اذیت ناک جدائی کے بعد ملنے کی خوشی
اس طرح ان یوتھیوں کا تھوکا ان کے منہ پر گرا، جو ساری دنیا کو نظر آیا
شکر الحمدللہ 25 ستمبر کو سیالکوٹ پولیس کی جانب سے خبر ملی ہے کہ 11 مئی 2023ء کو پولیس کی حراست سے رہائی کے بعد عمران ریاض خان اپنے گھر پہنچ گئے ہیں۔
ان کے وکیل اور جگری دوست میاں علی اشفاق نے بہت مثبت اور درد دل کے ساتھ بڑے محتاط انداز سے یہ کیس لڑا۔ میڈیا سے ان کے محتاط طرز گفتگو سے واضح ہوتا تھا ان کا ٹارگٹ صرف اور صرف اپنے موکل کی قانون کے مطابق رہائی تھا۔ اس دوران پی ٹی آئی کے گالم گلوچ بریگیڈ کے بیرون ملک بیٹھے سرغنہ سے لے کرکئی یوٹیوبرز نے میاں علی اشفاق کو اپنے نشانے پر رکھا کیوں کہ وہ نہیں چاہتے تھے کہ وہ اپنا کیس ہوش کے ناخن لے کر لڑے ' سمندر پار بیٹھ کر جو بدزبانی وہ کرتے رہے' یہ لوگ میاں علی اشفاق کو بھی اسی ٹریک پر ڈالنا چاہتے تھے مگر انھوں نے بردباری کا مظاہرہ کیا اور آخر کار اپنے مقصد میں کامیاب ہوئے اور عمران ریاض خان زندہ سلامت گھر پہنچ گئے۔ اس طرح ان یوتھیوں کا تھوکا ان کے منہ پر گرا، جو ساری دنیا کو نظر آیا۔ عمران ریاض خان 142دن کے بعد اپنے بچوں اور اہل خانہ میں لوٹ آئے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ان کی گمشدگی سے لے کر بازیابی تک کا ایک ایک لمحہ ان کے اہل خانہ نے کرب و اذیت میں گزرا ہے۔ ریٹنگ اور پیسے کے بھوکے خود ساختہ صحافی یوٹیوبرز سنسنی خیز اور بے سروپا خبریں پھیلا کر نہ صرف ان کے اہل خانہ کے لیے بلکہ میرے جیسے ان کے دوستوں کو ذہنی اذیت دیتے رہے، اور کیس میں پیچیدگیاں پیدا کرنے کا ذریعہ بنتے رہے۔ عمران ریاض خان سے میرا تعلق اس وقت سے ہے جب انھوں نے عملی صحافت کا آغاز میرے ہی ادارے ایکسپریس نیوز سے بطور ٹرینی رپورٹر کیا تھا۔
بہت محنتی اور متحرک رپورٹر مگر ساتھ ہی جذباتی انسان بھی پایا۔ انھیں جو بھی بیٹ ملی اسے بخوبی نبھایا۔ بہت کم وقت میں انھوں نے شعبہ صحافت میں ترقی کے زینے طے کیے اور اینکرپرسن بن گئے اور خوب شہرت پائی۔ میرے لیے وہ تمام تر اختلافات کے باوجود چھوٹے بھائیوں جیسا ہے اور رہے گا۔ اختلاف باعث رحمت قرار دیا گیا ہے اس سے چیزوں کو سمجھنے اور سمجھ کر آگے بڑھنے کی راہیں ملتی ہیں۔ اگر اختلاف مخالفت اور دشمنی میں بدل جائے تو پھر تباہی ہے۔ میرا عمران ریاض سے کبھی کوئی ذاتی اختلاف نہیں رہا، البتہ ان کے نظریات اور سوچنے کے انداز سے اختلاف ہے اور یہ اختلاف اس لیے رہا کہ مجھے وہ بہت عزیز ہے اور مجھے احساس تھا کہ یہ ان کے لیے خطرناک ہے۔
