چنگیز آئتما توف صحافی ادیب اور سفارتکار
چنگیزآئتما توف جانوروں کی ٹوٹی ٹانگیں جوڑتے اوران کاعلاج کرکے ان کی زندگی کو صحت مند بنانے کااہم فریضہ انجام دیتے رہے
آپ ایک ایسے شخص کا تصور کریں جس نے غربت و عسرت میں آنکھ کھولی ہو اور بچپن میں ہی یتیم ہوگیا ہو۔ جسے لڑکپن ہی سے اپنی ماں اور تین چھوٹے بہن بھائیوں کے لیے زمینوں پرکام کرنا پڑا ہو۔
جب ذرا بڑا ہوا تو سلوطری اسکول میں داخل ہوا جہاں سے نکل کر زرعی ادارے کا رخ کیا اور شاندار نمبروں سے امتحان پاس کیا۔ اس کے بعد تین سال تک ڈنگر، ڈاکٹر کے طور پر کام کیا۔ یاد رہے کہ یہ وہ ڈاکٹر ہوتے تھے جوگھوڑوں، خچروں پر سوار ہوکر دور دراز اور دشوار گزار علاقوں میں جانوروں کے علاج کے لیے جایا کرتے تھے۔
چنگیز آئتما توف جانوروں کی ٹوٹی ٹانگیں جوڑتے اور ان کا علاج کر کے ان کی زندگی کو صحت مند بنانے کا اہم فریضہ انجام دیتے رہے۔ پھر ایک دن اس نوجوان نے جانوروں کا اسپتال چھوڑا، اپنا بوریا بستر سمیٹ ایک اخبارکے دفتر صحافی بننے چلا گیا۔ اخبار کی انتظامیہ نے ان کی اہلیت ذوق وشوق کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے اسٹاف میں شامل کرلیا۔
چنگیز آئتما توف کریمنز زبان کے وجود میں آنے کے صرف 4 سال بعد یعنی 1928 میں پیدا ہوا تھا۔ کریمنز اس سے قبل صرف ایک بولی تھی اور اس کا رسم الخط وجود میں نہیں آیا تھا۔ یہ زبان تحریری شکل میں 1924میں سامنے آئی اور اس زبان میں پہلی کتاب 1926 میں منظر عام پر آئی۔ آج یہ زبان چنگیزآئتما توف کی تحریروں کے باعث خاصی شہرت حاصل کرچکی ہے۔
دنیا کے نامور ادیبوں نے پرانی اور شاہکار زبانوں میں آنکھ کھولی لیکن چنگیز ایک ایسی زبان کا عظیم قلمکار ثابت ہوا جس کا طرز تحریر اس کی پیدائش سے صرف 4 سال قبل وجود میں آیا۔ اس صورتحال کو سامنے رکھیں تو چنگیز کا عالمی ادب میں اتنا بڑا مقام حاصل کرنا ایک معجزہ ہی لگتا ہے۔ چنگیزکی کہانیاں اور خاکے اس وقت چھپنا شروع ہوئے جب وہ صرف 22 سال کے تھے۔
30 سال کی عمر میں انھوں نے اپنا ناول ''جمیلہ'' تحریرکیا۔ اس ناول کی اشاعت کے باعث چنگیزکو پورے ملک میں شہرت میسر آئی۔ تین سال بعد فرانسیسی ادیب لوٹی آراگان نے جب ان کی تحریروں کا فرانسیسی زبان میں ترجمہ کیا تو چنگیز کی شہرت مغرب سے مشرق تک پھیل گئی۔ چنگیز کو لکھنے سے جنون کی حد تک عشق تھا جس کا پہلا اظہار ''جمیلہ'' ہے۔ یہ بے پناہ جذبوں اور ناقابل بیان احساسات کے تحت وجود میں آنے والی ایسی کہانی ہے جس میں سادگی اور ازخود پیدا ہونے والا اظہار قاری کو اپنے اندر محو کرلیتا ہے ۔
