جھولا نا کب بند ہوگا
پچھلے چند سالوں میں سیاست معیشت اور گورننس کا جھولا اس قدر جھولا گیا کہ اب قوم کو بھی چکر آنے لگے ہیں
ہمیں بچپن سے ہی جھولا جھولنے کا خود بھی شوق رہا اور دوسروں کو جھولا جھولتے دیکھنا ہمیشہ اچھا لگا۔ بڑے ہوئے تو دنیا گھومنے کا موقع ملا، دنیا بھر کے مختلف تھی تھیم پارکس میں جھولوں کی بہت سی مختلف قسمیں اور رائڈز دیکھیں۔
ان جھولوں میں سے کچھ جھولوں کی رائڈز اتنی خوفناک اور خطرناک تھیں کہ لوگوں کی چیخیں نکل جاتیں۔تاہم اس سارے کھیل میں ایک عجیب سرمستی تھی کہ دور دور سے سیاح بھاری بھرکم ٹکٹ۔ خریدکر اور گھنٹوں قطار میں کھڑے ہو کر ان جھولوں کا انتظار کرتے بھلا وقت تھا، بھلا زمانہ تھا۔
پچھلے کچھ عرصے سے ہم ایک بار پھر جھولا جھول رہے ہیں لیکن یہ جھولا ہم اکیلے نہیں جھول رہے بلکہ یہ جھولا ہم من حیث القوم سارے جھول رہے ہیں۔ جس انداز میں پچھلے کچھ عرصے سے سیاست اور معیشت اور عوام جھولا جھول رہے ہیں، وہ بقول باقی صدیقی کچھ یوں ہے؛
کشتیاں ٹوٹ گئی ہیں ساری
اب لیے پھرتا ہے دریا ہم کو
یادش بخیر نون لیگ کی حکومت ، اس کے بعد پی ٹی آئی اور پھر پی ڈی ایم کی حکومتوں کے درمیان پچھلے چند سالوں میں سیاست معیشت اور گورننس کا جھولا اس قدر جھولا گیا کہ اب قوم کو بھی چکر آنے لگے ہیں۔نگران حکومت نے اپنی حکومت کا آغاز کیا تو دیکھتے ہی دیکھتے روپے اور ڈالر کی شرح مبادلہ کو چکر آنا شروع ہو گئے۔
ڈالر روپے کو لتاڑتا ہوا دیکھتے ہی دیکھتے انٹر بینک میں 307 روپے اور اوپن مارکیٹ میں 340 روپے تک چھلانگ لگا کر چلا گیا، اس سے مہنگائی کا ایک سیلاب آگیا، عوام کی چیخ و پکار اپنی جگہ لیکن اس اچانک جھولے میں کاروبار بھی چکرا کر رہ گئے۔
ابھی ان لیولز پر چکر درست نہ ہوئے تھے کہ ڈالر کی واپسی شروع ہو گئی۔ اس وقت انٹر بینک 283 اور اوپن مارکیٹ میں 286 کے لگ بھگ ہے، ماہرین اب کہتے نہیں تھکتے کہ کچھ دنوں کی بات ہے کہ 200 روپے کا شرح مبادلہ کا پہاڑ سر ہونے کو ہے۔ لیجئیے ایک اور چکر ہمارا منتظر ہے!اس اچانک جھولنے نے امپورٹرز اور ایکسپورٹرز کو بھی چکرا دیا ہے۔
امپورٹرز اب اس انتظار میں ہیں کہ شرح مبادلہ مزید موافق ہو تو وہ اپنی ایل سیز کھولیں، دوسری طرف ایکسپورٹرز پریشان ہیں کہ انھوں نے جس شرح مبادلہ پر بڑی مشکل سے کانٹریکٹ کیے تھے، ان کانٹریکٹس کی جب رقم وصول ہوگی تو شرح مبادلہ کے حساب سے انھیں نقصان ہی نقصان ہوگا۔ اس سے اگلا مرحلہ ان کے لیے اور بھی مشکل ہے کہ ورلڈ مارکیٹ میں ایکسپورٹس پر مشکل وقت ہے، اب اگلا سیلز کانٹریکٹ کریں تو وہ کن ریٹس پر کریں۔
ایکسپورٹرز کا پچھلا تجربہ ہے کہ ڈار صاحب کے دور میں ایک بار ڈالر ریورس ہو بھی گیا لیکن دوسری بار کچھ دن ریورس ہونے کے بعد پھر اس نے اپنے پرانی شرح کی جانب سفر شروع کر دیا۔ سو، برآمد کنندگان چکرائے ہوئے ہیں جب کہ امپورٹرز شرح مبادلہ کے سبب اپنے ممکنہ منافع کو دیکھ کے چکرائے ہوئے ہیں۔اسپیشل انویسٹمنٹ فسلیٹیشن کونسل بہت متحرک ہے۔
