بُک شیلف

دلچسپ کتابوں کا مجموعہ

—فائل فوٹو

اخلاق و کردار
ترتیب و تدوین: عارف الرحمان، صفحات:104
ناشر: ادارہ مطبوعات سلیمانی، اردو بازار، لاہور (042-37232788)


انسانی معاشرے کی تہذیب و تمدن کی اصل جڑ اخلاق و کردار ہے جس کی بنیاد پر معاشرے کے تاروپود پروان چڑھتے ہیں، اگر معاشرے سے اخلاق نکال دیا جائے تو وحشت و بربریت کا دور دورہ ہو گا ، کوئی کسی کی عزت کرنا تو کجا، سامنے آنا برداشت نہیں کرے گا ۔ اسلام دین حق ہے، اس میں سب سے زیادہ زور اخلاق و کردار پر ہی دیا گیا ہے ، اسلامی عبادات کا بنیادی مقصد دائرہ اسلام میں داخل ہونے والے کو اللہ کی پہچان کرانے کے ساتھ ساتھ کردار کی تربیت کرنا ہے تاکہ وہ معاشرے کا مفید فرد ثابت ہو سکے ۔

اخلاق و کردار میں خلوص و محبت ، شرافت و پاکیزگی ، شرم و حیا، دیانت و امانت ، عدل و انصاف ، رحم دلی فیاضی، تواضع ، انکساری ، حق گوئی، ثابت قدمی ، ایثار و قربانی ، ہمدردی، مہربانی، قناعت و سادگی اور خوش کلامی سب ہی شامل ہے ۔

زیر تبصرہ کتاب اخلاق و کردار کے حوالے سے رہنمائی کے لئے انتہائی شاندار ہے، جس میں اخلاق و کردار کی بہتری کے لیے احادیث مبارکہ اور زریں اقوال بیان کئے گئے ہیں ۔ ایک ایک فقرہ ایسا ہے کہ سیدھا دل میں پیوست ہو جاتا ہے ۔ جیسے
٭ اچھا انسان وہی ہے جس کی سوچ تعصب سے بالاتر ہو
٭ رسول کریمﷺ نے فرمایا ''قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ( تمھیں چاہیے کہ) تم ضرور نیکی کا حکم دو اور برائی سے روکو ورنہ وہ وقت دور نہیں کہ جب اللہ تعالیٰ تم پر عذاب نازل کر دے ۔''
٭ دنیا میں صرف دو مذہب ہیں ، نیک و بد
٭ محنت تقدیر کا دایاں ہاتھ ہے۔
٭ بہترین لوگ وہ ہیں جو اچھے اخلاق کے مالک ہیں ۔
٭ عظیم انسان مر جاتے ہیں لیکن ان کی موت ان کی عظمت میں اضافہ کرتی ہے ۔
یہ اس کتاب کا 27 واں ایڈیشن ہے جو اس کی مقبولیت اور کامیابی پر دلالت کرتا ہے ، عارف الرحمان صاحب کی اصلاح معاشرہ کی یہ کاوش انتہائی شاندار ہے ، اللہ اس میں برکت دے ۔ آمین

ون منٹ ٹیچر
مصنف: کانسٹینس جانسن، قیمت:300 روپے، صفحات:104
ناشر: بک ہوم ، مزنگ روڈ، لاہور (0301-4208780)


استاد معاشرے کی ایک ایسی اکائی ہے جس کے بغیر معاشرے میں تہذیب و تمدن پروان نہیں چڑھ سکتی ،اگر ایسا ہوتا تو بالکل جنگل جیسا ماحول ہوتا ، جیسے جانور بغیر کسی تہذیب اور قاعدے کے زندگی بسر کئے جا رہے ہیں انسان بھی بالکل ویسا ہی ہوتا ۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا اور اسے علم سکھایا اور یہی علم آگے بانٹنے کا بڑا ذریعہ استاد ہے۔ زیر تبصرہ کتاب میں اساتذہ کی رہنمائی کی گئی ہے کہ وہ کیسے طلبہ کی زندگیوں میں انقلاب برپا کر سکتے ہیں، طلبہ کی زندگی کا مشاہدہ کر کے ان کے مسائل کو سمجھا جا سکتا ہے، اور پھر ان میں مثبت طرز فکر کو پروان چڑھایا جا سکتا ہے۔

