جنریشن گیپ
اگر تصویر کے ساتھ لہجے کو بھی شامل کر لیا جائے تو سونے پر سہاگہ
میں جب اپنے حال پر نگاہ ڈالتا ہوں تو یوں لگتا ہے جیسے میں ہی وہ شخص ہوں جس کے ہاتھ میں چند سکے ہیں اور نان بائی ان کے عوض چند روٹیاں دینے سے انکاری ہے۔ حیرت اور صدمے کی اس کیفیت میں ایک اور تازیانہ پیٹھ پر پڑتا ہے:
' بابا، آپ کو کیا پتہ؟'
مخدومی اشفاق احمد نے حضرت ممتاز مفتی کا ایک قول نقل کر رکھا ہے جس میں وہ کہتے ہیں کہ بوڑھا بھی انسان ہوتا ہے، اس کے بھی جذبات ہوتے ہیں لہٰذا وہ دنیا کی ہر لذت سے لطف اندوز ہونا چاہتا ہے اور اس کی صلاحیت بھی رکھتا ہے لیکن اہل خانہ اسے جینے نہیں دیتے۔
ابھی میں مفتی صاحب کی عمر کو تو نہیں پہنچا کہ ان کے دکھ کی تصدیق یا تردید کر سکوں لیکن روزمرہ کا تجربہ اس سے کچھ ملتا جلتا ہے۔ ہر جاتے لمحے کوئی نہ کوئی احساس دلا دیتا ہے کہ بھائی جی، ذرا بچ کے، اس دنیا کا تجربہ آپ کو نہیں۔ کہیں ٹھوکر کھا بیٹھے تو سٹپٹاتے پھرو گے۔ اس آزار میں ٹھنڈی ہوا کا جھونکا بس ایک ہی طرف سے آیا ہے۔ یہ ہیں حضرت سلمان باسط۔
سلمان باسط کون ہیں؟ ان کا کچھ تعارف خلد آشیانی امجد اسلام امجد کرا چکے ہیں اور کچھ دیگر بھاری بھرکم شخصیات جیسے جناب سعود عثمانی اور محترمہ شاہین کاظمی۔ ظاہر ہے کہ ان لوگوں کی بات کا اپنا وزن ہے لیکن سلمان باسط صاحب کی ایک شبیہ میرے ذہن میں بھی ہے۔
اسلام آباد میں ہماری ایک آپا ہیں، آپا نعیم فاطمہ علوی۔ ہم ہوئے، تم ہوئے کہ میر ہوئے، اس کی زلفوں کے سب اسیر ہوئے۔ زلف سے مراد آپا کا دامن محبت و شفقت سمجھا جائے۔ اس دامن کے سائے میں سلمان باسط کو بیٹھنے کا موقع بھی ملتا ہے اور ان سطور کے لکھنے والے کو بھی۔ ہماری پہلی ملاقات آپا کے آنگن میں ہوئی۔ یوں اس آنگن میں شاعروں نثر نگاروں، سبھی کے لیے گنجائش ہے لیکن نثر والوں کی بات مختلف ہے۔
ہم یہاں جاتے ہیں اور نثر کی دنیا میں کھو جاتے ہیں۔ بس، ایسی ہی کسی نشست کا واقعہ ہے جس میں سلمان باسط صاحب نے اشفاق احمد صاحب کے بارے میں کچھ پڑھا۔ سلیم احمد مرحوم کو لوگ اب بھولتے ہیں لیکن واقعہ یہ ہے کہ اس نیک روح نے ہمارے ادب کو بہت مالا مال کیا ہے۔ ان کی جو کتاب سب سے پہلے میرے مطالعے میں آئی، ' نئی نظم اور پورا آدمی ' تھی۔ گو یہ کتاب نظم کے بارے میں ہے لیکن اس میں نثر کیا ہے یا ادب کے بارے میں سیکھنے کے لیے بہت کچھ ہے۔
