کوچۂ سخن

کوئی گتھی بھی سلجھائی نہیں ہے<br /> اسے میری سمجھ آئی نہیں ہے

فوٹو: فائل

غزل
کوئی گتھی بھی سلجھائی نہیں ہے
اسے میری سمجھ آئی نہیں ہے
محبت کرنے والوں سے تغافل
یہ نادانی ہے دانائی نہیں ہے
بھلا کیونکر نہ گلدستہ خریدوں
ابھی اتنی بھی مہنگائی نہیں ہے
جہاں بھی جاؤں وحشت کاٹتی ہے
کہیں پر میری شنوائی نہیں ہے
تری صورت کا حافظ ہو چکا ہوں
اگرچہ آنکھ جھپکائی نہیں ہے
بھلے جیسے کرو برباد مجھ کو
مجھے اب خوفِ رسوائی نہیں ہے
لئے پھرتا ہوں لاشیں رفتگاں کی
ابھی کوئی بھی دفنائی نہیں ہے
مرے جیسا بھرے لشکر میں کوئی
خدا شاہد ہے، صحرائی نہیں ہے
الگ انداز ہے جامیؔ تمہارا
یہ رنگِ دردؔ و مینائیؔ نہیں ہے
(مستحسن جامی۔خوشاب)


۔۔۔
غزل
مجھ سے بھی بڑھ کے مجھ پہ اجارہ ہے آجکل
اک شخص زندگی میں دوبارہ ہے آجکل
چھایا ہوا ہے اس پہ خمارِ بہارِ ہجر
دل کو ہر ایک زخم گوارا ہے آجکل
اس میں بھی ایک جہدِ مسلسل کا ہاتھ ہے
ہر شخص دیکھنے میں ہمارا ہے آجکل
آئے وہ شخص ہاتھ پہ بیعت کرے مرے
جس کو محبتوں میں خسارہ ہے آجکل
اس کو یہ بات کوئی بتائے سلیقے سے
دیکھو علی ایاز تمہارا ہے آجکل
(محمد علی ایاز۔کبیروالا)


۔۔۔
غزل
کچھ نہیں تھا جو درمیاں اپنے
راستے ملنے تھے کہاں اپنے
جی تو کرتا ہے میں بھی چل نکلوں
میرے رہتے ہیں سب جہاں اپنے
شعر کرتے ہوئے جھجھکتی ہوں
درد سینے میں ہیں نہاں اپنے
ٹوہ میں سارا شہر رہتا تھا
ہم ہی ہوتے تھے رازداں اپنے
ایک ہی شخص نے دیے مجھ کو
سب یقیں اور سب گماں اپنے
ایک بھی بات کب سمجھ پائے
یہ جو پھرتے ہیں ہم زباں اپنے
(عنبرین خان۔ لاہور)


۔۔۔
غزل
تھی خبر مجھ کو تو وعدے سے مکر جائے گا
رات گزری ہے تو یہ دن بھی گزر جائے گا
ہاں اسی موڑ پہ لے آئے گا اک روز یہ عشق
تو بھی اک روز مرے دل سے اتر جائے گا
ہجر کے گھاؤ یہ آلام کی سوغات سبھی
ساتھ میرے یہ میرا زاد سفر جائے گا
مجھ کو یک لخت اندھیروں کے حوالے کر کے
ڈھونڈنے کے لیے ہر روز قمر جائے گا
پھر یقیں ہے کہ حسیں اور بھی موسم ہو گا
وہ دوپٹہ جو سلیقے سے سنور جائے گا
تیری رسوائی کا سامان کرے گا عابدؔ
ساتھ تیرے جو اگر دیدہ تر جائے گا
(عابد علیم سہو۔ بھکر)


