قدرتی وسائل سے مالامال صوبہ
’’مال‘‘ بظاہر عربی کا لفظ لگتا ہے لیکن اصل میں یہ پشتو لفظ ’’مل‘‘ سے نکلا ہے جس کا مطلب ہے ’’ساتھی‘‘
ہمیں ایسا لگ رہاہے بلکہ لگ نہیں رہاہے، پکا پکا یقین ہوتاجارہاہے کہ ہماراصوبہ خیبر پختون خوا بہت جلد گل وگلزار اورہمارا شہرپشاور''باغ وبہار'' ہونے والا ہے کیوں کہ ''آسمان سیاست'' پر ''ِقران السعدین'' ہو چکاہے ، قِران السعدین'' ماہرین نجوم کی اصطلاح میں اس وقت کو کہتے ہیں جب آسمان پر دومبارک ستاروں کاملن ایک ہی برج میں ہوجائے اورایسے وقت میں پیدا ہونے والے کو صاحب قِران یاذوالقرنین کہاجاتاہے ۔
ہونے والا ہے میرا کھیت چمن آج کی رات
دوستاروں کافلک پرہے ملن آج کی رات
اورہمارے صوبے اورصوبے کے دارالحکومت میں اس وقت دو بابرکت حاجیوں کاملن یاقِران السعدین ہوچکاہے ، صوبہ بڑے حاجی کے بابرکت ہاتھوں میں ہے اورشہرچھوٹے حاجی کے مبارک ہاتھوں میں ہے، پرانے زمانے میں ایسی صورت حال کو بیان کرنے کے لیے... بڑے میاں تو بڑے میاں اورچھوٹے میاں سبحان اللہ کہا کرتے تھے کیوں کو اس زمانے میں حاجی بہت کم ہوتے تھے لیکن آج ہم کہہ سکتے ہیں کہ بڑے میاں تو بڑے حاجی ، بلکہ دونوں حاجی سبحان اللہ ، الحمدللہ ، ماشاء اللہ اورانشاء اللہ ۔
یہ توہم تم سب جانتے ہیں کہ حاجی صاحبان بابرکت لوگ ہوتے ہیں کسی شہرمیں گاؤں یامحلے میں ایک بھی حاجی ہوتو اس کی برکتیں ناتمام ہوتی ہیں اسی لیے تو تاجر اوردکاندار لوگ دکان اورکاروبار بعد میں شروع کرتے ہیں اورحج پہلے کرآتے ہیںاورہم اس وقت دودو حاجیوں کے زیر سایہ آچکے ہیں گویا چپڑیاں اوروہ بھی دو دو۔
ویسے بھی ہمارے صوبے کو دو کاہندسہ راس آتاہے ، نام بھی دو۔خیبراورپختون خوا۔ صدرمقام بھی دو۔پشاوراور نتھیاگلی۔ نگران حکومتیں بھی دو، بیرسٹر بھی دو، دو بڑی دینی جماعتوں کے سربراہ بھی ۔
کچھ عرصہ پہلے حاجیوں کی ایک اورجوڑی بھی اس صوبے اورشہر کو راس آئی تھی جن کاتعلق قبائلی علاقے سے تھا، ''وڑوکے ''حاجی اور ''لوئے''حاجی۔ اس جوڑی میں بھی چھوٹا حاجی بڑے حاجی سے زیادہ بابرکت ہوگیا تھا، شہرمیں بہت کم عمارتیں بچی تھیں جن پر چھوٹے حاجی کا نام نہ چپکا ہو۔
اوریہ جو موجودہ قِران السعدین ہے اسے تو حضرت مولانا مدظلہ العالی کی سرپرستی بھی حاصل ہے ، مطلب یہ کہ اب صوبے میںروزگوشت پکے گا، پلاؤ کھائیں گے اورزردہ نوش فرمائیں گے۔ اوریہ ہم یونہی نہیں کہہ رہے ہیں دونوں حاجیوں کے بیانات سے بھی اس کی تصدیق ہوتی ہے۔
بڑے حاجی صاحب نے فرمایاہے کہ صوبہ وسائل سے مالا مال ہے اورتاجرلوگ سامنے آئیں اور صوبے کو خزانوں سے بھردیں چونکہ وہ خود بھی تاجر ہیں اس لیے جانتے ہیں کہ تاجرکس حسن وخوبی سے صوبے کو خزانوں سے بھرسکتے ہیں اورقدرتی وسائل کو ٹھیک ٹھیک استعمال کرسکتے ہیں ویسے انھوں نے ٹھیک ٹھیک مقامات پر ٹھیک ٹھیک ''ماہرین'' کو بھی بٹھایاہواہے اوربٹھارہے ہیں۔
