ذہنی پولیو اور ہمارے حکمران
ایک پولیو زدہ فالج کے مریض نے مسلسل بارہ سال امریکی صدر بن کر اپنی قوم کو دنیا کی عظیم ترین قوم بنا دیا۔
قائد، لیڈر یا رہنما کون ہوتا ہے! کیا یہ خدا کا انعام ہے، یا حالات اسے خود بخود ایک منصب پر فائز کر دیتے ہیں۔ بہر حال رہنما جس بھی طریقے سے سامنے آئے، وہ لوگوں کے ہجوم کو قوم میں بدل سکتا ہے۔ وہ ذاتیات سے بالاتر ہو کر تمام فیصلے کرتا ہے جس سے لوگوں کے حالات بہتری کی طرف چلے جاتے ہیں۔ مگر میرا آپ سے سوال ہے کہ ہمارے اوپر آسیب کا کونسا سایہ ہے کہ ہمارے اعتماد کو ہمارے حکمران ہر بار جھوٹ کی صلیب پر قتل کر دیتے ہیں۔ ہم کیوں اتنی بانجھ اور بدقسمت قوم ہیں۔ پاکستان میں جتنے بھی دنیاوی لحاظ سے مقتدر اور بڑے لوگ ہیں انھوں نے لکڑی کی سیڑھیاں ٹانگوں پر لگا رکھی ہیں تا کہ یہ سرکس کے جوکروں کی مانند بہت لمبے قد کے دکھائی دیں۔
فرنیکلن روزویلٹ امریکا کا32 واں صدر تھا۔ روزویلٹ جوانی سے ہی سیاست کے میدان کارزار میں داخل ہو گیا تھا۔ وہ انتہائی امیر خاندان سے تعلق رکھتا تھا۔ وہ ابھی دس بارہ سال کا بچہ تھا کہ اس کا والد اسے وائٹ ہائوس میں امریکی صدر گروور سے ملاقات کے لیے لے گیا۔ گروور اس وقت بے حد مصروف تھا اور کام کے بوجھ سے تھکا ہوا تھا۔ اس بچہ نے روائتی طریقے سے امریکی صدر سے کوئی نصیحت پوچھی۔ گروور کا جواب تھا،"میری تمہارے لیے صرف ایک دعا ہے کہ تم کبھی بھی امریکا کا صدر نہ بن سکو" ۔ مگر امریکی صدر گروور یہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ یہ بچہ بارہ سال تک اپنے ملک کا مسلسل صدر رہیگا۔1910ء میں اس نے نیو یارک سے سینیِٹ کا الیکشن لڑا۔
اس کے مقابلے میں اس کا ایک انتہائی امیر اور تجربہ کار عزیز Theodore الیکشن لڑ رہا تھا۔ اس کے متعلق مشہور تھا کہ وہ ملک کا سب سے نمایاں سیاستدان ہے۔ روزویلٹ کو لوگ"کاغذی امیدوار" کہتے تھے۔ کوئی گمان بھی نہیں کر سکتا تھا کہ وہ الیکشن میں کامیاب ہو جائیگا۔ مگر اس نوجوان نے اپنے الیکشن کی اتنی کامیاب اور جارحانہ مہم چلائی کہ اس کا مدمقابل ہار گیا اور روز ویلٹ جوانی میں ہی سینیٹر بن گیا۔ اس نے سینیٹ میں جا کر تہلکہ مچا دیا۔ اس کی تقاریر اور خوبصورت طرز بیان ہر ایک کو اپنی جانب متوجہ کر لیتا تھا۔ اس کے دلیرانہ خیالات کی بدولت اس پر کئی بار قاتلانہ حملے بھی ہوئے مگر وہ ہمیشہ بچتا رہا۔ شائد قدرت کو اس سے بہت عظیم کام لینے تھے۔
