پیڑوں کو زندہ رہنے دیں

منافع کے شدید خواہش کے باعث انسان نے فطرت اور قدرتی ماحول کو بالکل تباہ کر دیا ہے

zahedahina@gmail.com

وہ شمالی ہند کا ایک مشہور و معروف گھرانا تھا، ادبی اور سیاحتی سرگرمیاں اس کا روز مرہ تھیں۔ اس گھرانے کے لڑکے اعلیٰ تعلیم کے لیے انگلستان جاتے تھے اور بیرسٹر بن کر واپس آتے تھے۔

سر وزیر حسن کے بیٹے سجاد ظہیر لندن گئے اور وہاں سے ترقی پسند ادب کا تحفہ لے کر واپس آئے وہ صرف نئے خیالات لے کر ہی واپس نہیں آئے تھے بلکہ وہ اپنے سماج کو بدلنے کا نسخہ بھی ساتھ لائے تھے۔

انھوں نے رضیہ سے شادی کی جو رضیہ سجاد ظہیر بن کر ادبی منظر نامے پر ہمارے سامنے آئیں اور انھوں نے ایک ایسا گھر مرتب کیا جو سر وزیر حسن کے آؤٹ ہاؤس میں تھا۔ بلکہ بے سر و سامانی میں بھی کمال کو پہنچا ہوا تھا۔ دونوں نے ذہین اور فنکار بیٹیاں پیدا کیں۔

نادرہ راج ببر سے بیاہ کر اسٹیج پر اپنے کمالات دکھاتی رہیں۔ لدملا وسالیوا کے ساتھ میں نے ان کو الہ آباد میں ان کے گھر اپنی اداکاری کے جوہر دکھاتے ہوئے دیکھا ہے۔ یہ سب لوگ ایک ہی ترقی پسند خاندان کے افراد تھے۔ جوش میں بھرے ہوئے اور سماج کو بدلنے کا عزم لیے ہوئے۔

نور ظہیر ان دونوں کی سب سے چھوٹی بیٹی، ان کی شہرت اس لیے ہوئی کہ 1986 میں وہ لکھنو سے سبطے بھائی کا تابوت لے کر آئی تھیں۔ ان سے کراچی میں دوستی ہوئی۔

میں جتنی بار دلی گئی، ان سے ملاقات ہوئی اور ہم ساتھ گھومے پھرے۔ انھوں نے ایک ناول لکھا جو کچھ لوگوں کے خیال میں شاہ بانوکا قصہ ہے۔ انھوں نے 100 برس کی عمر کے سید یاور عباس سے شادی کر لی اور پھر '' سیانی دیوانی'' کے نام سے کہانیاں لکھیں، جنھیں آپ تک پہنچانے کا کام مکتبہ دانیال کی حوری نورانی کر رہی ہیں۔

آج کی دنیا موسمیاتی تبدیلی کے سنگین ترین بحران سے دوچار ہے۔ جس کی بنیادی وجہ اس کے سوا کچھ نہیں کہ منافع کے شدید خواہش کے باعث انسان نے فطرت اور قدرتی ماحول کو بالکل تباہ کر دیا ہے ۔ اس حوالے سے ان کی ایک کہانی ''اب بھی کبھی کبھار'' کو یقینا شاہکار قرار دیا جاسکتا ہے۔ اس کہانی کا یہ اقتباس ملاحظہ کیجیے۔

'' کل رات اس نے ماعین تہذیب پر لکھی ایک کتاب کا ترجمہ ختم کیا تھا۔ جنوبی امریکا کے پہلے باشندوں کی پوشیدہ زندگی کو جب بھی وہ سمجھنے کی کوشش کرتی تو حیرانی و دلچسپی دونوں ہی بڑھ جاتے ساتھ ہی غصہ اور دکھ بھی ہوتا کہ وہ یہ کام نیو یارک سٹی میں کر رہی ہے، ان گوروں کے پیسوں سے جنھوں نے ماعین قدیم قبیلوں کو پہلے ہرایا، پھر لوٹا اور پھر نیست و نابود کرنے کے بعد آج ان کی تہذیب کے آدھے ادھورے کھنڈروں پرکروڑوں ڈالرز خرچ کر کے ان کی زبان، تہذیب ، ثقافت اور ریتی رواجوں کو سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

