افغان تجارتی راہداری معاہدے کے ذریعے درآمدات میں اضافہ
گزشتہ مالی سال میں 7 ارب 30 کروڑ کی اشیا تجارتی راہداری سے درآمد کی گئیں
گزشتہ مالی سال کے دوران افغان تجارتی راہداری کے ذریعے تقریبا 7 ارب 30 کروڑ ڈالر مالیت اشیا ملک میں درآمد کی گئیں۔
گزشتہ مالی سال کے دوران یہ افغان تجارتی راہداری کے ذریعے درآمدات میں یہ دوتہائی اضافہ ہے اور ان میں زیادہ تر اشیا وہ ہیں جو اسلام آباد نے بیرونی ادائیگیوں کے بحران کے باعث عالمی مارکیٹ سے نہیں خریدیں۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ مالی سال کے دوران 2 ارب 8 کروڑ ڈالر مالیت کی اشیا افغان تجارتی راہداری کے ذریعے ملک میں درآمد کی گئیں اور ان میں سے 2 ارب 30 کروڑ ڈالر مالیت کی اشیا ایسی ہیں جو پاکستان نے بیرونی ادائیگیوں کے بحران کے باعث عالمی مارکیٹ سے نہیں خریدی گئیں۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق افغانستان نے مالی سال 2022 اور 2023 کے دوران پاکستان کے ذریعے (تجارتی راہداری کے ذریعے) 7 ارب 30 کروڑ ڈالر مالیت کی اشیا درآمد کیں۔
یہ بھی پڑھیں: افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے تحت درآمد کی جانے والی اشیا پر10 فیصد پراسیسنگ فیس عائد
پاکستانی انتظامیہ کے مطابق اسلام آباد کی جانب سے عالمی مارکیٹ سے درآمدات میں بڑی کمی دیکھنے میں آئی ہے تاہم گزشتہ مالی سال کے دوران زیادہ تر اشیا افغان تجارتی راہداری معاہدے کے تحت درآمد کی گئیں جنہیں بعد ازاں افغانستان سے دوبارہ پاکستان اسمگل کیا گیا۔
واضح رہے کہ پاکستان میں اشیا کی غیر قانونی آمد کو روکنے کے لیے ایک اہم اقدام اٹھاتے ہوئے اسلام آباد حکومت نے افغان ٹرانزٹ ٹریڈ معاہدے کے تحت درآمد کی جانے والی اشیا پر 10 فیصد پراسیسنگ فیس عائد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
کسٹمز ایکٹ میں تفویض کردہ اختیارات کی روشنی میں اٹھائے جانے والے فیصلے کا مقصد اسمگلنگ کی روک تھام اور باقاعدہ ٹیکس عائد کرنا ہے۔ افغانستان سے درآمد کی جانے والی 20 اشیا کے تجزیے سے معلوم ہوتا ہے کہ مالی سال 2022 کے دوران کابل نے اپنی درآمدات پر 3 ارب 30 کروڑ ڈالر خرچ کیے جو مالی سال 2023 میں بڑھ کر 5 ارب 60 کروڑ ڈالر ہوگئے تاہم ان تمام اشیا کی پاکستان کی جانب سے درآمد میں کمی دیکھنے میں آئی۔
یہ بھی پڑھیں: افغان ٹرانزٹ ٹریڈ میں درآمد کی جانے والی متعدد اشیاء پر پابندی
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق synthetic fabric کی پاکستانی درآمد میں 48 فیصد کمی دیکھنے میں آئی ہے تاہم افغان تجارتی راہداری کے ذریعے synthetic fabric کی پاکستان درآمد میں 35 فیصد اضافہ نظر آیا۔ اسی طرح پاکستان کی جانب سے عالمی مارکیٹ سے الیکٹرانک اشیا کی درآمد میں 62 فیصد کمی ہوئی تاہم افغانستان کی جانب سے اس میں 72 فیصد اضافہ نظر آیا۔
اسی طرح اگر دیگر اشیا کا بھی جائزہ لیں تو نظر آتا ہے کہ پاکستان کی جانب سے عالمی مارکیٹ سے پلاسٹک کی اشیا کی درآمدات میں 34 فیصد کمی ہوئی تاہم افغانستان کی درآمد میں 206 فیصد ہوشربا اضافہ ہوا، کاسمیٹک سامان کی درآمد پاکستان کی جانب سے 27 فیصد کم رہیں تاہم افغانستان کی کاسمیٹک درآمدات میں 117 فیصد اضافہ ہوا۔
یہ تمام اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ افغانستان تجارتی راہداری کے ذریعے اشیا کی درآمد کے بعد یہ سامان پاکستان اسمگل ہوجاتا ہے جس سے مقامی مارکیٹ کو بھی نقصان ہوتا ہے اور ٹیکس کی مد میں حکومت کو بھی نقصان پہنچتا ہے۔
چاروں جانب سے زمین سے گھرے ہونے کے باعث یہ افغانسگان کا حق ہے کہ وہ پاکستانی سمندری، فضائی اور زمینی راستے استعمال کرتے ہوئے اپنی ضرورت کی اشیا درآمد کرے تاہم اعداد و شمار اور انٹیلی جنس رپورٹس ظاہر کرتی ہیں کہ اس تجارتی راہداری معاہدے کا غلط استعمال ہوتا رہا ہے لیکن افغانستان نے کبھی بھی اسمگلنگ روکنے کے لیے موثر اقدامات نہیں اٹھائے۔