۔۔۔
غزل
مدتوں بعد وہ پھر آج نظر سے گزرا
ایک سیلاب غموں کا مرے سر سے گزرا
شور اٹھا ہے قیامت کا گلی کوچوں میں
دیکھیے تو ذرا یہ کون اِدھر سے گزرا
لوگ ڈرتے ہیں تصور سے بھی جس رستے کے
میں جنوں خیز کئی بار اُدھر سے گزرا
یونہی پہنچا نہیں میں عشق میں اس منصب تک
شامِ غم سے تو کبھی آہِ سحر سے گزرا
بھول آیا کہیں آنکھیں کہیں بازو اپنے
رات اک بار جو خوابوں کے نگر سے گزرا
شہر سے جاتے ہوئے اب کے ترے کوچے میں
میں رکا تھا کوئی پل، پھر کسی ڈر سے گزرا
اُن نگاہوں سے نکلتا ہوا ہر تیر اثر
آنکھ سے ہوتے ہوئے میرے جگر سے گزرا
(اسامہ اثر ۔ پشاور)


۔۔۔
غزل
آیت نہیں چھوڑی کوئی منتر نہیں چھوڑا
پر دکھ کی ہواؤں نے مرا گھر نہیں چھوڑا
میں خود ہی چلا آیا سرِ دشتِ محبت
یہ سانپ کسی نے میرے اوپر نہیں چھوڑا
بیٹھا ہوں ہر اک شخص نکالے ہوئے دل سے
اس فون میں آج ایک بھی نمبر نہیں چھوڑا
کچھ اپنے سبب بھی میں ذرا رہ گیا پیچھے
کچھ تم نے بھی دنیا کے برابر نہیں چھوڑا
مجھ کو ہی اداسی نے نہیں خشک کیا ہے
اس دھوپ نے کوئی بھی سمندر نہیں چھوڑا
بچپن سے میرے ساتھ ہے سائے کی طرح مہر
قرضے نے میرا ہاتھ پکڑ کر نہیں چھوڑا
(مہر فام۔میانوالی)


۔۔۔
غزل
صرف اتنے میں ہی ہو جاتا گزارا میرا
پوچھ لیتا وہ اگر حال دوبارہ میرا
اس سے اندازہ لگا لو کہ وہ خود کیا ہو گا
جسکی ٹھوکر سے چمکتا تھا ستارہ میرا
خیر اور شر میں توازن ہی نہیں رکھ سکتا


کون سمجھے گا مری جان خسارا میرا
کیا ضروری ہے کہ ہم ایک زباں بولتے ہوں
عشق کرتا ہے تو سمجھے گا اشارہ میرا
میں وہ دریا جو سمندر میں الگ بہتا ہے
پانی ہوتا ہی نہیں ہے کبھی کھارا میرا
جب وہ لڑتی تھی تو پنجابی زباں بولتی تھی
خود بخود نیچے چلا آتا تھا پارہ میرا
تم نے چھوڑا ہے تو میں چاہے جہاں بھی جاؤں
جھگڑا بنتا ہی نہیں اب تو تمہارا میرا
(حسیب الحسن ۔خوشاب)


۔۔۔
غزل
جو کہا اس نے مجھے، پیار میں تبدیل کیا
اس کی ہر بات کو اشعار میں تبدیل کیا
دل مُحلّے میں محبت کی ہوا آئی تو پھر
میں نے انکار کو اقرار میں تبدیل کیا
ہم نے اخلاص کے انمول نگینے پا کر
کثرتِ بزم کو دو چار میں تبدیل کیا
ہجر کے خوف کو امکان میں رکھ کر ہم نے
خواہشِ وصل کو بیکار میں تبدیل کیا
دل کی ہر بات پھر آنکھوں سے عیاں ہونے لگی
اس نے جب پیار کو اظہار میں تبدیل کیا
ساری خوشیوں کا ملن ایک جگہ پر تھا معاذؔ
جب ترے ہجر کو تہوار میں تبدیل کیا
(احمد معاذ۔ کہوٹہ، راولپنڈی)


۔۔۔
غزل
کتنے اچھے حساب تھے میرے
جب وہ عالی جناب تھے میرے
ہر طرف پھول کھلنے والے تھے
اور موسم خراب تھے میرے
نیند اوڑھی جو نیند تھی تیری
خواب دیکھے جو خواب تھے میرے
ایک اجڑی ہوئی ریاست ہوں
مر گئے جو نواب تھے میرے
میں نے رو رو کے جن کو دیکھا تھا
خواب کچھ زیرِ آب تھے میرے
اس لئے بھی میں رہ گیا تنہا
دوست جو بے حساب تھے میرے
چیونٹیوں تک کا احترام کیا
اس طرح کے ثواب تھے میرے
(عمر عزیز۔ میلسی)


