وسیع البنیاد مفاہمت کا ایجنڈا
یہ تصور غلط ہے کہ ہم سیاست اور جمہوریت کو پس پشت ڈال کر معیشت کا علاج تلاش کرسکتے ہیں
پاکستان کا بحران سنگین بھی ہے اور غیر معمولی معاملات بھی بطور ریاست سب فریقوں سے یہ ہی تقاضہ کرتے ہیں کہ ہمیں سر جوڑ کر داخلی اور خارجی معاملات کی درست تشخیص اور علاج تلاش کرنا ہوگا۔
ہمارا بحران معمولی نوعیت کا نہیں بلکہ سیاسی ، آئینی ، قانونی ، جمہوری اور معاشی سمیت ریاستی و ادارہ جاتی نوعیت سے جڑے ہوئے ہیں ۔ یہ مسائل آج کے پیدا کردہ نہیں بلکہ کئی دہائیوں پر مشتمل ہماری مختلف سوچ اور حکمت عملیوں کا نتیجہ ہے ۔موجودہ حالات میں بھی ہم ایک ٹکراؤ کے ماحول میں کھڑے ہیں۔
ایک دوسرے کو قبول نہ کرنے کی روش نے ہمیں آگے بڑھنے کے بجائے بہت پیچھے کی طرف دھکیل دیا ہے ۔ سیاسی اختلافات کا سیاسی دشمنی میں تبدیل ہونا اور مفاہمت کے مقابلے میں انتقام کی سیاست یا سیاسی سطح کی مخالفت میں ایک دوسرے کے دروازے بند کرنے کے عمل نے سیاسی عمل کو کمزور کردیا ہے۔
مسئلہ یہ ہے کہ ہم جب بھی حالات کا تجزیہ کرتے ہیں یا حالات کا ماتم کیاجاتا ہے تو ہم مفاہمت کی سیاست پر زور دیتے ہیں اورکہا جاتا ہے کہ مسائل کا حل مفاہمت کی سیاست سے جڑا ہوا ہے ۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مفاہمت کی سیاست کی اہمیت کو تسلیم کرنا مگر اس پر عمل نہ کرنا ایک سنگین مسئلہ ہے ۔اسی طرح ہم نے مفاہمت کی سیاست کو محض اقتدار کی سیاست یا سیاسی جوڑ توڑ یا ذاتی مفادات کی سیاست کی حد تک محدود کردیا ہے۔
ہماری سیاست میں بڑے سیاسی کردار کی اہمیت کی قبولیت بھی جھوٹ، منافقت، جوڑ توڑ ، سیاسی چالاکیاں یا وعدہ خلافی اور شعبدہ بازی یا اسٹیبلیشمنٹ سے بہتر تعلقات کی صورت میں ہوتی ہے۔ قومی مفاہمت کی سیاست میں آئین کی بالادستی ، قانون کی فوقیت، سیاست اور جمہوری اصول و اخلاقیات اور عوامی مفادات کی اہمیت ایک بڑے '' سیاسی ہتھیار'' کے طور پر استعمال ہوتی ہے ۔ یہ ہی وجہ ہے کہ یہاں مفاہمت کی سیاست میں اپنے اصل مقاصد کو حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے۔
آج کا پاکستان جو بڑے ریاستی بحران سے گزر رہا ہے اس میں سیاسی و جمہوری معاملات ، ریاستی اداروں کے درمیان ٹکراؤ، معاشی مسائل یا گورننس یا حکمرانی سے جڑے معاملات، سیکیورٹی یا دہشت گردی بالخصوص لوگوں کا ریاستی ، حکومتی اور ادارہ جاتی نظام پر بڑھتا ہوا عدم اعتمادکا واحد حل مفاہمت کی سیاست ہے۔ مفاہمت بھی جو حقیقی طور پر قدم کو آگے بڑھائے اور اس میں سیاسی اصولوں کی بنیاد ہو اور اسے ہی بالادستی ہو۔
