اسرائیلی سفاکیت عالمی برادری خاموش
حقیقت یہ ہے کہ فلسطین میں انسانی حقوق کی بد ترین خلاف ورزیاں جاری ہیں
اسرائیل کی غزہ پر بمباری جاری ہے، غیر ملکی میڈیا کے مطابق اب تک شہید فلسطینیوں کی تعداد 704 ہوگئی ہے جب کہ 3800 زخمی ہیں اور اس دوران ایمبولینسز اور طبی عملہ بھی اسرائیل کے نشانے پر ہے۔
اقوام متحدہ کے ادارے کا کہنا ہے کہ 1 لاکھ 87 ہزار سے زائد فلسطینی گھر چھوڑنے پر مجبور ہوکر اسکولوں میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔
غزہ کے مکمل محاصرے پر اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتوینو گوتریس نے کہا ہے کہ غزہ میں بے یارو مددگار فلسطینیوں کے لیے انسانی امداد نہ روکی جائے، عالمی برادری بھی فوری انسانی امداد کے لیے آگے آئے۔
آج کی نام نہاد مہذب دنیا میں فی الحقیقت جنگل کا قانون رائج ہے، حقیقت یہ ہے کہ فلسطین میں انسانی حقوق کی بد ترین خلاف ورزیاں جاری ہیں، غزہ میں اسرائیل کی فضائی اور زمینی کارروائیوں نے سیکڑوں فلسطینیوں کو خون میں نہلا دیا ہے۔
یوں محسوس ہوتا ہے کہ اسرائیل غزہ کے مظلوم فلسطینی مسلمانوں کی آزادی کی اور تشخص کو مکمل طور پر پامال کر دینے پر تل گیا ہے اور اسے حسب سابق مغربی قوتوں کی پشت پناہی حاصل ہے۔
ان فلسطینی عوام کا واحد قصور یہ ہے کہ وہ فلسطین کے باشندے ہیں۔ اپنے اس حق سے دستبردار ہونے کے لیے کسی صورت تیار نہیں ہیں اور اس کے لیے مسلسل قربانیاں دیتے چلے جا رہے ہیں۔
امریکا جس طرح اسرائیل کی ہر من مانی میں اس کے ساتھ کھڑا نظر آتا ہے، اسی طرح اسرائیل کی بے جا ناز برداریاں بھی اس کی مستقل حکمت عملی بن چکی ہیں۔ فلسطینوں پر اسرائیلی مظالم جاری ہیں، جوکہ مغربی دنیا کی جانب سے انسانیت، عدل و انصاف اور تہذیب و شائستگی کے دعوؤں کے کھوکھلے پن کو پوری طرح کھول کر رکھ دیتے ہیں۔
اسرائیل کی پوری کوشش ہے کہ فلسطینیوں پر ہونے والے مظالم کے خلاف نہ کوئی آواز اٹھائے اور نہ ہی فلسطینیوں پر ڈھائے جانے والے ظلم کی نشاندہی کرتے ہوئے ان کی حمایت کی جائے۔ فلسطینی مائیں، بہنیں، بیٹیاں، نوجوان ، مرد و خواتین، معصوم روتے بلکتے بچے اپنی مظلومیت کی داستان غم سنا رہے ہیں۔
ان کی آہیں اور کراہیں فضاء میں گونج رہی ہیں، بظاہر کوئی انصاف پسند ایسا نہیں ہے، جو ان کی روداد الم سنے اور ان کی داد رسی کرے۔ انسانیت کی دہائی دینے والے آخرکہاں ہیں؟ دہشت گردی کا خاتمہ اور امن و امان کے قیام کی رٹ لگانے والے آخر کیوں روپوش ہیں؟ اس کے باوجود فلسطینی مسلمانوں نے ہمت نہیں ہاری، مادی وسائل کی قلت کے باوجود وہ آج تک اسرائیلی طاقت سے نبرد آزما ہیں۔
اب سے ایک صدی قبل برطانوی وزیر خارجہ بالفور نے فلسطین کو یہودیوں کا قومی وطن تسلیم کرتے ہوئے انھیں دنیا بھر سے وہاں لا کر بسانے اور ان کی ریاست قائم کرانے کا جو معاہدہ کیا تھا، برطانیہ اور دیگر مغربی ممالک نے ہر قسم کی انسانی، اخلاقی اور سیاسی حدود کو پاؤں تلے روندتے ہوئے اسے نہ صرف پورا کیا ہے بلکہ وہ اس کی مکمل پاسداری کر رہے ہیں۔
