ابن بطوطہ کا سفرنامہ

ہماری تاریخ کے بہت سے حوالے اسی سفرنامے کے مرہون منت ہیں

fatimaqazi7@gmail.com

اچھی کتاب ایک تہذیبی اثاثہ ہوتی ہے، جنھیں پڑھ کر اس زمانے کی معاشرت، فکری و علمی حالات کا اندازہ ہوتا ہے۔ سفرنامہ ابن بطوطہ بھی دنیا کی مشہور کتابوں میں شامل ہے۔

ہماری تاریخ کے بہت سے حوالے اسی سفرنامے کے مرہون منت ہیں۔ ابن بطوطہ ساری دنیا میں پھرا، اور پھر عربی میں یہ سفرنامہ لکھا، اس سفرنامے کا ترجمہ دنیا کی کئی زبانوں میں ہوا، اردو میں اسے خان بہادر مولوی محمد حسین نے ترجمہ کیا۔

آئیے! آج آپ کی خدمت میں اس کے کچھ حصے پیش کرتے ہیں۔ یہ جب ہندوستان آیا تو وہاں کی دولت، بادشاہت اور صوفیائے کرام سے بہت متاثر ہوا۔ یہ جب اجودھن میں تھا تو ایک دن دیکھا کہ:''میں نے دیکھا کہ لوگ ہماری خیمہ گاہ کی جانب سے بھاگتے چلے جا رہے ہیں، پتا چلا کہ ایک ہندو مرگیا ہے اور اس کے جلانے کے واسطے جو چتا تیارکی جا رہی ہے، اس میں اس کی عورت بھی جلے گی، لہٰذا عورت میت کے ساتھ چمٹ کر جل گئی۔ ایک اور دفعہ دیکھا کہ ایک ہندو عورت بناؤ سنگھار کے گھوڑے پر سوار چلی جاتی ہے، ہندو مسلمان اس کے پیچھے پیچھے تھے، آگے آگے نوبت بجتی جاتی تھی اور برہمن بزرگ اس کے آگے آگے چلے جاتے ہیں۔ ستی میں عورت کو جلانے کی اجازت بادشاہ سے لینی ہوتی تھی اس کے بغیر وہ جلا نہ سکتے تھے، ایک لڑائی میں سات ہندو مارے گئے، ان میں سے تین کی عورتیں تھیں، انھوں نے ستی ہونے کا ارادہ کیا، ستی ہونا ہندوؤں میں واجب نہیں لیکن رانڈیں اپنے خاوند کے ساتھ جل کر مر جاتی ہیں، ان کا خاندان معزز سمجھا جاتا ہے اور وہ خود اہل وفا گنی جاتی ہیں اور جو ستی نہیں ہوتیں ان کو موٹے کپڑے پہننے پڑتے ہیں اور ہر طرح کی خواری میں زندگی بسر ہوتی ہے۔''

ستی کی رسم کو راجہ رام موہن رائے نے ختم کیا تھا اور عورتوں کو ان کا حق بھی دلایا تھا۔ ابن بطوطہ نے دہلی کا حال بہت تفصیل سے لکھا ہے اور وہاں کے چودہ بادشاہوں کا حال لکھا ہے، سلطان التمش کا حال یوں لکھا ہے۔

'' وہ نیک چلن، انصاف پرور اور عالم فاضل تھا، انصاف کی طرف اس کی توجہ بدرجہ غایت تھی، حکم دیا ہوا تھا کہ جس کسی پر کوئی ظلم ہو وہ رنگے ہوئے کپڑے پہن کر پھرے تاکہ بادشاہ فوراً اس کو پہچان لے۔ رات کے واسطے یہ تجویز دی کہ اپنے دروازے کے برجوں پر دو شیر سنگ مر مر کے بنے ہوئے رکھے تھے اور ان دونوں کے گلے میں زنجیریں ڈالی ہوئی تھیں اور زنجیروں میں گھڑیال بندھے ہوئے تھے۔ جب کوئی مظلوم آ کر زنجیر ہلاتا تو فوراً بادشاہ کو خبر ہو جاتی تھی اور وہ فوراً اس کے مقدمے کا فیصلہ کرتا تھا۔''

