انوکھا میزبان

جو خلق خدا کے کام آتا ہے تو خالق بھی اس کے سنگ ہوتا ہے اور جس کے سنگ رب ہو تو پھر اس کی راہ کوئی کھوٹی نہیں کرسکتا۔

مہمان فلم دیکھتے اور بہ طور تحفہ ملبوسات لے کر رخصت ہوتے ہیں ۔ فوٹو : فائل

عجیب ہوتے ہیں کچھ لوگ۔۔۔ رب کی مخلوق بھی رنگا رنگ ہے۔ سب کے روپ انوکھے ہیں اور کام نرالے۔

ہاں پھر یہ بھی ہے کہ ہر ایک اپنے اندر ایک کائنات سجائے بیٹھا ہے۔ ہوسکتا ہے اک کام کسی کے لیے بہت اہم ہو اور وہی کام دوسروں کے لیے کارِعبث۔ لیکن ہے ایسا ہی۔ کوئی خلق خدا کو قتل کرتا پھرتا ہے اور کوئی انہیں بچانے کی تگ و دو۔ کوئی کسی کا حق چھین لیتا ہے اور کوئی وہ حق دلانے کے لیے برسر میدان ہے۔ کوئی اپنی تفریح کے لیے سنیما، تھیٹر دیکھ رہا ہے تو کوئی کچھ اور، کچھ لوگ سیر و سیاحت کے دل دادہ ہیں اور یہ کوئی بری بات نہیں۔ ہر انسان کو تفریح طبع کا پورا حق حاصل ہے اور یہ جیون کے لیے ضروری بھی ہے ورنہ تو انسان زندگی سے ہی اکتا جائے۔

ہمارے ایک دوست برسہا برس سے ہر ہفتے کو سمندر میں جاتے ہیں، پوری رات مچھلیاں پکڑتے ہیں اور اتوار کو وہ ساری مچھلیاں اپنے محلے داروں، عزیز و اقارب اور دوست احباب میں تقسیم کردیتے ہیں۔ ایک دن ہم نے ان سے پوچھا، آپ یہ سب کیوں کرتے ہیں۔۔؟ تو کہنے لگے اس سے مجھے راحت ملتی ہے، میں تازہ دم ہوجاتا ہوں اور پھر یہ بھی اچھا لگتا ہے کہ اس منہگائی میں لوگوں کو تازہ مچھلی مل جاتی ہے اور وہ بھی مفت میں، آم کے آم اور گٹھلیوں کے دام۔ ہے ناں یہ عجیب سا شوق اور کام۔

ہم اپنی چھٹی کا دن اپنے بچوں کے ساتھ گزارنا چاہتے ہیں اور ایسا کرنا بھی چاہیے کہ یہ حق ہے ان کا۔ لیکن کچھ ایسے ہیں جنہوں نے جینے کا نیا ڈھنگ، نیا طور، نیا طریقہ اپنایا ہے اور اس میں بھی وہ تنہا نہیں ہیں، انہوں نے اپنے بچوں کو بھی اس کام میں اپنے ساتھ شامل کرلیا ہے اور اس طرح وہ سب مل کر ایک عجیب سا کام کرتے ہیں۔

یار لوگ انہیں پاگل، خبطی، بے وقوف، دیوانہ اور نہ جانے کیا کیا کہتے ہیں، انہیں اس کام سے باز رہنے کی تلقین کرتے ہیں، انہیں بتایا جاتا ہے کہ زمانہ خراب ہے، کسی پر بھی بھروسا نہیں کرنا چاہیے، کہ لوگ جیسے نظر آتے ہیں، ویسے ہوتے نہیں ہیں اور نہ جانے کیا کچھ۔۔۔ لیکن صاحبو! وہ ایسی ساری باتیں سنتے ہیں، مسکراتے ہیں، کبھی کبھی ہنستے ہیں اور پھر وہ سارے پند و نصائح ردی کی ٹوکری کی نذر کردیتے اور اپنا کام کرنے لگتے ہیں۔ جو راہ انہوں نے چُنی ہے وہ اس پر گام زن ہیں، کوئی بھی ان کی راہ کھوٹی نہیں کر پایا، کوئی انہیں اپنی راہ سے گم نہیں کرسکا، کہ وہ گم راہوں میں سے نہیں ہیں۔

مئی کے مہینے کی ابتدا مزدوروں کے دن سے ہوتی ہے۔ ٹیلی وژن کے مختلف چینلز خصوصی پروگرام دکھاتے ہیں، ریڈیو کے مختلف اسٹیشن پروگرام نشر کرتے اور اخبارات خصوصی ایڈیشن چھاپتے ہیں، جن میں مزدوروں کی عظمت کے گن گائے جاتے اور ان کے حقوق کے تحفظ کا اعادہ کیا جاتا ہے۔ اس دن عام تعطیل بھی ہوتی ہے۔ یہ دوسری بات کہ مزدوروں کا حال ویسا ہی ہے، جیسا روز اول سے تھا۔ یعنی، ہیں تلخ بہت بندۂ مزدور کے اوقات۔