مگر ایک واقعہ نے اس کی زندگی مکمل تبدیل کر ڈ الی۔ وہ 39 سال کا تھا۔ اور اپنے گرمیوں کے گھر میں چھٹیاں گزار رہا تھا۔ یہ Campoballo Island میں واقع تھا۔ وہ گھر سے منسلک جھیل میں کشتی رانی کر رہا تھا کہ اچانک ٹھنڈے پانی میں گر گیا۔ جب باہر نکلا تو اسے محسوس ہوا کہ اس کی ٹانگیں اس کے جسم کے ساتھ نہیں ہیں۔ اگلے دن وہ شدید تکلیف کے باوجود تیرنے چلا گیا۔ تیسرے دن جب وہ بستر سے اٹھا تو دونوں ٹانگیں اس کے جسم کا بوجھ اٹھانے سے قاصر تھیں۔ وہ زمین پر گر پڑا۔ اسکو پورے جسم کا فالج ہو چکا تھا۔ اس کے ڈاکٹر اس کا علاج کرنے میں مصروف ہو گئے۔ کسی کو سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ اسکو فالج کیوں ہوا ہے۔ اسکو ایک نوجوان ڈاکٹر لووٹ کے پاس لے جایا گیا۔
اس ڈاکٹر نے روزو یلٹ کو "پولیو" کا مریض قرار دے دیا اور مکمل فالج کی وجہ پولیو قرار دی۔ نوجوان سیاست دان کے لیے یہ قیامت کی گھڑی تھی۔1921ء میں امریکا میں پولیو کا کوئی علاج نہیں تھا۔ اس کے خاندان نے مشورہ دیا کہ وہ سیاست چھوڑ دے اور صرف اپنی صحت کی طرف توجہ دے۔ مگر روزویلٹ کی قوت ارادی کا کوئی بھی ادراک نہیں کر پایا تھا۔ اس نے اپنی بیماری کو شکست دینے کا فیصلہ کیا۔ اس نے ایسٹر کے سوئمنگ پول میں ہفتے میں تین بار تیرنا شروع کر دیا۔ وہ ایک سال تک مسلسل اپنے جسم کو بہتر اور مضبوط کرنے میں مصروف رہا۔
ورزش کرنے سے اس کے بازوئوں اور ریڑھ کی ہڈی میں دوبارہ جان آنے لگی۔ مگر اس کی ٹانگیں مرتے دم تک دوبارہ ٹھیک نہ ہو سکیں۔ روزویلٹ نے فیصلہ کیا کہ وہ سیاست کے مشکل ترین میدان سے پیچھے نہیں ہٹے گا۔ اس نے اپنے دھڑ کے نچلے حصے کے لیے لوہے کی پتریاں بنوائیں جو اسے چھڑی کے سہارے سے چلنے میں مدد دیتی تھیں۔ اس نے اپنی گھر کی کھانے کی ٹیبل سے ایک کرسی نکالی اور اس کے نیچے سائیکل کے پہیے لگا دیے۔ یہ وہیل چیئر اس کی اپنی ایجاد تھی۔ وہ اس کرسی کو تہہ کر کے آسانی سے اپنی گاڑی کے پچھلے حصے میں رکھ لیتا تھا۔ وہ کوشش کرتا تھا کہ جلسوں میں وہیل چیئر پر نہ جائے۔ وہ اپنے بیٹے اور اپنی چھڑی کا سہارا لے کر کامیابی سے ڈائس تک جاتا تھا اور اپنی جاندار تقریروں سے لوگوں کو دیوانہ بنا دیتا تھا۔
فالج نے اسے بہت مضبوط انسان بنا دیا تھا۔ اب وہ ایک بے خوف اور انتہائی طاقتور زندگی گزارنے کی تیاری کر رہا تھا! اس نے اپنی جسمانی کمزوری کو اپنی سب سے بڑی قوت میں تبدیل کر دیا تھا۔ فالج کے باوجود وہ دو بار نیویارک اسٹیٹ کا گورنر منتخب ہوا۔ امریکی عوام اس کی فولادی قوت ارادی کے عاشق ہو چکے تھے۔1932ء میں اس نے امریکی صدر کے عہدے کے لیے الیکشن لڑنے کا اعلان کر دیا۔ اس نے اپنی تقاریر میں امریکی عوام سے صرف ایک وعدہ کیا کہ وہ عام عوام کی بہتری یقینی بنائے گا۔ وہ اپنا پہلا الیکشن آرام سے جیت گیا۔ تاریخ میں پہلی بار ایسا واقعہ ہوا کہ دنیا کے سب سے طاقتور ملک کی باگ دوڑ ایک ایسے شخص کے سپرد کر دی گئی جو معذور تھا۔ مگر یہ امریکی عوام کا بیسویں صدی کا بہترین فیصلہ ثابت ہوا۔