اس ناول میں جنگ کے بارے میں ایک کردار سوال کرتا ہے۔
'' دانیار، ہمارے سونے سے پہلے جنگ کے بارے میں بتائو'' اول تو اس نے کچھ نہیں کہا بلکہ ایسا محسوس ہوا کہ اس کے جذبات مجروح ہوگئے تھے۔ وہ دیر تک آگ کی جانب نظریں گاڑے رہا اور بالآخر سر اٹھا کر ہماری طرف دیکھا۔ '' جنگ کے بارے میں؟'' اس نے سوال کیا۔ تب، جیسے خود اپنے خیالات کے جواب دیتے ہوئے اکھڑپن سے بولا : '' نہیں، اچھا یہی ہے کہ تم جنگ کے بارے میں کچھ نہ جانو! وہ دوسری جانب گھوم گیا۔ مٹھی بھر خشک پتے ڈھیر میں سے نکالے اور آگ میں جھونکے اور ہماری جانب دیکھے بغیر آگ دہکانے لگا۔
دانیار نے مزید کچھ نہیں کہا ' تاہم اس کے کہے ہوئے چند الفاظ نے ہمیں اس کا ادراک کرا دیا کہ جنگ کا سرسری تذکرہ وقت گزاری کی کہانی نہیں تھی۔ جنگ کسی انسان کے دل کی گہرائی میں اٹکا ہوا خون کا خشک لوتھڑا تھا اور اس کا تذکرہ کرنا اس کے لیے آسان نہ تھا۔ میں اتنا شرمندہ ہوا کہ آیندہ اس سے کبھی جنگ کے بارے میں سوال نہیں پوچھا۔''
'' جمیلہ'' چنگیزکی ادبی زندگی کی ابتداء ہے، اس کے بعد اس نے آرام نہیں کیا بلکہ لکھتا ہی رہا۔ اس کی شاہکار کتابیں 'روبرو، مجرم، الوداع گیولسری، سفید برسات، سفید جہاز اور '' ایک صدی سے طویل دن '' خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ چنگیزکی بہت سی کہانیاں اور ناول ایسے لوگوں کے بارے میں ہیں جو وطن سے دور بھیانک جنگ کا شکار بنے ہیں اور ایسی بستیوں میں رہنے والے گبرو جوانوں اورکہانی میں بیان کردہ کرداروں کی محبوبوں تک کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔ ان بستیوں میں رہنے والیوں کی نم ناک آنکھیں جنگ میں گئے نوجوانوں کا رستہ تک رہی ہیں۔
انھیں اپنے پیاروں کا غم اور جدائی ہمیشہ یاد رہتی ہے لیکن پیچھے رہ جانے والے بچے، بوڑھے اور عورتیں ہاتھ پر ہاتھ رکھے بیٹھے نہیں رہے اور نہ ہی گھرکے دروازے پر بیٹھ کر اپنے پیاروں کی راہیں تکیں بلکہ وہ جانتے تھے کہ ان کی بستیوں میں مسائل اور مشکلات کے انبار ہیں۔ جنگ نے ان کی زندگی کے توازن اور تناسب کو بگاڑ دیا ہے۔ وہ جانتے تھے کہ اپنے دیہاتوں اور بستیوں کے حسن کو انھوں نے بچانا ہے۔ چنگیز کے کردار سینے میں درد چھپائے، آنکھوں میں آنسو پیے محنت میں مصروف نظر آتے ہیں کیونکہ انھیں پتہ ہے کہ کام کرنے ہی سے نجات ملے گی۔
