مائی جنت کو انصاف ملے گا
ایک سرکاری پریس نوٹ میں بتایا گیا ہے کہ گوٹھ ماری جلبانی میں خودکش حملہ آور کی اطلاع ملی تھی
سندھ کا شہر سکرنڈ ضلع شہید بے نظیر آباد (سابقہ نواب شاہ) کا تعلقہ ہے، سکرنڈ نواب شاہ سے 18کلومیٹر دور قومی شاہراہ پر واقع ہے۔
سکرنڈ کے گوٹھ ماری جلبانی میں پچھلے دنوں ایک واقعے میں چار ہاری جاں بحق ہوئے جب کہ زخمیوں میں خواتین بھی شامل ہیں۔ اس سلسلے میں ایک سرکاری پریس نوٹ میں بتایا گیا ہے کہ گوٹھ ماری جلبانی میں خودکش حملہ آور کی اطلاع ملی تھی' اس کی گرفتاری کے لیے پولیس آپریشن ہوا' جس میں چار افراد مارے گئے۔
صوبہ سندھ کے نگراں وزیر داخلہ نے اسے معمول کا ایک واقعہ سمجھا اور روایتی باتیں کیں' لیکن اگر یہ معمول کا واقعہ ہوتا تو خاموشی اختیار کر لی جاتی مگر اس واقعے پر شہریوں کی جانب سے احتجاج کیا گیا اور میتوں کو قومی شاہراہ پر رکھ دیا گیا۔
اس احتجاج کے بعد سندھ کے نگراں وزیر اعلیٰ جسٹس (ر) مقبول باقر نے اس صورتحال کا نوٹس لیا اوراصل حقائق جاننے کے لیے ایک تحقیقاتی کمیٹی قائم کر دی۔ مظاہرین کا مطالبہ تھا کہ اس واقعے کی فوری طور پر ایف آئی آر درج کی جائے جس پر وزیر اعلیٰ نے مظاہرین کا اس مقدمہ کی ایف آئی آر درج کرنے کا مطالبہ تسلیم کیا۔
ماری جلبانی پولیس اسٹیشن میں دو ایف آئی آر درج کرائی گئیں۔ ایف آئی آر درج کرانے کے بعد مظاہرین کو اطمینان ہوا کہ اب یہ مقدمہ چلے گا اور اس کا فیصلہ انصاف کے تقاضوں کو سامنے رکھتے ہوئے کیا جائے گا۔
اس واقعے کی ایک ایف آئی آر رجب جلبانی نامی شخص نے درج کرائی۔ اس ایف آئی آر کے مطابق قتل کیے گئے چار افرادبے گناہ تھے'مرنے والوں میں درخواست گزار کا بھائی بھی شامل ہے۔
ایسا واقعہ کوئی پہلی بار رونما نہیں ہوا بلکہ اگرتاریخ کے صفحات کا بغور مطالعہ کیا جائے تو ٹنڈو بہاول میں کسانوں کی ہلاکت کاایک واقعہ ابھر کر سامنے آتا ہے۔
یہ 5 جون 1992کا واقعہ ہے ' ٹنڈو بہاول کے ایک گاؤں میں میجر ارشد جمیل نامی شخص نے اختیارات سے تجاوز کیا اور 9 کسانوں کو گاڑیوں میں بٹھا کر جامشورو کے نزدیک دریائے سندھ کے کنارے پر گولیاں مارکر ہلاک کردیا۔جن لوگوں کو قتل کیا گیا تھا' ان کے بارے میں پراپیگنڈا کیا گیا کہ یہ افراد دہشت گرد تھے اور ان کا تعلق بھارت کی خفیہ ایجنسی '' را'' سے تھا۔یہ ساری کہانی بعد میں غلط ثابت ہوئی۔ اصولی طور پر اس کا فیصلہ تو مکمل اور غیر جانبدارانہ تحقیقات کے بعدہونا چاہیے کہ مرنے والے افراد کا تعلق کسی غیر ملکی ایجنسی سے تھا یا نہیںیا وہ دہشت گرد تھے یا نہیں تھے۔
