ہم انسان

سائنس اور ٹیکنالوجی نے آج جو بھی ترقی کی ہے ماضی بعید از بعید میں اُس کا تصور بھی محال تھا

S_afarooqi@yahoo.com

برسوں پرانی بات ہے جب ہم نے طالب علمی کے زمانے میں انگریزی زبان میں ایک مضمون پڑھا تھا، جس کا عنوان تھا Our Home in Space جس کا ترجمہ ہے '' ہمارا گھر خلاء میں۔'' اِس مضمون کو پڑھ کر ہمارا سر چکرا گیا تھا۔

اِس مضمون میں یہ بتایا گیا تھا کہ خلاء میں ہماری زمین کی حیثیت ایک نقطہ سے بھی کم ہے۔ اِس مضمون کو پڑھ کر ہمیں یہ بھی معلوم ہوا کہ صرف یہی ایک خلاء نہیں ہے بلکہ بے شمار خلائیں موجود ہیں جن کا شمار کرنا کسی کے بس کی بات نہیں ہے۔

سائنس اور ٹیکنالوجی نے آج جو بھی ترقی کی ہے ماضی بعید از بعید میں اُس کا تصور بھی محال تھا۔ ہمیں اِس وقت علامہ اقبالؔ کا یہ شعر یاد آرہا ہے جس میں اُنہوں نے فرمایا ہے۔

ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں

ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں

ماہرِ فلکیات نے کائنات کے وجود میں آنے اور اِس کرہِ ارض کے علاوہ خلاء بسیط میں اب تک جو دماغ سوزی کی ہے اُس کا نتیجہ صفر سے زیادہ اورکچھ بھی نہیں ہے۔ابتداء آفرینش کے حوالے سے اب تک جو ریسرچ کی گئی ہے محض تُکا بازی کے سوائے اور کچھ بھی نہیں ہے اور اُس کا نتیجہ یہ ہے کہ:

انسان سمجھتا ہے کہ میں بھی کچھ ہوں

نادان سمجھتا ہے کہ میں بھی کچھ ہوں

لُب لُباب یہ ہے کہ اشرف المخلوقات کہلانے والا انسان خسارے میں ہے۔ اُس بیچارے کو یہ بھی معلوم نہیں کہ اُسے کچھ بھی معلوم نہیں ہے۔ انسان کی لاعلمی کے حوالے سے کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے۔

نہ تھا جب کچھ خدا تھا


کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا

ڈبویا مجھ کو ہونے نے

نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا

اِس سے انکار نہیں کہ سائنس اور ٹیکنالوجی نے بہت ترقی کی ہے اور مزید ترقی کے لیے کوشاں ہے لیکن اُس کی تمام تر کوششیں صرف ٹامک ٹوئیاں مارنے کے سوائے اور کچھ بھی نہیں۔کرہِ ارض پر انسان نامی مخلوق نے اپنی فہم و دانش کے مطابق بڑے بڑے کارنامے انجام دیے ہیں حتیٰ کہ خلاء کو مسخر کرکے چاند تک رسائی حاصل کر لی ہے اور دیگر سیاروں پرکمندیں ڈالنے کے ارادے ہیں۔

معلوم نہیں اِسے اُس کی خوش فہمی کہا جائے یا محض غلط فہمی قرار دیا جائے۔جو بھی ہو اصل صورتحال یہ ہے کہ اُس نے کرہِ ارض پر اب تک جو اقتدار حاصل کیا ہے اُس کا نتیجہ فتنہ و فساد کے سوا اور کچھ بھی نہیں۔ اب اندیشہ لاحق ہے کہ خلاء مسخر کرنے اور چاند تک رسائی حاصل کرنے کے بعد وہ وہاں بھی اپنی فطرت کے مطابق فتنہ و فساد اور جنگ و جدل برپا کرے گا۔

دو ٹانگوں کی بیساکھی پر چلنے والے اور ننھے سے دماغ پر غرور کرنے والے جانور یعنی انسان کے حوالے سے اب تک جو کچھ کہا گیا ہے اُسے جملہ معترضہ سمجھ کر معاف فرمایے گا۔

ہمیں خوش فہمی یہ ہے کہ ہم عقلِ کُل ہیں اور اِس کرہِ ارض پر ہمیں جو کچھ بھی نظر آتا ہے ہم اُس کے مالک و مختار ہیں اور ہمیں مَن مانی کا حق حاصل ہے۔ ہم نے ایک دوسرے کو ہلاک کرنے کے لیے ہتھیار بنائے ہیں۔

ہم نے بستیاں بسائی ہیں اور فلک شگاف عمارتیں تعمیر کی ہیں اور اُنہیں پَل بھر میں ملیا میٹ کرنے کے لیے ایٹم بم جیسے خوفناک اور خطرناک ہتھیار بنائے ہیں۔ ہم نے عیش و عشرت سے اپنی زندگیاں گزارنے کے لیے بیشمار چیزیں بنائی ہیں اور دوسروں کی زندگیاں عذاب کرنے کے اسباب اور ساز و سامان تیار کیے ہیں۔ ہم اپنی اِن حرکتوں پر شرمسار ہونے کے بجائے بہت اِتراتے ہیں اور پھر بھی انسان کہلاتے ہیں۔ہم درویش بھی ہیں اور عفریت بھی۔ ہم نے آزاد فضا میں چہل قدمی کرنے کے لیے سیرگاہیں بنائی ہیں اور دوسروں کے لیے سانس دم گھوٹنے والے قید خانے بھی بنائے ہیں۔ ہم فرما روا بھی ہیں اور عامر بھی ہیں۔

ہم سیاستدان بھی ہیں اور سیاسی دہشت گرد بھی۔ ہم ماہرِ معاشیات بھی ہیں اور لوگوں کے منہ سے نوالہ چھیننے والے خود غرض بھی۔ ہم لُٹیرے بھی ہیں اور حاتم طائی جیسے سخی بھی۔ ہم افلاطون بھی ہیں اور راسپوتین بھی۔ ہم جانتے ہیں کہ میڈیا کو غلط طریقہ سے استعمال کر کے کس طرح انتشار و خلفشار پھیلایا جائے اور ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ اِسی میڈیا کے ذریعہ علم و ہنر کا اجالا کیسے کیا جائے۔ہم دوسروں پر تسلط جمانے والی وحشی مخلوق بھی ہیں اور سب سے غیر محفوظ نوع بھی۔ غصہ ہمارا سب سے بڑا دشمن ہے جو ہمیں جامہ سے باہر کر دیتا ہے اور جس کا انجام پچھتاوے کے سوا اور کچھ بھی نہیں۔

ہم نے اپنی نسل کَشی کے لیے بہت سی خوفناک جنگیں بھی لڑی ہیں، جن کا نتیجہ تباہی کے سوا اور کچھ بھی نہیں نکلا۔ پہلے ہم شیطان سے گھبراتے تھے اور اُسے دیکھ کر ہم دور بھاگتے تھے اور اب عالم یہ ہے کہ وہ ہم سے پناہ مانگتا ہے اور ہمارے سائے سے بھی خوف کھاتا ہے۔ ہم اپنی ترقی پر نازاں ہیں۔ کاش ہم انسان اپنی اوقات کو نہ بھولیں۔
Load Next Story