قابل اعتماد اور عوام دوست رہنما ہے کون
پیپلز پارٹی بغیر گروپنگ آصف زرداری اور بلاول بھٹوکی سربراہی میں قائم ہے
رواں برس پنجاب اور خیبرپختون خوا میں دو نئی پارٹیوں کے قیام کے بعد ایک نئی قومی سطح کی پارٹی کے قیام کی باتیں ہو رہی ہیں اور سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کی تو یہ خواہش ہے کہ نئی پارٹی ایسی ہو جو اسٹیبلشمنٹ کی مدد کے بغیر اقتدارکی خواہاں اور اپنے طور پر اقتدارکے حصول کے قابل ہو، جس پر عوام بھی اعتماد کر سکیں۔
نئی پارٹی کے قیام کے لیے سب سے اہم بات وہ شخصیت ہو جس کی سربراہی میں پارٹی وجود میں آئے۔ اب تک ملک میں اہم شخصیات نے پارٹیاں بنائیں نہ برسر اقتدار بالاتروں کی خواہش پر پارٹیاں بنائی گئیں اور تین آمر سربراہوں، ایوب خان دور میں مسلم لیگ کنونشن، جنرل ضیا دور میں پاکستان مسلم لیگ اور جنرل پرویز مشرف دور میں مسلم لیگ قائد اعظم بنائی گئی تھیں۔
تینوں کے نام مسلم لیگ پر تھے۔ مسلم لیگ کنونشن جنرل ایوب دور ہی میں ختم ہوگئی تھی جس کے بعد مسلم لیگ کے تین بڑے گروپ جونیجو، نواز اور چٹھہ میں تقسیم ہوئے اور صرف مسلم لیگ (ن) ہی کی شناخت باقی ہے۔ مسلم لیگ (ق) چند علاقوں تک محدود ہے جس کے سربراہ چوہدری شجاعت طویل عرصے سے بیمار ہیں جس سے پرویز الٰہی گروپ الگ ہو کر پی ٹی آئی میں جا چکا ہے جو 9 مئی کے بعد تین حصوں میں تقسیم ہوچکی ہے۔
پیپلز پارٹی بغیر گروپنگ آصف زرداری اور بلاول بھٹوکی سربراہی میں قائم ہے۔ مسلم لیگ (ن) سے (ش) نکالنے کی کوئی کوشش کامیاب نہیں ہوئی اور مسلم لیگ (ن) نواز شریف کی قیادت میں متحد ہے اور یہ تینوں پارٹیاں وفاقی اقتدار میں رہ چکی ہیں۔
پی ٹی آئی کے چیئرمین اورکچھ قیادت قید ہے اور اس کے برطرف کیے گئے وزیر اعظم کو ابھی بے شمار مقدمات کا سامنا ہے اور خوش فہمی کے شکار اس کے رہنماؤں کو امید ہے کہ قید چیئرمین کے باوجود پی ٹی آئی بھی 2018 کے قید نواز شریف کی طرح اپنی مقبولیت کے باعث پی ٹی آئی کوکامیابی دلا دیں گے مگر وہ یہ بھول گئے کہ نواز شریف پر بنائے گئے مقدمات کمزور تھے اور بالاتروں کی حمایت بھی انھیں حاصل نہیں تھی جب کہ قید چیئرمین پی ٹی آئی پر بعض مقدمات درست بھی ہیں اور بعض سنگین بھی اور انھیں بیٹے سے تنخواہ نہ لینے پر سزا نہیں ہوئی بلکہ بعض مقدمات انھیں سالوں قید میں رکھیں گے۔
قید چیئرمین کی پارٹی جس طرح بنوائی گئی تھی ویسے ہی وہ بکھر چکی۔ آیندہ انتخابات 1970 جیسے نہیں ہوں گے کہ بھٹو صاحب کے ٹکٹ پر کھمبا بھی جیت سکتا ہے مگر اس وقت بھٹو صاحب آزاد تھے اور صرف مغربی پاکستان کے دو صوبوں میں اکثریت لے سکے تھے۔
چیئرمین پی ٹی آئی نہ صرف قید بلکہ سیاسی طور پر تنہا ہیں۔ ان کی پارٹی پر مال لگانے والے اپنی پارٹی بنا چکے۔
چیئرمین پی ٹی آئی دوسروں کے مال پر سیاست کے عادی رہے ہیں اور جو مال ان کے پاس ہے وہ اب ان کے مقدمات پر خرچ ہو رہا ہے اور انھیں مہنگے مہنگے وکیلوں کی خدمات معاوضے پر حاصل کرنا پڑ رہی ہیں اور اب صوبائی اسمبلی کا الیکشن بھی کروڑوں روپے خرچ کرنے پر ہی جیتا جا سکتا ہے ۔