کتاب کی مصنفہ کو مختلف قسم کے سکولوں میں سالہا سال کا تدریسی تجربہ حاصل ہے ۔ انھوں نے اقوام متحدہ کی امن فوج میں شامل ہو کر مشرق وسطیٰ میں دوسال بسر کیے ۔ اس دوران انھوں نے بحرین کی یونیورسٹی میں انگریزی پڑھائی اور وہ طلبہ و اساتذہ کی نگران رہیں ۔ بحرین کی وزارت تعلیم نے بھی ان کی خدمات حاصل کیں ۔

اپنے وسیع تجربے کے تناظر میں انھوں نے اساتذہ کی بھرپور رہنمائی کی ہے کہ وہ کیسے اچھے رہنما ثابت ہو سکتے ہیں اور طلبہ کو مفید شہری بنا سکتے ہیں ۔ ابواب کے مختلف عنوانات سے ہی واضح ہو جاتا ہے کہ مصنف کیا کہنا چاہتے ہیں جیسے 'موثر اور بہترین استاد' اور 'طلبہ کے فوری اہداف کا تعین' کے ابواب استاد کے اوصاف پر روشنی ڈالتے اور طلبہ کی رہنمائی کا لائحہ عمل فراہم کرتے ہیں، اس سے کتاب کو سمجھنے اور پڑھنے میں مزید آسانی ہو گئی ہے ۔

کتاب میں ایک باب 'گھر میں ایک دن ' سب سے حیران کن اور دلچسپ ہے کیونکہ اس میں بتایا گیا ہے کہ استاد کو گھر میں اپنا وقت کیسے گزارنا چاہیے تاکہ وہ دن بھی گھر کے ساتھ ساتھ طلبہ کیلئے بھی مفید ثابت ہو سکے، کیونکہ عام طور پر ہر فرد چھٹی کا دن گھر پر فارغ رہتے ہوئے گزارتا ہے یا پھر کے کام کاج کرتے ہوئے مگر اس باب میں اس دن کو بھی ہر طرح سے کارآمد بنانے کا لائحہ عمل بتایا گیا ہے ۔

کل سولہ ابواب ہیں جن میں رہنمائی کا ایک جہان آباد ہے ۔ انتہائی شاندار کتاب ہے اساتذہ کو ضرور مطالعہ کرنا چاہیے ۔ مجلد کتاب کو خوبصورت ٹائٹل کے ساتھ شائع کیا گیا ہے ۔

مکتبِ عشق
مصنف: سید شبیر احمد، قیمت:1250 روپے
ناشر: بک کارنر، جہلم۔ رابطہ نمبر 0321-5440882


یہ پنجابی زبان کے کلاسیکل صوفی اور جدید شعرا کا تذکرہ ہے ۔ کتاب 2 حصوں پر مشتمل ہے ۔ پہلا حصہ 'صوفی رنگ' کے عنوان سے ہے ۔

اس میں بابا فرید گنج شکر، شاہ حسین، سلطان باہو ، بلھے شاہ ، وارث شاہ ، ہاشم شاہ ، میاں محمد بخش اور خواجہ غلام فرید شامل ہیں ۔ ہر صوفی شاعر کے تذکرے میں پہلے سوانح لکھی ، اس کے بعد شاعری سے کچھ انتخاب پیش کیا گیا ہے ۔ اصل متن کے ساتھ پنجابی اشعار اور ان کا اردو ترجمہ بھی شامل کیا گیا ہے۔ سوانح میں صوفی شعرا کی زندگیوں میں سے دلچسپ اور ایمان افروز واقعات شامل کیے گئے ہیں ۔

