افغان مہاجرین اور پاکستانی معیشت
پاکستان کا ہر شخص اور ادارہ پاکستانی معیشت اور سماج پر افغان مہاجرین کے مہلک دباؤ اور اثرات پر شدید فکر مند ہے
اسلام آباد میں سی ٹی ڈی نے حساس اداروں کے ساتھ مل کر بڑا سرچ آپریشن شروع کیا ہے، جس کے نتیجے میں آٹھ سو افغان باشندوں کو گرفتار کر لیا گیا۔
کئی جرائم پیشہ افغان باشندوں کی نشاندہی بھی ہوئی ہے، وفاقی حکومت نے تین اکتوبر تک ویزا مدت ختم ہونیوالے غیر ملکیوں کے خلاف بھی کارروائی کا فیصلہ کرلیا ہے۔
بلاشبہ غیرقانونی طور پر مقیم افغان مہاجرین کے خلاف کارروائی کے مثبت نتائج سامنے آئیں گے، جوں جوں پاکستان کے معاشی حالات خراب ہوتے جا رہے ہیں، پاکستان کا ہر شخص اور ادارہ پاکستانی معیشت اور سماج پر افغان مہاجرین کے مہلک دباؤ اور اثرات پر شدید فکر مند ہے۔ پاکستانی عوام اب افغان مہاجرین سے چھٹکارا چاہتے ہیں۔
افغانستان سے مہاجرین کی بے تحاشا آمد کے سبب تنگ آ کر اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین نے بھی امداد بند کر دی ہے۔ پاکستان کو ان افغان مہاجرین کی وجہ سے جو سب سے بڑا نقصان ہو رہا ہے وہ کھانے پینے کی اشیاء اور ڈالرز کی بے تحاشا اسمگلنگ ہے۔ جس وجہ سے پاکستان میں آٹا، چینی، سبزیاں، آئل، الیکٹرانک اشیائ، سیمنٹ، گوشت اور دیگر ڈیری مصنوعات نایاب ہوجاتی ہیں۔
5 اگست 2021 کو طالبان کی طرف سے کابل پر قبضے کے بعد بعض طبقوں کی جانب سے پاکستان میں ایک ایسی خوشی منائی جارہی تھی جس کے لیے گراؤنڈ پر کچھ نہیں تھا۔ ان بے بنیاد اور کھوکھلے خوشی کے شادیانوں پر سوال اٹھانے والوں پر طنز کے تیر برسائے گئے۔
اس وقت پاکستان میں وہی رائے عامہ تصویر کا دوسرا رخ دکھا رہی ہے جو کبھی صرف اس نتیجے پر پہنچی ہوتی تھی کہ افغانستان ہمارا ہے۔ موجودہ حالات بدلے بھی تو ایک ایسے دور میں جب افغانستان میں طالبان کی حکومت ہے۔
موجودہ افغان عبوری حکومت کے دور میں اب حالات یہاں تک پہنچے ہیں کہ ہم افغانستان میں براہِ راست کارروائی کی تنبیہ کر رہے ہیں۔ درست ہے کہ اس وقت پاکستان میں دہشت گردی کی وجہ سے حالات انتہائی خراب ہیں اور امن بحال کرنے کے لیے ناپسندیدہ اقدامات اٹھانے کا بھی سوچ سکتے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ ہم سے کہاں غلطی ہورہی ہے کہ ہر بار ہماری محنت پر ایسا پانی پھیر جاتاہے کہ حالات بدتر ہو جاتے ہیں؟گزشتہ پندرہ بیس سالوں میں ہم نے بڑی شدت کے ساتھ ایک بات نوٹ کی کہ جب بھی پاک افغان تعلقات میں کشیدگی بڑھتی ہے تو ہم بارڈر کے دروازوں کو تالے لگا دیتے ہیں۔
یہ قدم اٹھانے سے پہلے ہم ایک لمحے کو بھی نہیں سوچتے کہ شاید افغانستان ہی وہ واحد ملک ہے جس کے ساتھ کاروبار کرنے میں سب سے زیادہ منافع ہمیں ہوتا ہے۔ ہم نے اس آپشن کا استعمال اتنی شدت سے کیا کہ سابقہ افغان حکومتوں نے متبادل راستے ڈھونڈنے کی کوششیں شروع کیں اور فروری 2019 میں چاہ بہار ایران کے ذریعے ہندوستان کے ساتھ باقاعدہ سامان کی ترسیل شروع ہوئی۔