لیکن ہم اس بحث کو رہنے دیتے ہیں اور آپ کو سناتے ہیں اپنے اک دوست کی کہانی، جس نے اپنے لیے عجیب سا کام منتخب کرلیا ہے اور اس پر بہت عرصے سے عمل پیرا ہے۔ اب آپ اسے کام سمجھیں یا کچھ اور، لیکن وہ یہ کرتا ہے۔

میں اس کا نام لکھوں گا تو بہت خفا ہوگا کہ یہ کیا کیا، میں نے اس سے اجازت لینے کی کوشش کی تھی کہ اس کی تصویر کے ساتھ یہ سب کچھ لکھ دوں، لیکن وہ صاف منکر ہوگیا۔ بس اتنی اجازت دی کہ اگر لکھنا ہی ہے اور اس کام میں اگر کچھ خاص بات ہے تو بس اتنا لکھ دو۔ تو میں خیانت نہیں کرسکتا اور ویسے بھی باب علم جناب حضرت علیؓ نے ارشاد فرمایا کہ یہ مت دیکھو کہ کون کہہ رہا ہے بس یہ دیکھو کہ بات کیا ہورہی ہے اور جہاں سے دانش ملے، اسے لے لو کہ دانش میراث عالم ہے۔

کوئی بھی چھٹی کا دن ہو، وہ صبح سویرے اپنی کار لے کر نکل کھڑا ہوتا ہے، جی! مزدوروں کی تلاش میں، جو سڑکوں کی فٹ پاتھوں پر اپنی روزی روٹی کی تلاش میں اپنے اوزار لیے بیٹھے ہوتے ہیں۔ نہ جانے کن خیالات میں گُم، اور جیسے ہی کوئی آئے تو وہ سب اس امید پر اس کی جانب بڑھتے ہیں کہ آج اپنے اور اپنے بچوں کے پیٹ کا دوزخ بھرنے کی کوئی سبیل نکل آئے گی، یہ مزدور بس آج کا سوچتے ہیں، کل کس نے دیکھی ہے۔ ہمارا دوست ان میں سے پانچ مزدوروں کا انتخاب کرتا ہے اور ان سے مزدوری طے کرکے اپنے گھر لے آتا ہے۔

ان مزدوروں کو گھر پہنچتے ہی بہترین ناشتہ کرایا جاتا ہے ان سے گپ شپ کی جاتی ہے اور پھر انہیں کام پر لگایا جاتا ہے، اور کام بھی ایسا کہ مزدور سوچ میں پڑ جاتے ہیں کہ بھلا یہ بھی کوئی کام ہوا، انہیں یا تو دروازے، کھڑکیوں کی گرد صاف کرنے پر لگایا جاتا ہے یا پھر لان کی صفائی پر، بس ایسے ہی برائے نام کام، اور اس کام میں بھی مزدور اکیلے نہیں ہوتے، ہمارے دوست، ان کے بچے، ان کی بیگم سب ان مزدوروں کے ساتھ کام کرتے ہیں۔ اس مشق کی وجہ سے مزدور اسے اپنا گھر سمجھنے لگتے ہیں اور سب لوگ ایک گھر کے مکینوں کی طرح گُھل مل جاتے ہیں۔

نام نہاد کام ختم کرنے کے بعد انہیں نہانے کا کہا جاتا ہے اور انہیں نئے کپڑے دیے جاتے ہیں (ہمارا دوست مختلف سائز کے سلے ہوئے سوٹوں کی بڑی تعدادپہلے ہی سے خرید کر اپنے گھر میں رکھتا ہے) نہانے اور نیا لباس پہننے کے بعد ان مزدوروں کو ڈرائنگ روم میں کوئی بھی اچھی سی فلم دکھائی جاتی ہے۔ اس دوران کھانے کا وقت ہوجاتا ہے اور دستر خوان پر انواع و اقسام کے کھانے چن دیے جاتے ہیں، جن میں دور جدید کے کھانے مثلا پیزا وغیرہ بھی ہوتے ہیں، جو اتنے منہگے ہیں کہ مزدور انہیں خریدنے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ ان کھانوں سے ان کی تواضع کی جاتی ہے اور آخر میں کوئی میٹھی ڈش اور آئس کریم سے بھی وہ لطف اندوز ہوتے ہیں۔ کھانے کے بعد انہیں قیلولہ کرنے کا کہا جاتا ہے اور جب وہ دوبارہ جاگتے ہیں تو ان کی خاطر مدارت چائے اور دیگر لوازمات سے کی جاتی ہے اور پھر انہیں ان کی طے شدہ مزدوری اور رات کا کھانا اور اگر کسی کے بیوی بچے ہوں تو ان کے لیے بھی کھانا دے کر رخصت کردیا جاتا ہے۔ یوں وہ دن اختتام کو پہنچتا ہے۔