ان بزرگوں کا کلام بھی اللہ کی ذات کا عرفان عطا کرتا ہے ۔ اس عرفان سے پھوٹنے والی دانش کائناتی سچائی کی طرح پڑھنے والے کے اذہان و قلوب کو مسخر کرتی چلی جاتی ہے۔ اور پھر انسانیت کی تعمیر اور تہذیب ہوتی ہے ۔

کتاب کا دوسرا حصہ 'پنجاب رنگ' کے عنوان سے ہے ۔ اس میں کلاسیکل اور جدید پنجابی شاعری کے سب نمایاں نام موجود ہیں ۔ مثلاً قادر یار، جوگی جہلمی، پروفیسر موہن سنگھ، درشن سنگھ آوارہ، دائم اقبال دائم، استاد دامن ، شریف کنجاہی،امرتا پریتم، احمد راہی، حزین قادری، شوکمار بٹالوی، بری نظامی اور نصیر کوی کے تذکرے بھی موجود ہیں ۔ مذکورہ بالا شعرا کا بھی قدرے مفصل لیکن جامع انداز میں احوال زندگی اور ان کے کلام سے انتخاب مع اردو ترجمہ کتاب میں پیش کیا گیا ہے ۔ ترجمہ کی زبان بھی بہت خوب ہے۔

شوکمار بٹالوی کا ایک پنجابی گیت، اس کا اردو ترجمہ ملاحظہ کیجیے ۔ یہ گیت استاد نصرت فتح علی خان نے بھی گایا ہے:

مائے نی مائے میرے گیتاں دے نیناں وچ، برہوں دی رڑک پوے


ادھی ادھی راتیں، اٹھ رؤن موئے متراں نوں۔
مائے سانوں نیند نہ پوے
آپے نی میں بالڑی میں حالے آپ متاں جوگی
مت کیہڑا ایس نوں دوے ؟
آکھ مائے ادھی ادھی راتیں موئے متراں نوں
اْچی اْچی ناں نہ لوے متے ساڈے مویاں پچھوں
جگ ایہ شریکڑانی گیتاں نوں دی چندرا کہوے
( میری ماں! میرے گیتوں میں جدائی کی چبھن محسوس ہو رہی ہے۔ رات کوجب میرا محبوب مجھے یاد آتا ہے تو میری آنکھوں کی نیند اڑ جاتی ہے اور میں ساری ساری رات اپنے سجن کو یاد کرتے ہوئے گزار دیتی ہوں۔ ابھی تو میں خود چھوٹی ہوں، میں تو خود نصیحتیں سننے والی ہوں، اس کو نصیحت کون کرے۔ میری ماں! اسے کہو کہ وہ آدھی آدھی رات کو اپنے مرے ہوئے سجنوں کے نام اونچی آواز میں نہ پکارا کرے۔ ایسا نہ ہو کہ ہمارے مرنے کے بعد وہ ہمارا نام بھی پکار لے اور شریکے والے ہمارے گیتوں کو برا بھلا نہ کہیں)۔

مصنف کا تعلق میاں محمد بخش کے علاقہ کھڑی شریف سے ہے، زندگی کا بڑا حصہ بینکنگ کی دنیا میں گزارا لیکن اس سارے عرصہ میں علم و ادب سے دلچسپی ماند نہ پڑی، چنانچہ جب ریٹائر ہوئے تو تصنیف و تالیف کی طرف آگئے ۔ ریڈیو پر پروگرام بھی کرتے رہے ہیں ۔ مصنف کے مطابق انھیں میاں محمد بخش کا کلام ہی اس راستے پر لے کر آیا جہاں سفر کرتے ہوئے زیر نظر کتاب لکھی گئی ہے ۔ اس کتاب کو پنجابی ادب کی ایک مکمل تصویر قرار دیا جا سکتا ہے۔ اس تصویر میں نظروں کو سکون عطا کرنے والے رنگ اور شوخ رنگ دونوں ہیں ۔ کتاب جس محبت اور عقیدت سے لکھی گئی ہے، وہ قابل صد تحسین ہے ۔