گزشتہ مالی سال کے دوران یہ افغان تجارتی راہداری کے ذریعے درآمدات میں یہ دوتہائی اضافہ ہے اور ان میں زیادہ تر اشیا وہ ہیں جو اسلام آباد نے بیرونی ادائیگیوں کے بحران کے باعث عالمی مارکیٹ سے نہیں خریدیں۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ مالی سال کے دوران 2 ارب 8 کروڑ ڈالر مالیت کی اشیا افغان تجارتی راہداری کے ذریعے ملک میں درآمد کی گئیں اور ان میں سے 2 ارب 30 کروڑ ڈالر مالیت کی اشیا ایسی ہیں جو پاکستان نے بیرونی ادائیگیوں کے بحران کے باعث عالمی مارکیٹ سے نہیں خریدی گئیں۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق افغانستان نے مالی سال 2022 اور 2023 کے دوران پاکستان کے ذریعے (تجارتی راہداری کے ذریعے) 7 ارب 30 کروڑ ڈالر مالیت کی اشیا درآمد کیں۔
یہ بھی پڑھیں: افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے تحت درآمد کی جانے والی اشیا پر10 فیصد پراسیسنگ فیس عائد
پاکستانی انتظامیہ کے مطابق اسلام آباد کی جانب سے عالمی مارکیٹ سے درآمدات میں بڑی کمی دیکھنے میں آئی ہے تاہم گزشتہ مالی سال کے دوران زیادہ تر اشیا افغان تجارتی راہداری معاہدے کے تحت درآمد کی گئیں جنہیں بعد ازاں افغانستان سے دوبارہ پاکستان اسمگل کیا گیا۔
واضح رہے کہ پاکستان میں اشیا کی غیر قانونی آمد کو روکنے کے لیے ایک اہم اقدام اٹھاتے ہوئے اسلام آباد حکومت نے افغان ٹرانزٹ ٹریڈ معاہدے کے تحت درآمد کی جانے والی اشیا پر 10 فیصد پراسیسنگ فیس عائد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
کسٹمز ایکٹ میں تفویض کردہ اختیارات کی روشنی میں اٹھائے جانے والے فیصلے کا مقصد اسمگلنگ کی روک تھام اور باقاعدہ ٹیکس عائد کرنا ہے۔ افغانستان سے درآمد کی جانے والی 20 اشیا کے تجزیے سے معلوم ہوتا ہے کہ مالی سال 2022 کے دوران کابل نے اپنی درآمدات پر 3 ارب 30 کروڑ ڈالر خرچ کیے جو مالی سال 2023 میں بڑھ کر 5 ارب 60 کروڑ ڈالر ہوگئے تاہم ان تمام اشیا کی پاکستان کی جانب سے درآمد میں کمی دیکھنے میں آئی۔
یہ بھی پڑھیں: افغان ٹرانزٹ ٹریڈ میں درآمد کی جانے والی متعدد اشیاء پر پابندی
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق synthetic fabric کی پاکستانی درآمد میں 48 فیصد کمی دیکھنے میں آئی ہے تاہم افغان تجارتی راہداری کے ذریعے synthetic fabric کی پاکستان درآمد میں 35 فیصد اضافہ نظر آیا۔ اسی طرح پاکستان کی جانب سے عالمی مارکیٹ سے الیکٹرانک اشیا کی درآمد میں 62 فیصد کمی ہوئی تاہم افغانستان کی جانب سے اس میں 72 فیصد اضافہ نظر آیا۔
اسی طرح اگر دیگر اشیا کا بھی جائزہ لیں تو نظر آتا ہے کہ پاکستان کی جانب سے عالمی مارکیٹ سے پلاسٹک کی اشیا کی درآمدات میں 34 فیصد کمی ہوئی تاہم افغانستان کی درآمد میں 206 فیصد ہوشربا اضافہ ہوا، کاسمیٹک سامان کی درآمد پاکستان کی جانب سے 27 فیصد کم رہیں تاہم افغانستان کی کاسمیٹک درآمدات میں 117 فیصد اضافہ ہوا۔
یہ تمام اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ افغانستان تجارتی راہداری کے ذریعے اشیا کی درآمد کے بعد یہ سامان پاکستان اسمگل ہوجاتا ہے جس سے مقامی مارکیٹ کو بھی نقصان ہوتا ہے اور ٹیکس کی مد میں حکومت کو بھی نقصان پہنچتا ہے۔
چاروں جانب سے زمین سے گھرے ہونے کے باعث یہ افغانسگان کا حق ہے کہ وہ پاکستانی سمندری، فضائی اور زمینی راستے استعمال کرتے ہوئے اپنی ضرورت کی اشیا درآمد کرے تاہم اعداد و شمار اور انٹیلی جنس رپورٹس ظاہر کرتی ہیں کہ اس تجارتی راہداری معاہدے کا غلط استعمال ہوتا رہا ہے لیکن افغانستان نے کبھی بھی اسمگلنگ روکنے کے لیے موثر اقدامات نہیں اٹھائے۔