اب جب کہ چین نے اقوامِ عالم میں پہل کرتے ہوئے باقاعدہ طور پر افغانستان میں اپنا سفیر بھیجا ہے تو کیا ہندوستان زیادہ دیر تک پیچھے رہے گا؟ اس وقت ہندوستان کے پاس آپشنز بھی ہیں کیونکہ افغان عبوری حکومت نے انڈیا کو علانیہ طور پر افغانستان میں کام کرنے کی دعوت دے رکھی ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ پاکستان پر دہشت گردی سے متاثر ہونے کے بجائے فائدہ اٹھانے کا الزام لگانے والے ہندوستان کو اس بات پر یقین کرنے میں دشواری ہو رہی کہ طالبان حکومت اور پاکستان کے درمیان تعلقات واقعی کشیدہ ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ ہندوستان خود کو طالبان حکومت سے فاصلے پر رکھ رہا ہے۔ ویسے بھی مودی کا انڈیا تعصب کی انتہا تک پہنچ چکا ہے لیکن قابل توجہ امر یہ ہے کہ اگر موجودہ عبوری افغان حکومت بارے انڈین پالیسی تبدیل ہو گئی تو ہمیں کتنا نقصان ہوگا؟
اس وقت افغان پاکستان میں ہر وہ کاروبار کررہے ہیں جو پاکستانی نہیں کرپاتے۔ زیادہ تر افغانوں کے کاروبار جو عموماً ریڑھیوں کی شکل میں ہوتے ہیں، ہمارے شہروں سے باہر ایسے علاقوں میں ہوتے ہیں جہاں صرف غریب طبقہ ہی خریداری کر سکتا ہے۔
ایسے بھی افغان ہیں جنھوں نے پاکستان میں بڑی سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ افغانستان کی خراب معاشی صورتحال اور جنگوں کی وجہ سے افغانوں کی بڑی تعداد خلیجی ممالک کے علاوہ یورپ میں بھی رہائش پذیر ہے جو پاکستان میں موجود اپنے لوگوں کو کافی پیسہ بھی بھیجتے ہیں۔
پاکستان کی کون سی مارکیٹ ہے، جس میں افغانوں کی دکانیں نہیں اور جہاں سرمائے کی فراہمی کی وجہ سے مقامیوں کے کاروبار ٹھپ ہو کر رہ گئے، بدلے میں ہمیں کیا ملا ہیروئن کا نشہ اور کلاشنکوف کلچر جس نے ہمارے معاشرے کا امن و سکون غارت کیا۔
ماضی میں پاکستان اور افغانستان کے باہمی تعلقات میں پیدا ہونے والی دراڑوں میں وقت کے ساتھ ساتھ خلیج بڑھتی جا رہی ہے۔ کئی عشرے بیت چکے ہیں، پُلوں کے نیچے سے دہائیوں کا پانی بہہ چکا ہے لیکن یہ دونوں ممالک ابھی بھی ماضی میں ہی کھڑے ہیں، ان دونوں ممالک کے مسائل اور بدگمانیاں ویسی ہی برقرار ہیں، جیسے انیس سو پچاس اور ساٹھ کی دہائی میں تھیں۔
اب نئی نسلیں ان بدگمانیوں کا بوجھ اٹھانے کی تیاریوں میں ہیں۔ پاکستان کی افغانستان کے حوالے سے پالیسیاں اس وقت تک تبدیل نہیں ہوں گی، جب تک اسے یہ گارنٹی نہ مل جائے کہ افغان سرزمین اس کے خلاف استعمال نہیں ہو گی اور پاکستان کو جغرافیائی لحاظ سے تقسیم کرنے کی کوشش نہیں کی جائے گی۔ افغانستان کے ساتھ ہمارا سب سے بڑا بارڈر لگتا ہے جو ڈیورنڈ لائن کے نام سے مشہور ہے اور اس کی لمبائی 2670 کلومیٹر ہے۔
یہ ملک ایک لینڈ لاکڈ ہے یعنی چاروں طرف سے خشکی سے گھرا ہوا ہے۔ اس کی تجارت کا زیادہ تر انحصار پاکستان کی بندرگاہوں پر ہے۔