کتاب کہانی
مصنف: یاسر جواد، قیمت:1800 روپے
ناشر: بک کارنر، جہلم ، رابطہ:0321-5440882


یاسر جواد کا نام اگر کوئی پڑھنے، لکھنے والا فرد نہیں جانتا تو یہ بڑی اچنبھے کی بات ہوگی۔ بے شمار کتابیں انگریزی سے اردو ترجمہ کرچکے ہیں جو کتب خانوں اور گھرانوں میں جا بجا نظر آتی ہیں۔ انہیں اس میدان میں اترے ہوئے تیس برس ہونے کو ہیں۔ ترجمہ ہی ان کا کیریئر اور ترجمہ ہی ان کا عشق ہے۔ انہوں نے سب سے پہلے فرانز کافکا کے ایک مشہور ناول کا اردو ترجمہ کیا تھا:'مقدمہ'۔ اس کے بعد وہ مسلسل چلتے رہے، کہیں رکے نہیں، کبھی تھکے نہیں۔ سفر اب بھی جاری ہے۔

ان کی ترجمہ اور ترتیب دی ہوئی کتب میں ' انسائیکلو پیڈیا ادبیات عالم'، 'عالمی انسائیکلوپیڈیا'، 'سو عظیم فلسفی' بھی شامل ہیں۔ اب تک ڈیڑھ سو کے لگ بھگ کتب کا ترجمہ کرچکے ہیں۔ یہ کتب سائنس، فلسفہ، الٰہیات، تاریخ، مذاہب اور نفسیات سے متعلق ہیں۔ ان میں ' 100 انسانی تہذیب کے معمار'(ول ڈیورانٹ)، 'داستان فلسفہ'( ول ڈیورانٹ)، 'وقت کی مختصر تاریخ'( سٹیفن ہاکنگ)، 'بڑے سوالوں کے مختصر جواب'(سٹیفن ہاکنگ)، 'کاسموس'( کارل ساگان)، 'زندگی اور موت'( کارل ساگان)، 'روز قیامت'( سلویا براؤن)، 'میرا پاکستانی سفرنامہ'(بلراج ساہنی)، 'دلی'( خوشنونت سنگھ) اور 'ٹرین ٹو پاکستان' ( خوشونت سنگھ) بھی شامل ہیں۔ یہ سب کتب 'بک کارنر'، جہلم نے شائع کی ہیں۔

زیرنظر کتاب دراصل یاسر جواد کی کہانی ہے جو معاشرتی مظاہر کی تہہ تک پہنچنے کے شوقین ہیں، روشن خیال اور کتااب دوست ہیں۔ یہ عام آپ بیتیوں سے یکسر مختلف ایک معاشرتی اور نظریاتی آپ بیتی ہے جو انوکھے انداز میں لکھی گئی۔ مشاہدات، تجربات، خیالات اور تجزیات ہیں لیکن سب کے سب غیر روایتی انداز میں لکھے اور جمع کیے گئے۔

آپ کو اس کہانی میں یاسر جواد یعنی مرکزی کردار کے علاوہ بھی یہاں بے شمار دلچسپ کردار دیکھنے کو ملیں گے۔ اس قدر زیادہ کردار بعض بڑے ناولوں میں ہی ہوتے ہیں۔ مصنف کے بقول' یہ کوشش عام مگر فہیم لوگوں کو ایک عام شخص کی کہانی پڑھانے کی ہے جس کے مختلف حصوں کے ساتھ وہ زیادہ قربت محسوس کریں گے اور امید ہے کہ اپنے تعصبات، میلانات اور رویوں کو الگ انداز میں جانچنے کے قابل ہوں گے۔ اپنی زندگی میں آنے والے کرداروں اور رشتوں کا یہ بیان کسی لسانی فریب ، بے جا ملمع کاری اور جذباتیت کے بغیر ہے'۔

