سے یہ دی جا سکتی ہے کہ ہمارے برادر ملک سعودی عرب نے از راہ عنایت ہمیں ڈیڑھ ارب ڈالر بطور تحفہ عنایت کیے جو متنازعہ ہونے کے باوجود پاکستان کے خزانے میں آ گئے لیکن اس بھاری رقم کا استعمال اس طرح ہو رہا ہے کہاں ہو رہا ہے کون کر رہا ہے، اس کا کسی کو پتہ نہیں۔
حال ہی میں آئی ایم ایف سے اربوں ڈالر کے قرضوں کی قسطیں ملی نہیں لیکن یہ اربوں ڈالر کہاں خرچ ہو رہے ہیں اس کا بے چارے عوام کو کچھ پتہ نہیں، ہمارے محترم وزیر خزانہ نے یورو بانڈ کی فروخت سے بھی بھاری سرمایہ حاصل کیا لیکن اس کے خرچ کی تفصیلات سے عوام نا واقف ہیں۔ چین ہمارے ملک کے مختلف منصوبوں میں اربوں ڈالر لگا رہا ہے کیا اس کا استعمال شفاف ہو رہا ہے؟ اس قسم کے سوالات اس لیے اٹھ رہے ہیں کہ ان کھربوں ڈالر کے استعمال کی مانیٹرنگ کے لیے ہمارے ملک میں کوئی با اختیار آزاد اور غیر جانبدار ادارہ موجود نہیں جو نام نہاد ادارے موجود ہیں ان پر عوام قطعی اعتماد کرنے کے لیے تیار نہیں۔
یہ مسئلہ صرف ہمارے ہی ملک کا نہیں بلکہ تمام ترقی پذیر ملکوں میں ایسی ہی اربوں ڈالر کی کھلی لوٹ مار کا سلسلہ جاری ہے اس کی ایک ظاہری وجہ تو یہی ہے کہ کسی ملک میں آزاد اور با اختیار مانیٹرنگ سسٹم موجود نہیں اس کی دوسری بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم جس نظام میں زندہ ہیں اس کے خمیر ہی میں کرپشن شامل ہے، قرض اور امداد کی ابتدا سے خرچ اور استعمال تک ہر جگہ ہر قدم پر کرپشن موجود ہے اور اس کی گہرائی اور گیرائی کا عالم یہ ہے کہ کوئی ملک کوئی حکمران کوئی سیاسی ایلیٹ اس لوٹ مار سے بچی ہوئی نہیں جس طرف آنکھ اٹھائیں تیری تصویر ہے۔
اس حوالے سے ہم ایک اور دلچسپ پہلو کا ذکر ضروری سمجھتے ہیں ہمارے ملک کا شاید ہی کوئی ایسا قومی ادارہ ہو جس پر اربوں روپوں کی کرپشن کے الزامات نہ ہوں ایک ادارے کے سربراہ پر 86 ارب روپوں کی کرپشن کا الزام لگا اور میڈیا میں یہ خبریں بھی آئیں کہ اس شخص کو ملک کی رولنگ پارٹی کے ایک معتبر عوامی رہنما نے ملک سے فرار کرایا۔ بڑی مشکلوں سے بڑی مدت کے بعداسے عرب امارات سے گرفتار کر کے ملک میں لایا گیا۔ اب اس کا کیس چل رہا ہے، بندہ مذکور ضمانت پر ہے۔ ہماری عدلیہ 2007ء کے بعد آزاد ہو گئی ہے جس کا مشاہدہ پاکستان کے عوام قدم قدم پر کر رہے ہیں لیکن ہم اپنی اس نا اہلی کو تسلیم کرنے میں ذرا برابر شرم محسوس نہیں کرتے کہ ہم اس کے مفہوم سے نابلد ہیں۔کوئی ایسی مہم چلائی جانی چاہیے تاکہ ہمیں بھی اس کا مفہوم و معنی معلوم ہو سکے۔
ہماری سیاسی ایلیٹ اور جمہوری بادشاہ اپنے اقتدار کو موروثی بنانے کے لیے کیسی کیسی شاندار ترکیبیں استعمال کر رہے ہیں اس پر خواص کی نظر بھی نہیں جا رہی ہے بے چارے عوام بادشاہوں اور ان کے ولی عہدوں کے کارناموں پر عش عش کر رہے ہیں عوام کی دولت بیرونی امداد اور مالیاتی اداروں سے جو اربوں ڈالر مل رہے ہیں ان سے اربوں روپوں کے پروجیکٹ شروع کیے جا رہے ہیں لیکن ان پروجیکٹوں کے فیتے ہمارے جمہوری بادشاہوں کی آل اولاد کاٹ کر ان پروجیکٹوں کو اپنے نام کر رہی ہے اور اپنے ناموں کی تختیاں لگوا رہی ہے۔