میں کئی مرتبہ ان کے گھر صرف یہ دیکھنے گیا ہوں کہ مزدور اس کے بارے میں کیا کہتے ہیں۔ ایک دفعہ میں نے ایک مزدور سے پوچھا آپ کو کیسا لگا۔۔۔؟ پہلے تو وہ خاموشی سے مجھے دیکھتا رہا اور پھر رونے لگا۔۔۔ میں نے پوچھا کیا ہوا؟ تو کہنے لگا صاحب! میں جب صبح آیا تھا تو مجھے بہت ڈر لگ رہا تھا کہ کہیں یہ صاحب ہمارے ساتھ کچھ غلط نہ کر دے، پھر میں نے اپنے دیگر مزدور ساتھیوں سے مشورہ کیا کہ کیا کریں، ایک نے کہا کہ ہمارے پاس ہے ہی کیا، جو وہ ہم سے چھین لیں گے۔ جب انہوں نے کھانے کا کہا تو ہم نے فیصلہ کیا ہم نہیں کھائیں گے۔


لیکن جب یہ سارے گھر والے ہمارے ساتھ ہی کھانے پر بیٹھے اور ایک ہی کھانا کھانے لگے تو ہمارا بھی حوصلہ بڑھا اور ہم نے بہت کھانا کھایا۔ ایسا کھانا تو ہم نے کبھی بھی نہیں کھایا تھا، ایسے لوگ ہم نے کبھی نہیں دیکھے تھے۔ یہ لوگ انسان نہیں فرشتہ ہیں۔ ہمارے کرتوت ایسے ہیں کہ قیامت آہی جاتی، وہ اس لیے نہیں آرہی کہ ان جیسے لوگ موجود ہیں۔

مجھے اچھی طرح یاد ہے، ایک مرتبہ ایک بہت ضعیف مزدور بابا بھی آئے تھے۔ بیمار تھے وہ، میرے دوست نے ایک ماہ سے زیادہ انہیں اپنے گھر کے فرد کی طرح رکھا، بہترین علاج کرایا، خوب ان کی خدمت کی اور ہر شام کو انہیں ان کی مزدوری بھی دی۔ وہ بابا جی بہت کہتے کہ میں کوئی کام نہیں کر رہا، آپ میرا علاج بھی کرا رہے ہیں، میرے لیے یہی بہت ہے، مجھے مزدوری نہیں چاہیے۔ لیکن ہمارے دوست کا کہنا تھا کہ آپ اپنا وقت ہمیں ہماری خواہش پر دے رہے ہیں، بس اسے کام سمجھیں اس کی مزدوری دینا فرض ہے ہمارا۔

ہمارا یہ دوست کئی سال بیرون ملک مقیم رہا ہے اور اب جب لوگ امن و امان کی مخدوش صورت حال کی وجہ سے ملک سے باہر جارہے ہیں، وہ اپنے ملک واپس آگیا۔ ایک دن دوستوں نے پوچھا تم واپس کیوں آئے؟ تو جواب تھا، ماں کو سب بیٹے چھوڑ کر جارہے تھے تو میں واپس آگیا۔ سب نے حیران ہوکر کہا تمہاری ماں تو کب کی وفات پاچکی ہیں۔ تو صاحب مسکرائے اور کہا انسان کی اصل ماں اس کا ملک ہوتا ہے، پاکستان ہے میری اصل ماں، اﷲ وہ وقت نہ لائے کہ میری اصل ماں مرجائے۔

سارے محلے والے اسے نہ جانے کس کس کام کا کہتے رہتے ہیں اور وہ خوشی خوشی کرتا چلا جاتا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ اس نے اپنے اس شوق میں نقصان نہیں اٹھایا، کبھی کبھار کوئی چھوٹا موٹا مسئلہ کھڑا ہوجاتا ہے، جسے وہ بہت خوش اسلوبی سے حل کرلیتا ہے۔

ایک دن ہم نے اپنی نام نہاد دانش وری جھاڑی کہ آج کل بہت عجیب سا وقت ہے، احتیاط کیا کریں اور نہ جانے کیا کچھ۔ وہ بغور ہماری بات سنتا رہا اور پھر مسکرا کر کہنے لگا،''میں جب صبح اپنے کام پر جاتا ہوں تو کار اسٹارٹ کرتا ہوں، اب ایسا بھی تو ہوسکتا ہے ناں کہ دوران سفر میری کار کا حادثہ ہوجائے، تو کیا میں اس ڈر سے کار چلانا چھوڑ دوں۔''