میں نے یاسر جواد کے بہت سے تراجم دیکھے ہیں لیکن ان کی کہانی پڑھ کر اندازہ ہوا کہ وہ ویسے نہیں، جیسے اپنے تراجم میں نظر آتے ہیں۔ مجھے وہ سگریٹ کے مرغولے اڑاتا ہوا ایک شخص لگے جو اپنے چشمے کے پیچھے سے دور کہیں خلاؤں میں گھورتا رہتا ہے اور سوچتا رہتا ہے۔ مجھے وہ معاشرے سے ناراض ایک شخص لگے۔ وہ مجھے ایسے کیوں لگے؟ 'کتاب کہانی' آپ کو بتا دے گی۔ مجھے یقین ہے کہ یہ کتاب پڑھ کر، آپ طویل عرصہ اس کے تاثر سے نکل نہیں سکیں گے۔

اسلام ہی ہمارا انتخاب کیوں

ناشر : دارلسلام انٹرنیشنل، لوئر مال، نزد سیکرٹریٹ سٹاپ، لاہور

مرتب : محمد حنیف شاہد ، صفحات : 416، قیمت : 990 روپے

برائے رابطہ :042-37324034



زیر نظر کتاب ( اسلام ہی ہمارا انتخاب کیوں ؟ )'' Why Islam Is Our Only Choice ''کا اردو ترجمہ ہے ۔ اس کتاب کو مرتب کرنے والے محمد حنیف شاہد ہیں جو نامور محقق اور متعدد کتابوں کے مصنف اور مرتب ہیں ۔ انہیں اسلام سے گہری محبت ہے۔ انھوں نے اپنی زندگی کا زیادہ تر حصہ تعلیم و تعلم میں صرف کیا ہے ۔

محمد حنیف شاہد کی علمی وجاہت اور قدرومنزلت کا اندازہ اس سے کیا جا سکتا ہے کہ ان کی کتابیں دنیا کے معتبر کتب خانے لائبریری آف کانگریس واشنگٹن ڈی سی ( امریکہ ) میں بھی محفوظ ہیں ۔ اس کتاب میں ان خوش نصیبوں کے ذاتی تاثرات ، مشاہدات اور قیمتی خیالات جمع کئے گئے جو غیر مسلم گھرانوں میں پیدا ہوئے اور پھر وہ اسلام کی حقانیت وصداقت سے متاثر ہو کر حلقہ بگوش اسلام ہوئے ، اس طرح سے انھیں اسلام کی نعمت اور دولت عطا ہوئی ۔

اس کتاب میں حلقہ بگوش اسلام ہونے والوں نے یہ بتایا ہے کہ وہ اسلام سے اس قدر متاثر کیوں ہوئے کہ انہوں نے اپنے آباؤ اجداد کے مذاہب کو چھوڑنے کا بہت بڑا اور انتہائی مشکل فیصلہ کر ڈالا ۔ اس سے یہ صاف ظاہر ہے کہ اسلام ہی دین واحد ہے جسے روزانہ بہت بڑی تعداد میں لوگ قبول کر رہے ہیں ۔ اگرچہ اسلام قبول کرنے والوں میں ہر طبقہ کے لوگ شامل ہیں مگر اس کتاب میں زیادہ تر پڑھے لکھے اور باشعور لوگوں کی آرا ء شامل کی گئی ہیں ۔ کتاب کا انگریزی کا ترجمہ پروفیسر منور علی ملک نے کیا ہے محمد حنیف شاہد کی کتاب اسلام ہی ہمارا انتخاب کیوں بطور محقق ان کی زندگی بھر کی خدمت اسلام کا ایک حصہ ہے ۔