اس کتاب سے ایک سبق جو میں نے سیکھا، یہ ہے کہ کسی شخص کا لکھا یا بولا ہوا ایک جملہ بلکہ ایک لفظ بھی اس قدر ظالم ہوتا ہے کہ خود لکھنے والے کے من میں چھپی ساری اچھائیاں اور برائیاں تصویر کر کے سامنے رکھ دیتا ہے۔
اب اگر تصویر کے ساتھ لہجے کو بھی شامل کر لیا جائے تو سونے پر سہاگہ۔ یہ سلمان باسط کی تحریر اور لہجہ ہی تھا جس کا میں اسیر ہوا اور میں نے یہ جانا کہ یہ شخص تو سراپا محبت ہے اور محبت بھی غیر مشروط۔ یہ احساس تھا جس کے تحت مجھے خبر کیے بغیر میرا دل اس شخص کی جانب ہجرت کر گیا۔ یہ خبر تو خیر بعد میں ہوئی کہ یہ ہجرت دو طرفہ تھی۔ یہ اسی ہجرت کا شاخسانہ تھا کہ میں ' ناسٹیلجیا' سے سرفراز ہوا۔
اردو میں انگریزی الفاظ کے استعمال اور ملاوٹ کے ضمن میں میرے تعصبات بڑے سخت ہیں۔ عام طور پر میں اپنے تعصبات کو چھپا نہیں پاتا اور دوستوں کو بدمزہ کر بیٹھتا ہوں۔ اس واقعے میں بھی ایسا ہی ہونا چاہیے تھا۔
سرورق دیکھ کر ہوا بھی ایسا لیکن پھر تعصب پر محبت غالب آئی اور میں نے سوچا کہ یہ کیا کم ہے کہ انگریزی کا پروفیسر اردو میں شاعری کرتا ہے اور اردو نثر لکھتا ہے۔ اس کٹھالی سے گزرتے ہوئے وہ دائیں بائیں سے ایک آدھ دانا انگریزی کا بھی چن لیتا ہے تو قابل معافی ہے، اللہ بھی یقیناً اسے معاف کرے گا۔
سلمان باسط کی تحریر کا معاملہ ہو یا ان کی شخصیت کا بیان، ان دو باتوں میں مضمر ہے اک صورت خرابی کی۔ تحریر کا ذکر کریں تو صاحب تحریر سامنے آ جاتے ہیں اور صاحب تحریر کا ذکر ہو تو تحریر چٹکیاں لینے لگتی ہے۔ یہی جھگڑا تھا، تادیر میں جس میں الجھا رہا۔ کبھی پڑھتے پڑھتے رک جاتا اور کبھی لکھتے لکھتے قلم چھوڑ دیتا۔ سبب کیا ہے؟ سبب وہی ہے جس کا ذکر میں نے شروع میں کیا۔
'ناسٹلجیا' کے بارے میں امجد صاحب فرما گئے ہیں کہ یہ کتاب روایتی خود نوشت سوانح سے اس اعتبار سے مختلف ہے کہ لوگ عام طور پر اپنی کہانی کا آغاز زندگی کے اہم واقعات سے کرتے ہیں، ابتدائی زندگی کا ذکر سرسری ہوتا ہے۔ اس کا سبب کیا ہے؟ میری نگاہ میں اس کا سبب وہ عمومی رجحان ہے، عام آدمی جس کے تحت ساری زندگی بتا دیتا ہے۔ یہ عام آدمی کوئی ادیب بھی ہو سکتا ہے، سیاست دان بھی اور کچھ اور بھی۔ انسانوں کے اس فرقے کی نگاہ میں وہ مفادات اہم ہوتے ہیں جن کی خاطر اکثر اوقات وہ اپنی زندگی بسر کرتے ہیں۔
