سخت انتظامی اقدامات کے باعث ڈالر3ماہ کے بعد 283روپے سے نیچے آگیا

افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے تحت 222 اشیاء کی درآمدات پر پابندی، کرنسی اسمگلنگ روکنے کے اقدامات سے ڈالر زوال پذیر ہے،ظفر پراچہ

(فوٹو : فائل)

حکومت کی جانب سے انسداد کرنسی اسمگلنگ کے ساتھ دیگر تمام اشیاء کی اسمگلنگ پر قابو پانے کے سخت انتظامی اقدامات کے باعث ڈالر 3ماہ کے وقفے کے بعد 283روپے سے نیچے آگیا۔

تفصیلات کے مطابق افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے تحت 222 مشکوک اشیا پر پابندی عائد کیے جانے اور انسداد کرنسی اسمگلنگ کے ساتھ دیگر تمام اشیا کی اسمگلنگ پر قابو پانے کے سخت انتظامی اقدامات کے باعث جمعہ کو بھی ڈالر بیک فٹ پر رہا جس سے ڈالر کے انٹربینک ریٹ 3ماہ کے وقفے کے بعد 283روپے سے نیچے آگئے جبکہ اوپن ریٹ بھی گھٹ کر 282روپے سے نیچے آگیا۔

انٹربینک مارکیٹ میں کاروباری دورانیے کے دوران ایک موقع پر ڈالر کی قدر 1روپے 17پیسے کی کمی سے 282روپے 45پیسے کی سطح پر بھی آگئی تھی تاہم وقفے وقفے سے درآمدی نوعیت کی ڈیمانڈ آنے سے کاروبار کے اختتام پر ڈالر کے انٹربینک ریٹ 94پیسے کی کمی سے 282روپے 68پیسے کی سطح پر بند ہوئے۔

اسی طرح اوپن کرنسی مارکیٹ میں ڈالر کی قدر یکدم 2روپے 50پیسے کی بڑی کمی سے 281روپے 50پیسے کی سطح پر بند ہوئی۔


ڈالر کے اوپن ریٹ میں بڑی نوعیت کی کمی پر ایکس چینج کمپنیز ایسوسی ایشن آف پاکستان کے سیکریٹری جنرل ظفر پراچہ نے بتایا کہ حکومت کی جانب سے افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے تحت ان 222 اشیاء کی درآمدات پر پابندی عائد کردی گئی ہے جن کی ادائیگیوں کا ایک بڑا ذریعہ حوالہ ہنڈی یا گرے مارکیٹ ہوتا تھا۔

ظفر پراچہ کے مطابق اب چونکہ ان مشکوک اشیا کی درآمدات پر پابندی عائد کردی گئی ہے جو نہ صرف دوبارہ پاکستان اسمگل ہوکر مقامی مارکیٹوں میں فروخت ہوتی تھیں بلکہ ان اشیا کے عوض ڈالر میں ادائیگیاں رکنے سے اوپن مارکیٹ میں سپلائی بڑھ گئی ہے جبکہ ڈیمانڈ نہ ہونے کے برابر ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ انتظامی اقدامات کے تحت محکمہ کسٹمز کی تمام ہوائی اڈوں پر معمول کی ایئرلائنز، جیٹس ور چارٹرڈ فلائٹس کی نگرانی سخت کیے جانے اور کرنسی اسمگلنگ روکنے کے لیے خصوصی تربیت یافتہ سراغ رساں کتوں کے استعمال سے ڈالر مستقل بنیادوں پر تنزلی سے دوچار ہوگیا ہے۔

انسداد اسمگلنگ مہم کی تابڑ توڑ کارروائیوں سے کرنسی اسمگلرز روپوش ہوگئے ہیں جبکہ غیرملکی کرنسیاں ذخیرہ کرنے والوں نے مارکیٹ میں اپنی کرنسیاں فروخت کرنا شروع کردی ہیں۔

ظفر پراچہ کا کہنا تھا کہ ڈالر کی قدر 250روپے کی نچلی سطح پر آنے کے خوف سے لوگوں نے ڈالر کی فروخت پر توجہ مرکوز کی ہوئی ہے جبکہ ایکس چینج کمپنیاں خریدے گئے ڈالرز انٹربینک مارکیٹ میں سرینڈر کررہی ہیں جو ڈالر کی قدر میں یومیہ بنیادوں پر تنزلی کا باعث بن گئی ہے۔
Load Next Story