بہت اہم فیصلے کیے گئے ہیں۔ ان فیصلوں کے نتیجے میں ڈالر کی بے محابہ اسمگلنگ کو کنٹرول کرنے میں مدد ملی۔ افغان ٹرانزٹ اور ایران کے ساتھ اسمگلنگ پہ کریک ڈاؤن کی وجہ سے کنٹرول ہوا۔ پاک افغان ٹرانزٹ کو جس طرحکے بہت سے لوگ مس یوز کر رہے تھے ان اقدامات سے اس کو بھی لگام ڈالنے میں مدد ملی۔
اسپیشل انویسٹمنٹ فیسلٹیشن کونسل پوری تگ و دو میں ہے کہ وہ فوری طور پر دوست ممالک سے 11 ارب ڈالر کے لگ بھگ کی سرمایہ کاری کا بندوبست کر سکے۔اس سلسلے میں سعودی عرب اور کچھ دوست ممالک کے ساتھ معاملات ایڈوانس اسٹیج پر بتائے جا رہے ہیں۔
اللہ کرے کہ ماضی کی طرح یہ صرف اعلانات کی حد تک نہ رہیں بلکہ یہ سرمایہ کاری عملی طور پر ممکن بھی ہو جائے۔ ماضی میں حکومتی پالیسیز ، ٹیکس پالیسیز اور گورننس کے حالات رہے ہیں ہمارے اقتصادی نظام کا ڈھانچہ بہت حد تک رینٹ سیکنگ، اندرونی و بیرونی قرضوں اور درآمدات کی بناء پر گروتھ کی طرف رہا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ہمارے ہاں بیلنس آف پیمنٹ کا کرائسز ہر دوسرے چوتھے سال نمایاں ہوتا رہا ، قرض بڑھتا رہا اور ہمارے جی ڈی پی گروتھ کا جھولا کبھی اوپر کبھی نیچے جھولتا رہا ، اس جھولنے میں پوری اکانومی کو کہیں بھی مستحکم نہیں ہونے دیا گیا۔
اب جب کہ نگران حکومت اپنے تئیں پوری کوشش کر رہی ہے کہ وہ بیرونی سرمایہ کاروں کو راغب کر سکے، بظاہر لوکل انویسٹرز کی طرف وہ توجہ نہیں دی جا رہی۔اگر ملک میں پائیدار انڈسٹریل گروتھ کا ہدف حاصل کرنا ہے تو مقامی سرمایہ کاروں کا اعتماد بھی بحال کرنا ہوگا۔ پچھلے 20 سالوں میں بجلی اور گیس کی قیمتوں اور مہنگائی نے کاسٹ آف ڈوئنگ بزنس الٹ پلٹ کر رکھ دی ہے۔
جب تک لوکل انڈسٹری اپنے پاؤں پر کھڑی نہیں ہوگی، پالیسیاں پانچ سے دس سال کی واضح نہیں ہوں گی، سرمایہ کار اپنی سرمایہ کاری کی مناسب منصوبہ بندی نہیں کر پائیں گے۔ اسی طرح ایکسپورٹ سیکٹر کی مسابقت جب تک بحال نہیں ہوگی ایکسپورٹ میں اضافہ ممکن نہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ہمارا روایتی ایکسپورٹ سیکٹر جمود کا شکار ہے۔
اس میں نئے پروڈکٹس اور سیکٹرز کو شامل کرنے کی ضرورت ہے جس کے لیے مناسب پالیسی فریم ورک اور لوکل اور بیرونی سرمایہ کاروں کے ساتھ معاملات کو طے کرنے ، جوائنٹ وینچرز اور ٹیکنالوجی ٹرانسفر جیسے معاملات پر دور رس معاہدے کرنے کی ضرورت ہے۔ موجودہ اقتصادی اشاریوں اور شرح مبادلہ میں پائیداری اور استحکام تبھی ممکن ہے جب ملک میں سیاسی استحکام بھی موجود ہو ۔