1933ء میں امریکا کی اقتصادی حالت کافی خراب تھی۔ صنعتی پیداوار پانچ برس پہلے کے مقابلے میں آدھی رہ چکی تھی۔ بیس لاکھ افراد بے گھر تھے اور سڑکوں پر زندگی گزار رہے تھے۔ مزدوروں میں سے ایک چوتھائی حصہ بالکل بیکار تھا۔ کاشتکار اس حد تک پریشان تھے کہ ان میں سے اکثر اپنی اجناس کی مناسب قیمت نہ ملنے کی وجہ سے زرعی شعبہ کو خیر باد کہہ چکے تھے۔ اس وقت امریکا کی32 ریاستوں کے بینک بند ہو چکے تھے۔ سینٹرل بینک آف امریکا بھی تالہ بندی کا شکار تھا کیونکہ لوگوں کو پیسہ دینے کے لیے بینک کے پاس کیش کی شدید کمی تھی۔ اس معذور امریکی صدر نے حیرت انگیز فیصلے کرنے شروع کر دیے۔ اس کے ان اقدامات کو تاریخ New Deal کے نام سے یاد کرتی ہے۔
سب سے پہلے روزویلٹ نے ہر شعبہ کے لیے نئی قانون سازی مکمل کی۔ اس نے اپنی پہلی تقریر میں کہا، کہ"دنیا کا کوئی خوف اتنا بڑا نہیں ہے کہ ہماری قوم کے مدمقابل خوف بن کر مستقل کھڑا رہ سکے" سب سے پہلے اس نے امریکا کے تمام بینکوں کے لیے نیا قانون بنایا۔ اس نے لوگوں کے سرمایہ اور بینکوں کو مکمل تحفظ دیا۔ تھوڑی سی مدت میں بینک اپنے پیروں پر کھڑا ہونا شروع ہو گئے۔ بے روزگار نوجوانوں کے لیے ایک اچھوتی اسکیم شروع کی گئی۔ دیہی علاقوں میں حکومتی سطح پر بے شمار منصوبے شروع کیے گئے۔ اس اسکیم کی بدولت پہلے دو ماہ میں ڈھائی لاکھ نوجوانوں کو روز گار مہیا ہو گیا۔ اس نے گھروں کے ان مالکوں کے لیے جو قرضے واپس کرنے کی حیثیت نہیں رکھتے تھے، سہولتیں دینی شروع کر دیں۔
ایک تجارتی کمیشن ترتیب دیا گیا جس نے کسانوں کی قسمت بدل دی۔ اس کمیشن نے کسانوں کے تمام مسائل جو اجناس کی پیداوار سے لے کر اس کی مناسب قیمت تک تھے، مکمل طور پر حل کر دیے۔ اس نے اعلان کر دیا کہ "امریکا میں کوئی ایسا کاروبار نہیں ہو گا جس میں اس کے ملازم کو اتنی کم تنخواہ ملے کہ وہ ایک مناسب زندگی نہ گزار سکے"۔ تمام بڑی بڑی کمپنیوں کے لیے قوانین بنائے گئے۔ ان تمام قوانین کا مقصد صرف ایک تھا کہ کمپنیاں لوگوں سے ناجائز منافع نہ لے سکیں اور اپنے مزدوروں کا معاشی استحصال نہ کر پائیں۔ حکومتی سطح پر تعمیراتی محکمہ بنایا گیا۔ اس کا بجٹ1934ء میں تین بلین ڈالر رکھا گیا۔
یہ محکمہ ڈیمز، بجلی گھر، ذمے داروں کے لیے ماڈرن زرعی مشین یعنی ہر شعبہ میں کام کر رہا تھا۔ روزویلٹ نے اعلان کر دیا کہ امریکی خزانے کو سونے کی ضرورت ہے۔ اس وقت ایک اونس سونے کی قیمت بیس ڈالر تھی۔ حکومت نے ایک اونس سونا35 ڈالر میں خریدنا شروع کر دیا۔ چند ماہ میں امریکی خزانہ سونے کے اعتبار سے دنیا میں سب سے امیر تھا۔ جنگ میں زخمی فوجیوں کے لیے بونس اسکیم شروع کی گئی۔ غریب آدمی کے لیے سوشل سیکیورٹی کا نظام شروع کیا جو غریب لوگوں کو ہر ہفتہ پیسے دیتا تھا۔ اس نے دوسری جنگ عظیم میں مکمل غیر جانب دار رہنے کا قانون بنایا۔ وہ اپنے ملک کے نوجوانوں کو کسی عذاب میں نہیں ڈالنا چاہتا تھا۔
