معیشت درست سمت میں گامزن
عشروں سے جاری معاشی بے ضابطگیوں نے ملک کو کھوکھلا کردیا ہے
نگران وزیراعظم کی زیر صدارت خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل کی اپیکس کمیٹی کا چھٹا اجلاس ہوا، جس میں آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر، عبوری وفاقی کابینہ کے اراکین ، چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ اور متعلقہ اعلیٰ حکام نے شرکت کی۔
اجلاس کے بعد پریس کانفرنس میں نگراں وزیر تجارت نے کہا کہ تمام اداروں کے مل کر کام کرنے سے ملکی معیشت درست سمت میں گامزن ہوچکی ہے، خلیجی تعاون کونسل کے ممالک سے آزادانہ تجارت کا معاہدہ بڑا بریک تھرو ہے، افغان ٹرانزٹ ٹریڈ میں جائز تجارت میں تعاون فراہم کر رہے ہیں، ڈالر کی قدر گرنے سے توانائی کے شعبہ میں بھی تبدیلی آئے گی، اس سے بجلی اور پٹرول کی قیمتیں کم ہوجائیں گی ۔
پاکستان میں آیندہ چند سالوں کے دوران دوست ممالک کی طرف سے لگ بھگ 100 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی توقع کی جا رہی ہے، جس کے لیے نگران حکومت اور تمام ملکی ادارے سازگار ماحول پیدا کرنے کی ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں، اِس سلسلے میں پاک فوج نے بھی نگران حکومت کو مکمل معاونت کی یقین دہانی کرائی ہے۔
آرمی چیف جنرل سید حافظ عاصم منیر کے وژن کے مطابق کسی بھی ملک کی دفاعی خود مختاری معاشی خودمختاری سے منسلک ہے، اس لیے ایس آئی ایف سی کو قومی ذمے داری کے طور پر لیا جائے گا۔ ایس آئی ایف سی نے اپنے کام کا باقاعدہ آغاز کر دیا ہے، جس کے مثبت نتائج آنا شروع ہوچکے ہیں۔ کونسل نے خلیجی ممالک کے لیے پاکستان میں چار اہم شعبوں میں سرمایہ کاری کے مواقعے کو خاص طور پر اجاگرکیا ہے جن میں آئی ٹی، زراعت، توانائی اور کان کنی شامل ہیں۔
پاکستان اس وقت ادائیگیوں کے عدم توازن کے بحران سے نمٹنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ پاکستان کو اپنے تجارتی خسارے کو پورا کرنے اور بین الاقوامی قرضوں کی ادائیگی کے لیے اربوں ڈالر کے زرمبادلہ کی ضرورت ہے۔
ان دنوں انٹر بینک مارکیٹ میں ڈالر 283.50 روپے میں فروخت ہو رہا ہے۔ ماہرین نے روپے کی قدر میں بہتری کی پائیداری پر سوال اٹھایا ہے، اور اس سے قبل یہ اندازہ لگایا تھا کہ بیرون ملک سے سرمائے کی کم آمد اور کمزور معاشی حالات کی وجہ سے ڈالر 285 کی سطح سے نیچے نہیں جائے گا۔ یہ بنیادی طور پر ناجائز مانگ کے خلاف کریک ڈاؤن کی وجہ سے ممکن ہوا ہے، جس میں غیر قانونی منی ایکسچینج اور ہنڈی حوالہ شامل ہیں۔