حتیٰ کہ اقوام متحدہ نے فلسطین کو تقسیم کر کے فلسطین کو الگ اور آزاد وطن دینے کا جو وعدہ کر رکھا ہے، اقوام متحدہ کے اصولوں اور بین الاقوامی معاہدوں کی دنیا بھر میں دہائی دینے والے مغربی ممالک کو اس کا بھی کوئی پاس نہیں ہے۔
سوال یہ ہے کہ دنیا پر اپنی چودھراہٹ کا ڈھنڈورا پیٹنے والے مغربی ممالک فلسطینیوں اور عرب ممالک کے اس جائز حق کی بحالی کے لیے سنجیدگی کیوں اختیار نہیں کر رہے اور دنیا بھر میں پھیلے ہوئے لاکھوں فلسطینی مہاجرین اور فلسطین کے اندر اسرائیل کی بار بار جارحیت کا نشانہ بننے والے مظلوم فلسطینی انھیں دکھائی کیوں نہیں دے رہے؟
اس سے زیادہ ستم ظریفی کا منظر یہ ہے کہ عالم اسلام اور عرب ممالک میں بھی اس حوالے سے کوئی سنجیدگی دکھائی نہیں دے رہی۔ یوں لگتا ہے جیسے عالم عرب اور مسلم امہ نے بھی فلسطینیوں کو حالات بلکہ اسرائیل کے رحم وکرم پر چھوڑ دینے کا فیصلہ کر لیا ہے۔
مسلم حکومتوں کو اپنی داخلی حدود میں شدت پسندی اور بغاوت تو دکھائی دیتی ہے اور اسے کچلنے کے لیے وہ اپنی پوری قوت صرف کر رہی ہیں، لیکن اس شدت پسندی اور بغاوت کا باعث بننے والی بین الاقوامی دہشت گردی اور اسرائیلی جارحیت ان کو دکھائی نہیں دیتی اور انھوں نے کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔
ارض فلسطین پر صیہونیوں کا غاصبانہ قبضہ ہر آنے والے دن کے ساتھ بڑھتا جا رہا ہے، صیہونی حکام بیت المقدس پر اپنا تسلط جمانے اور مذہب کے نام پر فلسطین کو تقسیم کرنے کی سازشوں میں لگے ہوئے ہیں، ظاہر ہے جن کا اسلام سے کوئی رشتہ ناتا نہیں ان کا بیت المقدس پر کوئی حق نہیں ہے۔ غاصب یہودی فلسطینیوں کے قتل و خون سے اپنے ہاتھ رنگین کر رہے ہیں، ان کے اسباب معیشت کو تباہ و برباد کرنا، ان کا مشغلہ بن گیا ہے۔
فلسطین کے علاقوں پر مسلسل قبضہ جماتے ہوئے یہودیوں کو بسایا جارہا ہے، نہتے فلسطینی مظلوموں پر فضائی حملے اسرائیل کی جارحیت کا زندہ ثبوت ہیں، کئی فلسطینی ظلم قیدوبند کی صعوبتیں جھیل رہے ہیں، صیہونی حکام ان کو غیر انسانی ظالمانہ تشدد کا نشانہ بنا رہے ہیں۔
مقبوضہ عرب علاقوں میں اسرائیلی بستیوں کے قیام کے لیے فلسطینیوں کے مکانات مسمار کیے جارہے ہیں۔ اسرائیل کو امریکا کی مکمل سرپرستی حاصل ہے، اہم امر یہ ہے کہ فلسطینیوں کو اپنے خلاف ہونے والی دہشت گردی پر احتجاج کا حق بھی حاصل نہیں۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد اقوام متحدہ نے فلسطین کو تقسیم کرکے فلسطین اور اسرائیل کے نام سے دو آزاد ریاستیں قائم کی تھیں اور ان کی سرحدوں کا تعین بھی کر دیا تھا۔ اگرچہ اس حوالے سے مسلم ممالک میں دو الگ الگ موقف پائے جاتے ہیں۔
سعودی عرب اور پاکستان سمیت بہت سے ممالک نے اس تقسیم کو تسلیم نہیں کیا اور وہ اسرائیل کو ایک جائز ریاست کے طور پر قبول نہیں کر رہے، مگر مصر، اردن اور بعض دیگر مسلم ممالک نے اس تقسیم کو تسلیم کر رکھا ہے اور اسرائیل کو ایک قانونی ریاست کا درجہ دیا ہوا ہے، بلکہ خود فلسطینیوں میں الفتح اور حماس کے موقف اس سلسلہ میں الگ الگ ہیں، لیکن فلسطین کی تقسیم کو بالفرض تسلیم کرتے ہوئے بھی اقوام متحدہ کے فیصلے کے مطابق جس آزاد فلسطین ریاست کو قائم ہونا چاہیے تھا۔