لیکن جب دوسری جنگ عظیم میں روس، برطانیہ، اور فرانس کو مشکل حالات میں دیکھا تو جرمنی اور جاپان کے خلاف اپنی فوجی طاقت استعمال کر کے دوسری جنگ عظیم کا پانسہ پلٹ ڈالا۔ روزویلٹ نے لگاتار چار الیکشن جیتے۔ مرنے سے چند دن پہلے اس نے یالٹا کانفرنس کی اور دینا کا نقشہ تبدیل کر دیا۔ گانگریس میں آخری تقریر دراصل اس کی وہ پہلی تقریر تھی جو اس نے کرسی پر بیٹھ کر کی۔ وہ اتنا کمزور ہو چکا تھا کہ اب اس کے لیے کھڑے ہو کر تقریر کرنا ناممکن تھا۔ اس نے مرنے سے پہلے اپنی جائیداد کا قیمتی ترین حصہ پولیو کے مریضوں کے لیے وقف کر دیا۔ اس کی موت پر نیو یارک ٹائمز نے لکھا کہ "امریکی عوام سو سال بھی خدا کے سامنے گھٹنوں کے بل دعا کرتے رہیں تو بھی روزویلٹ کے احسانات کا بدلہ نہیں چکا سکتے"۔
ایک پولیو زدہ فالج کے مریض نے مسلسل بارہ سال امریکی صدر بن کر اپنی قوم کو دنیا کی عظیم ترین قوم بنا دیا۔ وہ اپاہج تھا مگر اس کی قوم طاقتور ترین بن گئی۔ اب آپ اپنے ملک کے حکمرانوں پر نظر دوڑائیں۔ انھوں نے ساٹھ سال کے عرصے میں ایک عظیم ملک کو لاچار اور نادار ملک میں تبدیل کر دیا۔ انھوں نے لوگوں کو سہولتیں دینے کے بجائے لوٹ مار اور کرپشن کے وہ حیرت انگیز کارنامے انجام دیے کہ ہماری قوم بھکاری بن گئی۔
انھوں نے ہر شعبے میں ایسی تبدیلیاں کیں کہ وہ پورے ملک کی دولت کے مالک بن گئے۔ مجھے روزویلٹ قطعاً مفلوج نظر نہیں آتا بلکہ مجھے اپنے تو ملک کے حکمران پولیو زدہ نظر آتے ہیں! ہر طرح کی مثبت سوچ سے محروم! اور ان کے ساتھ اب سرکاری بحری قزاق بھی شیروشکر ہیں۔ جسمانی فالج کا تو علاج شائد ممکن ہو جائے مگر ہمارے حکمران تو شدید بیمار اور مفلوج ہیں! یہ دراصل ذہنی پولیو کے لاعلاج اور قابل رحم مرض میں مبتلا ہیں!
فرنیکلن روزویلٹ امریکا کا32 واں صدر تھا۔ روزویلٹ جوانی سے ہی سیاست کے میدان کارزار میں داخل ہو گیا تھا۔ وہ انتہائی امیر خاندان سے تعلق رکھتا تھا۔ وہ ابھی دس بارہ سال کا بچہ تھا کہ اس کا والد اسے وائٹ ہائوس میں امریکی صدر گروور سے ملاقات کے لیے لے گیا۔ گروور اس وقت بے حد مصروف تھا اور کام کے بوجھ سے تھکا ہوا تھا۔ اس بچہ نے روائتی طریقے سے امریکی صدر سے کوئی نصیحت پوچھی۔ گروور کا جواب تھا،"میری تمہارے لیے صرف ایک دعا ہے کہ تم کبھی بھی امریکا کا صدر نہ بن سکو" ۔ مگر امریکی صدر گروور یہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ یہ بچہ بارہ سال تک اپنے ملک کا مسلسل صدر رہیگا۔1910ء میں اس نے نیو یارک سے سینیِٹ کا الیکشن لڑا۔