پیپلز پارٹی اور (ن) لیگ کی باریوں کے بعد پونے چار سال پی ٹی آئی کی حکومت بھی آزمائی جا چکی اور مختلف پارٹیوں میں موجود جو نمایاں چہرے ہیں وہ سب ماضی کی حکومتوں کا حصہ رہے ہیں اور ماضی سے حکمران رہنے والوں نے الیکشن میں جو وعدے کیے، پارٹی منشور دیے ان میں چیئرمین پی ٹی آئی واحد وزیر اعظم تھے جنھوں نے عوام سے کیا گیا کوئی ایک وعدہ بھی پورا نہیں کیا۔
پی پی کہہ سکتی ہے کہ اس نے لوگوں کو روزگار دیا، (ن) لیگ کہہ سکتی ہے کہ اس نے 2018 تک ملک کو اندھیروں سے نکال کر لوڈ شیڈنگ ختم کرنے کا وعدہ پورا کیا تھا مگر پی ٹی آئی کے پاس صرف مظلومیت کی دہائی کے سوا کچھ نہیں ہوگا اور نواز شریف بھی کہیں گے کہ ان کی تینوں حکومتیں اچھی کارکردگی کے باوجود ختم کی گئیں اور انھیں ناحق قید رکھا گیا تھا۔
مسلم لیگ ن کے اس موقف میں کسی حد تک وزن بھی موجود ہے کیونکہ عوام نے دیکھا ہے کہ مسلم لیگ ن کے دور حکومت میں بجلی کی لوڈشیڈنگ تقریباً ختم ہو گئی تھی 'اس کے علاوہ ملک کی کاروباری صورتحال بھی خاصی بہتر تھی' مڈل کلاس طبقے کے لیے اتنی مشکلات پیدا نہیں ہوئی تھیں جتنی کہ آج یہ طبقہ برداشت کر رہا ہے۔ تعمیراتی کام بھی زیادہ ہو رہے تھے جس کا اثر بھی معاشی سرگرمیوں میں تیزی آنے کا سبب بنا۔
عوام مہنگائی کے جس عذاب میں مبتلا ہیں اس کی ذمے دار تینوں سابق حکمران جماعتیں ہیں اور ان پر کرپشن کے الزامات بھی ہیں اور تینوں کی قیادت نے جیلیں بھی بھگتی ہیں اور خود کو بھی مالی طور پر مستحکم کیا ہے۔
عوام مہنگائی، کرپشن اور سابق حکمرانوں کی کارکردگی سے مایوس ہو کر کسی نئی پارٹی کے منتظر نہیں بلکہ اسی جان لیوا مہنگائی سے چھٹکارا چاہتے اور تینوں بڑی پارٹیوں کو آزما چکے اور پرانے حکمرانوں سمیت اب کسی نئی پارٹی کے نئے دعوؤں میں آنے پر تیار نہیں ہیں۔ ان کا مسئلہ کسی پارٹی کا اقتدار نہیں بلکہ انھیں درپیش مالی مسائل ہیں۔
ملک میں اب کوئی ایسی قومی شخصیت موجود نہیں جس کی قیادت میں نئی پارٹی بن سکے۔ نئی پارٹی کے خواہش مندوں میں کوئی بھی قومی اہمیت کا حامل نہیں۔ مفتاح اسمٰعیل نے اپنی وزارت میں عوام کو نظر انداز کیا۔ ہنس ہنس کر پٹرول بڑھاتے اور عوام پر ٹیکس نہ دینے کا الزام لگاتے رہے۔ مصطفیٰ نواز کھوکھر نے کبھی صوبائی الیکشن تک نہیں لڑا۔
ملک میں چینی کی مہنگائی کا ذمے دار بعض سیاستدانوں کو سمجھا جاتا ہے اور ان کی پارٹی میں وہ تمام لوگ ہیں جو پی ٹی آئی میں تھے اور پنجاب تک محدود ہیں۔ پرویز خٹک کی سیاست کے پی کے چند اضلاع تک محدود ہے اور یہ سب چیئرمین پی ٹی آئی کے وفادار اور ان کے اشاروں پر چلا کرتے تھے انھیں اب عوام کا خیال آیا ہے۔
شاہد خاقان عباسی کا جہاں تک معاملہ ہے تو یاد رکھیں کہ نئی پارٹی کثیر سرمائے کے بغیر بن نہیں سکتی اور اب الیکشن کروڑوں کا کھیل بن چکے ہیں۔