یہ کریک ڈاؤن کافی عرصے پہلے ہو جانا چاہیے تھا۔ درمیانی مدت کے لیے ملک کو کثیر جہتی اور دو طرفہ رقوم کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ پروگرام کے انتظام پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ موجودہ کریک ڈاؤن جاری رہنا چاہیے اور وسط سے طویل مدتی کی جانب، ہمیں برآمدات بڑھانے کے ساتھ ساتھ ترسیلات زر اور براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری پر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے۔
پاکستان کا مینو فیکچرنگ سیکٹر سب سے بڑا ٹیکس پیئر ہے جو جی ڈی پی کا 24فیصد ٹیکس ادا کرتا ہے۔ آج سے چند برس پہلے جب کوئی صنعت کار 100 کروڑ کی مشینری لگاتا تھا تو اسے 10کروڑ کی چھوٹ ملتی تھی لیکن پھر اس 10فیصد کو صفر کر دیا گیا، پلانٹڈ مشینری پر کریڈٹ کو بحال کیا جانا چاہیے۔
زمین کی قیمت میں گزشتہ دس برس کے دوران غیر معمولی اضافہ ہوا ہے اور اب اگر کوئی صنعت کار چار ایکڑ پر انڈسٹری لگاتا ہے تو اس کے 3ارب روپے زمین کی خریداری پر خرچ ہوگئے۔ وقت گزرنے کے ساتھ مشینری کی کارکردگی اور قیمت کم ہو جاتی ہے لیکن زمین کی قیمت بڑھتی رہتی ہے۔ کسی صنعت کار نے زمین خرید کر اسے استعمال اور دوبارہ فروخت کرنے کے حقوق لیے ہیں تو اس پر ایموٹائزیشن دے دیں۔
اس سے صنعت کار کو فائدہ یہ ہو گا کہ اس کا کم از کم آدھا سرمایہ جو زمین پر خرچ ہوگیا تو اسے 25سال تک 2فیصد ایموٹائزیشن ملتا رہے گا۔ اب دو سیکٹر ایسے ہیں جن کے لیے سیاسی عزم کی ضرورت ہے۔ یہ سیکٹر ہول سیل اور ری ٹیل سیکٹر ہیں۔ اس وقت ہول سیل اور ری ٹیل سیکٹر 22 فیصد ہو گیا ہے جو کبھی 15 فیصد ہوتا تھا جب کہ ٹیکس میں اس کا حصہ 3فیصد سے بھی کم ہے۔ ٹرانسپورٹ کا حصہ 10 فیصد ہے جب کہ ٹیکس میں اس کا حصہ بمشکل 3فیصد ہے۔ ٹیکس نیٹ نہ بڑھنے کی وجہ یہ ہے کہ جی ڈی پی میں حصہ لینے والے سیکٹرز ٹیکس ادا نہیں کر رہے۔
دراصل احتجاج اور سیاسی دباؤ کی وجہ سے حکومت پیچھے ہٹ جاتی ہے۔ ٹرانسپورٹ سیکٹر میں اس وقت ڈیلیوری گڈز اور پسنجر گڈز پر کوئی ٹیکس نہیں ہے۔ حکومت کہتی ہے کہ ہم ان سے ٹیکس دینے کی بات کرتے ہیں تو یہ گاڑیاں کھڑی کردیتے ہیں جس کی وجہ سے مواصلات کا نظام معطل ہو جاتا ہے۔
لوگوں کو کاروبار کرنے دیا جائے تو جی ڈی پی بڑھے گی۔ دنیا بھر میں انفرااسٹرکچر پر آنے والی اوسط لاگت 8 فیصد ہے جب کہ ہمارے ملک میں 24فیصد سے بھی زائد ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ہماری ریلوے کارگو غیر فعال ہے۔ ہماری جی ڈی پی میں حصہ لینے والے بڑے سیکٹرز کا ٹیکس نیٹ میں حصہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ ان سیکٹرز سے ٹیکس وصول نہیں کیا جا رہا ہے اور نہ ہی اس حوالے سے کوئی سیاسی عزم پایا جاتا ہے۔