قٹنڈو بہاول کے اس واقعے کے بعد جب مقتولین کی لاشیں گاؤں لائی گئی تو اطلاعات کے مطابق گاؤںکا ہر شخص رو رہا تھا سوائے مرنے والوں کی ماں مائی جندو کے۔ جب رشتہ داروں نے مائی جندو کی حالت دیکھتے ہوئے اسے رلانے کی کوشش کی تو اس نے کہا تھا کہ مائی جندو اس وقت روئے گی جب اس کے بیٹوں کے قاتل کو سزائے موت ہوگی۔
یہ واقعہ چھپا نہ رہ سکا اور بات بڑھتے بڑھتے میڈیا تک جا پہنچی' میڈیا نے اپنا فرض ادا کیا' کراچی اور حیدرآباد کے اخبارات کی خبروں کی سرخیوں میںاس سانحے کی سچائی جاننے کی مانگ کی گئی'ان اخباری سرخیوںمیںمائی جندو کی آہیں بھی شامل تھیں۔ بات یہیں تک محدود نہ رہی بلکہ بین الاقوامی ذرایع ابلاغ پربھی ٹنڈو بہاول کے واقعہ کی تشہیر ہوئی۔
جب اس واقعہ کی رپورٹ ملکی میڈیا کے علاوہ غیر ملکی میڈیا میں بھی آئی تو حکومت کے نوٹس میں بھی یہ بات آ گئی اور حکومت نے بھی اس واقعے کا ایکشن لیا۔ اس وقت میاں نواز شریف وزیر اعظم تھے۔انھوں نے اس واقعے کی تحقیقات کا حکم دیا۔
تحقیقات سے ثابت ہوا کہ مرنے والے بھارتی ایجنٹ نہیں تھے اور نہ ہی ان کا کسی دہشت گردی میں ملوث ہونے کا کوئی ثبوت تھا 'وہ کسان تھے اور زرعی زمین کے تنازع پرکسانوں کو قتل کیا گیا تھا۔تحقیقاتی رپورٹ میں حقائق سامنے آنے پر حکومت پر بھی دباؤ بڑھا' خوش آیند بات یہ ہے کہ اس وقت یہ معاملہ اتنا بڑھا کہ وزیر اعظم نواز شریف سے اس وقت کے فوج کے سربراہ جنرل آصف نواز نے ملاقات کی۔
جنرل آصف نواز نے میجر ارشد کے کورٹ مارشل کے احکامات جاری کیے۔ اس کے بعد تحقیقات اور واقعات کی روشنی میں انصاف کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے فیلڈ جنرل کورٹ مارشل نے میجر ارشد کو سزائے موت اور 13 فوجی اہلکاروں کو عمر قید کی سزائیں دیں۔بات یہاں ختم نہیں ہوتی۔ میجر ارشد اور سزا پانے والے افراد نے اعلیٰ قیادت سے رحم کی اپیل کی' مجرموں کا خیال تھا کہ ان کی رحم کی اپیل قبول کر لی جائے گی اور وہ سزا سے بچ جائیں گے۔ مگر یہ اپیل مسترد کردی گئی۔
اس وقت کے صدر فاروق لغاری سے رحم کی اپیل ہوئی مگر 31 دسمبر 1993 کو یہ اپیلیں مسترد کردی گئیں۔ملزمان کہاں ہار ماننے والے تھے انھوں نے اپنی جان بچانے کے لیے ہر ممکن کوشش کی' میجر ارشد جمیل کے بھائی کی عرضداشت پر سپریم کورٹ کے جج جسٹس سعید الزماں صدیقی نے سزائے موت پر حکم امتناع جاری کیا۔
سزائے موت پر عمل نہ ہونے پر 11 ستمبر 1996 کو مائی جندو پھر میدان میں آگئی۔ اس کی دو بیٹیوں نے حیدرآباد پریس کلب کے سامنے اپنے جسموں پر تیل چھڑک کر خود کو آگ لگائی۔ ان کو اسپتال لے جایا گیا مگر دو عورتیں بچ نہ سکیں۔ مائی جندو کے احتجاج اور بیٹیوں کی ہلاکت کی خبروں نے پورے ملک میں کہرام مچا دیا اور آخرکار 28 اکتوبر 1996کو میجر ارشد کو پھانسی دیدی گئی۔