مفاہمت کے نام پر اگر تمام فریق اپنی اپنی بالادستی کی جنگ لڑیں گے تو مسائل حل نہیں بلکہ اور زیادہ بگاڑ کا شکار ہونگے ۔ بالادستی انفرادی سطح کے لوگوں یا مخصوص گروپوں کی نہیں بلکہ آئین و قانون اور جموری اصولوں کو ہی ملنی چاہیے ۔ہم نے مقابلہ بازی ، محاذ آرائی ، ٹکراؤ، نفرت، تشدد ، تعصب اور غصہ یا بدلہ لینے کی سیاست اور فیصلوں کے نتائج دیکھ لیے ہیں اور اس کے نتیجہ میں پاکستان مضبوط نہیں بلکہ کمزور ہوا ہے۔
پاکستان میں اداروں یا سیاسی قوتوں کے ٹکراؤ کے معاملات سنگین نوعیت کے ہیں ۔ ہر بار بحران ان ہی مفاداتی جنگ کی بنیاد پر سامنے آتا ہے ۔ یہ ہی عمل سیاسی نظام کے تسلسل میں رکاوٹ ہے اور ہر بار ٹکراؤ یا اپنے اپنے آئینی دائرہ کار سے باہر نکل کر کھیلنے کی خواہش یا دوسرے فریقوں کے دائرہ کار میں مداخلت کا کھیل جمہوری اور قانونی نظام کو کمزور کرنے کا سبب بن رہا ہے۔
مفاہمت سے مراد یہ ہے کہ ہم ہی مل کر کوئی ایسا فریم ورک تیار کرلیں جس میں فریق ایک دوسرے کے مینڈیٹ اور دائرہ کارکا احترام کریں گے ۔جب ہم سب مل کر یہ نقطہ اٹھا رہے ہیں کہ ہمیں '' معاشی بنیادوں پر '' اپنے سیاسی اور علاقائی یا عالمی تعلقات کو استوار کرنا ہے اور ہر اس عمل کی نفی کرنا ہے جو ہمیں معاشی بنیادوں پر کمزور کرے تو اس سے مراد یہ ہی بنتی ہے کہ ہماری داخلی اور خارجی پالیسی کا بنیادی نقطہ معیشت کے نظام کی مضبوطی سے ہی جڑا ہوا ہوگا۔ لیکن سیاسی مہم جوئی اور سیاسی ایڈونچرز کا جاری کھیل پاکستان سیاست ، جمہوریت ، سیکیورٹی اور معیشت سب کے لیے ایک وبال جان بنا ہوا ہے جس سے ہمیں ہر صورت جان چھڑانی ہے۔
سیاسی جماعتیں اچھی ہیں یا بری ان کو ایک سیاسی عمل کے ساتھ ہی آگے بڑھنے دیا جائے۔ سیاسی جماعتوں کی تشکیل ، ٹوٹ پھوٹ یا ان میں جو بھی داخلی انتشار یا کمزوریاں ہیں ان کو ان کے حال پر چھوڑنا ہوگا۔سیاسی اختلافات یا سیاسی دشمنی کے کھیل ہمارے مفاد میں کسی بھی صورت میں نہیں اور یہ سمجھنا ہم سیاسی قیادت کو ختم کرسکتے یا ان کو دیوار سے لگاسکتے ہیں اس کھیل سے باہر نکلنا ہوگا ۔ سیاسی قیادتوں کو عملی طور پر سیاسی عمل کے ساتھ ہی غیر اہم کیا جاسکتا ہے۔اس وقت خان صاحب ہوں ، نواز شریف ہوں ، آصف زرداری ، مولانا فضل الرحمن ہوں سب کے درمیان سیاسی کشیدگی اور تناؤ ختم ہونا چاہیے۔
یہ تصور غلط ہے کہ ہم سیاست اور جمہوریت کو پس پشت ڈال کر معیشت کا علاج تلاش کرسکتے ہیں اور اس طرح کے جو بھی تجربے ہونگے وہ کارگر نہیں ہونگے، ماضی کا سبق یہ ہی بتاتا ہے جس سے ہمیں سبق سیکھنا چاہیے۔ جس وقت مفاہمت میں ایک بڑا ڈیڈ لاک ہو تو اس کی وجہ ایشوز سے زیاد ہ فریقین کے ذاتی مسائل ہوتے ہیں اور وہ چاہتا ہے کہ اس کی ہمیشہ بالادستی قائم رہے ۔ مسائل میں ڈیڈ لاک کا خاتمہ ایک دوسرے کے مسائل کو سمجھ کر اور ایک دوسرے کے لیے سیاسی سپیس پیدا کرنا اور ان کی اہمیت کو قبول کرنا ہوتا ہے۔