ایف بی آر ہی صرف رضاکارانہ طور پر ٹیکس لے سکتا ہے، وگرنہ اس کے پاس ٹیکس وصول کرنے کی استعداد ہی نہیں ہے۔ ہماری جی ڈی پی 340 ارب ڈالرز ہے، حالاں کہ پاکستان سے کم آبادی والے ممالک کی جی ڈی پی بھی اس کے آس پاس ہی ہے جب کہ آبادی زیادہ ہونے کی وجہ سے ہمارے پاس بہت زیادہ مواقع موجود ہیں۔ ہمارا سب سے بڑا مسئلہ کرنٹ اکاؤنٹ ڈیفیسیٹ ہے۔
ہمارے ملک میں امن و امان کی صورتحال بہتر نہ ہونے کی وجہ سے بیرونی سرمایہ کاری نہیں ہو رہی جس کی وجہ سے ہمارے پاس غیر ملکی مالی ذخائر نہیں ہیں، پھر اوورسیز پاکستانی بھی پاکستان میں سرمایہ کاری نہیں کرتے۔ وہ ترسیلات زر تو یہاں بھیجتے ہیں لیکن سرمایہ کاری بیرون ملک ہی کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر اگر وہ سالانہ اوسطاً 30 ارب ڈالرز بھیج رہے ہیں تو اتنی ہی رقم اپنے پاس رکھ لیتے ہیں۔
ہم انھیں اس رقم سے ملک میں سرمایہ کاری کی ترغیب دے سکتے ہیں۔ دوسرا ہمیں اپنی چادر دیکھ کر پاؤں پھیلانا چاہیے اور زیادہ اخراجات کی وجہ ہی سے ہمارا کرنٹ اکاؤنٹ ڈیفیسیٹ بڑھ رہا ہے۔ ہماری امپورٹس ہماری ایکسپورٹس اور ترسیلات زر سے زیادہ نہیں ہونی چاہئیں۔ پاکستان قدرتی وسائل سے مالا مال ہے لیکن گزشتہ 76 سالوں سے ناقص پالیسیوں کی وجہ سے ہم ان کا درست استعمال نہیں کر پا رہے ہیں۔
زراعت پر مبنی معیشت ہونے کے باوجود پاکستان نے 10 ارب امریکی ڈالرکی غذائی اشیاء درآمد کیں۔ وطن عزیز میں معدنی وسائل کی فراوانی اورایک بڑی IT ورک فورس دستیاب ہے لیکن مواقع کی کمی کی وجہ سے معیشت کو کوئی فائدہ نہیں۔
بیرونی سرمایہ کاری کے لیے سازگار ماحول نہیں مختلف محکموں کے NOCs کی ضرورت ہوتی ہے جس میں کم از کم 18 ماہ لگتے ہیں، اس کے برعکس جدید دنیا صرف 3 ہفتوں میں NOC کی رسمی کارروائیاں مکمل کر لیتی ہے۔ دوسری طرف پاکستان میں ہر آنے والی حکومت کی اقتصادی منصوبہ بندی اپنے دور اقتدار تک محدود چلی آئی ہے چنانچہ ہر بار قرضے لیتے وقت مزید ذرائع آمدن پیدا کیے بغیران کی واپسی کا خیال نہیں رکھا گیا۔
عشروں سے جاری معاشی بے ضابطگیوں نے ملک کو کھوکھلا کردیا ہے۔ توانائی کے شعبے کا خسارہ 2500 ارب روپے گردشی قرضے سے تجاوز کرچکا ہے۔ اگلے تین ماہ میں پاکستان نے تقریباً8 ارب ڈالرز قرض ادا کرنا ہے اور سال بھرمیں تقریباً 26 ارب ڈالرز مزید درکار ہونگے۔ ایسا لگتا ہے کہ جب تک نظام کی اصلاح نہیں ہو جاتی تب تک یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ ٹیکس سے جی ڈی پی کا تناسب پاکستان کو مہنگائی کا مقابلہ کرنے، گورننس کو بہتر بنانے، معیاری عوامی خدمات فراہم کرنے، یا انسانی وسائل کو بہتر بنانے کے قابل نہیں بناتا ہے۔