یہ کتاب زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے مختلف افراد کے قبول اسلام کے حوالے سے واقعات ، تجربات ، سابقہ عقائد ، اسلام کے بارے میں تاثرات اور قبول اسلام کی وجوہات پر مشتمل ہے ۔ اس کتاب میں جن لوگوں کے بیانات ، احساسات اور خیالات شامل کیے گئے ہیں ان میں سے اکثر اپنی قوموں کے روسا ، معززین ، دانشور ، سائنسدان ، اعزاز یافتہ ، با رسوخ ، دولت مند ، عام افراد، پیشہ ور ماہرین، خواتین یہاں تک کہ اخلاق باختہ لوگ بھی شامل ہیں ۔ اس کتاب کا تحقیقی مواد کرہ ارض کے طول و عرض میں پھیلی ہوئی مختلف قومیتوں اور مذاہب سے لیا گیا ہے ۔ کتاب کا تحقیقی مواد دو صدیوں سے زائد عرصے کا احاطہ کرتا ہے ۔

کتاب 6 ابواب پر مشتمل ہے ۔ پہلے باب کا عنوان ہے '' اسلام کی آغوش میں'' اس باب میں 45 افراد کے قبول اسلام کے واقعات بیان کیے گیے ہیں ۔ دوسرے باب کا عنوان ہے '' خواتین اسلام کی دہلیز پر '' اس باب میں 22 خواتین کے حلقہ بگوش اسلام ہونے کے ایمان افروز واقعات درج ہیں ۔ تیسرے باب کا عنوان ہے '' اسلامی عقائد اور تعلیمات کے بارے میں اسلام قبول کرنے والوں کے تاثرات'' اس باب میں 58 نومسلم بہن بھائیوں کے اسلام کے بارے میں دل موہ لینے اور ایمان تازہ کردینے والے تاثرات سپرد قلم کئے گئے ہیں ۔

چوتھے باب کا عنوان ہے '' اسلام کے بارے میں اسلام قبول کرنے والوں کے مختصر خیالات '' اس باب میں 18نو مسلم مرد وخواتین کی آراء شامل کی گئی ہیں ۔ پانچویں باب کا عنوان ہے '' قرآن حکیم کے بارے میں اسلام قبول کرنے والوں کے خیالات '' اس باب میں 11مرد وخواتین کے قرآن مجید کے بارے میں انتہائی خوبصورت خیالات شامل کئے گئے ہیں ۔

آخری باب کا عنوان ہے '' نبی کریمﷺ کے بارے میں نومسلموں کے خیالات '' جن میں انتہائی قابل احترام مرد وخواتین کی آراء کتاب میں شامل کی گئی ہیں ان میں سے برطانیہ کے سٹینلے اینیان کہتے ہیں ''مجھے اسلام ہی مطلوب تھا''، ڈنمارک کے علی احمد ہولمبو کہتے ہیں ''مستقبل کا دین اسلام کے علاوہ کوئی اور نہ ہوگا''۔ امریکہ کے کرنل راک ویل کہتے ہیں '' اعتدال اور تقٰوی اسلام کی کلیدی خصوصیات ہیں '' ٹی ۔ ایچ میک بارکلی کہتے ہیں '' اسلام واحد دین ہے جو جدید تہذیب کے لیے ہمیشہ قابل قبول رہے گا''۔

اے ایم ٹی کہتے ہیں ''میں اسلام کے لئے زندہ ہوں جو ہمیشہ قائم رہے گا'' بیلجئیم کے ٹی یوڈ ڈئینیل کہتے ہیں ''صرف شریعت محمدی ہی امن وآشتی کی ضامن ہے۔ یہ تو صرف چند ایک مثالیں ہیں ساری کتاب ہی سونے پر سہاگہ ہے اور پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے ۔ ان حالات میں جبکہ یورپ میں اسلام دشمنی کا عفریت انگڑائیاں لے رہا ہے ہمارے لیے اس کتاب کا مطالعہ بے حد ضروری ہے تاکہ اسلام کے خلاف پھیلائے جانے والے پروپیگنڈے کا ہم شافی وکافی جواب دے سکیں۔
Load Next Story