۔۔۔
غزل
اداس شام کی زد میں ہے جب سے باغِ دل
جلا دیا ہے کسی شخص نے چراغِ دل
متاعِ ہوش لٹا کر وہ پا گیا خود کو
سرورِ عشق میں جس کو ملا سراغِ دل
نظر ملا کے لبوں سے لگا لیا اس نے
بچا کے ہم نے رکھا جب کبھی ایاغِ دل
قبائے چاک سے شکوہ نہیں رہا مجھ کو
چھپا لیا ہے ترے بازؤوں نے داغِ دل
قریب آ کے ذرا جھانک میری آنکھوں میں
تری نگاہ سے مشروط ہے بلاغِ دل
(منزہ سید۔ ساہیوال)


۔۔۔
غزل
اس زندگی میں کل نہیں اک لمحہ بھی جناب
آنکھیں ابھی کھلی نہ تھیں رخصت ہوا شباب
اک سمت دشتِ بے کراں اک سمت پھل کا باغ
یعنی کہ مرگ و زیست میں کرنا تھا انتخاب
دریائے دل میں کر گیا طوفان سا بپا
دیکھا تھا میں نے ایک دن اس چھت پہ ماہتاب
کوئی پڑھا سکا نہ جو اس نے پڑھا دیا
وا ہو گیا تھا مجھ پہ جو وہ چہرہ ٔ کتاب
ہم کو ڈرا نہ شیخ تو میدانِ حشر سے
ایسا تو روز دیتے ہیں دنیا ہی میں حساب
دعویٰ ہے میرا خاک وہ ہو جائے مثلِ طور
جو آنکھ بھر کے دیکھ لے کس میں ہے اتنی تاب
مجنوں فرہاد کھپ گئے میدانِ عشق میں
بچّوں کا اس میں کام کیا گھر جائیے شہابؔ
( شہاب اللہ شہاب۔ منڈا، دیر لوئر، خیبر پختونخوا)


۔۔۔
غزل
گزشتہ بھی کہی احوالِ حال بھی رکھا
نڈھال ہو بھی گئے اور نڈھال بھی رکھا
اب اس جہان میں اس سے زیادہ کیا کرتے
زمانہ گردی کی تیرا خیال بھی رکھا
ہمیں پسند نہیں کشتیاں جلا دینا
بچھڑ گئے پہ تعلق بحال بھی رکھا
کچھ اختیار کبھی اس نے منتقل نہ کیے
ہرا بھی ہونے دیا پائمال بھی رکھا
محبتیں بھی نبھائیں ہوس زدہ بھی رہے
کچھ انتہا بھی کی کچھ اعتدال بھی رکھا
غزل کی طرح غزالوں سے ہم کلام ہوئے
کہی ہے بات بھی پاسِ جمال بھی رکھا
(عدنان نصیر ۔کہوٹہ)


۔۔۔
غزل
ہر ایک غیر پہ تجھ کو جو بے یقینی ہے
مری نظر میں اے لڑکی! یہ عقل مندی ہے
ذرا سے رنج پہ رونے لگا ہے زار و قطار
ذرا سی دھوپ سے کس درجہ برف پگھلی ہے
فقط یہ دیکھ کے سمجھو نہ تم شریف اسے
کہ منہ پہ داڑھی ہے اور سر پہ اس کے ٹوپی ہے
وفا بھری ہے سیہ فام لڑکی کے دل میں
ہے ایک کوئلے کی کان جس میں چاندی ہے
تف اُس لباس پہ اندھا بھی دیکھ لے جس سے
'سکن ہے' سرخ ہے کالی ہے یا گلابی ہے
(عبداللہ باصر۔ گوجرانوالہ)


سنڈے میگزین کے شاعری کے صفحے پر اشاعت کے لیے آپ اپنا کلام، اپنے شہر کے نام اورتصویر کے ساتھ ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کرسکتے ہیں۔ موزوں اور معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔
انچارج صفحہ ''کوچہ سخن ''
روزنامہ ایکسپریس، 5 ایکسپریس وے، کورنگی روڈ ، کراچی

Load Next Story