بقائے پاکستان نفاذ عدل اسلام…
انقلاب نبوی کیا تھا؟ اس سلسلے میں حضورﷺ کی تعلیمات ہمارے لیے مشعل راہ اور سرچشمہ ہدایت ہیں
مملکت خداداد اس وقت بلا شبہ اپنے چھتر سالہ سیاسی تاریخ کے نازک ترین دور سے گزر رہی ہے۔ اس وقت ایک طرف اگر غربت، بے روزگاری اور مہنگائی کے مارے عوام کو بدترین سیاسی بحران اور معاشی بدحالی کا سامنا ہے تو دوسری طرف دہشت گردی کے منحوس سائے ایک بار پھر ملک کے طول و ارض میں بڑھتے جا رہے ہیں۔
معاشی، سیاسی اور دیگر ریاستی ادارے عوام کے جان و مال کے تحفظ اور ان کو بنیادی ضروریات کی فراہمی میں ناکام ہوچکے ہیں۔ عدالتوں میں انصاف ہوتا نظر نہیں آتا، عوام کا ریاستی اداروں پر اعتماد اٹھتا جا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عوام ملک کے بڑے شہروں میں ڈاکو، چور اور لٹیروں کو پکڑ کر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے حوالے کرنے کے بجائے خود ہی بھرے بازار میں ان کی درگت بناتے ہیں۔
دراصل آج ہمارا المیہ یہ ہے کہ بحیثیت قوم نہ ہمیں اپنی منزل کا پتہ ہے اور نہ ہی آج تک ہم اپنے لیے کسی درست سمت کا تعین کرسکے ہیں۔ نہ ہم نے اپنے لیے سیاسی و معاشی اہداف کا تعین کیا ہے اور نہ ہی ہمیں ان اہداف کے حصول کے لیے کسی واضح میکنزم کا ادراک ہے۔ جب تک ہم اپنے لیے کسی مخصوص سمت کا تعین نہیں کریں گے، ہم بحیثیت قوم اپنا منزل مقصود کیسے پائیں گے؟ یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں پالیسیوں کے تسلسل کا فقدان رہتا ہے۔
کبھی ہم اپنے لیے مغربی جمہوریت میں جائے پناہ ڈھونڈتے ہیں تو کبھی اشتراکی نظام کو اپنا مسیحا سمجھنے لگتے ہیں۔ کبھی سوشل ازم تو کبھی کیپیٹل ازم کے گیت گانے لگتے ہیں۔ یہ صرف پاکستانی قوم کا نہیں بلکہ پوری امت مسلمہ کا مسئلہ ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ آج کا مسلمان پریشان اس لیے ہے کہ اس نے اللہ اور اس کے رسول کے بتائے ہوئے زرین اصولوں کو بالائے طاق رکھ اپنے آپ کو مغربی رنگ میں رنگ دیا ہے۔
آج پوری دنیا کے ستاون مسلمان ممالک میں مسلمانوں کی آبادی ڈیڑھ ارب سے تجاوز کرچکی ہے لیکن فیصلہ سازی میں اس کی حیثیت کوئی نہیں ہے۔ اکثر مسلم ممالک کی معاشی پالیسیاں ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف سے پاس ہوکر آتی ہیں۔ آج پوری دنیا میں مسلمانوں پر ظلم ہو رہا ہے، لیکن کسی مسلمان ملک کی جرات نہیں ہے کہ وہ اس کے خلاف آواز اٹھا سکیں۔
آج سے چھتر سال پہلے لا الہ کے نام پر ہم نے جب مملکت خداداد حاصل کیا تو بجائے اس کے کہ ہم اللہ سے اپنے کیے گئے وعدے کے مطابق اس زمین پر اللہ کا نظام قائم کرلیتے لیکن ہم نے اللہ تعالیٰ سے کیے گئے وعدے سے روگردانی کرتے ہوئے اس ملک میں سرمایہ دارانہ اور جاگیردارانہ نظام کو تقویت دیتے ہوئے ایک ایسا استحصالی نظام قائم کیا جس میں اشرافیہ غریب عوام کا خون چوستی ہے جب کہ غریب سے غریب تر ہوتا چلا جا رہا ہے۔