جب مجرم کو پھانسی دی جارہی تھی تو مائی جندو کی بوڑھی آنکھوں سے آنسو کا ایک قطرہ گرا اور پھر آنسوؤں کی بارش شروع ہوگئی۔ سندھ کے دانشوروں کی متفقہ رائے ہے کہ سکرنڈ کے واقعہ اور ٹنڈو بہاول کے واقعہ میں مشابہت کے آثار نظر آتے رہے۔
اس پورے سکرنڈ سے تعلق رکھنے والے ایک سینئر صحافی کا کہنا ہے کہ بعض عناصر نے اپنے چھپے مفادات کے حصول کے لیے گمراہ کن اطلاعات دیں جس کی بناء پر یہ سانحہ رونما ہوا۔ سندھ کے نگراں وزیر اعلیٰ قابل وکیل اور بہادر جج کی شہرت رکھتے ہیں۔
انھوں نے عدلیہ کی آزادی کی تحریک میں حصہ لیا اور جب سپریم کورٹ میں موجودہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس پیش ہوا تو اس ریفرنس کی سب سے زیادہ مخالفت جسٹس باقر نے کی تھی، وہ سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس رہے۔
جج صاحب اس حقیقت سے آگاہ ہیں کہ جب کوئی سرکاری اہلکار عوام کے حقوق پامال کرتے ہیں تو ان کا احتساب ان کے اپنے افسر نہیں کرتے۔ کمشنر اور پولیس افسروں کی تحقیقات پر کوئی اعتماد نہیں کرے گا۔ قانون پر عملدرآمد پر یقین رکھنے والوں کو امید ہے کہ جس طرح مائی جندو کو انصاف ملا تھا اسی طرح آپ کے دور میں بھی مائی جنت جلبانی کو انصاف مل سکے گا۔
سکرنڈ کے گوٹھ ماری جلبانی میں پچھلے دنوں ایک واقعے میں چار ہاری جاں بحق ہوئے جب کہ زخمیوں میں خواتین بھی شامل ہیں۔ اس سلسلے میں ایک سرکاری پریس نوٹ میں بتایا گیا ہے کہ گوٹھ ماری جلبانی میں خودکش حملہ آور کی اطلاع ملی تھی' اس کی گرفتاری کے لیے پولیس آپریشن ہوا' جس میں چار افراد مارے گئے۔
صوبہ سندھ کے نگراں وزیر داخلہ نے اسے معمول کا ایک واقعہ سمجھا اور روایتی باتیں کیں' لیکن اگر یہ معمول کا واقعہ ہوتا تو خاموشی اختیار کر لی جاتی مگر اس واقعے پر شہریوں کی جانب سے احتجاج کیا گیا اور میتوں کو قومی شاہراہ پر رکھ دیا گیا۔
اس احتجاج کے بعد سندھ کے نگراں وزیر اعلیٰ جسٹس (ر) مقبول باقر نے اس صورتحال کا نوٹس لیا اوراصل حقائق جاننے کے لیے ایک تحقیقاتی کمیٹی قائم کر دی۔ مظاہرین کا مطالبہ تھا کہ اس واقعے کی فوری طور پر ایف آئی آر درج کی جائے جس پر وزیر اعلیٰ نے مظاہرین کا اس مقدمہ کی ایف آئی آر درج کرنے کا مطالبہ تسلیم کیا۔
ماری جلبانی پولیس اسٹیشن میں دو ایف آئی آر درج کرائی گئیں۔ ایف آئی آر درج کرانے کے بعد مظاہرین کو اطمینان ہوا کہ اب یہ مقدمہ چلے گا اور اس کا فیصلہ انصاف کے تقاضوں کو سامنے رکھتے ہوئے کیا جائے گا۔