وہ جب بھی مجھ سے ملا' میں نے ان سے یہی کہا کہ جو کچھ ہورہا ہے وہ ان کے اور ان کے اہل خانہ کے حق میں بہتر نہیں ہے۔ ان کی گمشدگی پر ان کے اہل خانہ کی طرح میرے اہل خانہ بھی رنجیدہ، دلگرفتہ اور ذہنی اذیت میں مبتلا رہے۔ ان کے بھائیوں اور ان کے دوست شرین زادہ خان سے جب بھی پوچھا اس کے بعد گھنٹوں افسردہ رہا۔
عمران ریاض خان کی 142 دن کی اسیری ، اس کے اہل خانہ کی حالت زار اور اچانک گھر واپسی، ایک ایک لمحہ میری باتوں کی سچائی کی گواہی دے رہی ہے۔ ان کے ساتھ جو ہوا میرے لیے حیران کن نہیں تھا مگر افسوس ناک اور اذیت ناک ضرور تھا کیونکہ وہ جس خطرناک راستے پر چل رہے تھے۔
انھیں ان کے خیر خواہ متنبہ کرتے رہتے تھے لیکن تقدیر کا لکھا کوئی نہیں مٹا سکتا۔ پتہ نہیں دوستی نبھاتے نبھاتے یہ سب کچھ ہوا یا کسی سحر اور جادو کے اثر سے ہوا۔ مگر خوشی اس بات پر ہے کہ وہ اپنے گھر لوٹ آیا ہے۔ میں ان کے خاندان کی خوشی کے بارے میں سوچتا ہوں تو مسرور ہوجاتا ہوں کیونکہ تکلیف دہ جدائی کے بعد ملاقات کا مزہ ہی کچھ اور ہوتا ہے۔
مگر کچھ لوگوں کے غیر محتاط تبصروں سے لگتا ہے کہ انھیں ان کی باحفاظت رہائی پر خوشی نہیں ہوئی بلکہ وہ کچھ اور چاہتے تھے تاکہ پھر اس پر اپنی دکان چمکا سکیں اور زہریلا پراپیگنڈا کر کے اپنے آقاؤں کا مشن پورا کریں۔ ملک سے بھاگ کر بیرون ملک بیٹھے کچھ یوٹیوبر کے سینوں پر تو جیسے سانپ لوٹ رہے ہیں۔
خود ساختہ کہانیاں گھڑ کر لوگوں کو گمراہ کرنے کے مشن پر اس یو ٹیوبری ٹولے کو شرم بھی نہیں آتی، ان کی کسی اسٹوری میں صداقت تو نہیں مگر شرارت عیاں ہے وہ پوری ڈھٹائی کے ساتھ اپنا چورن بیچنے کی کوشش کررہے ہیں۔ لگتا ہے کہ وہ عمران ریاض خان کو کسی نئی مصیبت میں ڈال کر اپنا چورن پھر سے بیچنا شروع کریں گے۔
عمران ریاض خان سے کئی صحافیوں نے ملاقاتیں کیں اور انھوں نے اپنے اپنے رنگ میں ملاقات کا احوال بیان کیا ہے لیکن سب سے زیادہ ذمے دارانہ صحافتی کردار طارق متین، اقرار الحسن اور منصور علی خان نے اداکیا۔ تینوں نے ایک ساتھ ملاقات کی۔ طارق متین تو اس طرز صحافت کے علمبردار تھے جس طرز کی صحافت عمران ریاض خان علمبردار تھے، اقرارالحسن اور منصور علی دونوں کے نظریات سے عمران ریاض خان متفق نہیں تھے لیکن جو چیز ان تینوں میں مشترک ہے وہ ذمے دارانہ صحافت اور عمران ریاض کے خاندان کے درد کو کم کرنے کا عزم ہے۔
ان تینوں نے ملاقات کے بعد نہایت ذمے دارانہ وی لاگ کیے اور کہیں بھی غیر ذمے داری کا مظاہرہ نہیں کیا۔ عمران ریاض خان اور ان کے اہل خانہ کے متاثر کن تاثرات ہمیں بتائے جس سے یقینناً گالم گلوچ بریگیڈ کے سمندر پار ونگ کے سرغنہ کو بڑی شرمندگی ہوئی ہوگی، مگر شرم ہے کہاں۔ ہمارا یقین ہے کہ انشاء اللہ بہت جلد عمران ریاض خان کے معالجوں سے ان کا علاج شروع ہوگا اور بہت جلد ہم ان کو اسی انداز میں مہکتے چہرے کے ساتھ چہکتا دیکھیں گے۔