معاشی اشاریے، تیزی کے مختصر وقفوں کے بعد، ٹوٹ پھوٹ کی واضح علامات ظاہر کرنا شروع کر دیتے ہیں، پالیسیوں میں بنیادی خامیوں کی وجہ سے جہاں ترقی کو بنیادی طور پر درآمد پر مبنی ان پٹس کی مدد حاصل ہوتی ہے وہ حاصل نہیں ہو پاتی ہے۔ مقامی اقتصادی پیداوار اور کھپت مشکل وقت میں برداشت پیدا کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ کولنگ ڈاؤن اقدام کے طور پر، حکومت ملک میں معاشی سرگرمیوں کی مجموعی سطح کو کم کرنے کا انتخاب کرتی ہے۔
یہ اقدامات گھریلو طلب کو روکنے، افراط زر کی کثافت کے مرکب کو روکنے اور بیرونی ڈیفالٹ کے خطرات کو کم کرنے کے لیے کیے جاتے ہیں۔ اگرکرپشن اور جاگیرداری نظام کو ختم کر کے چھوٹے کسانوں وکاشتکاروں کو سہولتیں دی جائیں تو وہ چند برسوں میں سبز انقلاب لا سکتے ہیں جو ہمیں مہنگی غیر ملکی گندم کی درآمد سے نجات دلا سکتا ہے۔
مختلف ممالک میں بسنے والے90 لاکھ سے زائد پاکستانی سالانہ 30 ارب ڈالرز ترسیلات کے ذریعے معیشت کو سہارا دینے میں اہم ہیں، جسے اگلے 5سالوں میں بہتر رجحانات ومارکیٹینگ کے ذریعے 50 ارب ڈالرز اور برآمدات کو40 ارب ڈالرزتک بڑھایا جاسکتا ہے۔
تیل وگیس کے جو حالیہ نئے ذخائر، تھر میں کوئلہ اور سولر انرجی کے ذریعے اور فنی مہارت سے آراستہ افرادی قوت اور جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے بروئے کار لا کر پٹرولیم مصنوعات کی درآمد پر خرچ ہونے والے سالانہ اربوں ڈالر بچائے جا سکتے ہیں۔
اجلاس کے بعد پریس کانفرنس میں نگراں وزیر تجارت نے کہا کہ تمام اداروں کے مل کر کام کرنے سے ملکی معیشت درست سمت میں گامزن ہوچکی ہے، خلیجی تعاون کونسل کے ممالک سے آزادانہ تجارت کا معاہدہ بڑا بریک تھرو ہے، افغان ٹرانزٹ ٹریڈ میں جائز تجارت میں تعاون فراہم کر رہے ہیں، ڈالر کی قدر گرنے سے توانائی کے شعبہ میں بھی تبدیلی آئے گی، اس سے بجلی اور پٹرول کی قیمتیں کم ہوجائیں گی ۔
پاکستان میں آیندہ چند سالوں کے دوران دوست ممالک کی طرف سے لگ بھگ 100 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی توقع کی جا رہی ہے، جس کے لیے نگران حکومت اور تمام ملکی ادارے سازگار ماحول پیدا کرنے کی ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں، اِس سلسلے میں پاک فوج نے بھی نگران حکومت کو مکمل معاونت کی یقین دہانی کرائی ہے۔