یہی سبب ہے کہ وہ اپنی زندگی کی روداد قلم بند کرتا ہے تو وہ سب کچھ اس کے سامنے ہاتھ باندھ کر کھڑا ہو جاتا ہے جس کی خاطر وہ اپنی زندگی گزارتا ہے۔ اس کے مقابلے میں سلمان باسط جیسے لوگ ہوتے ہیں۔
آدرش اور خواب ان کے بھی ہوتے ہیں اور خواہشات ایسے لوگوں کو بھی بے چین کرتی ہیں لیکن زندگی کے ساتھ ان کا جو میثاق (کمٹ منٹ ) ہوتا ہے، اس کے تحت وہ ارادی یا غیر ارادی طور پر سماج کی بدلتی ہوئی قدروں، رویوں اور احساسات کو جس طرح برتتے اور محسوس کرتے ہیں، اس کی گواہی رقم کر دیتے ہیں۔ یہ گواہی کچھ اس قسم کی ہوتی ہے کہ وہ چاہیں یا نہ چاہیں آنے والے زمانوں کے لوگ اس سے اپنے ماضی کے راز اور چھپے ہوئے خزانوں کی خبر پاتے ہیں۔
یہ جو اپنے دائیں بائیں پر نظر ڈال کر ہمارے جیسے لوگ سوچتے ہیں کہ کہیں ہمارا رشتہ ناتا اصحاب کہف سے تو نہیں۔ اس عارضے کا واحد سبب یہ ہے کہ ہم اپنا زمانہ بتا کر آگے بڑھ تو جاتے ہیں لیکن اپنے زمانے کے کھیل، اس زمانے کی صبحوں اور شاموں، میل ملاقات کے قاعدوں اور سونے جاگنے کے طور طریقوں کو کہیں بھول جاتے ہیں۔
ایک حادثہ تو یہ ہے لیکن ان کے ساتھ ایک حادثہ اور بھی ہو جاتا ہے۔ میری باجی شموس نے کوئی پچاس برس قبل مجھے پڑھاتے ہوئے ایک جملہ مجھ پر کسا تھا: ' آگے دوڑ پیچھا چوڑ'. ہمارے ساتھ بھی یہی ہوا ہے، ہم آگے بڑھ تو گئے ہیں لیکن ماضی سے قریب قریب ناتا توڑ چکے ہیں۔ یہ خود نوشت سوانح اسی ٹوٹی ہوئی کڑی کو جوڑنے کی ایک کوشش ہے۔
' بابا، آپ کو کیا پتہ؟'
مخدومی اشفاق احمد نے حضرت ممتاز مفتی کا ایک قول نقل کر رکھا ہے جس میں وہ کہتے ہیں کہ بوڑھا بھی انسان ہوتا ہے، اس کے بھی جذبات ہوتے ہیں لہٰذا وہ دنیا کی ہر لذت سے لطف اندوز ہونا چاہتا ہے اور اس کی صلاحیت بھی رکھتا ہے لیکن اہل خانہ اسے جینے نہیں دیتے۔
ابھی میں مفتی صاحب کی عمر کو تو نہیں پہنچا کہ ان کے دکھ کی تصدیق یا تردید کر سکوں لیکن روزمرہ کا تجربہ اس سے کچھ ملتا جلتا ہے۔ ہر جاتے لمحے کوئی نہ کوئی احساس دلا دیتا ہے کہ بھائی جی، ذرا بچ کے، اس دنیا کا تجربہ آپ کو نہیں۔ کہیں ٹھوکر کھا بیٹھے تو سٹپٹاتے پھرو گے۔ اس آزار میں ٹھنڈی ہوا کا جھونکا بس ایک ہی طرف سے آیا ہے۔ یہ ہیں حضرت سلمان باسط۔
سلمان باسط کون ہیں؟ ان کا کچھ تعارف خلد آشیانی امجد اسلام امجد کرا چکے ہیں اور کچھ دیگر بھاری بھرکم شخصیات جیسے جناب سعود عثمانی اور محترمہ شاہین کاظمی۔ ظاہر ہے کہ ان لوگوں کی بات کا اپنا وزن ہے لیکن سلمان باسط صاحب کی ایک شبیہ میرے ذہن میں بھی ہے۔