یعنی ''حلوائی کی دکان پر دادا جی کا فاتحہ'' حالانکہ ہونا یہ چاہیے تھا کہ ان پروجیکٹوں پر ان عوام دوست زندہ اور مرحوم لوگوں کے نام کی تختیاں لگتیں جنھوں نے اپنی ساری زندگی اس استحصالی نظام کو بدلنے کی جد و جہد میں گزار دی تو شاعروں، ادیبوں، دانشوروں کے ناموں کی تختیاں لگتیں۔ جمہوری بادشاہوں نے حصول دولت کے جو نئے نئے طریقے ایجاد کیے ہیں کہا جا رہا ہے کہ ان میں ایک محفوظ طریقہ یہ ہے کہ بیرونی ملکوں کے دوروں کے دوران نجی کاروبار کے اربوں ڈالر کے منصوبوں کو بھی فائنل کیا جا رہا ہے جس کی کسی کو ہوا لگنے نہیں دی جا رہی ہے۔جب غیر ملکی حکمران ہمارے حکمرانوں کو سرکاری دورے کی دعوت دیتے ہیں تو کیا دعوت نامے میں ''حکمران معہ برادران، فرزندان و دختران'' بھی لکھتے ہیں۔؟
اس کی وجہ یہ ہے کہ الزامات کو صحیح ثابت کرنے اور عوام میں اس کے خلاف رد عمل پیدا کرنے کے لیے لوٹ مار، بد عنوانیوں کے مستند اعداد و شمار حاصل کرنے کی ضرورت ہوتی ہے، چونکہ سیاسی اشرافیہ اور حکمران طبقات اب یہ دھندے غیر معمولی احتیاط، مکمل رازداری اور ممکنہ تحفظات کے ساتھ کر رہے ہیں اس لیے لوٹ مار کی ان وارداتوں کے ثبوت حاصل کرنے کے لیے بہت محنت کرنی پڑتی ہے، بہت پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ اس فرینڈلی تنقید اور الزام تراشی کی ایک وجہ یہ بھی ہوتی ہے کہ چونکہ تنقید کرنے اور حکومت پر الزام لگانے والوں کو یہ احساس بھی رہتا ہے کہ کل کلاں کو اگر وہ اقتدار میں آئیں تو پھر ان کو بھی با ثبوت الزامات کا سامنا کرنا پڑے گا۔
ہر رکن اسمبلی کو اپنے حلقوں میں ترقیاتی کام کروانے کے لیے بجٹ سے کروڑوں روپے دیے جاتے ہیں، لیکن کسی کو پتہ نہیں ہوتا کہ ان بھاری رقوم کا استعمال کس طرح ہو رہا ہے، کتنا روپیہ ترقیاتی کاموں پر لگایا جا رہا ہے کتنی رقم بد عنوانیوں کا شکار ہو رہی ہے۔ مرکز اور صوبوں کے بجٹ میں اربوں روپے مختلف ترقیاتی پروگراموں کے لیے مخصوص کیے جاتے ہیں لیکن ان کے غلط یا صحیح استعمال کا کسی کو کچھ پتہ نہیں چلتا جو لوگ ان خطیر رقومات کا ترقیاتی استعمال کرتے ہیں اگر وہ حکومت کو اس کی تفصیلات سے آگاہ بھی کرتے ہیں تو اس کا کوئی ثبوت نہیں ہوتا کہ ان کی فراہم کردہ تفصیلات درست ہیں یا غلط۔ آئی ایم ایف، ورلڈ بینک، ایشیائی بینک اور ترقی یافتہ ملکوں کی طرف سے قرضوں اور امداد کی شکل میں اربوں ڈالر ملتے ہیں، لیکن کیا یہ اربوں ڈالر کا استعمال درست ہو رہا ہے؟ اس کا کسی کے پاس کوئی جواب نہیں۔
اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ ان اربوں ڈالر کے استعمال کے حوالے سے ہمارے پاس کوئی کڑا غیر جانبدار بے خوف ہر قسم کے دبائو سے آزاد مانیٹرنگ نظام سرے سے موجود نہیں جو نام نہاد سسٹم موجود ہے ان میں چونکہ اسی طبقے کے لوگ شامل ہوتے ہیں لہٰذا یہ سسٹم کرپشن کو روک تو نہیں سکتا البتہ اسے تحفظ ضرور فراہم کر سکتا ہے۔ ایک تازہ مثال اس حوالے سے یہ دی جا سکتی ہے کہ ہمارے برادر ملک سعودی عرب نے از راہ عنایت ہمیں ڈیڑھ ارب ڈالر بطور تحفہ عنایت کیے جو متنازعہ ہونے کے باوجود پاکستان کے خزانے میں آ گئے لیکن اس بھاری رقم کا استعمال اس طرح ہو رہا ہے کہاں ہو رہا ہے کون کر رہا ہے، اس کا کسی کو پتہ نہیں۔