آج اس ملک کا بچہ بچہ دنیا کے بڑے بڑے مالیاتی اداروں کا مقروض ہے۔ ہمارا بجٹ وہی سے پاس ہوکر آتا ہے، ہمیں بجلی بلوں میں غریب عوام کو کوئی ریلیف دینے کے لیے بھی آئی ایم ایف سے اجازت لینی پڑتی ہے، کیا یہی وہ آزادی ہے جس کے لیے ہمارے اسلاف نے اپنے خون کے نذرانے پیش کیے تھے۔
سقوط ڈھاکا سے بھی ہم نے کوئی سبق نہیں سیکھا اور اس ملک میں اسلام کے عادلانہ نظام کے لیے کبھی کوئی سنجیدہ کو شش نہیں کی۔ جس کی زندہ مثال سابقہ پی ڈیم ایم حکومت کی طرف سے فیڈرل شریعت کورٹ کے سود کے خلاف اس فیصلے کے نٖفاذ میں لیت و لعل سے کام لینے کی وہ کوشش تھی جس میں ریاست خود فریق بنا تھا۔
ہماری قوم مختلف الخیال گروہوں میں تقسیم ہے۔ اس ملک میں سن دو ہزار پانچ میں دنیا کی تاریخ کا وہ بدترین زلزلہ آیا جس کے تصور سے آج بھی روح کانپ جاتی ہے۔ اوپر سے بے وقت کی بارشوں سے سیلابوں کی تباہ کاریاں ہم تقریبا ہر سال دیکھتے رہے ہیں۔ صرف پچھلے ہی سال ملک میں سیلاب کی تباہ کاریوں سے اٹھنے والے مالی نقصانات کا تخمینہ تینتیس ارب ڈالر سے تجاوز کر گیا تھا۔
آج مملکت خداداد میں فرقہ واریت، نسلی اور لسانی بنیادوں پر فسادات کے علاوہ سیاسی بنیادوں پر تقسیم کی وہ بد ترین شکل موجود ہے جس نے عوام کو سیاست کے نام سے ہی متنفرکر دیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس ملک کی بقا اور سالمیت صحیح معنوں میں ایک ایسے نظام کی تشکیل میں مضمر ہے جس کی بنیاد عدل پر ہو۔
ایک ایسا صالح معاشرہ جہاں غریب اور امیر کے لیے ایک ہی قانون ہو۔ جہاں حاکم اور محکوم کے لیے انصاف کا ایک ہی معیار ہو۔ اور اسی عدل اجتماعی کے قیام کے لیے ہمیں سیرت نبوی سے رہنمائی حاصل کرنی ہوگی اور دیکھنا پڑے گا کہ حضورﷺ نے کن کن مراحل سے گزر کر ایک ایسے صالح معاشرے کی بنیاد رکھ دی جس نے دنیا کو عدل و انصاف کا مفہوم سمجھایا۔
انقلاب نبوی کیا تھا؟ اس سلسلے میں حضورﷺ کی تعلیمات ہمارے لیے مشعل راہ اور سرچشمہ ہدایت ہیں، لیکن یہ سب کچھ صرف اس صورت میں ممکن ہے جب نچلی سطح پر افراد کی تربیت کا بھرپور انتظام ہو۔
جب تک عوام میں اس فرسودہ نظام کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کا بھرپور احساس نہیں ہوگا، محض علامتی ہڑتالوں اور جلسے جلوس کرنے سے عدل اجتماعی کا قیام ممکن نہیں اور اس میں بنیادی کردار حق و صداقت کی خاطر مر مٹنے والے علمائے کرام کو ادا کرنا ہوگا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اس ملک کی بقا کی خاطر، اس ملک کے عوام کی خاطر ہم سب کو اس ملک میں ریاست مدینہ کی طرز پر ایک صالح معاشرے کی تشکیل میں اپنا حصہ ڈالنا ہوگا، بصورت دیگر۔