اسلام آباد میں ہماری ایک آپا ہیں، آپا نعیم فاطمہ علوی۔ ہم ہوئے، تم ہوئے کہ میر ہوئے، اس کی زلفوں کے سب اسیر ہوئے۔ زلف سے مراد آپا کا دامن محبت و شفقت سمجھا جائے۔ اس دامن کے سائے میں سلمان باسط کو بیٹھنے کا موقع بھی ملتا ہے اور ان سطور کے لکھنے والے کو بھی۔ ہماری پہلی ملاقات آپا کے آنگن میں ہوئی۔ یوں اس آنگن میں شاعروں نثر نگاروں، سبھی کے لیے گنجائش ہے لیکن نثر والوں کی بات مختلف ہے۔
ہم یہاں جاتے ہیں اور نثر کی دنیا میں کھو جاتے ہیں۔ بس، ایسی ہی کسی نشست کا واقعہ ہے جس میں سلمان باسط صاحب نے اشفاق احمد صاحب کے بارے میں کچھ پڑھا۔ سلیم احمد مرحوم کو لوگ اب بھولتے ہیں لیکن واقعہ یہ ہے کہ اس نیک روح نے ہمارے ادب کو بہت مالا مال کیا ہے۔ ان کی جو کتاب سب سے پہلے میرے مطالعے میں آئی، ' نئی نظم اور پورا آدمی ' تھی۔ گو یہ کتاب نظم کے بارے میں ہے لیکن اس میں نثر کیا ہے یا ادب کے بارے میں سیکھنے کے لیے بہت کچھ ہے۔
اس کتاب سے ایک سبق جو میں نے سیکھا، یہ ہے کہ کسی شخص کا لکھا یا بولا ہوا ایک جملہ بلکہ ایک لفظ بھی اس قدر ظالم ہوتا ہے کہ خود لکھنے والے کے من میں چھپی ساری اچھائیاں اور برائیاں تصویر کر کے سامنے رکھ دیتا ہے۔
اب اگر تصویر کے ساتھ لہجے کو بھی شامل کر لیا جائے تو سونے پر سہاگہ۔ یہ سلمان باسط کی تحریر اور لہجہ ہی تھا جس کا میں اسیر ہوا اور میں نے یہ جانا کہ یہ شخص تو سراپا محبت ہے اور محبت بھی غیر مشروط۔ یہ احساس تھا جس کے تحت مجھے خبر کیے بغیر میرا دل اس شخص کی جانب ہجرت کر گیا۔ یہ خبر تو خیر بعد میں ہوئی کہ یہ ہجرت دو طرفہ تھی۔ یہ اسی ہجرت کا شاخسانہ تھا کہ میں ' ناسٹیلجیا' سے سرفراز ہوا۔
اردو میں انگریزی الفاظ کے استعمال اور ملاوٹ کے ضمن میں میرے تعصبات بڑے سخت ہیں۔ عام طور پر میں اپنے تعصبات کو چھپا نہیں پاتا اور دوستوں کو بدمزہ کر بیٹھتا ہوں۔ اس واقعے میں بھی ایسا ہی ہونا چاہیے تھا۔
سرورق دیکھ کر ہوا بھی ایسا لیکن پھر تعصب پر محبت غالب آئی اور میں نے سوچا کہ یہ کیا کم ہے کہ انگریزی کا پروفیسر اردو میں شاعری کرتا ہے اور اردو نثر لکھتا ہے۔ اس کٹھالی سے گزرتے ہوئے وہ دائیں بائیں سے ایک آدھ دانا انگریزی کا بھی چن لیتا ہے تو قابل معافی ہے، اللہ بھی یقیناً اسے معاف کرے گا۔