اس کے مقابلے میں اس کا ایک انتہائی امیر اور تجربہ کار عزیز Theodore الیکشن لڑ رہا تھا۔ اس کے متعلق مشہور تھا کہ وہ ملک کا سب سے نمایاں سیاستدان ہے۔ روزویلٹ کو لوگ"کاغذی امیدوار" کہتے تھے۔ کوئی گمان بھی نہیں کر سکتا تھا کہ وہ الیکشن میں کامیاب ہو جائیگا۔ مگر اس نوجوان نے اپنے الیکشن کی اتنی کامیاب اور جارحانہ مہم چلائی کہ اس کا مدمقابل ہار گیا اور روز ویلٹ جوانی میں ہی سینیٹر بن گیا۔ اس نے سینیٹ میں جا کر تہلکہ مچا دیا۔ اس کی تقاریر اور خوبصورت طرز بیان ہر ایک کو اپنی جانب متوجہ کر لیتا تھا۔ اس کے دلیرانہ خیالات کی بدولت اس پر کئی بار قاتلانہ حملے بھی ہوئے مگر وہ ہمیشہ بچتا رہا۔ شائد قدرت کو اس سے بہت عظیم کام لینے تھے۔
مگر ایک واقعہ نے اس کی زندگی مکمل تبدیل کر ڈ الی۔ وہ 39 سال کا تھا۔ اور اپنے گرمیوں کے گھر میں چھٹیاں گزار رہا تھا۔ یہ Campoballo Island میں واقع تھا۔ وہ گھر سے منسلک جھیل میں کشتی رانی کر رہا تھا کہ اچانک ٹھنڈے پانی میں گر گیا۔ جب باہر نکلا تو اسے محسوس ہوا کہ اس کی ٹانگیں اس کے جسم کے ساتھ نہیں ہیں۔ اگلے دن وہ شدید تکلیف کے باوجود تیرنے چلا گیا۔ تیسرے دن جب وہ بستر سے اٹھا تو دونوں ٹانگیں اس کے جسم کا بوجھ اٹھانے سے قاصر تھیں۔ وہ زمین پر گر پڑا۔ اسکو پورے جسم کا فالج ہو چکا تھا۔ اس کے ڈاکٹر اس کا علاج کرنے میں مصروف ہو گئے۔ کسی کو سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ اسکو فالج کیوں ہوا ہے۔ اسکو ایک نوجوان ڈاکٹر لووٹ کے پاس لے جایا گیا۔
اس ڈاکٹر نے روزو یلٹ کو "پولیو" کا مریض قرار دے دیا اور مکمل فالج کی وجہ پولیو قرار دی۔ نوجوان سیاست دان کے لیے یہ قیامت کی گھڑی تھی۔1921ء میں امریکا میں پولیو کا کوئی علاج نہیں تھا۔ اس کے خاندان نے مشورہ دیا کہ وہ سیاست چھوڑ دے اور صرف اپنی صحت کی طرف توجہ دے۔ مگر روزویلٹ کی قوت ارادی کا کوئی بھی ادراک نہیں کر پایا تھا۔ اس نے اپنی بیماری کو شکست دینے کا فیصلہ کیا۔ اس نے ایسٹر کے سوئمنگ پول میں ہفتے میں تین بار تیرنا شروع کر دیا۔ وہ ایک سال تک مسلسل اپنے جسم کو بہتر اور مضبوط کرنے میں مصروف رہا۔
ورزش کرنے سے اس کے بازوئوں اور ریڑھ کی ہڈی میں دوبارہ جان آنے لگی۔ مگر اس کی ٹانگیں مرتے دم تک دوبارہ ٹھیک نہ ہو سکیں۔ روزویلٹ نے فیصلہ کیا کہ وہ سیاست کے مشکل ترین میدان سے پیچھے نہیں ہٹے گا۔ اس نے اپنے دھڑ کے نچلے حصے کے لیے لوہے کی پتریاں بنوائیں جو اسے چھڑی کے سہارے سے چلنے میں مدد دیتی تھیں۔ اس نے اپنی گھر کی کھانے کی ٹیبل سے ایک کرسی نکالی اور اس کے نیچے سائیکل کے پہیے لگا دیے۔ یہ وہیل چیئر اس کی اپنی ایجاد تھی۔ وہ اس کرسی کو تہہ کر کے آسانی سے اپنی گاڑی کے پچھلے حصے میں رکھ لیتا تھا۔ وہ کوشش کرتا تھا کہ جلسوں میں وہیل چیئر پر نہ جائے۔ وہ اپنے بیٹے اور اپنی چھڑی کا سہارا لے کر کامیابی سے ڈائس تک جاتا تھا اور اپنی جاندار تقریروں سے لوگوں کو دیوانہ بنا دیتا تھا۔