اس واقعے کی ایک ایف آئی آر رجب جلبانی نامی شخص نے درج کرائی۔ اس ایف آئی آر کے مطابق قتل کیے گئے چار افرادبے گناہ تھے'مرنے والوں میں درخواست گزار کا بھائی بھی شامل ہے۔
ایسا واقعہ کوئی پہلی بار رونما نہیں ہوا بلکہ اگرتاریخ کے صفحات کا بغور مطالعہ کیا جائے تو ٹنڈو بہاول میں کسانوں کی ہلاکت کاایک واقعہ ابھر کر سامنے آتا ہے۔
یہ 5 جون 1992کا واقعہ ہے ' ٹنڈو بہاول کے ایک گاؤں میں میجر ارشد جمیل نامی شخص نے اختیارات سے تجاوز کیا اور 9 کسانوں کو گاڑیوں میں بٹھا کر جامشورو کے نزدیک دریائے سندھ کے کنارے پر گولیاں مارکر ہلاک کردیا۔جن لوگوں کو قتل کیا گیا تھا' ان کے بارے میں پراپیگنڈا کیا گیا کہ یہ افراد دہشت گرد تھے اور ان کا تعلق بھارت کی خفیہ ایجنسی '' را'' سے تھا۔یہ ساری کہانی بعد میں غلط ثابت ہوئی۔ اصولی طور پر اس کا فیصلہ تو مکمل اور غیر جانبدارانہ تحقیقات کے بعدہونا چاہیے کہ مرنے والے افراد کا تعلق کسی غیر ملکی ایجنسی سے تھا یا نہیںیا وہ دہشت گرد تھے یا نہیں تھے۔
قٹنڈو بہاول کے اس واقعے کے بعد جب مقتولین کی لاشیں گاؤں لائی گئی تو اطلاعات کے مطابق گاؤںکا ہر شخص رو رہا تھا سوائے مرنے والوں کی ماں مائی جندو کے۔ جب رشتہ داروں نے مائی جندو کی حالت دیکھتے ہوئے اسے رلانے کی کوشش کی تو اس نے کہا تھا کہ مائی جندو اس وقت روئے گی جب اس کے بیٹوں کے قاتل کو سزائے موت ہوگی۔
یہ واقعہ چھپا نہ رہ سکا اور بات بڑھتے بڑھتے میڈیا تک جا پہنچی' میڈیا نے اپنا فرض ادا کیا' کراچی اور حیدرآباد کے اخبارات کی خبروں کی سرخیوں میںاس سانحے کی سچائی جاننے کی مانگ کی گئی'ان اخباری سرخیوںمیںمائی جندو کی آہیں بھی شامل تھیں۔ بات یہیں تک محدود نہ رہی بلکہ بین الاقوامی ذرایع ابلاغ پربھی ٹنڈو بہاول کے واقعہ کی تشہیر ہوئی۔
جب اس واقعہ کی رپورٹ ملکی میڈیا کے علاوہ غیر ملکی میڈیا میں بھی آئی تو حکومت کے نوٹس میں بھی یہ بات آ گئی اور حکومت نے بھی اس واقعے کا ایکشن لیا۔ اس وقت میاں نواز شریف وزیر اعظم تھے۔انھوں نے اس واقعے کی تحقیقات کا حکم دیا۔
تحقیقات سے ثابت ہوا کہ مرنے والے بھارتی ایجنٹ نہیں تھے اور نہ ہی ان کا کسی دہشت گردی میں ملوث ہونے کا کوئی ثبوت تھا 'وہ کسان تھے اور زرعی زمین کے تنازع پرکسانوں کو قتل کیا گیا تھا۔تحقیقاتی رپورٹ میں حقائق سامنے آنے پر حکومت پر بھی دباؤ بڑھا' خوش آیند بات یہ ہے کہ اس وقت یہ معاملہ اتنا بڑھا کہ وزیر اعظم نواز شریف سے اس وقت کے فوج کے سربراہ جنرل آصف نواز نے ملاقات کی۔