سلمان باسط کی تحریر کا معاملہ ہو یا ان کی شخصیت کا بیان، ان دو باتوں میں مضمر ہے اک صورت خرابی کی۔ تحریر کا ذکر کریں تو صاحب تحریر سامنے آ جاتے ہیں اور صاحب تحریر کا ذکر ہو تو تحریر چٹکیاں لینے لگتی ہے۔ یہی جھگڑا تھا، تادیر میں جس میں الجھا رہا۔ کبھی پڑھتے پڑھتے رک جاتا اور کبھی لکھتے لکھتے قلم چھوڑ دیتا۔ سبب کیا ہے؟ سبب وہی ہے جس کا ذکر میں نے شروع میں کیا۔
'ناسٹلجیا' کے بارے میں امجد صاحب فرما گئے ہیں کہ یہ کتاب روایتی خود نوشت سوانح سے اس اعتبار سے مختلف ہے کہ لوگ عام طور پر اپنی کہانی کا آغاز زندگی کے اہم واقعات سے کرتے ہیں، ابتدائی زندگی کا ذکر سرسری ہوتا ہے۔ اس کا سبب کیا ہے؟ میری نگاہ میں اس کا سبب وہ عمومی رجحان ہے، عام آدمی جس کے تحت ساری زندگی بتا دیتا ہے۔ یہ عام آدمی کوئی ادیب بھی ہو سکتا ہے، سیاست دان بھی اور کچھ اور بھی۔ انسانوں کے اس فرقے کی نگاہ میں وہ مفادات اہم ہوتے ہیں جن کی خاطر اکثر اوقات وہ اپنی زندگی بسر کرتے ہیں۔
یہی سبب ہے کہ وہ اپنی زندگی کی روداد قلم بند کرتا ہے تو وہ سب کچھ اس کے سامنے ہاتھ باندھ کر کھڑا ہو جاتا ہے جس کی خاطر وہ اپنی زندگی گزارتا ہے۔ اس کے مقابلے میں سلمان باسط جیسے لوگ ہوتے ہیں۔
آدرش اور خواب ان کے بھی ہوتے ہیں اور خواہشات ایسے لوگوں کو بھی بے چین کرتی ہیں لیکن زندگی کے ساتھ ان کا جو میثاق (کمٹ منٹ ) ہوتا ہے، اس کے تحت وہ ارادی یا غیر ارادی طور پر سماج کی بدلتی ہوئی قدروں، رویوں اور احساسات کو جس طرح برتتے اور محسوس کرتے ہیں، اس کی گواہی رقم کر دیتے ہیں۔ یہ گواہی کچھ اس قسم کی ہوتی ہے کہ وہ چاہیں یا نہ چاہیں آنے والے زمانوں کے لوگ اس سے اپنے ماضی کے راز اور چھپے ہوئے خزانوں کی خبر پاتے ہیں۔
یہ جو اپنے دائیں بائیں پر نظر ڈال کر ہمارے جیسے لوگ سوچتے ہیں کہ کہیں ہمارا رشتہ ناتا اصحاب کہف سے تو نہیں۔ اس عارضے کا واحد سبب یہ ہے کہ ہم اپنا زمانہ بتا کر آگے بڑھ تو جاتے ہیں لیکن اپنے زمانے کے کھیل، اس زمانے کی صبحوں اور شاموں، میل ملاقات کے قاعدوں اور سونے جاگنے کے طور طریقوں کو کہیں بھول جاتے ہیں۔
ایک حادثہ تو یہ ہے لیکن ان کے ساتھ ایک حادثہ اور بھی ہو جاتا ہے۔ میری باجی شموس نے کوئی پچاس برس قبل مجھے پڑھاتے ہوئے ایک جملہ مجھ پر کسا تھا: ' آگے دوڑ پیچھا چوڑ'. ہمارے ساتھ بھی یہی ہوا ہے، ہم آگے بڑھ تو گئے ہیں لیکن ماضی سے قریب قریب ناتا توڑ چکے ہیں۔ یہ خود نوشت سوانح اسی ٹوٹی ہوئی کڑی کو جوڑنے کی ایک کوشش ہے۔