چنگیز نے جنگ کے خوف کوگیارہ سال کی عمر میں ہی محسوس کر لیا تھا۔ اس نے دیکھا کہ وہ اور اس کے ساتھ جن کی کھیلنے کودنے کی عمر تھی جنگ نے انھیں محنت و مشقت پر مجبور کر دیا۔ چنگیز اور ان کے ساتھیوں نے جو مشقت کی عام حالات میں اس کا تصور بھی ممکن نہیں۔ ان کی مائیں مسافروں کی خدمت انجام دینے پر مجبور تھیں کہ جس کا تصور کرکے آنکھوں میں خون کے آنسو آتے ہیں۔
اپنی کہانیوں، ناولوں میں چنگیز نے خوفناک جنگ کا جو نقشہ کھینچا ہے۔ اس کو پڑھنے کے بعد جنگ کی ہولناکیوں اور تباہ کاریوں کے بارے میں کچھ کہنے، سننے یا جاننے کی ضرورت ہی نہیں رہ جاتی۔ چنگیز کی کہانیوں کا ایک جملہ ہی ایسی کاٹ رکھتا ہے کہ جیسے اندھیری رات میں ماچس کی تیلی سے پیدا ہونے والا شعلہ جو ہماری روح کی گہرائی میں اتر جاتا ہے۔ چنگیز کے خیال میں لکھنے والے کا بنیادی کام انسانی ذہن کو بیدار کرنا اور انھیں علاقائی سرحدوں، بولیوں اور مذاہب کی تقسیم سے بلند ترکر کے ان میں انسان پرستی پیدا کرنا ہے۔
چنگیز کے ناولوں اورکہانیوں میں ایسے خوشے کا تاثر ملتا ہے جس کے نرم و نازک سینے میں گندم کی فصل، جنگ کے ستائے اور موسموں کی سختیاں جھیلتے انسانوں کے لیے ایسے نظارے امید کی علامتیں اور زندگی کی بشارتیں ہیں۔ اپنی پیاری دھرتی سے بے پناہ پیار اور محبت چنگیز کے کرداروں کی خاصیت ہے۔ انھیں اپنے وطن سے بے پناہ محبت تھی جس کا اندازہ ان کے مختلف انٹرویوز سے بھی ہوتا ہے۔
برسلز میں اپنے قیام کے دوران ایک انٹرویو میں ان سے سوال پوچھا گیا آپ پچھلے سولہ سال سے یورپ میں رہتے ہیں کیا آپ کو اپنے وطن کے پہاڑ اور گھاٹیاں کبھی یاد آتی ہیں؟ اس کے جواب میں انھوں نے کہا کہ آپکے اس سوال پر مجھے اپنی نوجوانی کا ایک واقعہ یاد آتا ہے۔ '' میں کرغزستان میں ایک سوویت نیوز ایجنسی کے نمایندے کے طور پر کام کیا کرتا تھا۔ اس دوران مجھے ماسکو سے ایک ٹیلی فون کال موصول ہوئی جس میں بتایا گیا کہ ہندوستان کے ایک معروف صحافی کرغزستان کا دورہ کرنا چاہتے ہیں اور مجھ سے یہ بھی کہا گیا کہ اس دورے میں، میں ان کے ساتھ رہوں۔ میں انھیں ایئر پورٹ لینے گیا۔''
جہاز سے باہر نکلتے ہی ان کی نظر بلند و بالا پہاڑوں پر پڑی جسے دیکھ کر وہ بہت متاثر ہوا اور مجھ سے پوچھا کہ '' پہاڑکی چوٹیاں سفید کیوں ہیں۔'' میں نے اسے بتایا کہ '' یہ برف ہے، میں نے اسے مزید سمجھانے کی کوشش کی کہ ' بلندی پر موسم بہت سرد ہوتا ہے اور وہاں بارش برف میں تبدیل ہو جاتی ہے۔'
''واقعہ یہ بہت خوبصورت منظر ہے۔ میرا دل چاہتا ہے کہ میں ایک مٹھی برف اپنے وطن بھی لے جائوں۔'' میں نے ہنستے ہوئے اسے جواب دیا کہ'' ایسا کرنا بہت مشکل ہے۔ یورپ کی اپنی خوبصورتی ہے اور یہاں ایسی بہت سے چیزیں پائی جاتی ہیں، جو ہمارے یہاں نہیں ہوتیں۔'' اب میں برسلز میں رہتا ہوں تو کبھی کبھی مجھے ہندوستان کے صحافی کی بات بڑی اچھی لگتی ہے۔ میرا بھی یہ دل چاہتا ہے کہ میں اپنے وطن کے پہاڑوں سے ایک مٹھی برف لے آئوں۔''
جب ذرا بڑا ہوا تو سلوطری اسکول میں داخل ہوا جہاں سے نکل کر زرعی ادارے کا رخ کیا اور شاندار نمبروں سے امتحان پاس کیا۔ اس کے بعد تین سال تک ڈنگر، ڈاکٹر کے طور پر کام کیا۔ یاد رہے کہ یہ وہ ڈاکٹر ہوتے تھے جوگھوڑوں، خچروں پر سوار ہوکر دور دراز اور دشوار گزار علاقوں میں جانوروں کے علاج کے لیے جایا کرتے تھے۔
چنگیز آئتما توف جانوروں کی ٹوٹی ٹانگیں جوڑتے اور ان کا علاج کر کے ان کی زندگی کو صحت مند بنانے کا اہم فریضہ انجام دیتے رہے۔ پھر ایک دن اس نوجوان نے جانوروں کا اسپتال چھوڑا، اپنا بوریا بستر سمیٹ ایک اخبارکے دفتر صحافی بننے چلا گیا۔ اخبار کی انتظامیہ نے ان کی اہلیت ذوق وشوق کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے اسٹاف میں شامل کرلیا۔
چنگیز آئتما توف کریمنز زبان کے وجود میں آنے کے صرف 4 سال بعد یعنی 1928 میں پیدا ہوا تھا۔ کریمنز اس سے قبل صرف ایک بولی تھی اور اس کا رسم الخط وجود میں نہیں آیا تھا۔ یہ زبان تحریری شکل میں 1924میں سامنے آئی اور اس زبان میں پہلی کتاب 1926 میں منظر عام پر آئی۔ آج یہ زبان چنگیزآئتما توف کی تحریروں کے باعث خاصی شہرت حاصل کرچکی ہے۔
دنیا کے نامور ادیبوں نے پرانی اور شاہکار زبانوں میں آنکھ کھولی لیکن چنگیز ایک ایسی زبان کا عظیم قلمکار ثابت ہوا جس کا طرز تحریر اس کی پیدائش سے صرف 4 سال قبل وجود میں آیا۔ اس صورتحال کو سامنے رکھیں تو چنگیز کا عالمی ادب میں اتنا بڑا مقام حاصل کرنا ایک معجزہ ہی لگتا ہے۔ چنگیزکی کہانیاں اور خاکے اس وقت چھپنا شروع ہوئے جب وہ صرف 22 سال کے تھے۔
30 سال کی عمر میں انھوں نے اپنا ناول ''جمیلہ'' تحریرکیا۔ اس ناول کی اشاعت کے باعث چنگیزکو پورے ملک میں شہرت میسر آئی۔ تین سال بعد فرانسیسی ادیب لوٹی آراگان نے جب ان کی تحریروں کا فرانسیسی زبان میں ترجمہ کیا تو چنگیز کی شہرت مغرب سے مشرق تک پھیل گئی۔ چنگیز کو لکھنے سے جنون کی حد تک عشق تھا جس کا پہلا اظہار ''جمیلہ'' ہے۔ یہ بے پناہ جذبوں اور ناقابل بیان احساسات کے تحت وجود میں آنے والی ایسی کہانی ہے جس میں سادگی اور ازخود پیدا ہونے والا اظہار قاری کو اپنے اندر محو کرلیتا ہے ۔
اس ناول میں جنگ کے بارے میں ایک کردار سوال کرتا ہے۔
'' دانیار، ہمارے سونے سے پہلے جنگ کے بارے میں بتائو'' اول تو اس نے کچھ نہیں کہا بلکہ ایسا محسوس ہوا کہ اس کے جذبات مجروح ہوگئے تھے۔ وہ دیر تک آگ کی جانب نظریں گاڑے رہا اور بالآخر سر اٹھا کر ہماری طرف دیکھا۔ '' جنگ کے بارے میں؟'' اس نے سوال کیا۔ تب، جیسے خود اپنے خیالات کے جواب دیتے ہوئے اکھڑپن سے بولا : '' نہیں، اچھا یہی ہے کہ تم جنگ کے بارے میں کچھ نہ جانو! وہ دوسری جانب گھوم گیا۔ مٹھی بھر خشک پتے ڈھیر میں سے نکالے اور آگ میں جھونکے اور ہماری جانب دیکھے بغیر آگ دہکانے لگا۔
دانیار نے مزید کچھ نہیں کہا ' تاہم اس کے کہے ہوئے چند الفاظ نے ہمیں اس کا ادراک کرا دیا کہ جنگ کا سرسری تذکرہ وقت گزاری کی کہانی نہیں تھی۔ جنگ کسی انسان کے دل کی گہرائی میں اٹکا ہوا خون کا خشک لوتھڑا تھا اور اس کا تذکرہ کرنا اس کے لیے آسان نہ تھا۔ میں اتنا شرمندہ ہوا کہ آیندہ اس سے کبھی جنگ کے بارے میں سوال نہیں پوچھا۔''
'' جمیلہ'' چنگیزکی ادبی زندگی کی ابتداء ہے، اس کے بعد اس نے آرام نہیں کیا بلکہ لکھتا ہی رہا۔ اس کی شاہکار کتابیں 'روبرو، مجرم، الوداع گیولسری، سفید برسات، سفید جہاز اور '' ایک صدی سے طویل دن '' خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ چنگیزکی بہت سی کہانیاں اور ناول ایسے لوگوں کے بارے میں ہیں جو وطن سے دور بھیانک جنگ کا شکار بنے ہیں اور ایسی بستیوں میں رہنے والے گبرو جوانوں اورکہانی میں بیان کردہ کرداروں کی محبوبوں تک کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔ ان بستیوں میں رہنے والیوں کی نم ناک آنکھیں جنگ میں گئے نوجوانوں کا رستہ تک رہی ہیں۔
انھیں اپنے پیاروں کا غم اور جدائی ہمیشہ یاد رہتی ہے لیکن پیچھے رہ جانے والے بچے، بوڑھے اور عورتیں ہاتھ پر ہاتھ رکھے بیٹھے نہیں رہے اور نہ ہی گھرکے دروازے پر بیٹھ کر اپنے پیاروں کی راہیں تکیں بلکہ وہ جانتے تھے کہ ان کی بستیوں میں مسائل اور مشکلات کے انبار ہیں۔ جنگ نے ان کی زندگی کے توازن اور تناسب کو بگاڑ دیا ہے۔ وہ جانتے تھے کہ اپنے دیہاتوں اور بستیوں کے حسن کو انھوں نے بچانا ہے۔ چنگیز کے کردار سینے میں درد چھپائے، آنکھوں میں آنسو پیے محنت میں مصروف نظر آتے ہیں کیونکہ انھیں پتہ ہے کہ کام کرنے ہی سے نجات ملے گی۔
چنگیز نے جنگ کے خوف کوگیارہ سال کی عمر میں ہی محسوس کر لیا تھا۔ اس نے دیکھا کہ وہ اور اس کے ساتھ جن کی کھیلنے کودنے کی عمر تھی جنگ نے انھیں محنت و مشقت پر مجبور کر دیا۔ چنگیز اور ان کے ساتھیوں نے جو مشقت کی عام حالات میں اس کا تصور بھی ممکن نہیں۔ ان کی مائیں مسافروں کی خدمت انجام دینے پر مجبور تھیں کہ جس کا تصور کرکے آنکھوں میں خون کے آنسو آتے ہیں۔
اپنی کہانیوں، ناولوں میں چنگیز نے خوفناک جنگ کا جو نقشہ کھینچا ہے۔ اس کو پڑھنے کے بعد جنگ کی ہولناکیوں اور تباہ کاریوں کے بارے میں کچھ کہنے، سننے یا جاننے کی ضرورت ہی نہیں رہ جاتی۔ چنگیز کی کہانیوں کا ایک جملہ ہی ایسی کاٹ رکھتا ہے کہ جیسے اندھیری رات میں ماچس کی تیلی سے پیدا ہونے والا شعلہ جو ہماری روح کی گہرائی میں اتر جاتا ہے۔ چنگیز کے خیال میں لکھنے والے کا بنیادی کام انسانی ذہن کو بیدار کرنا اور انھیں علاقائی سرحدوں، بولیوں اور مذاہب کی تقسیم سے بلند ترکر کے ان میں انسان پرستی پیدا کرنا ہے۔
چنگیز کے ناولوں اورکہانیوں میں ایسے خوشے کا تاثر ملتا ہے جس کے نرم و نازک سینے میں گندم کی فصل، جنگ کے ستائے اور موسموں کی سختیاں جھیلتے انسانوں کے لیے ایسے نظارے امید کی علامتیں اور زندگی کی بشارتیں ہیں۔ اپنی پیاری دھرتی سے بے پناہ پیار اور محبت چنگیز کے کرداروں کی خاصیت ہے۔ انھیں اپنے وطن سے بے پناہ محبت تھی جس کا اندازہ ان کے مختلف انٹرویوز سے بھی ہوتا ہے۔
برسلز میں اپنے قیام کے دوران ایک انٹرویو میں ان سے سوال پوچھا گیا آپ پچھلے سولہ سال سے یورپ میں رہتے ہیں کیا آپ کو اپنے وطن کے پہاڑ اور گھاٹیاں کبھی یاد آتی ہیں؟ اس کے جواب میں انھوں نے کہا کہ آپکے اس سوال پر مجھے اپنی نوجوانی کا ایک واقعہ یاد آتا ہے۔ '' میں کرغزستان میں ایک سوویت نیوز ایجنسی کے نمایندے کے طور پر کام کیا کرتا تھا۔ اس دوران مجھے ماسکو سے ایک ٹیلی فون کال موصول ہوئی جس میں بتایا گیا کہ ہندوستان کے ایک معروف صحافی کرغزستان کا دورہ کرنا چاہتے ہیں اور مجھ سے یہ بھی کہا گیا کہ اس دورے میں، میں ان کے ساتھ رہوں۔ میں انھیں ایئر پورٹ لینے گیا۔''
جہاز سے باہر نکلتے ہی ان کی نظر بلند و بالا پہاڑوں پر پڑی جسے دیکھ کر وہ بہت متاثر ہوا اور مجھ سے پوچھا کہ '' پہاڑکی چوٹیاں سفید کیوں ہیں۔'' میں نے اسے بتایا کہ '' یہ برف ہے، میں نے اسے مزید سمجھانے کی کوشش کی کہ ' بلندی پر موسم بہت سرد ہوتا ہے اور وہاں بارش برف میں تبدیل ہو جاتی ہے۔'
''واقعہ یہ بہت خوبصورت منظر ہے۔ میرا دل چاہتا ہے کہ میں ایک مٹھی برف اپنے وطن بھی لے جائوں۔'' میں نے ہنستے ہوئے اسے جواب دیا کہ'' ایسا کرنا بہت مشکل ہے۔ یورپ کی اپنی خوبصورتی ہے اور یہاں ایسی بہت سے چیزیں پائی جاتی ہیں، جو ہمارے یہاں نہیں ہوتیں۔'' اب میں برسلز میں رہتا ہوں تو کبھی کبھی مجھے ہندوستان کے صحافی کی بات بڑی اچھی لگتی ہے۔ میرا بھی یہ دل چاہتا ہے کہ میں اپنے وطن کے پہاڑوں سے ایک مٹھی برف لے آئوں۔''