مجھے غصے میں دیکھ کر وہ کہنے لگا، چلو تم کہانیاں بہت لکھتے ہو، میں بھی تمہیں ایک کہانی سناتا ہوں۔ایک شخص ایک دریا کے کنارے جارہا تھا، اس نے دیکھا کہ ایک بچھو دریا سے باہر آنے کے لیے کوشش کر رہا ہے، لیکن پانی کی لہریں اسے کنارے پر نہیں آنے دے رہیں، تو اس نے اِدھر اُدھر دیکھا کہ کوئی ایسی چیز مل جائے، جس سے وہ اس بچھو کو باہر نکال سکے۔ اسے کوئی ایسی چیز نظر نہیں آئی، اس نے اپنے ہاتھ سے اسے نکالنے کی کوشش کی تو بچھو نے اسے ڈس لیا اور ایسا کئی بار ہوا، لیکن اس نے اپنی کوشش نہیں چھوڑی۔ بالآخر وہ کام یاب ہوگیا۔

میں نے اسے گھور کر دیکھا اور کہا، وہ بے وقوف آدمی تھا، ایسا کیا ہے اس فضول کہانی میں۔ وہ مسکرایا اور کہنے لگا، تم عجلت مت کرو پہلے پوری کہانی تو سن لو۔

ہاں تو جب وہ شخص اس بچھو کو دریا سے باہر نکلنے میں اس کی مدد کر رہا تھا اور وہ اسے بار بار ڈس رہا تھا، اور پھر وہ اپنی اس کوشش میں کام یاب بھی ہوگیا، تو اس کے پیچھے ایک اور تم جیسا دانا چلا آرہا تھا اور یہ سب کچھ دیکھ رہا تھا، اس دانا نے کہا، کیوں کیا تم نے ایسا، وہ تمہیں ڈس رہا تھا، ڈوب جانے دیتے اسے، مر جانے دیتے۔ تو وہ شخص مسکرایا اور کہنے لگا۔

میں ضرور اسے مرتا چھوڑ دیتا، لیکن پھر میرے اندر سے آواز آئی کہ وہ اپنی بُری خصلت سے باز نہیں آتا اور تو اپنی اچھی خصلت کو چھوڑ رہا ہے، تو بس میں نے وہ فیصلہ کرلیا، جو مجھے کرنا چاہیے تھا کہ اگر کوئی اپنی بری فطرت سے باز نہیں آتا تو میں اپنی اچھی خصلت نہیں چھوڑوں گا۔

اگر کوئی اسے سمجھائے تو وہ ایسی ہی باتیں کرتا اور اپنا کام کرتا رہتا ہے۔ کسی دانا نے ایک دن مجھے بتایا تھا کہ یہ جو ایسے لوگ ہوتے ہیں، وہ اﷲ کی طرف سے ایسے ہوتے ہیں، وہ بستیاں بساتے ہیں، جہاں سایہ نہ ہو وہ وہاں شجر اگاتے ہیں اور ایسے پھل دار شجر جن کا پھل سب کھاتے ہیں، وہ اپنی دُھن کے پکے اور قول کے سچے ہوتے ہیں ، کوئی ان کے ساتھ کچھ بھی کرلے وہ مسکراتے ہیں، ایسے ہی لوگ راضی بہ رضائے الٰہی ہوتے ہیں اور یہی تو ہوتے ہیں زمین کی زیب و زینت، اگر ایسے لوگ سماج میں نہ ہوں تو سماج تباہ و برباد ہوجاتا ہے۔ ہاں ایک بات اور بھی اگر ایسے لوگ کم ہوں تو سمجھ لینا چاہیے کہ خدا خفا ہے، اسے منانے کی سعی کرنی چاہیے، حالات چاہے کتنے بھی خراب ہوجائیں امید کا دامن کبھی نہیں چھوڑنا چاہیے، اندھیروں سے گلہ کرنے سے بہتر ہے کہ اپنے حصے کی شمع جلائی جائے، جو خلق خدا کے کام آتا ہے تو خالق بھی اس کے سنگ ہوتا ہے اور جس کے سنگ رب ہو تو پھر اس کی راہ کوئی کھوٹی نہیں کرسکتا۔

پتا نہیں کیا صحیح ہے کیا غلط، یہ آپ خود فیصلہ کریں۔

ایک جگنو ہی سہی، ساتھ سفر میں رکھنا
تیرگی کو کبھی بے باک نہ ہونے دینا
Load Next Story