ان کے وکیل اور جگری دوست میاں علی اشفاق نے بہت مثبت اور درد دل کے ساتھ بڑے محتاط انداز سے یہ کیس لڑا۔ میڈیا سے ان کے محتاط طرز گفتگو سے واضح ہوتا تھا ان کا ٹارگٹ صرف اور صرف اپنے موکل کی قانون کے مطابق رہائی تھا۔ اس دوران پی ٹی آئی کے گالم گلوچ بریگیڈ کے بیرون ملک بیٹھے سرغنہ سے لے کرکئی یوٹیوبرز نے میاں علی اشفاق کو اپنے نشانے پر رکھا کیوں کہ وہ نہیں چاہتے تھے کہ وہ اپنا کیس ہوش کے ناخن لے کر لڑے ' سمندر پار بیٹھ کر جو بدزبانی وہ کرتے رہے' یہ لوگ میاں علی اشفاق کو بھی اسی ٹریک پر ڈالنا چاہتے تھے مگر انھوں نے بردباری کا مظاہرہ کیا اور آخر کار اپنے مقصد میں کامیاب ہوئے اور عمران ریاض خان زندہ سلامت گھر پہنچ گئے۔ اس طرح ان یوتھیوں کا تھوکا ان کے منہ پر گرا، جو ساری دنیا کو نظر آیا۔ عمران ریاض خان 142دن کے بعد اپنے بچوں اور اہل خانہ میں لوٹ آئے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ان کی گمشدگی سے لے کر بازیابی تک کا ایک ایک لمحہ ان کے اہل خانہ نے کرب و اذیت میں گزرا ہے۔ ریٹنگ اور پیسے کے بھوکے خود ساختہ صحافی یوٹیوبرز سنسنی خیز اور بے سروپا خبریں پھیلا کر نہ صرف ان کے اہل خانہ کے لیے بلکہ میرے جیسے ان کے دوستوں کو ذہنی اذیت دیتے رہے، اور کیس میں پیچیدگیاں پیدا کرنے کا ذریعہ بنتے رہے۔ عمران ریاض خان سے میرا تعلق اس وقت سے ہے جب انھوں نے عملی صحافت کا آغاز میرے ہی ادارے ایکسپریس نیوز سے بطور ٹرینی رپورٹر کیا تھا۔
بہت محنتی اور متحرک رپورٹر مگر ساتھ ہی جذباتی انسان بھی پایا۔ انھیں جو بھی بیٹ ملی اسے بخوبی نبھایا۔ بہت کم وقت میں انھوں نے شعبہ صحافت میں ترقی کے زینے طے کیے اور اینکرپرسن بن گئے اور خوب شہرت پائی۔ میرے لیے وہ تمام تر اختلافات کے باوجود چھوٹے بھائیوں جیسا ہے اور رہے گا۔ اختلاف باعث رحمت قرار دیا گیا ہے اس سے چیزوں کو سمجھنے اور سمجھ کر آگے بڑھنے کی راہیں ملتی ہیں۔ اگر اختلاف مخالفت اور دشمنی میں بدل جائے تو پھر تباہی ہے۔ میرا عمران ریاض سے کبھی کوئی ذاتی اختلاف نہیں رہا، البتہ ان کے نظریات اور سوچنے کے انداز سے اختلاف ہے اور یہ اختلاف اس لیے رہا کہ مجھے وہ بہت عزیز ہے اور مجھے احساس تھا کہ یہ ان کے لیے خطرناک ہے۔
وہ جب بھی مجھ سے ملا' میں نے ان سے یہی کہا کہ جو کچھ ہورہا ہے وہ ان کے اور ان کے اہل خانہ کے حق میں بہتر نہیں ہے۔ ان کی گمشدگی پر ان کے اہل خانہ کی طرح میرے اہل خانہ بھی رنجیدہ، دلگرفتہ اور ذہنی اذیت میں مبتلا رہے۔ ان کے بھائیوں اور ان کے دوست شرین زادہ خان سے جب بھی پوچھا اس کے بعد گھنٹوں افسردہ رہا۔