یہاں شاید کسی کو قدرتی وسائل کے بارے میں زیادہ علم نہ ہو جس سے ہمارے صوبے کو ''مالامال'' بتایاجاتاہے بلکہ اب تک کوئی نو لاکھ نو ہزار نوسو نناوے لیڈرسب کے سب اس آموختہ کو دہراچکے ہیں کہ ہمارا صوبہ قدرتی وسائل سے مالامال ہے لیکن نشاندہی کسی نے بھی نہیں کی ہے کہ کیاکیا اورکون سے قدرتی وسائل۔
چنانچہ جب بھی قدرتی وسائل سے صوبے کے مالامال ہونے کاذکر آتا ہے تو لوگ یہ سمجھ لیتے ہیں کہ بات زیر زمین قدرتی وسائل کی ہورہی ہے اوریہیں پر کہانی میں زبردست ''ٹوسٹ'' ہے ، لیڈرلوگ اصل میں جن قدرتی وسائل کی بات کرتے ہیں وہ قدرتی وسائل نہیں جو عوام سمجھ رہے ہیں بلکہ وہ قدرتی وسائل ہیںجو عوام نہیں سمجھ رہے ہیں کیوں کہ قدرتی وسائل ، خود کو کبھی سمجھتے ہی نہیں یعنی لیڈر لوگ خود انھیں کو قدرتی وسائل سمجھتے ہیں کہ لیڈروں کاسارا کاروبار ہی انھی قدرتی وسائل سے وابستہ ہے بلکہ لیڈر ہی کیاتاجروں، آجروں، ٹھیکیداروں، وزیروں ،افسروں سب کاکاروبار انھی قدرتی وسائل سے وابستہ ہے جن کااصل نام تو ''خدامارے'' ہے لیکن لوگ پیار سے کالانعام کہتے ہیں۔
''مال'' بظاہرعربی کالفظ لگتاہے لیکن اصل میں یہ پشتو لفظ''مل''سے نکلا ہے جس کامطلب ہے ''ساتھی'' چوںکہ انسان کاسب سے قدیم اوراصل ساتھی ''جانور'' ہے جسے ''مال'' بھی کہتے ہیں ہم اب بھی مال مویشی کہتے ہیں۔
مال یا جانورجو قدیم زمانے کاسکہ رائج الوقت تھا کسی ایک امارت کاپیمانہ بھی مال یاجانورتھے تبادلہ بھی اسی کرنسی میں ہوتاتھا ، ادائیگی کاسلسلہ بھی مویشی تھے جو انسان کے مستقل ساتھی یعنی ''مل'' ہوتے تھے اسی لیے ہم بھی ''مال'' کی وہی حیثیت سمجھیں گے۔
یہ الگ بات ہے کہ آج کل اسے ووٹ بھی کہا جاتاہے ۔اوراس لحاظ سے دیکھا جائے تو ہمارا صوبہ دوسرے صوبوں سے اس ''مال'' کے معاملے میں زیادہ مالامال ہے چنانچہ بڑے حاجی صاحب کی یہ بات پکے وٹے درست ہے کہ ہمارا صوبہ قدرتی وسائل سے مالا مال ہے ۔
ہونے والا ہے میرا کھیت چمن آج کی رات
دوستاروں کافلک پرہے ملن آج کی رات
اورہمارے صوبے اورصوبے کے دارالحکومت میں اس وقت دو بابرکت حاجیوں کاملن یاقِران السعدین ہوچکاہے ، صوبہ بڑے حاجی کے بابرکت ہاتھوں میں ہے اورشہرچھوٹے حاجی کے مبارک ہاتھوں میں ہے، پرانے زمانے میں ایسی صورت حال کو بیان کرنے کے لیے... بڑے میاں تو بڑے میاں اورچھوٹے میاں سبحان اللہ کہا کرتے تھے کیوں کو اس زمانے میں حاجی بہت کم ہوتے تھے لیکن آج ہم کہہ سکتے ہیں کہ بڑے میاں تو بڑے حاجی ، بلکہ دونوں حاجی سبحان اللہ ، الحمدللہ ، ماشاء اللہ اورانشاء اللہ ۔
یہ توہم تم سب جانتے ہیں کہ حاجی صاحبان بابرکت لوگ ہوتے ہیں کسی شہرمیں گاؤں یامحلے میں ایک بھی حاجی ہوتو اس کی برکتیں ناتمام ہوتی ہیں اسی لیے تو تاجر اوردکاندار لوگ دکان اورکاروبار بعد میں شروع کرتے ہیں اورحج پہلے کرآتے ہیںاورہم اس وقت دودو حاجیوں کے زیر سایہ آچکے ہیں گویا چپڑیاں اوروہ بھی دو دو۔
ویسے بھی ہمارے صوبے کو دو کاہندسہ راس آتاہے ، نام بھی دو۔خیبراورپختون خوا۔ صدرمقام بھی دو۔پشاوراور نتھیاگلی۔ نگران حکومتیں بھی دو، بیرسٹر بھی دو، دو بڑی دینی جماعتوں کے سربراہ بھی ۔