اس کے جنوب اور مشرق میں پاکستان، مغرب میں ایران، شمال مشرق میں چین، شمال میں ترکمانستان، ازبکستان اور تاجکستان ہیں۔ اردگرد کے تمام ممالک سے افغانستان کے تاریخی، مذہبی اور ثقافتی تعلقات بہت گہرے ہیں۔ افغانستان میں مختلف نسلی گروہ رہتے ہیں۔ جن میں 42 فیصد پشتون، 27 فیصد تاجک، 10 فیصد ہزارہ، 9 فیصد ازبک، 4 فیصد ایماق، 3 فیصد ترکمان، 2 فیصد بلوچ اور باقی دیگر نسلوں کے لوگ شامل ہیں۔ اس کی آبادی تقریباً ساڑھے تین کروڑ نفوس پر مشتمل ہے جب کہ اس کا کل رقبہ 652864 مربع کلومیٹر ہے۔
اس کا زیادہ تر رقبہ پہاڑی ہے۔ اس کا صرف 12 فیصد رقبہ کاشت کے قابل ہے، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ ملک معدنیات کی دولت سے مالامال ہے۔ افغانستان کا دارالحکومت کابل ہے اور اس ملک کو 34 صوبوں میں تقسیم کیا گیا ہے جس کو ولایت کہتے ہیں۔
اکا دکا واقعات کے علاوہ افغانستان کے ساتھ ہماری تجارت سارا سال باقاعدگی کے ساتھ جاری رہتی ہے، اگر ہمارے ارباب اختیار مخلصی کا مظاہرہ کریں تو کسی بھی قیمت پر افغانستان سے واخان کی پٹی خرید کر وسط ایشیائی ممالک کے ساتھ تجارت کا ڈائریکٹ روٹ بنا لیں۔ اب بھی پاکستان کی وسط ایشیائی ریاستوں سے تجارت ہو رہی ہے لیکن افغانستان کی شرائط اور مرضی سے، طالبان کے ساتھ جب بھی ہمارے تعلقات کشیدہ ہوتے ہیں یہ روٹ بند ہوجاتا ہے اور ہماری وسط ایشیائی ریاستوں سے تجارت میں خلل آ جاتا ہے۔
بلاشبہ پاکستان کی حمایت اور امداد کے بنا طالبان کا اقتدار زیادہ دیر تک قائم نہیں رہ سکتا۔ لیکن طالبان نے نہ صرف احسان فراموشی کی ہے بلکہ ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں کو افغان سرزمین پر رہنے کی اجازت دے کر پاکستان دشمنی کا بھی ثبوت دیا ہے۔ یہ چاہے چترال میں فوجی چیک پوسٹوں پر حملہ ہو یا طورخم بارڈر پر پاکستانی سیکیورٹی اہلکاروں پر بلا اشتعال فائرنگ ہو طالبان نے ہر جگہ پاکستان دشمنی میں حد پار کی ہے۔
پاکستان کو افغانستان کی وجہ سے اربوں ڈالرزکا نقصان ہوا ہے اور مزید نقصان بھی جاری ہے۔ پاکستان میں موجود غیر قانونی افغان مہاجرین اور اسمگلنگ پاکستان کو شدید نقصان پہنچا رہے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ایک کروڑ کے قریب افغان مہاجرین رہائش پذیر ہیں اور کرپشن کی وجہ سے لاکھوں مہاجرین پاکستانی شناختی دستاویزات حاصل کرنے میں کامیاب ہو چکے ہیں اور یہاں مستقل جائیدادیں اور کاروبار بنا چکے ہیں۔
پاکستانی معیشت کو اگر اپنے پاؤں پر کھڑا کرنا ہے تو سب سے پہلے ان لاکھوں افغان مہاجرین کو واپس افغانستان بھیجنا ہوگا اور دوسرا ڈالرز اور کھانے پینے کی اشیاء کی اسمگلنگ کو بھی ہر صورت روکنا ہوگا اگر ہمارے ارباب اختیار اس میں ناکام رہتے ہیں تو معیشت یوں ہی وینٹی لیٹر پر رہے گی اور پاکستانی عوام کو بھی شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔
بنگلہ دیش میں روہنگیا، ترکیہ میں شامی، لبنان میں فلسطینی اور ایران میں افغان مہاجرین نہ صرف باقاعدہ طور پر رجسٹرڈ ہیں بلکہ اپنے کیمپوں کی حد تک محدود رکھے جاتے ہیں اور لوکل انٹیلیجنس ایجنسیوں کی نگاہ میں ایک ایک مہاجر رہتا ہے۔
