عالمی بینک کا 50 ہزارسے کم کمانے والے تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس لگانے کا مطالبہ

عالمی بینک نے 5 لاکھ روپے سے کم کمانے والے تنخواہ دار طبقے بھی پرائم ٹیکس لگانے کا مطالبہ کیا ہے

—فائل فوٹو

عالمی بینک نے 50 ہزار سے کم کمانے والے تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس کا مطالبہ کیا ہے۔


واضح رہے کہ اس وقت 50 ہزار روپے ماہانہ تک کمانے والے افراد پر انکم ٹیکس عائد نہیں ہے جبکہ 5 لاکھ روپے سے زیادہ کمانے والے افراد پرپرائم ٹیکس کی شرح 35 فیصد ہے۔ عالمی بینک نے 5 لاکھ روپے سے کم کمانے والے تنخواہ دار بھی پرائم ٹیکس لگانے کا مطالبہ کیا ہے۔


عالمی بینک کی جانب سے دی گئی تجاویز قبول کرنے سے تنخواہ دار طبقہ بہت زیادہ مالی بوجھ تھے دب جائے گا، جو کہ پہلے ہی سب سے زیادہ ٹیکس ادا کر رہا ہے۔ گزشتہ مالی سال کے دوران تنخواہ دار طبقے نے 264 ارب روپے کا کم ٹیکس جمع کر دیا تھا جبکہ پاکستان کے امیر ترین ایک سپور ٹرز نے محفل 74 ارب روپے کا کم ٹیکس جمع کرایا۔

عالمی بینک نے تنہا کار وبار کرنے والے کاروباری حضرات اور ریٹیلرز کو بھی ٹیکس نیٹ میں لانے کی تجویز دی ہے، جن کی اکثریت ٹیکس نیٹ سے باہر ہے۔

''افراط زر کی شرح 26.5 فیصد تک پہنچ جائے گی''


عالی بینک نے پیش گوئی کی ہے کہ پاکستان آئی ایم ایف پروگرام کی بنیادی شرائط میں سے ایک پرائمری بجٹ سرپس کی شرط پوری کرنے سے قاصر رہے گا اور کہا ہے کہ معاشی ترقی کی شرح 1.7 فیصد پر برقرار رہے گی لیکن افراط زر کی شرح 26.5 فیصد تک پہنچ جائے گی۔

علاوہ ازیں دکانداروں، زراعت، پولٹری اور تنخواہ دار طبقے مزید ٹیکس لگانے کی تجاویز دیدی ہیں۔ واشنگٹن میں قائم قرض دہندہ عالمی ادارے کی پاکستان ڈویلپمنٹ آؤٹ لک رپورٹ میں میکرو اکنامک فریم ورک کیلیے مالیاتی اور قرض بڑھنے کے خدشات کی بھی نشاندہی کی ہے۔

عالمی بینک کے ماہر معاشیات اور مذکورہ پورٹ کے مصنف عروب فاروق نے کہا کہ 3 ارب ڈالر کے قلیل مدتی آئی ایم ایک معاہدے کے تحت پاکستان بنیادی بجٹ سرپلس جی ڈی پی کا 0.4 فیصد یا 421 ارب روپے ظاہر کرنے کا پابند ہے۔

عالمی بینک کے ایک اور ماہر معاشیات عدنان محسن نے آئی ایم ایف کے ہدف اور عالمی بینک کے تخمینہ کے درمیان فرق کے بارے میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ خسارے کے تخمینے کا مطلب ہے سود ادائیگی کے بعد پاکستان کا بنیادی بحجت 850 ارب روپے کم ہو جائے گا۔ آج ہمارے پاس آئی ایم ایف پروگرام کی منظوری کے وقت کی نسبت زیادہ معلومات ہیں، گز شتہ مالی سال بجٹ کا اصل خسارہ آئی ایم ایف پروگرام کے وقت عارضی طور پر لگائے گئے اعداد و شمار سے زیادہ تھا۔

 
Load Next Story