آرمی چیف جنرل سید حافظ عاصم منیر کے وژن کے مطابق کسی بھی ملک کی دفاعی خود مختاری معاشی خودمختاری سے منسلک ہے، اس لیے ایس آئی ایف سی کو قومی ذمے داری کے طور پر لیا جائے گا۔ ایس آئی ایف سی نے اپنے کام کا باقاعدہ آغاز کر دیا ہے، جس کے مثبت نتائج آنا شروع ہوچکے ہیں۔ کونسل نے خلیجی ممالک کے لیے پاکستان میں چار اہم شعبوں میں سرمایہ کاری کے مواقعے کو خاص طور پر اجاگرکیا ہے جن میں آئی ٹی، زراعت، توانائی اور کان کنی شامل ہیں۔
پاکستان اس وقت ادائیگیوں کے عدم توازن کے بحران سے نمٹنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ پاکستان کو اپنے تجارتی خسارے کو پورا کرنے اور بین الاقوامی قرضوں کی ادائیگی کے لیے اربوں ڈالر کے زرمبادلہ کی ضرورت ہے۔
ان دنوں انٹر بینک مارکیٹ میں ڈالر 283.50 روپے میں فروخت ہو رہا ہے۔ ماہرین نے روپے کی قدر میں بہتری کی پائیداری پر سوال اٹھایا ہے، اور اس سے قبل یہ اندازہ لگایا تھا کہ بیرون ملک سے سرمائے کی کم آمد اور کمزور معاشی حالات کی وجہ سے ڈالر 285 کی سطح سے نیچے نہیں جائے گا۔ یہ بنیادی طور پر ناجائز مانگ کے خلاف کریک ڈاؤن کی وجہ سے ممکن ہوا ہے، جس میں غیر قانونی منی ایکسچینج اور ہنڈی حوالہ شامل ہیں۔
یہ کریک ڈاؤن کافی عرصے پہلے ہو جانا چاہیے تھا۔ درمیانی مدت کے لیے ملک کو کثیر جہتی اور دو طرفہ رقوم کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ پروگرام کے انتظام پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ موجودہ کریک ڈاؤن جاری رہنا چاہیے اور وسط سے طویل مدتی کی جانب، ہمیں برآمدات بڑھانے کے ساتھ ساتھ ترسیلات زر اور براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری پر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے۔
پاکستان کا مینو فیکچرنگ سیکٹر سب سے بڑا ٹیکس پیئر ہے جو جی ڈی پی کا 24فیصد ٹیکس ادا کرتا ہے۔ آج سے چند برس پہلے جب کوئی صنعت کار 100 کروڑ کی مشینری لگاتا تھا تو اسے 10کروڑ کی چھوٹ ملتی تھی لیکن پھر اس 10فیصد کو صفر کر دیا گیا، پلانٹڈ مشینری پر کریڈٹ کو بحال کیا جانا چاہیے۔
زمین کی قیمت میں گزشتہ دس برس کے دوران غیر معمولی اضافہ ہوا ہے اور اب اگر کوئی صنعت کار چار ایکڑ پر انڈسٹری لگاتا ہے تو اس کے 3ارب روپے زمین کی خریداری پر خرچ ہوگئے۔ وقت گزرنے کے ساتھ مشینری کی کارکردگی اور قیمت کم ہو جاتی ہے لیکن زمین کی قیمت بڑھتی رہتی ہے۔ کسی صنعت کار نے زمین خرید کر اسے استعمال اور دوبارہ فروخت کرنے کے حقوق لیے ہیں تو اس پر ایموٹائزیشن دے دیں۔
اس سے صنعت کار کو فائدہ یہ ہو گا کہ اس کا کم از کم آدھا سرمایہ جو زمین پر خرچ ہوگیا تو اسے 25سال تک 2فیصد ایموٹائزیشن ملتا رہے گا۔ اب دو سیکٹر ایسے ہیں جن کے لیے سیاسی عزم کی ضرورت ہے۔ یہ سیکٹر ہول سیل اور ری ٹیل سیکٹر ہیں۔ اس وقت ہول سیل اور ری ٹیل سیکٹر 22 فیصد ہو گیا ہے جو کبھی 15 فیصد ہوتا تھا جب کہ ٹیکس میں اس کا حصہ 3فیصد سے بھی کم ہے۔ ٹرانسپورٹ کا حصہ 10 فیصد ہے جب کہ ٹیکس میں اس کا حصہ بمشکل 3فیصد ہے۔ ٹیکس نیٹ نہ بڑھنے کی وجہ یہ ہے کہ جی ڈی پی میں حصہ لینے والے سیکٹرز ٹیکس ادا نہیں کر رہے۔