اس وقت قومی مفاہمت کی ہمیں لانگ ٹرم ، مڈٹرم اور شارٹ ٹرم پالیسی درکار ہے ۔ لیکن سب سے پہلے شارٹ ٹرم پالیسی یا حکمت عملی کو بنیاد بنانا ہوگا ۔ لیکن اس کی ایک صورت یہ ہی ہوسکتی ہے کہ ہمیں اس بنیادی نقطہ کو تسلیم کرنا ہے کہ ہم آئینی اور جمہوری فریم ورک میں ہی آگے کی طرف بڑھنا چاہتے ہیں ۔ شارٹ ٹرم میں ہماری چار مختلف ترجیحات ہونی چاہیے۔
اول منصفانہ اور شفاف انتخابات سمیت پرامن سیاسی سطح پر انتقال اقتدار اور انتخابات کی حیثیت کو غیر متنازعہ بنانا ، دوئم ساری سیاسی جماعتوں کی اہمیت کو تسلیم کرکے ان کی آزادانہ بنیادوں پر انتخابی عمل میں شرکت کو یقینی بنانا اور سب کے لیول پلینگ فیلڈ کو یقینی بنانا، سوئم انتخابات اور سیاست کے ایک فریم ورک پر سیاسی جماعتوں کا اتفاق رائے اور معیشت کے معاملات پر میثاق کی بنیاد پر باہمی کوششوں کے ساتھ آگے بڑھنا، چہارم سیاسی قیدیوں کے ساتھ سیاسی سلوک اور جو بھی اس وقت سیاسی قیدی ہیں ان کے ساتھ نرم پالیسی یا معافی کی پالیسی کی بنیاد پر رہائی اور سیاسی سرگرمیوں میں شرکت کو یقینی بنانے کے لیے ان سے تحریری ضمانتیں لینا کہ وہ مستقبل میں ریاست کی رٹ کو چیلنج نہیں کریں گے۔
اگر ہم نے مفاہمتی سیاست کے مقابلے میں جذباتیت اور مقابلہ بازی یا ایک دوسرے کو ختم کرنے کی سیاست سے گریز نہ کیا تو اس کا نتیجہ محض سیاست یا جمہوریت کے نقصان کی بنیاد پر نہیںہوگا بلکہ یہ عمل ریاستی بحران کو بھی کمزور کرنے اور ہمیں سیاسی تنہائی کی طرف دھکیلے گا جو قومی مفاد کے حق میں نہیں۔
ہمارا بحران معمولی نوعیت کا نہیں بلکہ سیاسی ، آئینی ، قانونی ، جمہوری اور معاشی سمیت ریاستی و ادارہ جاتی نوعیت سے جڑے ہوئے ہیں ۔ یہ مسائل آج کے پیدا کردہ نہیں بلکہ کئی دہائیوں پر مشتمل ہماری مختلف سوچ اور حکمت عملیوں کا نتیجہ ہے ۔موجودہ حالات میں بھی ہم ایک ٹکراؤ کے ماحول میں کھڑے ہیں۔
ایک دوسرے کو قبول نہ کرنے کی روش نے ہمیں آگے بڑھنے کے بجائے بہت پیچھے کی طرف دھکیل دیا ہے ۔ سیاسی اختلافات کا سیاسی دشمنی میں تبدیل ہونا اور مفاہمت کے مقابلے میں انتقام کی سیاست یا سیاسی سطح کی مخالفت میں ایک دوسرے کے دروازے بند کرنے کے عمل نے سیاسی عمل کو کمزور کردیا ہے۔
مسئلہ یہ ہے کہ ہم جب بھی حالات کا تجزیہ کرتے ہیں یا حالات کا ماتم کیاجاتا ہے تو ہم مفاہمت کی سیاست پر زور دیتے ہیں اورکہا جاتا ہے کہ مسائل کا حل مفاہمت کی سیاست سے جڑا ہوا ہے ۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مفاہمت کی سیاست کی اہمیت کو تسلیم کرنا مگر اس پر عمل نہ کرنا ایک سنگین مسئلہ ہے ۔اسی طرح ہم نے مفاہمت کی سیاست کو محض اقتدار کی سیاست یا سیاسی جوڑ توڑ یا ذاتی مفادات کی سیاست کی حد تک محدود کردیا ہے۔
