ڈفلی

وطن عزیز کی حالت یہ ہے کہ عالمی بینک نے پاکستان کو غریب اور مقروض ملک کی فہرست میں شامل کر دیا ہے

mjgoher@yahoo.com

قوموں کی شکست و زوال کے حوالے سے دنیا بھر کے ماہرین، مفکرین، تجزیہ نگار اور دانشور مختلف النوع نظریات پیش کرتے چلے آ رہے ہیں۔

اپنے اپنے تجربات، مطالعے، مشاہدے اور دانش کی بنیاد پر صائب الرائے طبقے کی آرا میں غور و فکر کا بڑا سامان موجود ہے، اگر کوئی سمجھنا، سیکھنا اور سبق حاصل کرنا چاہے تو اسے قوموں کی تاریخ کا مطالعہ کرنا چاہیے۔

یہ بات تقریباً طے شدہ ہے کہ جب کسی قوم پر زوال آتا ہے تو وہ خود تنقیدی عمل سے گزرنے لگتی ہے اور اپنے شکستہ ماضی کے اسباب و عوامل پر غور و فکر کر کے سبق حاصل کرتی اور روشن مستقبل کی راہیں متعین کرتی ہے۔ جب کہ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم من الحیث القوم اپنی خامیوں، ناکامیوں، غلطیوں، کوتاہیوں، لغزشوں، کمزوریوں، نقائص اور عیوب پر نظرثانی کرکے، سیکھنے اور سبق حاصل کرنے کے بجائے انھیں چھپانے اور نظرانداز کرنے کے عادی ہوتے جا رہے ہیں۔

اس پہ مستزاد کہ اپنی بے وقوفیوں کو عقل مندی سے تعبیر کر کے دوسروں پر رعب ڈالنے کے خبط میں مبتلا ہیں اور اس کو اپنی شان بھی سمجھتے ہیں۔ امر واقعہ یہ ہے کہ کوئی بھی زوال دائمی نہیں ہوتا۔ آگے بڑھنے، ترقی کرنے اور اپنے مستقبل کو تابناک بنانے کے راستے ہمیشہ کھلے رہتے ہیں۔ ہمارے پاس تو قرآن مجید کے واضح احکامات و ہدایات موجود ہیں۔ نبی کریمؐ کا اسوہ حسنہ ہمارے سامنے ہے۔

نصیحت حاصل کرنے کے لیے خلفائے راشدین اور دیگر اکابرین و مفکرین کی تحریریں اور کارنامے ہمارے لیے مشعل راہ ہیں، اگر ہم کچھ سیکھنا اور سمجھنا چاہیں تو۔ ہمیں یہ حقیقت کھلے ذہن و دل سے تسلیم کر لینی چاہیے کہ قومیں صرف اپنی تنقید و اصلاح ہی سے زندہ رہ سکتی ہیں۔ جن معاشروں میں تنقید کو برداشت کرنے کا حوصلہ نہیں ہوتا اور وہ تنقید میں تعبیر کا پہلو تلاش کرنے سے قاصر رہتے ہیں تو یہی ناشناسی ان کے زوال کا سبب بن جاتی ہے۔

قوموں کے عروج و زوال کے حوالے سے مفکرین کے نظریات کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوگا کہ پہلا نظریہ '' جبریت'' سے متعلق ہے، یعنی انسان بحیثیت فرد مجبور محض ہے۔ اسی طرح قومیں بھی مجبور ہیں۔ جس طرح انسان مکمل طور پر صاحب اختیار نہیں ہے بعینہ قومیں بھی کلی بااختیار نہیں ہیں۔ اس طبقہ فکر کے داناؤں کا کہنا ہے کہ انسان جوکچھ کرتا ہے وہ آسمانی طاقت کے حکم ہی سے کرتا ہے۔ اسی طرح بحیثیت اجتماعی قومیں بھی جو کچھ کرتی ہیں وہ بھی آسمانی طاقت کے مطابق ہی کرتی ہیں۔

مطلب یہ کہ انسان اپنی قسمت کے سامنے بے بس اور مجبور ہے۔ اسی طرح قوموں کے عروج و زوال کی داستانیں بھی نصیب ہی کے زیر اثر ہیں، قوموں کے اپنے اختیار میں کچھ نہیں ہے۔یہ وہ انداز فکر ہے جو ہزاروں سال پہلے انسان نے اختیار کیا، پھر جب انسان کی فکر و غور کرنے کی صلاحیت زیادہ بالغ ہوئی اور اس نے اپنے اردگرد کے ماحول پر گہری نظر ڈالی اور سوچنا و سمجھنا اور قول و عمل کے نتائج کو پرکھنا شروع کیا تو اسے معلوم ہوا کہ حضرت انسان کی تباہی اور خوش حالی خود اس کے اعمال کا نتیجہ ہوتی ہے۔