یہ بھی حقیقت ہے پاکستان جیسی جنت کو چھوڑ کر، طالبان کے شکنجے میں جانا افغان مہاجرین کے لیے موت کے برابر ہے لیکن پاکستان کے ارباب اختیار کو یہ کڑوا گھونٹ پینا ہوگا اور اس بابت سخت فیصلے کرنے ہوں گے نہیں تو پاکستان کے عوام مہنگائی کے ہاتھوں یوں ہی سسکتے رہیں گے۔
کئی جرائم پیشہ افغان باشندوں کی نشاندہی بھی ہوئی ہے، وفاقی حکومت نے تین اکتوبر تک ویزا مدت ختم ہونیوالے غیر ملکیوں کے خلاف بھی کارروائی کا فیصلہ کرلیا ہے۔
بلاشبہ غیرقانونی طور پر مقیم افغان مہاجرین کے خلاف کارروائی کے مثبت نتائج سامنے آئیں گے، جوں جوں پاکستان کے معاشی حالات خراب ہوتے جا رہے ہیں، پاکستان کا ہر شخص اور ادارہ پاکستانی معیشت اور سماج پر افغان مہاجرین کے مہلک دباؤ اور اثرات پر شدید فکر مند ہے۔ پاکستانی عوام اب افغان مہاجرین سے چھٹکارا چاہتے ہیں۔
افغانستان سے مہاجرین کی بے تحاشا آمد کے سبب تنگ آ کر اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین نے بھی امداد بند کر دی ہے۔ پاکستان کو ان افغان مہاجرین کی وجہ سے جو سب سے بڑا نقصان ہو رہا ہے وہ کھانے پینے کی اشیاء اور ڈالرز کی بے تحاشا اسمگلنگ ہے۔ جس وجہ سے پاکستان میں آٹا، چینی، سبزیاں، آئل، الیکٹرانک اشیائ، سیمنٹ، گوشت اور دیگر ڈیری مصنوعات نایاب ہوجاتی ہیں۔
5 اگست 2021 کو طالبان کی طرف سے کابل پر قبضے کے بعد بعض طبقوں کی جانب سے پاکستان میں ایک ایسی خوشی منائی جارہی تھی جس کے لیے گراؤنڈ پر کچھ نہیں تھا۔ ان بے بنیاد اور کھوکھلے خوشی کے شادیانوں پر سوال اٹھانے والوں پر طنز کے تیر برسائے گئے۔
اس وقت پاکستان میں وہی رائے عامہ تصویر کا دوسرا رخ دکھا رہی ہے جو کبھی صرف اس نتیجے پر پہنچی ہوتی تھی کہ افغانستان ہمارا ہے۔ موجودہ حالات بدلے بھی تو ایک ایسے دور میں جب افغانستان میں طالبان کی حکومت ہے۔
موجودہ افغان عبوری حکومت کے دور میں اب حالات یہاں تک پہنچے ہیں کہ ہم افغانستان میں براہِ راست کارروائی کی تنبیہ کر رہے ہیں۔ درست ہے کہ اس وقت پاکستان میں دہشت گردی کی وجہ سے حالات انتہائی خراب ہیں اور امن بحال کرنے کے لیے ناپسندیدہ اقدامات اٹھانے کا بھی سوچ سکتے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ ہم سے کہاں غلطی ہورہی ہے کہ ہر بار ہماری محنت پر ایسا پانی پھیر جاتاہے کہ حالات بدتر ہو جاتے ہیں؟گزشتہ پندرہ بیس سالوں میں ہم نے بڑی شدت کے ساتھ ایک بات نوٹ کی کہ جب بھی پاک افغان تعلقات میں کشیدگی بڑھتی ہے تو ہم بارڈر کے دروازوں کو تالے لگا دیتے ہیں۔
یہ قدم اٹھانے سے پہلے ہم ایک لمحے کو بھی نہیں سوچتے کہ شاید افغانستان ہی وہ واحد ملک ہے جس کے ساتھ کاروبار کرنے میں سب سے زیادہ منافع ہمیں ہوتا ہے۔ ہم نے اس آپشن کا استعمال اتنی شدت سے کیا کہ سابقہ افغان حکومتوں نے متبادل راستے ڈھونڈنے کی کوششیں شروع کیں اور فروری 2019 میں چاہ بہار ایران کے ذریعے ہندوستان کے ساتھ باقاعدہ سامان کی ترسیل شروع ہوئی۔