ماعین قبیلوں میں رواج تھا کہ ہر بچے کے جنم پر سو پیڑ لگا کر ان کی دیکھ بھال کی جائے جب تک بچہ خود ایسے کرنے کے قابل نہ ہوجائے۔ پھر بچے کا تعارف ان درختوں سے کروا کر کچھ دنوں بچوں کو وہاں اکیلا چھوڑ آتے۔

جب انسان اور پیڑ ایک دوسرے کو ٹھیک سے جان جاتے تب ان سو میں ایک پیڑ بچے سے جو اب جوانی کی طرف بڑھ رہا تھا بات کرتا اور اس کی بات سنتا ! دونوں پر ایک دوسرے کی بات سننا، سمجھنا اور ماننا فرض ہوا کرتا تھا۔ دھیرے دھیرے انسان اور پیڑوں میں دوری بڑھی پہلے مردوں نے پیڑوں کی صلاح ماننی چھوڑ دی۔''

اس کہانی کا ایک کردار رچا جنوبی امریکا کی نابود کر دی گئی، قدیم ماعین تہذیب کے بارے میں تحقیقی مقالہ لکھتے ہوئے، اس کو جس انداز سے اپنے ماضی اور حال سے پیوست کرتی ہے وہ پڑھنے والے کو چونکا دیتا ہے۔ رچا کی بیوہ ماں جو اب 80 برس کی ہیں۔


انھوں نے رچا سے فرمائش کی تھی کہ وہ اسے گھر کے آنگن میں لگے آم کے پیڑ کے نیچے بٹھا دے، کیونکہ کمزوری اور نقاہت کے سبب وہ اب تنہا آم کے پیڑ کے گرد بنے چبوترے پر نہیں چڑھ سکتی۔ کبھی اس چبوترے کو رچا کی ماں نے بڑے چاہ سے اپنی نگرانی میں بنوایا تھا اور اس بات کا خاص دھیان رکھا تھا کہ چبوترا بننے کی وجہ سے پیڑ کا تنا اور اس کی جڑیں خراب نہ ہوں اسی لیے انھوں نے پیڑ کے ارد گرد کی زمین کو کچا ہی رہنے دیا تھا۔

دراصل اس پیڑ سے ان کی زندگی کے سنہرے دن وابستہ تھے۔ شادی کے بعد جب وہ بیاہ کر اس گھر آئیں تو اگلے ہی روز اسی پیڑ کے گرد انھوں نے چکر کاٹا تھا اور پیڑ کی جڑوں کو دیکھتے ہوئے انھوں نے جان لیا تھا کہ جڑوں میں دیمک کا باس ہے۔

راشن کا زمانہ تھا، کٹوری بھر چینی پیڑوں کی جڑوں میں چھڑکنے پر ساس وہ بگڑیں کہ پوچھو مت، لیکن تین دن کے اندر چینٹیوں نے پہلے چینی کھائی، پھر دیمکوں کو بھی چٹ کر گئیں۔ دو ہفتے بعد دیکھا نئی کونپلیں پھوٹ رہی ہیں۔ ایک شاخ پر موٹی رسی کا نیچے تختہ لگا جھولا تھا۔ ایک دن میں نے تیرے بابو جی سے فرمائش کی جھولا اتار کر دوسری شاخ سے باندھ دو۔

کیوں بھلا یہاں ٹھیک ہی تو ہے۔ لو، ہم کیا ایک ہاتھ میں بوجھ اٹھائے اٹھائے تھک جاتے، ہاتھ نہیں بدلنا پڑتا؟ وہ ہنسے تو میرے اوپر، لیکن پیڑ پر چڑھ کر رسی کھولی اور دوسری لنگر پھینکنے ہی والے تھے کہ میری نظر پہلی والی شاخ پر پڑی۔ جو دو جگہ سے چھلی، کٹی پھٹی تھی۔ رکو رکو، میں اندر دوڑی اور ایک پرانا دوپٹہ لے آئی۔ پہلے یہ تہہ کر کے رکھو، اس کے اوپر رسی ڈالو، رسی کی بھی عمر بڑھے گی اور پیڑ گھائل نہیں ہوگا۔''