اوپر اجودھن شہرکا ذکر آیا ہے، لیکن شہنشاہ اکبر کے زمانے میں حضرت بابا فرید گنج شکرؒ کے حوالے سے اجودھن کا نام بدل کر '' پاک پتن فرید'' کردیا گیا تھا جو اب پاک پتن کہلاتا ہے۔ جزائر مالدیپ کے سفر کے دوران وہ عورتوں کے بارے میں لکھتا ہے '' ان جزیروں میں عورتیں اپنا سر نہیں ڈھکتیں اور ان کی ملکہ بھی سر نہیں ڈھکتی۔ اس جزیرے کی ایک عجیب رسم ہے کہ وہاں کی عورتیں پانچ دینار یا اس سے کم لے کر گھروں میں فقط روٹی کپڑے پر خدمت کرتی ہیں۔

نکاح اس جزیرے میں بہت آسانی سے ہو جاتا ہے کیونکہ مہر تھوڑا ہوتا ہے، وہاں کی عورتیں حسن معاشرت کے لیے مشہور ہیں۔ جب کوئی نیا جہاز آتا ہے تو جہاز والے وہاں کی عورتوں کے ساتھ نکاح کر لیتے ہیں اور جب وہ واپس جاتے ہیں تو انھیں طلاق دے دیتے ہیں یہ ایک قسم کا متعہ ہوتا ہے۔

یہ عورتیں اپنے جزیرے سے باہر نہیں جاتیں اور وہ صرف ایک ہی خدمت اپنے شوہرکی نہیں کرتیں بلکہ وہی ان کے ہاتھ دھلاتی ہے وہی کھانا پکاتی ہے، وہی وضو کے لیے پانی لاتی ہے، وہی سوتے وقت پاؤں دباتی ہے، وہاں کی عورت خاوند کے ساتھ کھانا بھی نہیں کھاتی۔ میں نے وہاں کئی عورتوں سے نکاح کیے بعض نے بعد میں قیل و قال کے بعد میرے ساتھ کھانا منظور کیا اور بعض نے نہ کھایا، میں نے بہت کوشش کی کہ ان کو کھاتا دیکھوں لیکن کامیاب نہ ہوا۔''


''ان جزیروں میں کوڑیوں کا چلن ہے،کوڑی ایک جانور ہوتا ہے، سمندر میں سے ان کو چن کر کنارے پر ایک غار میں جمع کردیتے ہیں، وہ جانور سوکھ جاتا ہے اور اس کا خول سفید ہڈی باقی رہ جاتا ہے۔ ان کوڑیوں کے عوض خرید و فروخت ہوتی ہے۔ بنگالہ کے ملک میں بھی کوڑیوں کا چلن ہے، اہل یمن بھی کوڑیاں خریدتے ہیں، سوڈان میں بھی کوڑیوں کا چلن ہے اور مالی میں بھی ایک طلائی دینار کے عوض گیارہ سو پچاس کوڑیاں بکتی ہیں۔''

کوڑیاں تو غیر منقسم ہندوستان میں بھی استعمال ہوتی تھیں، ہماری دادی کے پاس بہت سی خوبصورت کوڑیاں تھیں، ان کے بچپن میں کوڑیوں سے سودا سلف خریدا جاتا تھا۔ یعنی کوڑیاں بطور سکہ استعمال ہوتی تھیں، اب بھی کراچی کے ساحل پر اکثر کوڑیاں،گھونگے اور سیپیاں آجاتے ہیں، لوگ انھیں اٹھا کر گھر لے جاتے ہیں، بازار میں سیپیوں، کوڑیوں اورگھونگوں سے بنی ہوئی آرائشی اشیا بکتی ہیں، ایک کھیل ہوتا ہے پچیسی۔ اس میں بھی کوڑیاں استعمال ہوتی ہیں۔

آگے بھی جزائر مالدیپ کے بارے میں کہتے ہیں '' یہ بھی ایک عجیب بات ہے کہ ان جزیروں کی بادشاہ ایک عورت ہے خدیجہ اس کا نام ہے اور سلطان جلال الدین عمر کی بیٹی ہے۔ اس کا دادا بادشاہ تھا پھر باپ بادشاہ بنا۔ خدیجہ خطیب جمال الدین کے نکاح میں تھی۔ تمام حکم اسی کا چلتا تھا۔''

ایک جگہ ابن بطوطہ نے حضرت آدمؑ کے قدم اور اماں حواؑ کا ذکر کیا ہے اور اس جگہ کو سیلان کہا ہے کہ وہاں کے راجہ کا نام راجہ سیلان تھا۔ یہ راجہ سمندر میں صاحب قوت تھا، اسی سیلان کو وہ لکھتا ہے کہ ہندو لنکا کہتے تھے۔ ہمارا ماننا یہ ہے کہ سیلان دراصل سیلون ہے جہاں حضرت آدمؑ کے قدم کے نشان موجود ہیں۔ یہ لفظ اصل میں سیلان ہوگا جو بگڑکر سیلون ہوگیا تھا جو اب دوبارہ سری لنکا ہو گیا ہے۔

