ہم پبلک پارکس اور پلے گراؤنڈز میں کمرشل کام نہیں ہونے دیں گے سندھ ہائیکورٹ
عدالت نے کے ایم سی اور سندھ حکومت سے پارکس کی مکمل تفصیلات طلب کرلیں
سندھ ہائیکورٹ نے کراچی میں پبلک پارکس اور پلے گراونڈز میں داخلہ اور پارکنگ فیس وصول کرنے کیخلاف درخواست پر کے ایم سی اور سندھ حکومت سے پارکس کی مکمل تفصیلات طلب کرلیں۔
قائم مقام چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ جسٹس عرفان سعادت خان کی سربراہی میں دو رکنی بینچ کے روبرو کراچی میں پبلک پارکس اور پلے گراؤنڈز میں داخلہ اور پارکنگ فیس وصول کرنے کیخلاف طارق منصور ایڈوکیٹ کی درخواست پر سماعت ہوئی۔
قائم مقام چیف جسٹس عرفان سعادت پارکس میں داخلہ اور پارکنگ فیس وصول کرنے پر برہم ہوگئے۔
قائم مقام چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ شہری حکومت کے 4 اداروں نے سب کو گھن چکر بنا رکھا ہے۔ راتوں رات، کے ایم سی، ڈی ایم سی بن جاتا ہے، ڈی ایم سی، سی ڈی جی کے ( سٹی گورنمنٹ) بن جاتی ہے۔ سارے ادارے مل کر کے ڈی اے بن جاتے ہیں، یہ ہوکیا رہا ہے؟ ہم پبلک پارکس اور پلے گراؤنڈز میں کمرشل کام نہیں ہونے دیں گے۔
کے ایم سی کے وکیل نے موقف دیا کہ کے ایم سی نہ نفع نہ نقصان پر کام کررہا ہے۔ کے ایم سی کے کسی پارک میں داخلہ فیس وصول نہیں کی جارہی۔
درخواست گزار کے وکیل نے موقف دیا کہ ہل پارک میں فیس دیئے بغیر بچے داخل ہی نہیں ہوسکتے۔ عسکری پارک میں 120 روپے انٹری فیس وصول کی جارہی ہے۔
قائم مقام چیف جسٹس عرفان سعادت خان نے ریمارکس دیئے کہ جن پارکس میں جھولے لگے ہیں ،جھولہ جھولنے کی تو فیس لی جاسکتی ہے۔ جھولے بجلی سے چلتے ہیں، ان کے اخراجات ہوتے ہیں۔ درخواستگزار وکیل نے موقف دیا کہ سپریم کورٹ اپنے حکم میں لکھ چکی ہے، پارکس میں کوئی کمرشل کام نہیں ہوگا۔
عدالت نے ریمارکس دیئے کہ اگر پارکس میں داخلہ مفت دیا جارہا ہے تو جھولے مفت کیسے دیئے جاسکتے ہیں؟ پارکس میں دیگر سہولیات بھی تو موجود ہوتی ہیں۔
عدالت نے درخواست گزار سے مکالمے میں کہا کہ آپ بچوں کو جھولے بند کرانا چاہتے ہیں؟
درخواستگزار وکیل نے موقف اپنایا کہ حکومت پارکس کی مینٹیننس اور سہولیات فراہم کرنے کی پابند ہے، اس کے فنڈز مختص کیے جاتے ہیں۔
عدالت نے کے ایم سی اور سندھ حکومت سے پارکس کی مکمل تفصیلات طلب کرلیں۔ عدالت نے ریمارکس دیئے کہ پبلک پارکس اگر کسی کو لیز پر دیئے ہیں تو اس کی بھی فہرست پیش کی جائیں۔ عدالت نے سماعت نومبر کے دوسرے ہفتے تک ملتوی کردی۔
قائم مقام چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ جسٹس عرفان سعادت خان کی سربراہی میں دو رکنی بینچ کے روبرو کراچی میں پبلک پارکس اور پلے گراؤنڈز میں داخلہ اور پارکنگ فیس وصول کرنے کیخلاف طارق منصور ایڈوکیٹ کی درخواست پر سماعت ہوئی۔
قائم مقام چیف جسٹس عرفان سعادت پارکس میں داخلہ اور پارکنگ فیس وصول کرنے پر برہم ہوگئے۔
قائم مقام چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ شہری حکومت کے 4 اداروں نے سب کو گھن چکر بنا رکھا ہے۔ راتوں رات، کے ایم سی، ڈی ایم سی بن جاتا ہے، ڈی ایم سی، سی ڈی جی کے ( سٹی گورنمنٹ) بن جاتی ہے۔ سارے ادارے مل کر کے ڈی اے بن جاتے ہیں، یہ ہوکیا رہا ہے؟ ہم پبلک پارکس اور پلے گراؤنڈز میں کمرشل کام نہیں ہونے دیں گے۔
کے ایم سی کے وکیل نے موقف دیا کہ کے ایم سی نہ نفع نہ نقصان پر کام کررہا ہے۔ کے ایم سی کے کسی پارک میں داخلہ فیس وصول نہیں کی جارہی۔
درخواست گزار کے وکیل نے موقف دیا کہ ہل پارک میں فیس دیئے بغیر بچے داخل ہی نہیں ہوسکتے۔ عسکری پارک میں 120 روپے انٹری فیس وصول کی جارہی ہے۔
قائم مقام چیف جسٹس عرفان سعادت خان نے ریمارکس دیئے کہ جن پارکس میں جھولے لگے ہیں ،جھولہ جھولنے کی تو فیس لی جاسکتی ہے۔ جھولے بجلی سے چلتے ہیں، ان کے اخراجات ہوتے ہیں۔ درخواستگزار وکیل نے موقف دیا کہ سپریم کورٹ اپنے حکم میں لکھ چکی ہے، پارکس میں کوئی کمرشل کام نہیں ہوگا۔
عدالت نے ریمارکس دیئے کہ اگر پارکس میں داخلہ مفت دیا جارہا ہے تو جھولے مفت کیسے دیئے جاسکتے ہیں؟ پارکس میں دیگر سہولیات بھی تو موجود ہوتی ہیں۔
عدالت نے درخواست گزار سے مکالمے میں کہا کہ آپ بچوں کو جھولے بند کرانا چاہتے ہیں؟
درخواستگزار وکیل نے موقف اپنایا کہ حکومت پارکس کی مینٹیننس اور سہولیات فراہم کرنے کی پابند ہے، اس کے فنڈز مختص کیے جاتے ہیں۔
عدالت نے کے ایم سی اور سندھ حکومت سے پارکس کی مکمل تفصیلات طلب کرلیں۔ عدالت نے ریمارکس دیئے کہ پبلک پارکس اگر کسی کو لیز پر دیئے ہیں تو اس کی بھی فہرست پیش کی جائیں۔ عدالت نے سماعت نومبر کے دوسرے ہفتے تک ملتوی کردی۔