ہماری سیاست میں بڑے سیاسی کردار کی اہمیت کی قبولیت بھی جھوٹ، منافقت، جوڑ توڑ ، سیاسی چالاکیاں یا وعدہ خلافی اور شعبدہ بازی یا اسٹیبلیشمنٹ سے بہتر تعلقات کی صورت میں ہوتی ہے۔ قومی مفاہمت کی سیاست میں آئین کی بالادستی ، قانون کی فوقیت، سیاست اور جمہوری اصول و اخلاقیات اور عوامی مفادات کی اہمیت ایک بڑے '' سیاسی ہتھیار'' کے طور پر استعمال ہوتی ہے ۔ یہ ہی وجہ ہے کہ یہاں مفاہمت کی سیاست میں اپنے اصل مقاصد کو حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے۔
آج کا پاکستان جو بڑے ریاستی بحران سے گزر رہا ہے اس میں سیاسی و جمہوری معاملات ، ریاستی اداروں کے درمیان ٹکراؤ، معاشی مسائل یا گورننس یا حکمرانی سے جڑے معاملات، سیکیورٹی یا دہشت گردی بالخصوص لوگوں کا ریاستی ، حکومتی اور ادارہ جاتی نظام پر بڑھتا ہوا عدم اعتمادکا واحد حل مفاہمت کی سیاست ہے۔ مفاہمت بھی جو حقیقی طور پر قدم کو آگے بڑھائے اور اس میں سیاسی اصولوں کی بنیاد ہو اور اسے ہی بالادستی ہو۔
مفاہمت کے نام پر اگر تمام فریق اپنی اپنی بالادستی کی جنگ لڑیں گے تو مسائل حل نہیں بلکہ اور زیادہ بگاڑ کا شکار ہونگے ۔ بالادستی انفرادی سطح کے لوگوں یا مخصوص گروپوں کی نہیں بلکہ آئین و قانون اور جموری اصولوں کو ہی ملنی چاہیے ۔ہم نے مقابلہ بازی ، محاذ آرائی ، ٹکراؤ، نفرت، تشدد ، تعصب اور غصہ یا بدلہ لینے کی سیاست اور فیصلوں کے نتائج دیکھ لیے ہیں اور اس کے نتیجہ میں پاکستان مضبوط نہیں بلکہ کمزور ہوا ہے۔
پاکستان میں اداروں یا سیاسی قوتوں کے ٹکراؤ کے معاملات سنگین نوعیت کے ہیں ۔ ہر بار بحران ان ہی مفاداتی جنگ کی بنیاد پر سامنے آتا ہے ۔ یہ ہی عمل سیاسی نظام کے تسلسل میں رکاوٹ ہے اور ہر بار ٹکراؤ یا اپنے اپنے آئینی دائرہ کار سے باہر نکل کر کھیلنے کی خواہش یا دوسرے فریقوں کے دائرہ کار میں مداخلت کا کھیل جمہوری اور قانونی نظام کو کمزور کرنے کا سبب بن رہا ہے۔
مفاہمت سے مراد یہ ہے کہ ہم ہی مل کر کوئی ایسا فریم ورک تیار کرلیں جس میں فریق ایک دوسرے کے مینڈیٹ اور دائرہ کارکا احترام کریں گے ۔جب ہم سب مل کر یہ نقطہ اٹھا رہے ہیں کہ ہمیں '' معاشی بنیادوں پر '' اپنے سیاسی اور علاقائی یا عالمی تعلقات کو استوار کرنا ہے اور ہر اس عمل کی نفی کرنا ہے جو ہمیں معاشی بنیادوں پر کمزور کرے تو اس سے مراد یہ ہی بنتی ہے کہ ہماری داخلی اور خارجی پالیسی کا بنیادی نقطہ معیشت کے نظام کی مضبوطی سے ہی جڑا ہوا ہوگا۔ لیکن سیاسی مہم جوئی اور سیاسی ایڈونچرز کا جاری کھیل پاکستان سیاست ، جمہوریت ، سیکیورٹی اور معیشت سب کے لیے ایک وبال جان بنا ہوا ہے جس سے ہمیں ہر صورت جان چھڑانی ہے۔