حال ہی میں آئی ایم ایف سے اربوں ڈالر کے قرضوں کی قسطیں ملی نہیں لیکن یہ اربوں ڈالر کہاں خرچ ہو رہے ہیں اس کا بے چارے عوام کو کچھ پتہ نہیں، ہمارے محترم وزیر خزانہ نے یورو بانڈ کی فروخت سے بھی بھاری سرمایہ حاصل کیا لیکن اس کے خرچ کی تفصیلات سے عوام نا واقف ہیں۔ چین ہمارے ملک کے مختلف منصوبوں میں اربوں ڈالر لگا رہا ہے کیا اس کا استعمال شفاف ہو رہا ہے؟ اس قسم کے سوالات اس لیے اٹھ رہے ہیں کہ ان کھربوں ڈالر کے استعمال کی مانیٹرنگ کے لیے ہمارے ملک میں کوئی با اختیار آزاد اور غیر جانبدار ادارہ موجود نہیں جو نام نہاد ادارے موجود ہیں ان پر عوام قطعی اعتماد کرنے کے لیے تیار نہیں۔
یہ مسئلہ صرف ہمارے ہی ملک کا نہیں بلکہ تمام ترقی پذیر ملکوں میں ایسی ہی اربوں ڈالر کی کھلی لوٹ مار کا سلسلہ جاری ہے اس کی ایک ظاہری وجہ تو یہی ہے کہ کسی ملک میں آزاد اور با اختیار مانیٹرنگ سسٹم موجود نہیں اس کی دوسری بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم جس نظام میں زندہ ہیں اس کے خمیر ہی میں کرپشن شامل ہے، قرض اور امداد کی ابتدا سے خرچ اور استعمال تک ہر جگہ ہر قدم پر کرپشن موجود ہے اور اس کی گہرائی اور گیرائی کا عالم یہ ہے کہ کوئی ملک کوئی حکمران کوئی سیاسی ایلیٹ اس لوٹ مار سے بچی ہوئی نہیں جس طرف آنکھ اٹھائیں تیری تصویر ہے۔
اس حوالے سے ہم ایک اور دلچسپ پہلو کا ذکر ضروری سمجھتے ہیں ہمارے ملک کا شاید ہی کوئی ایسا قومی ادارہ ہو جس پر اربوں روپوں کی کرپشن کے الزامات نہ ہوں ایک ادارے کے سربراہ پر 86 ارب روپوں کی کرپشن کا الزام لگا اور میڈیا میں یہ خبریں بھی آئیں کہ اس شخص کو ملک کی رولنگ پارٹی کے ایک معتبر عوامی رہنما نے ملک سے فرار کرایا۔ بڑی مشکلوں سے بڑی مدت کے بعداسے عرب امارات سے گرفتار کر کے ملک میں لایا گیا۔ اب اس کا کیس چل رہا ہے، بندہ مذکور ضمانت پر ہے۔ ہماری عدلیہ 2007ء کے بعد آزاد ہو گئی ہے جس کا مشاہدہ پاکستان کے عوام قدم قدم پر کر رہے ہیں لیکن ہم اپنی اس نا اہلی کو تسلیم کرنے میں ذرا برابر شرم محسوس نہیں کرتے کہ ہم اس کے مفہوم سے نابلد ہیں۔کوئی ایسی مہم چلائی جانی چاہیے تاکہ ہمیں بھی اس کا مفہوم و معنی معلوم ہو سکے۔
ہماری سیاسی ایلیٹ اور جمہوری بادشاہ اپنے اقتدار کو موروثی بنانے کے لیے کیسی کیسی شاندار ترکیبیں استعمال کر رہے ہیں اس پر خواص کی نظر بھی نہیں جا رہی ہے بے چارے عوام بادشاہوں اور ان کے ولی عہدوں کے کارناموں پر عش عش کر رہے ہیں عوام کی دولت بیرونی امداد اور مالیاتی اداروں سے جو اربوں ڈالر مل رہے ہیں ان سے اربوں روپوں کے پروجیکٹ شروع کیے جا رہے ہیں لیکن ان پروجیکٹوں کے فیتے ہمارے جمہوری بادشاہوں کی آل اولاد کاٹ کر ان پروجیکٹوں کو اپنے نام کر رہی ہے اور اپنے ناموں کی تختیاں لگوا رہی ہے۔
یعنی ''حلوائی کی دکان پر دادا جی کا فاتحہ'' حالانکہ ہونا یہ چاہیے تھا کہ ان پروجیکٹوں پر ان عوام دوست زندہ اور مرحوم لوگوں کے نام کی تختیاں لگتیں جنھوں نے اپنی ساری زندگی اس استحصالی نظام کو بدلنے کی جد و جہد میں گزار دی تو شاعروں، ادیبوں، دانشوروں کے ناموں کی تختیاں لگتیں۔ جمہوری بادشاہوں نے حصول دولت کے جو نئے نئے طریقے ایجاد کیے ہیں کہا جا رہا ہے کہ ان میں ایک محفوظ طریقہ یہ ہے کہ بیرونی ملکوں کے دوروں کے دوران نجی کاروبار کے اربوں ڈالر کے منصوبوں کو بھی فائنل کیا جا رہا ہے جس کی کسی کو ہوا لگنے نہیں دی جا رہی ہے۔جب غیر ملکی حکمران ہمارے حکمرانوں کو سرکاری دورے کی دعوت دیتے ہیں تو کیا دعوت نامے میں ''حکمران معہ برادران، فرزندان و دختران'' بھی لکھتے ہیں۔؟