فالج نے اسے بہت مضبوط انسان بنا دیا تھا۔ اب وہ ایک بے خوف اور انتہائی طاقتور زندگی گزارنے کی تیاری کر رہا تھا! اس نے اپنی جسمانی کمزوری کو اپنی سب سے بڑی قوت میں تبدیل کر دیا تھا۔ فالج کے باوجود وہ دو بار نیویارک اسٹیٹ کا گورنر منتخب ہوا۔ امریکی عوام اس کی فولادی قوت ارادی کے عاشق ہو چکے تھے۔1932ء میں اس نے امریکی صدر کے عہدے کے لیے الیکشن لڑنے کا اعلان کر دیا۔ اس نے اپنی تقاریر میں امریکی عوام سے صرف ایک وعدہ کیا کہ وہ عام عوام کی بہتری یقینی بنائے گا۔ وہ اپنا پہلا الیکشن آرام سے جیت گیا۔ تاریخ میں پہلی بار ایسا واقعہ ہوا کہ دنیا کے سب سے طاقتور ملک کی باگ دوڑ ایک ایسے شخص کے سپرد کر دی گئی جو معذور تھا۔ مگر یہ امریکی عوام کا بیسویں صدی کا بہترین فیصلہ ثابت ہوا۔
1933ء میں امریکا کی اقتصادی حالت کافی خراب تھی۔ صنعتی پیداوار پانچ برس پہلے کے مقابلے میں آدھی رہ چکی تھی۔ بیس لاکھ افراد بے گھر تھے اور سڑکوں پر زندگی گزار رہے تھے۔ مزدوروں میں سے ایک چوتھائی حصہ بالکل بیکار تھا۔ کاشتکار اس حد تک پریشان تھے کہ ان میں سے اکثر اپنی اجناس کی مناسب قیمت نہ ملنے کی وجہ سے زرعی شعبہ کو خیر باد کہہ چکے تھے۔ اس وقت امریکا کی32 ریاستوں کے بینک بند ہو چکے تھے۔ سینٹرل بینک آف امریکا بھی تالہ بندی کا شکار تھا کیونکہ لوگوں کو پیسہ دینے کے لیے بینک کے پاس کیش کی شدید کمی تھی۔ اس معذور امریکی صدر نے حیرت انگیز فیصلے کرنے شروع کر دیے۔ اس کے ان اقدامات کو تاریخ New Deal کے نام سے یاد کرتی ہے۔
سب سے پہلے روزویلٹ نے ہر شعبہ کے لیے نئی قانون سازی مکمل کی۔ اس نے اپنی پہلی تقریر میں کہا، کہ"دنیا کا کوئی خوف اتنا بڑا نہیں ہے کہ ہماری قوم کے مدمقابل خوف بن کر مستقل کھڑا رہ سکے" سب سے پہلے اس نے امریکا کے تمام بینکوں کے لیے نیا قانون بنایا۔ اس نے لوگوں کے سرمایہ اور بینکوں کو مکمل تحفظ دیا۔ تھوڑی سی مدت میں بینک اپنے پیروں پر کھڑا ہونا شروع ہو گئے۔ بے روزگار نوجوانوں کے لیے ایک اچھوتی اسکیم شروع کی گئی۔ دیہی علاقوں میں حکومتی سطح پر بے شمار منصوبے شروع کیے گئے۔ اس اسکیم کی بدولت پہلے دو ماہ میں ڈھائی لاکھ نوجوانوں کو روز گار مہیا ہو گیا۔ اس نے گھروں کے ان مالکوں کے لیے جو قرضے واپس کرنے کی حیثیت نہیں رکھتے تھے، سہولتیں دینی شروع کر دیں۔
ایک تجارتی کمیشن ترتیب دیا گیا جس نے کسانوں کی قسمت بدل دی۔ اس کمیشن نے کسانوں کے تمام مسائل جو اجناس کی پیداوار سے لے کر اس کی مناسب قیمت تک تھے، مکمل طور پر حل کر دیے۔ اس نے اعلان کر دیا کہ "امریکا میں کوئی ایسا کاروبار نہیں ہو گا جس میں اس کے ملازم کو اتنی کم تنخواہ ملے کہ وہ ایک مناسب زندگی نہ گزار سکے"۔ تمام بڑی بڑی کمپنیوں کے لیے قوانین بنائے گئے۔ ان تمام قوانین کا مقصد صرف ایک تھا کہ کمپنیاں لوگوں سے ناجائز منافع نہ لے سکیں اور اپنے مزدوروں کا معاشی استحصال نہ کر پائیں۔ حکومتی سطح پر تعمیراتی محکمہ بنایا گیا۔ اس کا بجٹ1934ء میں تین بلین ڈالر رکھا گیا۔