رچا کی ماں کی ذرا سی دیکھ بھال کے نتیجے میں پھاگن کے ماہ پیڑ بور سے لد گیا، لیکن رچا کی ماں کے سوا کسی کو بھی یقین نہیں تھا کہ اس پر پھل بھی آئے گا۔

اس چبوترے اور پیڑ کی اوٹ میں رچا کے ماں باپ ڈھیروں باتیں کرتے اور رچا کی ماں پیڑ سے اپنا حال دل بھی بیان کرتی رہتی۔''اس سال پھاگن میں اس میں بور نہیں آیا۔ ہم نے سوچا ذرا سستا رہا ہے۔ کچھ مہینے پہلے تیرے بابو جی کے ساتھ کے ماسٹر جی نے آکر بتایا، پیڑ مر رہا ہے۔ تیرے بابو جی بیمار چل رہے تھے، کمزور بہت ہوگئے تھے، پھر بھی کسی طرح اٹھ کر آنگن میں آئے۔ دور سے ہی پیڑ کو دیکھ کر بولے۔ '' ہاں۔ آم کا پیڑ ایسے ہی مرتا ہے۔

نیچے سے ہرا رہتا ہے اور اوپر سے سوکھنا شروع ہوتا۔'' '' یہ دیکھ کر ہی جیسے ان کے اندر کچھ ٹوٹ گیا۔ بس جینے سے جی بھرگیا ان کا۔ تین مہینے کے اندر ہی چل دیے۔

اب تو اوپر کی آدھے سے زیادہ ٹہنیاں سوکھ گئی ہیں۔ اتنا کہہ کر ماں کچھ دیر چپ رہی۔ پھر اچانک رچا سے کم خود سے زیادہ بولیں، '' کوشش توکرنی چاہیے آخر تک کوشش کرتے رہنا یہی انسان کا فرض ہے۔ سن رچا مجھے سہارا دے کر چبوترے پر کھڑا کردے گی؟'' ضد کر کے ماں چبوترے پر چڑھیں تھیں اور جہاں موٹا تنا تین شاخوں میں بٹ رہا تھا وہاں بڑے پریم سے ہاتھ رکھ کر بولیں۔

''سمجھتی ہوں کہ تم بوڑھا گئے ہو، یہ بھی جانتی ہوں کہ تم اکیلے ہوگئے ہو، کیا کہوں بچوں نے ایک ایک کر کے اپنی زندگی چن لی۔ دو سال یہ اتنا بیمار رہے، ان کی تیمار داری، خدمت میں تم سے ملنے آنا ہی نہیں ہوا۔ ان کے جانے کے بعد آنا چاہیے تھا مجھے، پر سچ بتاؤں تمہاری چھاؤں میں تمہیں دیکھ کر ہی ان کی بہت یاد آتی ہے مجھے، اس لیے دور رہی۔ لیکن یہ میری بھول تھی، تمہارا غصہ ٹھیک ہی ہے۔

جو چلا گیا اس کے لیے جو ہے اسے نظر انداز تھوڑی کرنا چاہیے۔ میں وعدہ کرتی ہوں، روز آؤں گی تمہارے پاس اور تم بھی جس رستے پر چل دیے ہو اس سے پلٹ آؤ۔ میں بھی کتنے دن اور ہوں؟ جب تک ہوں میرا ساتھ نبھا دو، کوئی تو میرے لیے رُک جائے،کوئی تو میرا خیال کرے۔'' ماں جہاں تک ہاتھ پہنچ رہا تھا، تنے اور شاخوں کو دھیرے دھیرے سہلا رہی تھیں اور پاس کھڑی رچا منہ پر ساڑی کا پلو رکھے اپنی ہنسی روکنے کی کوشش کررہی تھی۔

تین دن بعد وہ نیویارک لوٹ آئی تھی، اور آج پانچ مہینے بعد ماں کی چٹھی آئی ہے ۔ ''آم کے پیڑ میں بھرپور بور آیا ہے، دو جوڑے طوطے بھی آگئے ہیں اور ایک کوئل بھی آس پاس منڈلا رہی ہے۔ ابھی اس کا گلا سریلا نہیں ہوا ہے، آزمانے کے لیے بیچ بیچ میں بولی ہے جو کوکنے سے زیادہ چوکنے سا لگتا ہے۔ آم جون تک پکیں گے۔ بہت سارا پیار، ماں۔
Load Next Story