سیاسی جماعتیں اچھی ہیں یا بری ان کو ایک سیاسی عمل کے ساتھ ہی آگے بڑھنے دیا جائے۔ سیاسی جماعتوں کی تشکیل ، ٹوٹ پھوٹ یا ان میں جو بھی داخلی انتشار یا کمزوریاں ہیں ان کو ان کے حال پر چھوڑنا ہوگا۔سیاسی اختلافات یا سیاسی دشمنی کے کھیل ہمارے مفاد میں کسی بھی صورت میں نہیں اور یہ سمجھنا ہم سیاسی قیادت کو ختم کرسکتے یا ان کو دیوار سے لگاسکتے ہیں اس کھیل سے باہر نکلنا ہوگا ۔ سیاسی قیادتوں کو عملی طور پر سیاسی عمل کے ساتھ ہی غیر اہم کیا جاسکتا ہے۔اس وقت خان صاحب ہوں ، نواز شریف ہوں ، آصف زرداری ، مولانا فضل الرحمن ہوں سب کے درمیان سیاسی کشیدگی اور تناؤ ختم ہونا چاہیے۔
یہ تصور غلط ہے کہ ہم سیاست اور جمہوریت کو پس پشت ڈال کر معیشت کا علاج تلاش کرسکتے ہیں اور اس طرح کے جو بھی تجربے ہونگے وہ کارگر نہیں ہونگے، ماضی کا سبق یہ ہی بتاتا ہے جس سے ہمیں سبق سیکھنا چاہیے۔ جس وقت مفاہمت میں ایک بڑا ڈیڈ لاک ہو تو اس کی وجہ ایشوز سے زیاد ہ فریقین کے ذاتی مسائل ہوتے ہیں اور وہ چاہتا ہے کہ اس کی ہمیشہ بالادستی قائم رہے ۔ مسائل میں ڈیڈ لاک کا خاتمہ ایک دوسرے کے مسائل کو سمجھ کر اور ایک دوسرے کے لیے سیاسی سپیس پیدا کرنا اور ان کی اہمیت کو قبول کرنا ہوتا ہے۔
اس وقت قومی مفاہمت کی ہمیں لانگ ٹرم ، مڈٹرم اور شارٹ ٹرم پالیسی درکار ہے ۔ لیکن سب سے پہلے شارٹ ٹرم پالیسی یا حکمت عملی کو بنیاد بنانا ہوگا ۔ لیکن اس کی ایک صورت یہ ہی ہوسکتی ہے کہ ہمیں اس بنیادی نقطہ کو تسلیم کرنا ہے کہ ہم آئینی اور جمہوری فریم ورک میں ہی آگے کی طرف بڑھنا چاہتے ہیں ۔ شارٹ ٹرم میں ہماری چار مختلف ترجیحات ہونی چاہیے۔
اول منصفانہ اور شفاف انتخابات سمیت پرامن سیاسی سطح پر انتقال اقتدار اور انتخابات کی حیثیت کو غیر متنازعہ بنانا ، دوئم ساری سیاسی جماعتوں کی اہمیت کو تسلیم کرکے ان کی آزادانہ بنیادوں پر انتخابی عمل میں شرکت کو یقینی بنانا اور سب کے لیول پلینگ فیلڈ کو یقینی بنانا، سوئم انتخابات اور سیاست کے ایک فریم ورک پر سیاسی جماعتوں کا اتفاق رائے اور معیشت کے معاملات پر میثاق کی بنیاد پر باہمی کوششوں کے ساتھ آگے بڑھنا، چہارم سیاسی قیدیوں کے ساتھ سیاسی سلوک اور جو بھی اس وقت سیاسی قیدی ہیں ان کے ساتھ نرم پالیسی یا معافی کی پالیسی کی بنیاد پر رہائی اور سیاسی سرگرمیوں میں شرکت کو یقینی بنانے کے لیے ان سے تحریری ضمانتیں لینا کہ وہ مستقبل میں ریاست کی رٹ کو چیلنج نہیں کریں گے۔
اگر ہم نے مفاہمتی سیاست کے مقابلے میں جذباتیت اور مقابلہ بازی یا ایک دوسرے کو ختم کرنے کی سیاست سے گریز نہ کیا تو اس کا نتیجہ محض سیاست یا جمہوریت کے نقصان کی بنیاد پر نہیںہوگا بلکہ یہ عمل ریاستی بحران کو بھی کمزور کرنے اور ہمیں سیاسی تنہائی کی طرف دھکیلے گا جو قومی مفاد کے حق میں نہیں۔