یہ 21 ویں صدی کے حکمران ہیں  

حکمرانوں نے ملک کو لوٹ لوٹ کر بیرون ملک جائیدادیں بنائیں جب کہ 1858 میں اس کا تصور نہیں تھا

m_saeedarain@hotmail.com

ہندوستان کے آخری شہنشاہ بہادر شاہ ظفر کا رنگون میں بڑی کسمپرسی میں انتقال ہوا۔ بہادر شاہ ظفر کے ساتھ 1858 میں جو ہوا، اس کی وجوہات بھی تھیں، ہندوستان کی جو حالت اس وقت تھی، وہ اکیسویں صدی کے پاکستان میں کوئی خاص مختلف نہیں۔

1999 میں جنرل پرویز مشرف نے دو تہائی اکثریت سے بننے والے وزیر اعظم نواز شریف کو اقتدار سے ہٹایا، مگر منتخب وزیر اعظم کو ایک جھوٹے طیارہ اغوا کیس میں عمر قید کی سزا دلانے کے بعد ان کے خاندان سمیت ایک معاہدے کے تحت سعودی عرب جلا وطن کر دیا۔ یہ جلاوطنی نہ ہوتی تو نواز شریف کا حشر سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو جیسا ہونے کا واضح امکان تھا۔ اس جلاوطنی نے نہ صرف جان بچائی بلکہ وہ تیسری بار وزیر اعظم بھی بنے۔

بھٹو کو جنرل ضیا دور میں جو پھانسی ہوئی، اس سے بھٹو صاحب ڈیل کر کے بچ سکتے تھے مگر ان کی ضد برقرار رہی۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں دو بار وزیر اعظم رہنے والی بے نظیر بھٹو نے بھی اپنے باپ کی طرح ضد کی اور معاہدے کے برعکس وہ بھی اکتوبر 2007 میں جنرل پرویز مشرف کے منع کرنے کے باوجود وطن واپس آئیں اور سوا دو ماہ بعد ہی راولپنڈی کے جلسے کے بعد واپس جاتے ہوئے شہید کر دی گئی تھیں۔

بھٹو کو پھانسی، نواز شریف کی جلا وطنی اور بے نظیر بھٹو کی شہادت فوجی صدور کے دور میں ہوئی جب کہ 1986 میں بے نظیر بھٹو جونیجو حکومت میں شاندار استقبال کرا کر آئی تھیں اور دو سال بعد ہی وزیر اعظم بنی تھیں جب کہ نواز شریف کے لیے 2008 میں واپسی کی راہ جنرل پرویز مشرف نے مجبوری میں ہموار کی تھی اور بعد میں وہ صدارت چھوڑ کر خود جلاوطن ہوگئے تھے اور انھی کے دور میں بے نظیر بھٹو اور آصف زرداری بھی طویل قید کاٹ کر جلاوطن ہوئے تھے اور جنرل پرویز کی جگہ آصف زرداری صدر مملکت اور 2013 میں نواز شریف بھی تیسری بار وزیر اعظم بنے اور اب چار سال بعد وہ بھی اقتدار کے لیے 21 اکتوبر کو خود پاکستان آ رہے ہیں۔


ڈھائی سو سال قبل انگریز دور میں آخری حکمران ہند کو جبری طور پر جلاوطن کیا گیا مگر بے کسی کی موت کے بعد رنگون میں دفن ہوئے مگر پاکستان میں ملک توڑنے کے ذمے دار جنرل یحییٰ اور ذوالفقار علی بھٹو یہیں دفن ہیں اور دو وزرائے اعظم کو جلاوطن کرنے والے جنرل پرویز مشرف کو بھی دبئی میں فوت ہونے کے بعد اپنے ملک ہی میں دفن ہونے کا موقعہ ملا۔ یہ موقع سابق صدر اسکندر مرزا کو جنرل ایوب دور میں نہیں ملا تھا اور وہ بھی بہادر شاہ ظفر کی طرح دیار غیر میں دفن ہیں اور پاکستان کے تمام حکمران اپنے ملک ہی میں دفن ہیں،کیونکہ یہ 1858 کے انگریز کا دور نہیں، بیسویں صدی کے پاکستانی حکمرانوں کا دور ہے اور اسکندر مرزا کی قسمت میں اپنے ملک کی مٹی میں دفن ہونا نہیں تھا۔

1985 کے جنرل ضیا سے 2008تک جنرل پرویز کے دور تک فوت ہونے والے تمام پاکستانی حکمران دفن ہیں اور کسی نے بھی بہادر شاہ ظفر جیسی بے کسی کی موت دیکھی نہ ہی وہ جلاوطنی میں دنیا سے رخصت ہوئے۔ تمام فوت ہونے والے پاکستانی حکمرانوں کو وطن کی مٹی نصیب ہوئی اور جو بھی حکمران جلاوطن ہوئے انھوں نے دبئی، سعودی عرب اور لندن میں جلاوطنی کی زندگی شاندار طور پر وہاں بنائی گئی اپنی قیمتی جائیدادوں میں گزاری۔

دبئی ہو یا لندن بے نظیر بھٹو،آصف زرداری، نواز شریف فیملی کی اپنی مہنگی جائیدادیں ہیں جہاں انھیں بہترین رہائشی سہولیات میسر ہیں مگر ان پر الزامات ہیں کہ انھوں نے اپنے دور حکمرانی میں اپنی مبینہ کرپشن سے جائیدادیں بنائی ہیں۔ نواز شریف پر لندن میں ایون فیلڈ بنانے پر اب بھی کیس چل رہا ہے مگر اس کی ملکیت کا ان کے خلاف ثبوت نہیں اور بے نظیر بھٹو کے سرے محل کا بھی اب تذکرہ نہیں ہوتا۔

یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ ملک میں حکمران رہنے والے امیروں کی ملک سے باہر اربوں کی جائیدادیں ہیں جو ملک میں اہم عہدوں پر تعینات رہے جن میں ملک کے ہر محکمے کے اعلیٰ ترین افسران شامل ہیں جنھوں نے غیر ملکی شہریت بھی لے رکھی ہے۔ شریف اور زرداری خاندان ملک سے باہر بھی رہتے ہیں اور حکمرانی کرنے پاکستان آتے جاتے ہیں۔پاکستان میں اکیسویں صدی کے حکمرانوں کے باعث وہی حالات ہیں جو 1858 میں ہندوستان میں بہادر شاہ ظفر کی حکومت میں رہے۔

عوام کے مینڈیٹ کا کسی کو احساس نہیں۔ حکمرانوں نے ملک کو لوٹ لوٹ کر بیرون ملک جائیدادیں بنائیں جب کہ 1858 میں اس کا تصور نہیں تھا۔ آج برما کے شہروں میں بہادر شاہ ظفر کی نسلیں بھیک مانگتی پھرتی ہیں جب کہ اکیسویں صدی کے پاکستانی حکمرانوں کی اولادیں شاہانہ زندگی گزار رہے ہیں کیونکہ اب اکیسویں صدی ہے۔
Load Next Story