دوسرا یہ کہ انسان انفرادی اور قومیں اجتماعی طور پر دور اندیشی، محنت، لگن، جذبہ صادق، مسلسل کوشش اور عمل پیہم و یقین محکم سے کام لے کر اپنی طاقت کو بدل سکتی ہیں اور اپنے مستقبل کو روشن و تابناک بنا سکتی ہیں۔ جب کہ بداعمالیوں، کوتاہیوں، لگا تار غلطیوں، لاپرواہی، کاہلی، سستی، کمزوریوں، خامیوں، غلط فیصلوں اور جذباتی و جز وقتی اقدامات سے قومیں اپنے آپ کو تباہ و برباد کر لیتی ہیں۔

بعض مفکرین نے قوم کو ایک زندہ جسم قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ جس طرح جانور اور انسان بچپن، جوانی، بڑھاپے اور پھر موت کی منازل طے کرتا ہے۔ اسی طرح قوموں کے لیے بھی یہ لازم ہے کہ وہ عروج کی بلندیوں پر پہنچنے کے بعد زوال کی منزلوں سے بھی گزریں اور روشن مستقبل کا سبق حاصل کریں۔ چند مفکرین نے اس فلسفے کی معاشی تشریح بھی کی ہے۔

مثلاً کارل مارکس نے قوموں کی شکست و زوال کے جو معاشی اسباب بیان کیے ہیں ان کی صحت سے انکار کی گنجائش ممکن نہیں، جب کہ ایک اور مفکر ٹائن بی کے نزدیک اگر چیلنجز کا مقابلہ نہ کیا جائے تو شکست مقدر بن جاتی ہے۔

آپ اس پس منظر میں وطن عزیز کی سات دہائیوں دفاعی، معاشی، سیاسی، عدالتی، سماجی، پارلیمانی اور جمہوری تاریخ پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوگا کہ ہم نے من الحیث القوم کسی شعبہ ہائے زندگی میں ترقی، کامیابی اور کامرانی کی کوئی قابل تقلید اور درخشاں مثال قائم نہیں کی بلکہ ہر جانب افراتفری، انتشار، بے چینی، ناانصافی، بدعنوانی، ہلاکت خیزی، تباہی و بربادی، تنزل، ادبار اور انحطاط کے آثار نمایاں ہوتے نظر آ رہے ہیں، تمام ریاستی ادارے اپنے استحکام اور بقا کی جنگ میں کامیابی کے منتظر ہیں۔

قائد اعظم اور لیاقت علی خان کے بعد اس ملک کے عوام کو کوئی ایسا صاحب کردار رہنما نہ مل سکا جو گرداب میں پھنسی اس ملک کی ناؤ کو منزل تک پہنچانے کی مخلصانہ کوشش کرتا۔ نتیجتاً قائد کا پاکستان سلامت نہ رہ سکا اور اپنے قیام کے دو عشروں بعد ہی دولخت ہوگیا۔ سیاسی قیادت کی نااہلیوں، کوتاہ اندیشی، بدعنوانیوں، بداعمالیوں، کمزوریوں اور خامیوں کے باعث غیر سیاسی طاقتور قوتوں نے ایوان اقتدار میں اپنے قدم جمائے اس پہ مستزاد ایوان عدل سے مارشلائی حاکموں کو فراخ دلی سے '' نظریہ ضرورت'' کی سند جواز بھی عطا کی جاتی رہی ہے۔

آئین پاکستان کے تحت تمام ریاستی اداروں کا دائرہ کار متعین ہے لیکن بدقسمتی یہ کہ ہر ادارہ دوسرے ادارے پر اپنی حاکمیت و تسلط قائم کرنے کا خواہاں نظر آتا ہے۔ یہ منظر بدنما آج بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ دکھ اور افسوس اس بات کا ہے کہ دوسروں کی آنکھ کا بال تو سب کو نظر آ جاتا ہے لیکن اپنی آنکھ کا شہتیر کوئی نہیں دیکھ پاتا۔ یہی اس نامراد قوم کا المیہ ہے جس نے سیاست، صحافت، عدالت، قیادت اور طاقتور حلقوں سب کو بے توقیر اور رسوا کیا، لیکن کسی کو احساس ندامت نہیں اور نہ ہی قومی وقار اور ملکی عزت کا خیال ہے۔

ملک کی بڑی سیاسی جماعتیں پاکستان پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن) اور پی ٹی آئی جو گزشتہ تقریباً چار عشروں سے اقتدار میں رہی ہیں، مفکرین و تجزیہ نگار انھیں ہی آج کے مخدوش ملکی حالات کا ذمے دار قرار دیتے ہیں، نئے انتخابات کا ڈول ڈالا جانے والا ہے، (ن) لیگی قائد میاں نواز شریف چوتھی مرتبہ وزیر اعظم بننے کا خواب دیکھ رہے ہیں جب کہ وطن عزیز کی حالت یہ ہے کہ عالمی بینک نے پاکستان کو غریب اور مقروض ملک کی فہرست میں شامل کر دیا ہے، کروڑوں عوام غربت، بے روزگاری اور مہنگائی کی چکی میں پس رہے ہیں، ان کا کوئی پرسان حال نہیں، پاکستان منجدھار میں گھرا ہوا ہے اور سب اپنی اپنی ڈفلی بجا رہے ہیں۔
Load Next Story