اب جب کہ چین نے اقوامِ عالم میں پہل کرتے ہوئے باقاعدہ طور پر افغانستان میں اپنا سفیر بھیجا ہے تو کیا ہندوستان زیادہ دیر تک پیچھے رہے گا؟ اس وقت ہندوستان کے پاس آپشنز بھی ہیں کیونکہ افغان عبوری حکومت نے انڈیا کو علانیہ طور پر افغانستان میں کام کرنے کی دعوت دے رکھی ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ پاکستان پر دہشت گردی سے متاثر ہونے کے بجائے فائدہ اٹھانے کا الزام لگانے والے ہندوستان کو اس بات پر یقین کرنے میں دشواری ہو رہی کہ طالبان حکومت اور پاکستان کے درمیان تعلقات واقعی کشیدہ ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ ہندوستان خود کو طالبان حکومت سے فاصلے پر رکھ رہا ہے۔ ویسے بھی مودی کا انڈیا تعصب کی انتہا تک پہنچ چکا ہے لیکن قابل توجہ امر یہ ہے کہ اگر موجودہ عبوری افغان حکومت بارے انڈین پالیسی تبدیل ہو گئی تو ہمیں کتنا نقصان ہوگا؟
اس وقت افغان پاکستان میں ہر وہ کاروبار کررہے ہیں جو پاکستانی نہیں کرپاتے۔ زیادہ تر افغانوں کے کاروبار جو عموماً ریڑھیوں کی شکل میں ہوتے ہیں، ہمارے شہروں سے باہر ایسے علاقوں میں ہوتے ہیں جہاں صرف غریب طبقہ ہی خریداری کر سکتا ہے۔
ایسے بھی افغان ہیں جنھوں نے پاکستان میں بڑی سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ افغانستان کی خراب معاشی صورتحال اور جنگوں کی وجہ سے افغانوں کی بڑی تعداد خلیجی ممالک کے علاوہ یورپ میں بھی رہائش پذیر ہے جو پاکستان میں موجود اپنے لوگوں کو کافی پیسہ بھی بھیجتے ہیں۔
پاکستان کی کون سی مارکیٹ ہے، جس میں افغانوں کی دکانیں نہیں اور جہاں سرمائے کی فراہمی کی وجہ سے مقامیوں کے کاروبار ٹھپ ہو کر رہ گئے، بدلے میں ہمیں کیا ملا ہیروئن کا نشہ اور کلاشنکوف کلچر جس نے ہمارے معاشرے کا امن و سکون غارت کیا۔
ماضی میں پاکستان اور افغانستان کے باہمی تعلقات میں پیدا ہونے والی دراڑوں میں وقت کے ساتھ ساتھ خلیج بڑھتی جا رہی ہے۔ کئی عشرے بیت چکے ہیں، پُلوں کے نیچے سے دہائیوں کا پانی بہہ چکا ہے لیکن یہ دونوں ممالک ابھی بھی ماضی میں ہی کھڑے ہیں، ان دونوں ممالک کے مسائل اور بدگمانیاں ویسی ہی برقرار ہیں، جیسے انیس سو پچاس اور ساٹھ کی دہائی میں تھیں۔
اب نئی نسلیں ان بدگمانیوں کا بوجھ اٹھانے کی تیاریوں میں ہیں۔ پاکستان کی افغانستان کے حوالے سے پالیسیاں اس وقت تک تبدیل نہیں ہوں گی، جب تک اسے یہ گارنٹی نہ مل جائے کہ افغان سرزمین اس کے خلاف استعمال نہیں ہو گی اور پاکستان کو جغرافیائی لحاظ سے تقسیم کرنے کی کوشش نہیں کی جائے گی۔ افغانستان کے ساتھ ہمارا سب سے بڑا بارڈر لگتا ہے جو ڈیورنڈ لائن کے نام سے مشہور ہے اور اس کی لمبائی 2670 کلومیٹر ہے۔
یہ ملک ایک لینڈ لاکڈ ہے یعنی چاروں طرف سے خشکی سے گھرا ہوا ہے۔ اس کی تجارت کا زیادہ تر انحصار پاکستان کی بندرگاہوں پر ہے۔
اس کے جنوب اور مشرق میں پاکستان، مغرب میں ایران، شمال مشرق میں چین، شمال میں ترکمانستان، ازبکستان اور تاجکستان ہیں۔ اردگرد کے تمام ممالک سے افغانستان کے تاریخی، مذہبی اور ثقافتی تعلقات بہت گہرے ہیں۔ افغانستان میں مختلف نسلی گروہ رہتے ہیں۔ جن میں 42 فیصد پشتون، 27 فیصد تاجک، 10 فیصد ہزارہ، 9 فیصد ازبک، 4 فیصد ایماق، 3 فیصد ترکمان، 2 فیصد بلوچ اور باقی دیگر نسلوں کے لوگ شامل ہیں۔ اس کی آبادی تقریباً ساڑھے تین کروڑ نفوس پر مشتمل ہے جب کہ اس کا کل رقبہ 652864 مربع کلومیٹر ہے۔