ہماری داستان تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں
معاشی، سیاسی اور دیگر ریاستی ادارے عوام کے جان و مال کے تحفظ اور ان کو بنیادی ضروریات کی فراہمی میں ناکام ہوچکے ہیں۔ عدالتوں میں انصاف ہوتا نظر نہیں آتا، عوام کا ریاستی اداروں پر اعتماد اٹھتا جا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عوام ملک کے بڑے شہروں میں ڈاکو، چور اور لٹیروں کو پکڑ کر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے حوالے کرنے کے بجائے خود ہی بھرے بازار میں ان کی درگت بناتے ہیں۔
دراصل آج ہمارا المیہ یہ ہے کہ بحیثیت قوم نہ ہمیں اپنی منزل کا پتہ ہے اور نہ ہی آج تک ہم اپنے لیے کسی درست سمت کا تعین کرسکے ہیں۔ نہ ہم نے اپنے لیے سیاسی و معاشی اہداف کا تعین کیا ہے اور نہ ہی ہمیں ان اہداف کے حصول کے لیے کسی واضح میکنزم کا ادراک ہے۔ جب تک ہم اپنے لیے کسی مخصوص سمت کا تعین نہیں کریں گے، ہم بحیثیت قوم اپنا منزل مقصود کیسے پائیں گے؟ یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں پالیسیوں کے تسلسل کا فقدان رہتا ہے۔
کبھی ہم اپنے لیے مغربی جمہوریت میں جائے پناہ ڈھونڈتے ہیں تو کبھی اشتراکی نظام کو اپنا مسیحا سمجھنے لگتے ہیں۔ کبھی سوشل ازم تو کبھی کیپیٹل ازم کے گیت گانے لگتے ہیں۔ یہ صرف پاکستانی قوم کا نہیں بلکہ پوری امت مسلمہ کا مسئلہ ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ آج کا مسلمان پریشان اس لیے ہے کہ اس نے اللہ اور اس کے رسول کے بتائے ہوئے زرین اصولوں کو بالائے طاق رکھ اپنے آپ کو مغربی رنگ میں رنگ دیا ہے۔
آج پوری دنیا کے ستاون مسلمان ممالک میں مسلمانوں کی آبادی ڈیڑھ ارب سے تجاوز کرچکی ہے لیکن فیصلہ سازی میں اس کی حیثیت کوئی نہیں ہے۔ اکثر مسلم ممالک کی معاشی پالیسیاں ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف سے پاس ہوکر آتی ہیں۔ آج پوری دنیا میں مسلمانوں پر ظلم ہو رہا ہے، لیکن کسی مسلمان ملک کی جرات نہیں ہے کہ وہ اس کے خلاف آواز اٹھا سکیں۔
آج سے چھتر سال پہلے لا الہ کے نام پر ہم نے جب مملکت خداداد حاصل کیا تو بجائے اس کے کہ ہم اللہ سے اپنے کیے گئے وعدے کے مطابق اس زمین پر اللہ کا نظام قائم کرلیتے لیکن ہم نے اللہ تعالیٰ سے کیے گئے وعدے سے روگردانی کرتے ہوئے اس ملک میں سرمایہ دارانہ اور جاگیردارانہ نظام کو تقویت دیتے ہوئے ایک ایسا استحصالی نظام قائم کیا جس میں اشرافیہ غریب عوام کا خون چوستی ہے جب کہ غریب سے غریب تر ہوتا چلا جا رہا ہے۔