ضرورت امر کی ہے کہ جھولا بازی کی روایتیں اور ماحول ختم ہو اور استحکام کا ماحول اپنے پاؤں پھسارے۔ تبھی پولیٹیکل اکانومی مستحکم ہوگی، عوام کو سکون آئے گا اور جھولا مسلسل جھولنے سے جو انھیں چکر آ رہے ہیں ان کا اثر ختم ہو، اور انھیں اندازہ ہو کہ ان کے پاؤں زمین پر ہیں اور اب وہ مثبت سمت رواں ہیں۔
ان جھولوں میں سے کچھ جھولوں کی رائڈز اتنی خوفناک اور خطرناک تھیں کہ لوگوں کی چیخیں نکل جاتیں۔تاہم اس سارے کھیل میں ایک عجیب سرمستی تھی کہ دور دور سے سیاح بھاری بھرکم ٹکٹ۔ خریدکر اور گھنٹوں قطار میں کھڑے ہو کر ان جھولوں کا انتظار کرتے بھلا وقت تھا، بھلا زمانہ تھا۔
پچھلے کچھ عرصے سے ہم ایک بار پھر جھولا جھول رہے ہیں لیکن یہ جھولا ہم اکیلے نہیں جھول رہے بلکہ یہ جھولا ہم من حیث القوم سارے جھول رہے ہیں۔ جس انداز میں پچھلے کچھ عرصے سے سیاست اور معیشت اور عوام جھولا جھول رہے ہیں، وہ بقول باقی صدیقی کچھ یوں ہے؛
کشتیاں ٹوٹ گئی ہیں ساری
اب لیے پھرتا ہے دریا ہم کو
یادش بخیر نون لیگ کی حکومت ، اس کے بعد پی ٹی آئی اور پھر پی ڈی ایم کی حکومتوں کے درمیان پچھلے چند سالوں میں سیاست معیشت اور گورننس کا جھولا اس قدر جھولا گیا کہ اب قوم کو بھی چکر آنے لگے ہیں۔نگران حکومت نے اپنی حکومت کا آغاز کیا تو دیکھتے ہی دیکھتے روپے اور ڈالر کی شرح مبادلہ کو چکر آنا شروع ہو گئے۔
ڈالر روپے کو لتاڑتا ہوا دیکھتے ہی دیکھتے انٹر بینک میں 307 روپے اور اوپن مارکیٹ میں 340 روپے تک چھلانگ لگا کر چلا گیا، اس سے مہنگائی کا ایک سیلاب آگیا، عوام کی چیخ و پکار اپنی جگہ لیکن اس اچانک جھولے میں کاروبار بھی چکرا کر رہ گئے۔
ابھی ان لیولز پر چکر درست نہ ہوئے تھے کہ ڈالر کی واپسی شروع ہو گئی۔ اس وقت انٹر بینک 283 اور اوپن مارکیٹ میں 286 کے لگ بھگ ہے، ماہرین اب کہتے نہیں تھکتے کہ کچھ دنوں کی بات ہے کہ 200 روپے کا شرح مبادلہ کا پہاڑ سر ہونے کو ہے۔ لیجئیے ایک اور چکر ہمارا منتظر ہے!اس اچانک جھولنے نے امپورٹرز اور ایکسپورٹرز کو بھی چکرا دیا ہے۔
امپورٹرز اب اس انتظار میں ہیں کہ شرح مبادلہ مزید موافق ہو تو وہ اپنی ایل سیز کھولیں، دوسری طرف ایکسپورٹرز پریشان ہیں کہ انھوں نے جس شرح مبادلہ پر بڑی مشکل سے کانٹریکٹ کیے تھے، ان کانٹریکٹس کی جب رقم وصول ہوگی تو شرح مبادلہ کے حساب سے انھیں نقصان ہی نقصان ہوگا۔ اس سے اگلا مرحلہ ان کے لیے اور بھی مشکل ہے کہ ورلڈ مارکیٹ میں ایکسپورٹس پر مشکل وقت ہے، اب اگلا سیلز کانٹریکٹ کریں تو وہ کن ریٹس پر کریں۔
ایکسپورٹرز کا پچھلا تجربہ ہے کہ ڈار صاحب کے دور میں ایک بار ڈالر ریورس ہو بھی گیا لیکن دوسری بار کچھ دن ریورس ہونے کے بعد پھر اس نے اپنے پرانی شرح کی جانب سفر شروع کر دیا۔ سو، برآمد کنندگان چکرائے ہوئے ہیں جب کہ امپورٹرز شرح مبادلہ کے سبب اپنے ممکنہ منافع کو دیکھ کے چکرائے ہوئے ہیں۔اسپیشل انویسٹمنٹ فسلیٹیشن کونسل بہت متحرک ہے۔