اس کا زیادہ تر رقبہ پہاڑی ہے۔ اس کا صرف 12 فیصد رقبہ کاشت کے قابل ہے، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ ملک معدنیات کی دولت سے مالامال ہے۔ افغانستان کا دارالحکومت کابل ہے اور اس ملک کو 34 صوبوں میں تقسیم کیا گیا ہے جس کو ولایت کہتے ہیں۔
اکا دکا واقعات کے علاوہ افغانستان کے ساتھ ہماری تجارت سارا سال باقاعدگی کے ساتھ جاری رہتی ہے، اگر ہمارے ارباب اختیار مخلصی کا مظاہرہ کریں تو کسی بھی قیمت پر افغانستان سے واخان کی پٹی خرید کر وسط ایشیائی ممالک کے ساتھ تجارت کا ڈائریکٹ روٹ بنا لیں۔ اب بھی پاکستان کی وسط ایشیائی ریاستوں سے تجارت ہو رہی ہے لیکن افغانستان کی شرائط اور مرضی سے، طالبان کے ساتھ جب بھی ہمارے تعلقات کشیدہ ہوتے ہیں یہ روٹ بند ہوجاتا ہے اور ہماری وسط ایشیائی ریاستوں سے تجارت میں خلل آ جاتا ہے۔
بلاشبہ پاکستان کی حمایت اور امداد کے بنا طالبان کا اقتدار زیادہ دیر تک قائم نہیں رہ سکتا۔ لیکن طالبان نے نہ صرف احسان فراموشی کی ہے بلکہ ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں کو افغان سرزمین پر رہنے کی اجازت دے کر پاکستان دشمنی کا بھی ثبوت دیا ہے۔ یہ چاہے چترال میں فوجی چیک پوسٹوں پر حملہ ہو یا طورخم بارڈر پر پاکستانی سیکیورٹی اہلکاروں پر بلا اشتعال فائرنگ ہو طالبان نے ہر جگہ پاکستان دشمنی میں حد پار کی ہے۔
پاکستان کو افغانستان کی وجہ سے اربوں ڈالرزکا نقصان ہوا ہے اور مزید نقصان بھی جاری ہے۔ پاکستان میں موجود غیر قانونی افغان مہاجرین اور اسمگلنگ پاکستان کو شدید نقصان پہنچا رہے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ایک کروڑ کے قریب افغان مہاجرین رہائش پذیر ہیں اور کرپشن کی وجہ سے لاکھوں مہاجرین پاکستانی شناختی دستاویزات حاصل کرنے میں کامیاب ہو چکے ہیں اور یہاں مستقل جائیدادیں اور کاروبار بنا چکے ہیں۔
پاکستانی معیشت کو اگر اپنے پاؤں پر کھڑا کرنا ہے تو سب سے پہلے ان لاکھوں افغان مہاجرین کو واپس افغانستان بھیجنا ہوگا اور دوسرا ڈالرز اور کھانے پینے کی اشیاء کی اسمگلنگ کو بھی ہر صورت روکنا ہوگا اگر ہمارے ارباب اختیار اس میں ناکام رہتے ہیں تو معیشت یوں ہی وینٹی لیٹر پر رہے گی اور پاکستانی عوام کو بھی شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔
بنگلہ دیش میں روہنگیا، ترکیہ میں شامی، لبنان میں فلسطینی اور ایران میں افغان مہاجرین نہ صرف باقاعدہ طور پر رجسٹرڈ ہیں بلکہ اپنے کیمپوں کی حد تک محدود رکھے جاتے ہیں اور لوکل انٹیلیجنس ایجنسیوں کی نگاہ میں ایک ایک مہاجر رہتا ہے۔
یہ بھی حقیقت ہے پاکستان جیسی جنت کو چھوڑ کر، طالبان کے شکنجے میں جانا افغان مہاجرین کے لیے موت کے برابر ہے لیکن پاکستان کے ارباب اختیار کو یہ کڑوا گھونٹ پینا ہوگا اور اس بابت سخت فیصلے کرنے ہوں گے نہیں تو پاکستان کے عوام مہنگائی کے ہاتھوں یوں ہی سسکتے رہیں گے۔