کچھ عرصہ پہلے حاجیوں کی ایک اورجوڑی بھی اس صوبے اورشہر کو راس آئی تھی جن کاتعلق قبائلی علاقے سے تھا، ''وڑوکے ''حاجی اور ''لوئے''حاجی۔ اس جوڑی میں بھی چھوٹا حاجی بڑے حاجی سے زیادہ بابرکت ہوگیا تھا، شہرمیں بہت کم عمارتیں بچی تھیں جن پر چھوٹے حاجی کا نام نہ چپکا ہو۔
اوریہ جو موجودہ قِران السعدین ہے اسے تو حضرت مولانا مدظلہ العالی کی سرپرستی بھی حاصل ہے ، مطلب یہ کہ اب صوبے میںروزگوشت پکے گا، پلاؤ کھائیں گے اورزردہ نوش فرمائیں گے۔ اوریہ ہم یونہی نہیں کہہ رہے ہیں دونوں حاجیوں کے بیانات سے بھی اس کی تصدیق ہوتی ہے۔
بڑے حاجی صاحب نے فرمایاہے کہ صوبہ وسائل سے مالا مال ہے اورتاجرلوگ سامنے آئیں اور صوبے کو خزانوں سے بھردیں چونکہ وہ خود بھی تاجر ہیں اس لیے جانتے ہیں کہ تاجرکس حسن وخوبی سے صوبے کو خزانوں سے بھرسکتے ہیں اورقدرتی وسائل کو ٹھیک ٹھیک استعمال کرسکتے ہیں ویسے انھوں نے ٹھیک ٹھیک مقامات پر ٹھیک ٹھیک ''ماہرین'' کو بھی بٹھایاہواہے اوربٹھارہے ہیں۔
یہاں شاید کسی کو قدرتی وسائل کے بارے میں زیادہ علم نہ ہو جس سے ہمارے صوبے کو ''مالامال'' بتایاجاتاہے بلکہ اب تک کوئی نو لاکھ نو ہزار نوسو نناوے لیڈرسب کے سب اس آموختہ کو دہراچکے ہیں کہ ہمارا صوبہ قدرتی وسائل سے مالامال ہے لیکن نشاندہی کسی نے بھی نہیں کی ہے کہ کیاکیا اورکون سے قدرتی وسائل۔
چنانچہ جب بھی قدرتی وسائل سے صوبے کے مالامال ہونے کاذکر آتا ہے تو لوگ یہ سمجھ لیتے ہیں کہ بات زیر زمین قدرتی وسائل کی ہورہی ہے اوریہیں پر کہانی میں زبردست ''ٹوسٹ'' ہے ، لیڈرلوگ اصل میں جن قدرتی وسائل کی بات کرتے ہیں وہ قدرتی وسائل نہیں جو عوام سمجھ رہے ہیں بلکہ وہ قدرتی وسائل ہیںجو عوام نہیں سمجھ رہے ہیں کیوں کہ قدرتی وسائل ، خود کو کبھی سمجھتے ہی نہیں یعنی لیڈر لوگ خود انھیں کو قدرتی وسائل سمجھتے ہیں کہ لیڈروں کاسارا کاروبار ہی انھی قدرتی وسائل سے وابستہ ہے بلکہ لیڈر ہی کیاتاجروں، آجروں، ٹھیکیداروں، وزیروں ،افسروں سب کاکاروبار انھی قدرتی وسائل سے وابستہ ہے جن کااصل نام تو ''خدامارے'' ہے لیکن لوگ پیار سے کالانعام کہتے ہیں۔
''مال'' بظاہرعربی کالفظ لگتاہے لیکن اصل میں یہ پشتو لفظ''مل''سے نکلا ہے جس کامطلب ہے ''ساتھی'' چوںکہ انسان کاسب سے قدیم اوراصل ساتھی ''جانور'' ہے جسے ''مال'' بھی کہتے ہیں ہم اب بھی مال مویشی کہتے ہیں۔
مال یا جانورجو قدیم زمانے کاسکہ رائج الوقت تھا کسی ایک امارت کاپیمانہ بھی مال یاجانورتھے تبادلہ بھی اسی کرنسی میں ہوتاتھا ، ادائیگی کاسلسلہ بھی مویشی تھے جو انسان کے مستقل ساتھی یعنی ''مل'' ہوتے تھے اسی لیے ہم بھی ''مال'' کی وہی حیثیت سمجھیں گے۔
یہ الگ بات ہے کہ آج کل اسے ووٹ بھی کہا جاتاہے ۔اوراس لحاظ سے دیکھا جائے تو ہمارا صوبہ دوسرے صوبوں سے اس ''مال'' کے معاملے میں زیادہ مالامال ہے چنانچہ بڑے حاجی صاحب کی یہ بات پکے وٹے درست ہے کہ ہمارا صوبہ قدرتی وسائل سے مالا مال ہے ۔