یہ محکمہ ڈیمز، بجلی گھر، ذمے داروں کے لیے ماڈرن زرعی مشین یعنی ہر شعبہ میں کام کر رہا تھا۔ روزویلٹ نے اعلان کر دیا کہ امریکی خزانے کو سونے کی ضرورت ہے۔ اس وقت ایک اونس سونے کی قیمت بیس ڈالر تھی۔ حکومت نے ایک اونس سونا35 ڈالر میں خریدنا شروع کر دیا۔ چند ماہ میں امریکی خزانہ سونے کے اعتبار سے دنیا میں سب سے امیر تھا۔ جنگ میں زخمی فوجیوں کے لیے بونس اسکیم شروع کی گئی۔ غریب آدمی کے لیے سوشل سیکیورٹی کا نظام شروع کیا جو غریب لوگوں کو ہر ہفتہ پیسے دیتا تھا۔ اس نے دوسری جنگ عظیم میں مکمل غیر جانب دار رہنے کا قانون بنایا۔ وہ اپنے ملک کے نوجوانوں کو کسی عذاب میں نہیں ڈالنا چاہتا تھا۔
لیکن جب دوسری جنگ عظیم میں روس، برطانیہ، اور فرانس کو مشکل حالات میں دیکھا تو جرمنی اور جاپان کے خلاف اپنی فوجی طاقت استعمال کر کے دوسری جنگ عظیم کا پانسہ پلٹ ڈالا۔ روزویلٹ نے لگاتار چار الیکشن جیتے۔ مرنے سے چند دن پہلے اس نے یالٹا کانفرنس کی اور دینا کا نقشہ تبدیل کر دیا۔ گانگریس میں آخری تقریر دراصل اس کی وہ پہلی تقریر تھی جو اس نے کرسی پر بیٹھ کر کی۔ وہ اتنا کمزور ہو چکا تھا کہ اب اس کے لیے کھڑے ہو کر تقریر کرنا ناممکن تھا۔ اس نے مرنے سے پہلے اپنی جائیداد کا قیمتی ترین حصہ پولیو کے مریضوں کے لیے وقف کر دیا۔ اس کی موت پر نیو یارک ٹائمز نے لکھا کہ "امریکی عوام سو سال بھی خدا کے سامنے گھٹنوں کے بل دعا کرتے رہیں تو بھی روزویلٹ کے احسانات کا بدلہ نہیں چکا سکتے"۔
ایک پولیو زدہ فالج کے مریض نے مسلسل بارہ سال امریکی صدر بن کر اپنی قوم کو دنیا کی عظیم ترین قوم بنا دیا۔ وہ اپاہج تھا مگر اس کی قوم طاقتور ترین بن گئی۔ اب آپ اپنے ملک کے حکمرانوں پر نظر دوڑائیں۔ انھوں نے ساٹھ سال کے عرصے میں ایک عظیم ملک کو لاچار اور نادار ملک میں تبدیل کر دیا۔ انھوں نے لوگوں کو سہولتیں دینے کے بجائے لوٹ مار اور کرپشن کے وہ حیرت انگیز کارنامے انجام دیے کہ ہماری قوم بھکاری بن گئی۔
انھوں نے ہر شعبے میں ایسی تبدیلیاں کیں کہ وہ پورے ملک کی دولت کے مالک بن گئے۔ مجھے روزویلٹ قطعاً مفلوج نظر نہیں آتا بلکہ مجھے اپنے تو ملک کے حکمران پولیو زدہ نظر آتے ہیں! ہر طرح کی مثبت سوچ سے محروم! اور ان کے ساتھ اب سرکاری بحری قزاق بھی شیروشکر ہیں۔ جسمانی فالج کا تو علاج شائد ممکن ہو جائے مگر ہمارے حکمران تو شدید بیمار اور مفلوج ہیں! یہ دراصل ذہنی پولیو کے لاعلاج اور قابل رحم مرض میں مبتلا ہیں!