عمران ریاض خان کی 142 دن کی اسیری ، اس کے اہل خانہ کی حالت زار اور اچانک گھر واپسی، ایک ایک لمحہ میری باتوں کی سچائی کی گواہی دے رہی ہے۔ ان کے ساتھ جو ہوا میرے لیے حیران کن نہیں تھا مگر افسوس ناک اور اذیت ناک ضرور تھا کیونکہ وہ جس خطرناک راستے پر چل رہے تھے۔
انھیں ان کے خیر خواہ متنبہ کرتے رہتے تھے لیکن تقدیر کا لکھا کوئی نہیں مٹا سکتا۔ پتہ نہیں دوستی نبھاتے نبھاتے یہ سب کچھ ہوا یا کسی سحر اور جادو کے اثر سے ہوا۔ مگر خوشی اس بات پر ہے کہ وہ اپنے گھر لوٹ آیا ہے۔ میں ان کے خاندان کی خوشی کے بارے میں سوچتا ہوں تو مسرور ہوجاتا ہوں کیونکہ تکلیف دہ جدائی کے بعد ملاقات کا مزہ ہی کچھ اور ہوتا ہے۔
مگر کچھ لوگوں کے غیر محتاط تبصروں سے لگتا ہے کہ انھیں ان کی باحفاظت رہائی پر خوشی نہیں ہوئی بلکہ وہ کچھ اور چاہتے تھے تاکہ پھر اس پر اپنی دکان چمکا سکیں اور زہریلا پراپیگنڈا کر کے اپنے آقاؤں کا مشن پورا کریں۔ ملک سے بھاگ کر بیرون ملک بیٹھے کچھ یوٹیوبر کے سینوں پر تو جیسے سانپ لوٹ رہے ہیں۔
خود ساختہ کہانیاں گھڑ کر لوگوں کو گمراہ کرنے کے مشن پر اس یو ٹیوبری ٹولے کو شرم بھی نہیں آتی، ان کی کسی اسٹوری میں صداقت تو نہیں مگر شرارت عیاں ہے وہ پوری ڈھٹائی کے ساتھ اپنا چورن بیچنے کی کوشش کررہے ہیں۔ لگتا ہے کہ وہ عمران ریاض خان کو کسی نئی مصیبت میں ڈال کر اپنا چورن پھر سے بیچنا شروع کریں گے۔
عمران ریاض خان سے کئی صحافیوں نے ملاقاتیں کیں اور انھوں نے اپنے اپنے رنگ میں ملاقات کا احوال بیان کیا ہے لیکن سب سے زیادہ ذمے دارانہ صحافتی کردار طارق متین، اقرار الحسن اور منصور علی خان نے اداکیا۔ تینوں نے ایک ساتھ ملاقات کی۔ طارق متین تو اس طرز صحافت کے علمبردار تھے جس طرز کی صحافت عمران ریاض خان علمبردار تھے، اقرارالحسن اور منصور علی دونوں کے نظریات سے عمران ریاض خان متفق نہیں تھے لیکن جو چیز ان تینوں میں مشترک ہے وہ ذمے دارانہ صحافت اور عمران ریاض کے خاندان کے درد کو کم کرنے کا عزم ہے۔
ان تینوں نے ملاقات کے بعد نہایت ذمے دارانہ وی لاگ کیے اور کہیں بھی غیر ذمے داری کا مظاہرہ نہیں کیا۔ عمران ریاض خان اور ان کے اہل خانہ کے متاثر کن تاثرات ہمیں بتائے جس سے یقینناً گالم گلوچ بریگیڈ کے سمندر پار ونگ کے سرغنہ کو بڑی شرمندگی ہوئی ہوگی، مگر شرم ہے کہاں۔ ہمارا یقین ہے کہ انشاء اللہ بہت جلد عمران ریاض خان کے معالجوں سے ان کا علاج شروع ہوگا اور بہت جلد ہم ان کو اسی انداز میں مہکتے چہرے کے ساتھ چہکتا دیکھیں گے۔