اس کا دنیا کے نقشے پر کوئی وجود نہیں ہے اور میونسپلٹی طرز کی فلسطینی اتھارٹی قائم کر کے فلسطینیوں کو ان کی اپنی حکومت کے لالی پاپ پر بہلانے کی فریب کاری تسلسل کے ساتھ جاری ہے، بلکہ اسرائیل نے اقوام متحدہ کی مقرر کردہ بین لااقوامی سرحدوں کو پامال کرکے جن علاقوں پر گزشتہ نصف صدی سے قبضہ کر رکھا ہے، ان میں بیت المقدس بھی شامل ہے۔ انھیں اسرائیل سے واگزار کرانے میں کوئی بھی سنجیدہ نہیں ہے۔
تقسیم فلسطین کے اس بین الاقوامی فیصلے کے دو بنیادی تقاضے ہیں۔ ایک یہ کہ فلسطینیوں کی آزاد اور خود مختار ریاست تسلیم کی جائے جو کسی بھی قسم کی بیرونی مداخلت اور نگرانی سے پاک ہو۔ دوسرا یہ کہ اقوام متحدہ کی مقرر کردہ سرحدوں کو پامال کرکے اسرائیل نے جن علاقوں پر قبضہ کر رکھا ہے، انھیں اس سے واگزار کرایا جائے۔
عراق نے بین الاقوامی سرحدوں کی خلاف ورزی کر کے کویت پر قبضہ کیا تھا تو ہر طرف ہاہا کار مچ گئی تھی اور امریکا نے اقوام متحدہ کی چھتری تلے فوجی کارروائی کرکے کویت کی خود مختاری کو بین الاقوامی سرحدوں کے تقدس کے نام پر بحال کرا دیا تھا، لیکن اسرائیل نے دن دہاڑے بیت المقدس پر ناجائز قبضہ کیا اور مصر، شام اور اردن کی مسلمہ سرحدوں کو روند ڈالا۔
حالانکہ اگر مسلم ممالک متفق ہو کر سلگتے ہوئے مسائل پر جرأت مندانہ موقف اور کردار اختیار کرنے کا حوصلہ کر لیں تو یہ داخلی شدت پسندی اور بغاوت خود ان مسلم ممالک کی اپنی قوت کا رخ بھی اختیار کر سکتی ہے۔
فلسطین کی مقدس سرزمین میں خون ریزی کی مستقل روک تھام کے لیے دنیا کے ہر مذہب سے تعلق رکھنے والوں کو آگے بڑھ کر اپنا کردار ادا کرنا چاہیے، آج بھی فلسطین تنازع کی کنجی اقوام متحدہ کے پاس ہے جو اپنی منظور کردہ قراردادوں کا عملی نفاذ کرانے کے لیے دو ریاستی حل کے تحت آزاد فلسطین قائم کرے، دونوں خود مختار ریاستوں کو ایک دوسرے کی عالمی تسلیم شدہ سرحدوں کا احترام کرنے کا پابند کیا جائے۔
آج دنیا کے ہر امن پسند انسان کا فریضہ ہے کہ وہ مظلوم فلسطینیوں کا ساتھ دے، طاقت کے نشے میں چُور اسرائیل کو باورکرایا جائے کہ وہ بالفور اعلامیہ کے تحت غیر یہودی مقامی آبادی کے حقوق کا تحفظ کرتے ہوئے 1967 کی سرحدوں پر واپس چلا جائے۔
خود اسرائیلی شہریوں کو سمجھنا چاہیے کہ حالیہ غزہ تصادم نے اخلاقی سطح پر ان عالمی حلقوں کو کمزور کیا ہے جو اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات میں نارملائزیشن کے خواہاں ہیں۔ عالمی برادری اسرائیل کی سفاکیت کے خلاف عملی اقدامات اٹھائے فلسطینیوں کا قتل عام شرمناک عمل ہے، ان سنگین واقعات پر خاموشی افسوسناک ہے۔
اقوام متحدہ کے ادارے کا کہنا ہے کہ 1 لاکھ 87 ہزار سے زائد فلسطینی گھر چھوڑنے پر مجبور ہوکر اسکولوں میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔
غزہ کے مکمل محاصرے پر اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتوینو گوتریس نے کہا ہے کہ غزہ میں بے یارو مددگار فلسطینیوں کے لیے انسانی امداد نہ روکی جائے، عالمی برادری بھی فوری انسانی امداد کے لیے آگے آئے۔
آج کی نام نہاد مہذب دنیا میں فی الحقیقت جنگل کا قانون رائج ہے، حقیقت یہ ہے کہ فلسطین میں انسانی حقوق کی بد ترین خلاف ورزیاں جاری ہیں، غزہ میں اسرائیل کی فضائی اور زمینی کارروائیوں نے سیکڑوں فلسطینیوں کو خون میں نہلا دیا ہے۔