'' اس پہاڑ میں ایسے بہت سے درخت ہیں جس کے پتے کبھی نہیں جھڑتے، سرخ گلاب کے پھول ہتھیلی کے برابر ہوتے ہیں لوگوں کا گمان ہے کہ اس پھول میں اللہ اور محمد کا نام قلم قدرت سے لکھا گیا ہے۔ اس پہاڑ میں قدم تک جانے کے لیے دو راستے ہیں ایک کو بابا کا راستہ کہتے ہیں دوسرے کو ماما کا یعنی آدم اور حوا کے راستے۔ ماما کا راستہ آسان ہے اس راستے سے زائر واپس آتے ہیں، لیکن بابا کا راستہ بڑا دشوار ہے اور اس پر چڑھنا نہایت مشکل۔ پہاڑ کے نیچے ایک غار ہے جہاں اس کا دروازہ ہے جس کو سکندر اعظم کی طرف منسوب کرتے ہیں اور پانی کا ایک چشمہ ہے جب انسان وہاں پہنچتا ہے اور نیچے دیکھتا ہے تو اس کے ہوش اڑ جاتے ہیں۔ جب اس زنجیر سے گزر جاتے ہیں تو رستہ ملتا ہے، وہ ایک وسیع میدان میں واقع ہے، اس کے پاس پانی کا ایک چشمہ ہے وہ بھی حضرت خضر سے منسوب ہے۔ اس چشمے میں مچھلیاں بکثرت ہیں لیکن کوئی شخص ان کو پکڑ نہیں سکتا۔ غار خضر میں سب زائر جو کچھ ان کے پاس ہوتا ہے چھوڑ جاتے ہیں اور دو میل اوپر جہاں قدم ہے چڑھتے ہیں یہ قدم باوا آدمؑ کے پاؤں کا نشان ایک سخت سیاہ پتھر میں ہے جو سطح سے اونچا ہے اور میدان میں پڑا ہے۔ قدم مبارک پتھر میں گھس گیا ہے، اس کی لمبائی گیارہ بالشت ہے۔ پہلے یہاں اہل چین بھی آتے تھے وہ باوا آدمؑ کے انگوٹھے کی جگہ پتھر میں سے توڑ کر لے گئے اور شہر زیتون میں ایک مندر میں اسے لے جا رکھا ہے۔''

ہاتھیوں کے بارے میں ابن بطوطہ نے بڑی دلچسپ معلومات اکٹھی کی ہیں۔ ایک جگہ لکھتے ہیں ''ہاتھی کا قدرتی رنگ سیاہی مائل بھورا ہوتا ہے لیکن پلے ہوئے ہاتھی کا رنگ بالکل سیاہ ہوتا ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ بار بار کے غسل اور تیل کے استعمال سے اور ناریل یا پتھر سے ملنے کی وجہ سے سیاہ ہوجاتا ہے اور سفید ہاتھی جو مشہور ہے وہ بھی حقیقت میں سفید نہیں ہوتا اس کا اصلی رنگ اڑا ہوا ہوتا ہے۔ اس کو دھو دھلا کر ذرا سفید کر لیتے ہیں۔

اس رنگ کا ہاتھی بہت کم ہوتا ہے۔ برما میں اس کی پرستش کرتے ہیں اور آسام میں اس کو بادشاہی کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ کانڈی کے راجہ کے پاس بھی ایک سفید ہاتھی تھا۔ ہاتھی کو اپنے مہاوت سے بڑی محبت ہوتی ہے، ایک دفعہ سیلان میں ایک سرکاری ہاتھی کا مہاوت مر گیا، اس نے تین دن تک کسی دوسرے مہاوت کو قریب نہ آنے دیا۔

آخر کار کسی جگہ سے ایک تیرہ برس کا لڑکا لایا گیا جس سے ہاتھی بہت محبت کرنے لگا، اس لڑکے کو لائے تو ہاتھی فوراً پہچان گیا، اور اس کے ہاتھ سے کھانے لگا۔ پھر رفتہ رفتہ دوسرے مہاوت سے بھی مانوس ہو گیا۔ ہاتھیوں کا گلّہ ایک کنبہ ہوتا ہے۔ بیٹے بیٹیاں، پوتے پوتیاں، نواسے نواسیاں اس میں شامل ہوتے ہیں۔ تمام گلّے کے خدوخال بالکل ایک جیسے ہوتے ہیں، اسی بنا پر وہ الگ پہچانے جاتے ہیں۔
Load Next Story