بہت اہم فیصلے کیے گئے ہیں۔ ان فیصلوں کے نتیجے میں ڈالر کی بے محابہ اسمگلنگ کو کنٹرول کرنے میں مدد ملی۔ افغان ٹرانزٹ اور ایران کے ساتھ اسمگلنگ پہ کریک ڈاؤن کی وجہ سے کنٹرول ہوا۔ پاک افغان ٹرانزٹ کو جس طرحکے بہت سے لوگ مس یوز کر رہے تھے ان اقدامات سے اس کو بھی لگام ڈالنے میں مدد ملی۔
اسپیشل انویسٹمنٹ فیسلٹیشن کونسل پوری تگ و دو میں ہے کہ وہ فوری طور پر دوست ممالک سے 11 ارب ڈالر کے لگ بھگ کی سرمایہ کاری کا بندوبست کر سکے۔اس سلسلے میں سعودی عرب اور کچھ دوست ممالک کے ساتھ معاملات ایڈوانس اسٹیج پر بتائے جا رہے ہیں۔
اللہ کرے کہ ماضی کی طرح یہ صرف اعلانات کی حد تک نہ رہیں بلکہ یہ سرمایہ کاری عملی طور پر ممکن بھی ہو جائے۔ ماضی میں حکومتی پالیسیز ، ٹیکس پالیسیز اور گورننس کے حالات رہے ہیں ہمارے اقتصادی نظام کا ڈھانچہ بہت حد تک رینٹ سیکنگ، اندرونی و بیرونی قرضوں اور درآمدات کی بناء پر گروتھ کی طرف رہا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ہمارے ہاں بیلنس آف پیمنٹ کا کرائسز ہر دوسرے چوتھے سال نمایاں ہوتا رہا ، قرض بڑھتا رہا اور ہمارے جی ڈی پی گروتھ کا جھولا کبھی اوپر کبھی نیچے جھولتا رہا ، اس جھولنے میں پوری اکانومی کو کہیں بھی مستحکم نہیں ہونے دیا گیا۔
اب جب کہ نگران حکومت اپنے تئیں پوری کوشش کر رہی ہے کہ وہ بیرونی سرمایہ کاروں کو راغب کر سکے، بظاہر لوکل انویسٹرز کی طرف وہ توجہ نہیں دی جا رہی۔اگر ملک میں پائیدار انڈسٹریل گروتھ کا ہدف حاصل کرنا ہے تو مقامی سرمایہ کاروں کا اعتماد بھی بحال کرنا ہوگا۔ پچھلے 20 سالوں میں بجلی اور گیس کی قیمتوں اور مہنگائی نے کاسٹ آف ڈوئنگ بزنس الٹ پلٹ کر رکھ دی ہے۔
جب تک لوکل انڈسٹری اپنے پاؤں پر کھڑی نہیں ہوگی، پالیسیاں پانچ سے دس سال کی واضح نہیں ہوں گی، سرمایہ کار اپنی سرمایہ کاری کی مناسب منصوبہ بندی نہیں کر پائیں گے۔ اسی طرح ایکسپورٹ سیکٹر کی مسابقت جب تک بحال نہیں ہوگی ایکسپورٹ میں اضافہ ممکن نہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ہمارا روایتی ایکسپورٹ سیکٹر جمود کا شکار ہے۔
اس میں نئے پروڈکٹس اور سیکٹرز کو شامل کرنے کی ضرورت ہے جس کے لیے مناسب پالیسی فریم ورک اور لوکل اور بیرونی سرمایہ کاروں کے ساتھ معاملات کو طے کرنے ، جوائنٹ وینچرز اور ٹیکنالوجی ٹرانسفر جیسے معاملات پر دور رس معاہدے کرنے کی ضرورت ہے۔ موجودہ اقتصادی اشاریوں اور شرح مبادلہ میں پائیداری اور استحکام تبھی ممکن ہے جب ملک میں سیاسی استحکام بھی موجود ہو ۔
ضرورت امر کی ہے کہ جھولا بازی کی روایتیں اور ماحول ختم ہو اور استحکام کا ماحول اپنے پاؤں پھسارے۔ تبھی پولیٹیکل اکانومی مستحکم ہوگی، عوام کو سکون آئے گا اور جھولا مسلسل جھولنے سے جو انھیں چکر آ رہے ہیں ان کا اثر ختم ہو، اور انھیں اندازہ ہو کہ ان کے پاؤں زمین پر ہیں اور اب وہ مثبت سمت رواں ہیں۔