ماضی کے حکمرانوں میں کوئی ایک بھی عوام دوست ثابت نہیں ہوا سب کے دعوے جھوٹے تھے۔ ہر پارٹی نے عوام کو مایوس کیا کوئی ایک رہنما قومی لیڈر ہے، نہ عوام میں مقبول تو نئی پارٹی کون بنائے گا؟
نئی پارٹی کے قیام کے لیے سب سے اہم بات وہ شخصیت ہو جس کی سربراہی میں پارٹی وجود میں آئے۔ اب تک ملک میں اہم شخصیات نے پارٹیاں بنائیں نہ برسر اقتدار بالاتروں کی خواہش پر پارٹیاں بنائی گئیں اور تین آمر سربراہوں، ایوب خان دور میں مسلم لیگ کنونشن، جنرل ضیا دور میں پاکستان مسلم لیگ اور جنرل پرویز مشرف دور میں مسلم لیگ قائد اعظم بنائی گئی تھیں۔
تینوں کے نام مسلم لیگ پر تھے۔ مسلم لیگ کنونشن جنرل ایوب دور ہی میں ختم ہوگئی تھی جس کے بعد مسلم لیگ کے تین بڑے گروپ جونیجو، نواز اور چٹھہ میں تقسیم ہوئے اور صرف مسلم لیگ (ن) ہی کی شناخت باقی ہے۔ مسلم لیگ (ق) چند علاقوں تک محدود ہے جس کے سربراہ چوہدری شجاعت طویل عرصے سے بیمار ہیں جس سے پرویز الٰہی گروپ الگ ہو کر پی ٹی آئی میں جا چکا ہے جو 9 مئی کے بعد تین حصوں میں تقسیم ہوچکی ہے۔
پیپلز پارٹی بغیر گروپنگ آصف زرداری اور بلاول بھٹوکی سربراہی میں قائم ہے۔ مسلم لیگ (ن) سے (ش) نکالنے کی کوئی کوشش کامیاب نہیں ہوئی اور مسلم لیگ (ن) نواز شریف کی قیادت میں متحد ہے اور یہ تینوں پارٹیاں وفاقی اقتدار میں رہ چکی ہیں۔
پی ٹی آئی کے چیئرمین اورکچھ قیادت قید ہے اور اس کے برطرف کیے گئے وزیر اعظم کو ابھی بے شمار مقدمات کا سامنا ہے اور خوش فہمی کے شکار اس کے رہنماؤں کو امید ہے کہ قید چیئرمین کے باوجود پی ٹی آئی بھی 2018 کے قید نواز شریف کی طرح اپنی مقبولیت کے باعث پی ٹی آئی کوکامیابی دلا دیں گے مگر وہ یہ بھول گئے کہ نواز شریف پر بنائے گئے مقدمات کمزور تھے اور بالاتروں کی حمایت بھی انھیں حاصل نہیں تھی جب کہ قید چیئرمین پی ٹی آئی پر بعض مقدمات درست بھی ہیں اور بعض سنگین بھی اور انھیں بیٹے سے تنخواہ نہ لینے پر سزا نہیں ہوئی بلکہ بعض مقدمات انھیں سالوں قید میں رکھیں گے۔
قید چیئرمین کی پارٹی جس طرح بنوائی گئی تھی ویسے ہی وہ بکھر چکی۔ آیندہ انتخابات 1970 جیسے نہیں ہوں گے کہ بھٹو صاحب کے ٹکٹ پر کھمبا بھی جیت سکتا ہے مگر اس وقت بھٹو صاحب آزاد تھے اور صرف مغربی پاکستان کے دو صوبوں میں اکثریت لے سکے تھے۔
چیئرمین پی ٹی آئی نہ صرف قید بلکہ سیاسی طور پر تنہا ہیں۔ ان کی پارٹی پر مال لگانے والے اپنی پارٹی بنا چکے۔
چیئرمین پی ٹی آئی دوسروں کے مال پر سیاست کے عادی رہے ہیں اور جو مال ان کے پاس ہے وہ اب ان کے مقدمات پر خرچ ہو رہا ہے اور انھیں مہنگے مہنگے وکیلوں کی خدمات معاوضے پر حاصل کرنا پڑ رہی ہیں اور اب صوبائی اسمبلی کا الیکشن بھی کروڑوں روپے خرچ کرنے پر ہی جیتا جا سکتا ہے ۔