جنرل آصف نواز نے میجر ارشد کے کورٹ مارشل کے احکامات جاری کیے۔ اس کے بعد تحقیقات اور واقعات کی روشنی میں انصاف کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے فیلڈ جنرل کورٹ مارشل نے میجر ارشد کو سزائے موت اور 13 فوجی اہلکاروں کو عمر قید کی سزائیں دیں۔بات یہاں ختم نہیں ہوتی۔ میجر ارشد اور سزا پانے والے افراد نے اعلیٰ قیادت سے رحم کی اپیل کی' مجرموں کا خیال تھا کہ ان کی رحم کی اپیل قبول کر لی جائے گی اور وہ سزا سے بچ جائیں گے۔ مگر یہ اپیل مسترد کردی گئی۔
اس وقت کے صدر فاروق لغاری سے رحم کی اپیل ہوئی مگر 31 دسمبر 1993 کو یہ اپیلیں مسترد کردی گئیں۔ملزمان کہاں ہار ماننے والے تھے انھوں نے اپنی جان بچانے کے لیے ہر ممکن کوشش کی' میجر ارشد جمیل کے بھائی کی عرضداشت پر سپریم کورٹ کے جج جسٹس سعید الزماں صدیقی نے سزائے موت پر حکم امتناع جاری کیا۔
سزائے موت پر عمل نہ ہونے پر 11 ستمبر 1996 کو مائی جندو پھر میدان میں آگئی۔ اس کی دو بیٹیوں نے حیدرآباد پریس کلب کے سامنے اپنے جسموں پر تیل چھڑک کر خود کو آگ لگائی۔ ان کو اسپتال لے جایا گیا مگر دو عورتیں بچ نہ سکیں۔ مائی جندو کے احتجاج اور بیٹیوں کی ہلاکت کی خبروں نے پورے ملک میں کہرام مچا دیا اور آخرکار 28 اکتوبر 1996کو میجر ارشد کو پھانسی دیدی گئی۔
جب مجرم کو پھانسی دی جارہی تھی تو مائی جندو کی بوڑھی آنکھوں سے آنسو کا ایک قطرہ گرا اور پھر آنسوؤں کی بارش شروع ہوگئی۔ سندھ کے دانشوروں کی متفقہ رائے ہے کہ سکرنڈ کے واقعہ اور ٹنڈو بہاول کے واقعہ میں مشابہت کے آثار نظر آتے رہے۔
اس پورے سکرنڈ سے تعلق رکھنے والے ایک سینئر صحافی کا کہنا ہے کہ بعض عناصر نے اپنے چھپے مفادات کے حصول کے لیے گمراہ کن اطلاعات دیں جس کی بناء پر یہ سانحہ رونما ہوا۔ سندھ کے نگراں وزیر اعلیٰ قابل وکیل اور بہادر جج کی شہرت رکھتے ہیں۔
انھوں نے عدلیہ کی آزادی کی تحریک میں حصہ لیا اور جب سپریم کورٹ میں موجودہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس پیش ہوا تو اس ریفرنس کی سب سے زیادہ مخالفت جسٹس باقر نے کی تھی، وہ سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس رہے۔
جج صاحب اس حقیقت سے آگاہ ہیں کہ جب کوئی سرکاری اہلکار عوام کے حقوق پامال کرتے ہیں تو ان کا احتساب ان کے اپنے افسر نہیں کرتے۔ کمشنر اور پولیس افسروں کی تحقیقات پر کوئی اعتماد نہیں کرے گا۔ قانون پر عملدرآمد پر یقین رکھنے والوں کو امید ہے کہ جس طرح مائی جندو کو انصاف ملا تھا اسی طرح آپ کے دور میں بھی مائی جنت جلبانی کو انصاف مل سکے گا۔