دراصل احتجاج اور سیاسی دباؤ کی وجہ سے حکومت پیچھے ہٹ جاتی ہے۔ ٹرانسپورٹ سیکٹر میں اس وقت ڈیلیوری گڈز اور پسنجر گڈز پر کوئی ٹیکس نہیں ہے۔ حکومت کہتی ہے کہ ہم ان سے ٹیکس دینے کی بات کرتے ہیں تو یہ گاڑیاں کھڑی کردیتے ہیں جس کی وجہ سے مواصلات کا نظام معطل ہو جاتا ہے۔
لوگوں کو کاروبار کرنے دیا جائے تو جی ڈی پی بڑھے گی۔ دنیا بھر میں انفرااسٹرکچر پر آنے والی اوسط لاگت 8 فیصد ہے جب کہ ہمارے ملک میں 24فیصد سے بھی زائد ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ہماری ریلوے کارگو غیر فعال ہے۔ ہماری جی ڈی پی میں حصہ لینے والے بڑے سیکٹرز کا ٹیکس نیٹ میں حصہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ ان سیکٹرز سے ٹیکس وصول نہیں کیا جا رہا ہے اور نہ ہی اس حوالے سے کوئی سیاسی عزم پایا جاتا ہے۔
ایف بی آر ہی صرف رضاکارانہ طور پر ٹیکس لے سکتا ہے، وگرنہ اس کے پاس ٹیکس وصول کرنے کی استعداد ہی نہیں ہے۔ ہماری جی ڈی پی 340 ارب ڈالرز ہے، حالاں کہ پاکستان سے کم آبادی والے ممالک کی جی ڈی پی بھی اس کے آس پاس ہی ہے جب کہ آبادی زیادہ ہونے کی وجہ سے ہمارے پاس بہت زیادہ مواقع موجود ہیں۔ ہمارا سب سے بڑا مسئلہ کرنٹ اکاؤنٹ ڈیفیسیٹ ہے۔
ہمارے ملک میں امن و امان کی صورتحال بہتر نہ ہونے کی وجہ سے بیرونی سرمایہ کاری نہیں ہو رہی جس کی وجہ سے ہمارے پاس غیر ملکی مالی ذخائر نہیں ہیں، پھر اوورسیز پاکستانی بھی پاکستان میں سرمایہ کاری نہیں کرتے۔ وہ ترسیلات زر تو یہاں بھیجتے ہیں لیکن سرمایہ کاری بیرون ملک ہی کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر اگر وہ سالانہ اوسطاً 30 ارب ڈالرز بھیج رہے ہیں تو اتنی ہی رقم اپنے پاس رکھ لیتے ہیں۔
ہم انھیں اس رقم سے ملک میں سرمایہ کاری کی ترغیب دے سکتے ہیں۔ دوسرا ہمیں اپنی چادر دیکھ کر پاؤں پھیلانا چاہیے اور زیادہ اخراجات کی وجہ ہی سے ہمارا کرنٹ اکاؤنٹ ڈیفیسیٹ بڑھ رہا ہے۔ ہماری امپورٹس ہماری ایکسپورٹس اور ترسیلات زر سے زیادہ نہیں ہونی چاہئیں۔ پاکستان قدرتی وسائل سے مالا مال ہے لیکن گزشتہ 76 سالوں سے ناقص پالیسیوں کی وجہ سے ہم ان کا درست استعمال نہیں کر پا رہے ہیں۔
زراعت پر مبنی معیشت ہونے کے باوجود پاکستان نے 10 ارب امریکی ڈالرکی غذائی اشیاء درآمد کیں۔ وطن عزیز میں معدنی وسائل کی فراوانی اورایک بڑی IT ورک فورس دستیاب ہے لیکن مواقع کی کمی کی وجہ سے معیشت کو کوئی فائدہ نہیں۔