پیپلز پارٹی اور (ن) لیگ کی باریوں کے بعد پونے چار سال پی ٹی آئی کی حکومت بھی آزمائی جا چکی اور مختلف پارٹیوں میں موجود جو نمایاں چہرے ہیں وہ سب ماضی کی حکومتوں کا حصہ رہے ہیں اور ماضی سے حکمران رہنے والوں نے الیکشن میں جو وعدے کیے، پارٹی منشور دیے ان میں چیئرمین پی ٹی آئی واحد وزیر اعظم تھے جنھوں نے عوام سے کیا گیا کوئی ایک وعدہ بھی پورا نہیں کیا۔
پی پی کہہ سکتی ہے کہ اس نے لوگوں کو روزگار دیا، (ن) لیگ کہہ سکتی ہے کہ اس نے 2018 تک ملک کو اندھیروں سے نکال کر لوڈ شیڈنگ ختم کرنے کا وعدہ پورا کیا تھا مگر پی ٹی آئی کے پاس صرف مظلومیت کی دہائی کے سوا کچھ نہیں ہوگا اور نواز شریف بھی کہیں گے کہ ان کی تینوں حکومتیں اچھی کارکردگی کے باوجود ختم کی گئیں اور انھیں ناحق قید رکھا گیا تھا۔
مسلم لیگ ن کے اس موقف میں کسی حد تک وزن بھی موجود ہے کیونکہ عوام نے دیکھا ہے کہ مسلم لیگ ن کے دور حکومت میں بجلی کی لوڈشیڈنگ تقریباً ختم ہو گئی تھی 'اس کے علاوہ ملک کی کاروباری صورتحال بھی خاصی بہتر تھی' مڈل کلاس طبقے کے لیے اتنی مشکلات پیدا نہیں ہوئی تھیں جتنی کہ آج یہ طبقہ برداشت کر رہا ہے۔ تعمیراتی کام بھی زیادہ ہو رہے تھے جس کا اثر بھی معاشی سرگرمیوں میں تیزی آنے کا سبب بنا۔
عوام مہنگائی کے جس عذاب میں مبتلا ہیں اس کی ذمے دار تینوں سابق حکمران جماعتیں ہیں اور ان پر کرپشن کے الزامات بھی ہیں اور تینوں کی قیادت نے جیلیں بھی بھگتی ہیں اور خود کو بھی مالی طور پر مستحکم کیا ہے۔
عوام مہنگائی، کرپشن اور سابق حکمرانوں کی کارکردگی سے مایوس ہو کر کسی نئی پارٹی کے منتظر نہیں بلکہ اسی جان لیوا مہنگائی سے چھٹکارا چاہتے اور تینوں بڑی پارٹیوں کو آزما چکے اور پرانے حکمرانوں سمیت اب کسی نئی پارٹی کے نئے دعوؤں میں آنے پر تیار نہیں ہیں۔ ان کا مسئلہ کسی پارٹی کا اقتدار نہیں بلکہ انھیں درپیش مالی مسائل ہیں۔
ملک میں اب کوئی ایسی قومی شخصیت موجود نہیں جس کی قیادت میں نئی پارٹی بن سکے۔ نئی پارٹی کے خواہش مندوں میں کوئی بھی قومی اہمیت کا حامل نہیں۔ مفتاح اسمٰعیل نے اپنی وزارت میں عوام کو نظر انداز کیا۔ ہنس ہنس کر پٹرول بڑھاتے اور عوام پر ٹیکس نہ دینے کا الزام لگاتے رہے۔ مصطفیٰ نواز کھوکھر نے کبھی صوبائی الیکشن تک نہیں لڑا۔
ملک میں چینی کی مہنگائی کا ذمے دار بعض سیاستدانوں کو سمجھا جاتا ہے اور ان کی پارٹی میں وہ تمام لوگ ہیں جو پی ٹی آئی میں تھے اور پنجاب تک محدود ہیں۔ پرویز خٹک کی سیاست کے پی کے چند اضلاع تک محدود ہے اور یہ سب چیئرمین پی ٹی آئی کے وفادار اور ان کے اشاروں پر چلا کرتے تھے انھیں اب عوام کا خیال آیا ہے۔
شاہد خاقان عباسی کا جہاں تک معاملہ ہے تو یاد رکھیں کہ نئی پارٹی کثیر سرمائے کے بغیر بن نہیں سکتی اور اب الیکشن کروڑوں کا کھیل بن چکے ہیں۔
ماضی کے حکمرانوں میں کوئی ایک بھی عوام دوست ثابت نہیں ہوا سب کے دعوے جھوٹے تھے۔ ہر پارٹی نے عوام کو مایوس کیا کوئی ایک رہنما قومی لیڈر ہے، نہ عوام میں مقبول تو نئی پارٹی کون بنائے گا؟