آج اس ملک کا بچہ بچہ دنیا کے بڑے بڑے مالیاتی اداروں کا مقروض ہے۔ ہمارا بجٹ وہی سے پاس ہوکر آتا ہے، ہمیں بجلی بلوں میں غریب عوام کو کوئی ریلیف دینے کے لیے بھی آئی ایم ایف سے اجازت لینی پڑتی ہے، کیا یہی وہ آزادی ہے جس کے لیے ہمارے اسلاف نے اپنے خون کے نذرانے پیش کیے تھے۔
سقوط ڈھاکا سے بھی ہم نے کوئی سبق نہیں سیکھا اور اس ملک میں اسلام کے عادلانہ نظام کے لیے کبھی کوئی سنجیدہ کو شش نہیں کی۔ جس کی زندہ مثال سابقہ پی ڈیم ایم حکومت کی طرف سے فیڈرل شریعت کورٹ کے سود کے خلاف اس فیصلے کے نٖفاذ میں لیت و لعل سے کام لینے کی وہ کوشش تھی جس میں ریاست خود فریق بنا تھا۔
ہماری قوم مختلف الخیال گروہوں میں تقسیم ہے۔ اس ملک میں سن دو ہزار پانچ میں دنیا کی تاریخ کا وہ بدترین زلزلہ آیا جس کے تصور سے آج بھی روح کانپ جاتی ہے۔ اوپر سے بے وقت کی بارشوں سے سیلابوں کی تباہ کاریاں ہم تقریبا ہر سال دیکھتے رہے ہیں۔ صرف پچھلے ہی سال ملک میں سیلاب کی تباہ کاریوں سے اٹھنے والے مالی نقصانات کا تخمینہ تینتیس ارب ڈالر سے تجاوز کر گیا تھا۔
آج مملکت خداداد میں فرقہ واریت، نسلی اور لسانی بنیادوں پر فسادات کے علاوہ سیاسی بنیادوں پر تقسیم کی وہ بد ترین شکل موجود ہے جس نے عوام کو سیاست کے نام سے ہی متنفرکر دیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس ملک کی بقا اور سالمیت صحیح معنوں میں ایک ایسے نظام کی تشکیل میں مضمر ہے جس کی بنیاد عدل پر ہو۔
ایک ایسا صالح معاشرہ جہاں غریب اور امیر کے لیے ایک ہی قانون ہو۔ جہاں حاکم اور محکوم کے لیے انصاف کا ایک ہی معیار ہو۔ اور اسی عدل اجتماعی کے قیام کے لیے ہمیں سیرت نبوی سے رہنمائی حاصل کرنی ہوگی اور دیکھنا پڑے گا کہ حضورﷺ نے کن کن مراحل سے گزر کر ایک ایسے صالح معاشرے کی بنیاد رکھ دی جس نے دنیا کو عدل و انصاف کا مفہوم سمجھایا۔
انقلاب نبوی کیا تھا؟ اس سلسلے میں حضورﷺ کی تعلیمات ہمارے لیے مشعل راہ اور سرچشمہ ہدایت ہیں، لیکن یہ سب کچھ صرف اس صورت میں ممکن ہے جب نچلی سطح پر افراد کی تربیت کا بھرپور انتظام ہو۔
جب تک عوام میں اس فرسودہ نظام کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کا بھرپور احساس نہیں ہوگا، محض علامتی ہڑتالوں اور جلسے جلوس کرنے سے عدل اجتماعی کا قیام ممکن نہیں اور اس میں بنیادی کردار حق و صداقت کی خاطر مر مٹنے والے علمائے کرام کو ادا کرنا ہوگا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اس ملک کی بقا کی خاطر، اس ملک کے عوام کی خاطر ہم سب کو اس ملک میں ریاست مدینہ کی طرز پر ایک صالح معاشرے کی تشکیل میں اپنا حصہ ڈالنا ہوگا، بصورت دیگر۔
ہماری داستان تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں