اسٹوڈنٹ کارنر ملکی سیاست اور سوشل میڈیا کا استعمال
پاکستان میں 2013 اور 2018 کے عام انتخابات میں سوشل میڈیا کا ایک مؤثر کردار ہے۔
شعبہ صحافت، جامعہ پنجاب لاہور
جیسا کہ ہمارے علم میں ہے کہ پاکستانی سیاست بہت غیر یقینی کا شکار رہی ہے۔ سیاسی بے یقینی کی وجہ سے وطن عزیز مستقل طور پر ترقی کی راہ پر گامزن نہیں ہو سکا۔ یہی وجہ ہے کہ ہم نے کئی بار دہشت گردی اور بدترین معاشی بحرانوں کا سامنا کیا ہے، تعلیم کا معیار اچھا نہیں، قانون کی حکمرانی نہیں اور ہم اپنے لوگوں کو بنیادی سہولیات فراہم کرنے میں بھی ابھی تک کامیاب نہیں ہوئے۔
الیکٹرانک یا سوشل میڈیا کی مقبولیت سے پہلے، لوگوں کا معلومات کے لیے انحصار مطبوعہ ذرائع ابلاغ یعنی پرنٹ میڈیا پر تھا۔ پرنٹ میڈیا میں اخبارات، رسائل اور کتابیں شامل ہیں۔ اخبارات نے پاکستانی سیاست میں اہم کردار ادا کیا۔
کالم نگار اس وقت کے سیاستدانوں اور حکومتوں کی پالیسیوں پر اپنے کالموں میں تنقید کرتے رہے۔ ان کالموں کا حکومتوں پر اثر تھا اور تنقید کے ذریعے ان پر بہت زیادہ دباؤ پیدا ہوتا۔ اخبارات آج بھی متعلقہ ہیں حالانکہ آج کل معاشرے پر اس کا اثر کم ہے۔
اس وقت ہم سوشل میڈیا کے دور میں جی رہے ہیں۔ سوشل میڈیا کا ہماری پیشہ ورانہ اور ذاتی زندگی پر بڑا اثر پڑتا ہے۔ ہم اپنی روزمرہ کی زندگی میں سوشل میڈیا کے اثر کو نظر انداز نہیں کر سکتے۔2010ء کے بعد پاکستان میں سوشل میڈیا کا دور پوری قوت کے ساتھ شروع ہوا۔
پاکستان میں 2013 اور 2018 کے عام انتخابات میں سوشل میڈیا کا ایک مؤثر کردار ہے۔ تمام بڑی جماعتوں نے جلسوں میں لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے انتخابی مہم کا آغاز کیا اور وہ اس کے ساتھ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز فیس بک، ٹویٹر اور انسٹاگرام پر بھی مہم چلا رہے تھے۔
آج کل، پاکستان میں تمام سیاسی جماعتوں کے فیس بک پر بلیو ٹِکس والے اپنے آفیشل پیجز ہیں، اور پارٹی ممبران کے اپنے مداحوں اور ووٹروں سے رابطے کے لیے فیس بک گروپس ہیں۔ مختلف سیاسی جماعتوں کے آفیشل ٹویٹر ہینڈل ہیں جن پر تصدیق کے لیے نیلے رنگ کے نشان ہیں۔
پاکستان کی تمام سیاسی جماعتیں انسٹاگرام پر بھی اپنے آفیشل پیجز کے ساتھ موجود ہیں۔ اس پیراگراف کا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ سیاسی جماعتوں نے ملک میں دستیاب ہر بڑے سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر اپنی موجودگی ظاہر کی ہے۔ ان پلیٹ فارمز پر نہ صرف سیاسی جماعتیں بلکہ ان کی پارٹی کے اراکین کے آفیشل اکاؤنٹس یا پیجز بھی ہیں۔
ان مشہور سیاستدانوں کے ٹوئٹر ہینڈلز سے ایک ایک ٹویٹ کو قومی ٹیلی ویژن پر نشر ہونے والے ٹاک شوز یا حالات حاضرہ کے پروگراموں میں نمایاں کیا جاتا ہے۔
ٹویٹس حوصلہ افزا، متنازعہ، معلوماتی، تنقیدی اور طنزیہ ہو سکتے ہیں۔ اب پاکستان کے سیاستدان پریس کانفرنسوں کے مقابلے میں اپنی رائے ٹویٹ پر دینا پسند کرتے ہیں۔ کچھ سیاست دانوں کے لیے پریس کانفرنسیں مشکل ہو سکتی ہیں جبکہ آپ کسی بھی وقت یا کہیں بھی ٹویٹ کر سکتے ہیں۔
پاکستان کے عام انتخابات جیسے جیسے قریب آرہے ہیں، سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر سیاسی مہمات دیکھی جا سکتی ہیں۔ سیاسی مہم وقت کے ساتھ ساتھ زور پکڑتی جائے گی۔
سیاسی فائدے کے لیے سوشل میڈیا پلیٹ فارم استعمال کرنے کے بہت سے فوائد اور نقصانات ہیں۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے استعمال کے فوائد کے بارے میں اوپر تفصیل سے بات کی گئی ہے جبکہ اس کے بہت سے نقصانات بھی ہیں۔
میرے خیال میں سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے استعمال کا ایک بڑا نقصان یہ ہے کہ اس بات کا امکان ہے کہ بہت زیادہ فین فالوونگ والی سیاسی جماعت اپنے جلسوں میں عوام کی بڑی تعداد کی شرکت کو شاید یقینی نہ بنا سکے۔ سوشل میڈیا کے رجحانات اس بات کی تصدیق نہیں کرتے کہ مختلف سیاسی جماعتوں کے مداحین اسی طرح متعلقہ سیاسی جماعتوں کو ووٹ بھی دیں گے یا نہیں۔ کیونکہ انتخابی سیاست بڑی حد تک زمینی حقائق سے منسلک ہے۔
جیسا کہ ہمارے علم میں ہے کہ پاکستانی سیاست بہت غیر یقینی کا شکار رہی ہے۔ سیاسی بے یقینی کی وجہ سے وطن عزیز مستقل طور پر ترقی کی راہ پر گامزن نہیں ہو سکا۔ یہی وجہ ہے کہ ہم نے کئی بار دہشت گردی اور بدترین معاشی بحرانوں کا سامنا کیا ہے، تعلیم کا معیار اچھا نہیں، قانون کی حکمرانی نہیں اور ہم اپنے لوگوں کو بنیادی سہولیات فراہم کرنے میں بھی ابھی تک کامیاب نہیں ہوئے۔
الیکٹرانک یا سوشل میڈیا کی مقبولیت سے پہلے، لوگوں کا معلومات کے لیے انحصار مطبوعہ ذرائع ابلاغ یعنی پرنٹ میڈیا پر تھا۔ پرنٹ میڈیا میں اخبارات، رسائل اور کتابیں شامل ہیں۔ اخبارات نے پاکستانی سیاست میں اہم کردار ادا کیا۔
کالم نگار اس وقت کے سیاستدانوں اور حکومتوں کی پالیسیوں پر اپنے کالموں میں تنقید کرتے رہے۔ ان کالموں کا حکومتوں پر اثر تھا اور تنقید کے ذریعے ان پر بہت زیادہ دباؤ پیدا ہوتا۔ اخبارات آج بھی متعلقہ ہیں حالانکہ آج کل معاشرے پر اس کا اثر کم ہے۔
اس وقت ہم سوشل میڈیا کے دور میں جی رہے ہیں۔ سوشل میڈیا کا ہماری پیشہ ورانہ اور ذاتی زندگی پر بڑا اثر پڑتا ہے۔ ہم اپنی روزمرہ کی زندگی میں سوشل میڈیا کے اثر کو نظر انداز نہیں کر سکتے۔2010ء کے بعد پاکستان میں سوشل میڈیا کا دور پوری قوت کے ساتھ شروع ہوا۔
پاکستان میں 2013 اور 2018 کے عام انتخابات میں سوشل میڈیا کا ایک مؤثر کردار ہے۔ تمام بڑی جماعتوں نے جلسوں میں لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے انتخابی مہم کا آغاز کیا اور وہ اس کے ساتھ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز فیس بک، ٹویٹر اور انسٹاگرام پر بھی مہم چلا رہے تھے۔
آج کل، پاکستان میں تمام سیاسی جماعتوں کے فیس بک پر بلیو ٹِکس والے اپنے آفیشل پیجز ہیں، اور پارٹی ممبران کے اپنے مداحوں اور ووٹروں سے رابطے کے لیے فیس بک گروپس ہیں۔ مختلف سیاسی جماعتوں کے آفیشل ٹویٹر ہینڈل ہیں جن پر تصدیق کے لیے نیلے رنگ کے نشان ہیں۔
پاکستان کی تمام سیاسی جماعتیں انسٹاگرام پر بھی اپنے آفیشل پیجز کے ساتھ موجود ہیں۔ اس پیراگراف کا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ سیاسی جماعتوں نے ملک میں دستیاب ہر بڑے سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر اپنی موجودگی ظاہر کی ہے۔ ان پلیٹ فارمز پر نہ صرف سیاسی جماعتیں بلکہ ان کی پارٹی کے اراکین کے آفیشل اکاؤنٹس یا پیجز بھی ہیں۔
ان مشہور سیاستدانوں کے ٹوئٹر ہینڈلز سے ایک ایک ٹویٹ کو قومی ٹیلی ویژن پر نشر ہونے والے ٹاک شوز یا حالات حاضرہ کے پروگراموں میں نمایاں کیا جاتا ہے۔
ٹویٹس حوصلہ افزا، متنازعہ، معلوماتی، تنقیدی اور طنزیہ ہو سکتے ہیں۔ اب پاکستان کے سیاستدان پریس کانفرنسوں کے مقابلے میں اپنی رائے ٹویٹ پر دینا پسند کرتے ہیں۔ کچھ سیاست دانوں کے لیے پریس کانفرنسیں مشکل ہو سکتی ہیں جبکہ آپ کسی بھی وقت یا کہیں بھی ٹویٹ کر سکتے ہیں۔
پاکستان کے عام انتخابات جیسے جیسے قریب آرہے ہیں، سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر سیاسی مہمات دیکھی جا سکتی ہیں۔ سیاسی مہم وقت کے ساتھ ساتھ زور پکڑتی جائے گی۔
سیاسی فائدے کے لیے سوشل میڈیا پلیٹ فارم استعمال کرنے کے بہت سے فوائد اور نقصانات ہیں۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے استعمال کے فوائد کے بارے میں اوپر تفصیل سے بات کی گئی ہے جبکہ اس کے بہت سے نقصانات بھی ہیں۔
میرے خیال میں سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے استعمال کا ایک بڑا نقصان یہ ہے کہ اس بات کا امکان ہے کہ بہت زیادہ فین فالوونگ والی سیاسی جماعت اپنے جلسوں میں عوام کی بڑی تعداد کی شرکت کو شاید یقینی نہ بنا سکے۔ سوشل میڈیا کے رجحانات اس بات کی تصدیق نہیں کرتے کہ مختلف سیاسی جماعتوں کے مداحین اسی طرح متعلقہ سیاسی جماعتوں کو ووٹ بھی دیں گے یا نہیں۔ کیونکہ انتخابی سیاست بڑی حد تک زمینی حقائق سے منسلک ہے۔