بیرونی سرمایہ کاری کے لیے سازگار ماحول نہیں مختلف محکموں کے NOCs کی ضرورت ہوتی ہے جس میں کم از کم 18 ماہ لگتے ہیں، اس کے برعکس جدید دنیا صرف 3 ہفتوں میں NOC کی رسمی کارروائیاں مکمل کر لیتی ہے۔ دوسری طرف پاکستان میں ہر آنے والی حکومت کی اقتصادی منصوبہ بندی اپنے دور اقتدار تک محدود چلی آئی ہے چنانچہ ہر بار قرضے لیتے وقت مزید ذرائع آمدن پیدا کیے بغیران کی واپسی کا خیال نہیں رکھا گیا۔
عشروں سے جاری معاشی بے ضابطگیوں نے ملک کو کھوکھلا کردیا ہے۔ توانائی کے شعبے کا خسارہ 2500 ارب روپے گردشی قرضے سے تجاوز کرچکا ہے۔ اگلے تین ماہ میں پاکستان نے تقریباً8 ارب ڈالرز قرض ادا کرنا ہے اور سال بھرمیں تقریباً 26 ارب ڈالرز مزید درکار ہونگے۔ ایسا لگتا ہے کہ جب تک نظام کی اصلاح نہیں ہو جاتی تب تک یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ ٹیکس سے جی ڈی پی کا تناسب پاکستان کو مہنگائی کا مقابلہ کرنے، گورننس کو بہتر بنانے، معیاری عوامی خدمات فراہم کرنے، یا انسانی وسائل کو بہتر بنانے کے قابل نہیں بناتا ہے۔
معاشی اشاریے، تیزی کے مختصر وقفوں کے بعد، ٹوٹ پھوٹ کی واضح علامات ظاہر کرنا شروع کر دیتے ہیں، پالیسیوں میں بنیادی خامیوں کی وجہ سے جہاں ترقی کو بنیادی طور پر درآمد پر مبنی ان پٹس کی مدد حاصل ہوتی ہے وہ حاصل نہیں ہو پاتی ہے۔ مقامی اقتصادی پیداوار اور کھپت مشکل وقت میں برداشت پیدا کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ کولنگ ڈاؤن اقدام کے طور پر، حکومت ملک میں معاشی سرگرمیوں کی مجموعی سطح کو کم کرنے کا انتخاب کرتی ہے۔
یہ اقدامات گھریلو طلب کو روکنے، افراط زر کی کثافت کے مرکب کو روکنے اور بیرونی ڈیفالٹ کے خطرات کو کم کرنے کے لیے کیے جاتے ہیں۔ اگرکرپشن اور جاگیرداری نظام کو ختم کر کے چھوٹے کسانوں وکاشتکاروں کو سہولتیں دی جائیں تو وہ چند برسوں میں سبز انقلاب لا سکتے ہیں جو ہمیں مہنگی غیر ملکی گندم کی درآمد سے نجات دلا سکتا ہے۔
مختلف ممالک میں بسنے والے90 لاکھ سے زائد پاکستانی سالانہ 30 ارب ڈالرز ترسیلات کے ذریعے معیشت کو سہارا دینے میں اہم ہیں، جسے اگلے 5سالوں میں بہتر رجحانات ومارکیٹینگ کے ذریعے 50 ارب ڈالرز اور برآمدات کو40 ارب ڈالرزتک بڑھایا جاسکتا ہے۔
تیل وگیس کے جو حالیہ نئے ذخائر، تھر میں کوئلہ اور سولر انرجی کے ذریعے اور فنی مہارت سے آراستہ افرادی قوت اور جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے بروئے کار لا کر پٹرولیم مصنوعات کی درآمد پر خرچ ہونے والے سالانہ اربوں ڈالر بچائے جا سکتے ہیں۔