یوں محسوس ہوتا ہے کہ اسرائیل غزہ کے مظلوم فلسطینی مسلمانوں کی آزادی کی اور تشخص کو مکمل طور پر پامال کر دینے پر تل گیا ہے اور اسے حسب سابق مغربی قوتوں کی پشت پناہی حاصل ہے۔
ان فلسطینی عوام کا واحد قصور یہ ہے کہ وہ فلسطین کے باشندے ہیں۔ اپنے اس حق سے دستبردار ہونے کے لیے کسی صورت تیار نہیں ہیں اور اس کے لیے مسلسل قربانیاں دیتے چلے جا رہے ہیں۔
امریکا جس طرح اسرائیل کی ہر من مانی میں اس کے ساتھ کھڑا نظر آتا ہے، اسی طرح اسرائیل کی بے جا ناز برداریاں بھی اس کی مستقل حکمت عملی بن چکی ہیں۔ فلسطینوں پر اسرائیلی مظالم جاری ہیں، جوکہ مغربی دنیا کی جانب سے انسانیت، عدل و انصاف اور تہذیب و شائستگی کے دعوؤں کے کھوکھلے پن کو پوری طرح کھول کر رکھ دیتے ہیں۔
اسرائیل کی پوری کوشش ہے کہ فلسطینیوں پر ہونے والے مظالم کے خلاف نہ کوئی آواز اٹھائے اور نہ ہی فلسطینیوں پر ڈھائے جانے والے ظلم کی نشاندہی کرتے ہوئے ان کی حمایت کی جائے۔ فلسطینی مائیں، بہنیں، بیٹیاں، نوجوان ، مرد و خواتین، معصوم روتے بلکتے بچے اپنی مظلومیت کی داستان غم سنا رہے ہیں۔
ان کی آہیں اور کراہیں فضاء میں گونج رہی ہیں، بظاہر کوئی انصاف پسند ایسا نہیں ہے، جو ان کی روداد الم سنے اور ان کی داد رسی کرے۔ انسانیت کی دہائی دینے والے آخرکہاں ہیں؟ دہشت گردی کا خاتمہ اور امن و امان کے قیام کی رٹ لگانے والے آخر کیوں روپوش ہیں؟ اس کے باوجود فلسطینی مسلمانوں نے ہمت نہیں ہاری، مادی وسائل کی قلت کے باوجود وہ آج تک اسرائیلی طاقت سے نبرد آزما ہیں۔
اب سے ایک صدی قبل برطانوی وزیر خارجہ بالفور نے فلسطین کو یہودیوں کا قومی وطن تسلیم کرتے ہوئے انھیں دنیا بھر سے وہاں لا کر بسانے اور ان کی ریاست قائم کرانے کا جو معاہدہ کیا تھا، برطانیہ اور دیگر مغربی ممالک نے ہر قسم کی انسانی، اخلاقی اور سیاسی حدود کو پاؤں تلے روندتے ہوئے اسے نہ صرف پورا کیا ہے بلکہ وہ اس کی مکمل پاسداری کر رہے ہیں۔
حتیٰ کہ اقوام متحدہ نے فلسطین کو تقسیم کر کے فلسطین کو الگ اور آزاد وطن دینے کا جو وعدہ کر رکھا ہے، اقوام متحدہ کے اصولوں اور بین الاقوامی معاہدوں کی دنیا بھر میں دہائی دینے والے مغربی ممالک کو اس کا بھی کوئی پاس نہیں ہے۔
سوال یہ ہے کہ دنیا پر اپنی چودھراہٹ کا ڈھنڈورا پیٹنے والے مغربی ممالک فلسطینیوں اور عرب ممالک کے اس جائز حق کی بحالی کے لیے سنجیدگی کیوں اختیار نہیں کر رہے اور دنیا بھر میں پھیلے ہوئے لاکھوں فلسطینی مہاجرین اور فلسطین کے اندر اسرائیل کی بار بار جارحیت کا نشانہ بننے والے مظلوم فلسطینی انھیں دکھائی کیوں نہیں دے رہے؟
اس سے زیادہ ستم ظریفی کا منظر یہ ہے کہ عالم اسلام اور عرب ممالک میں بھی اس حوالے سے کوئی سنجیدگی دکھائی نہیں دے رہی۔ یوں لگتا ہے جیسے عالم عرب اور مسلم امہ نے بھی فلسطینیوں کو حالات بلکہ اسرائیل کے رحم وکرم پر چھوڑ دینے کا فیصلہ کر لیا ہے۔
مسلم حکومتوں کو اپنی داخلی حدود میں شدت پسندی اور بغاوت تو دکھائی دیتی ہے اور اسے کچلنے کے لیے وہ اپنی پوری قوت صرف کر رہی ہیں، لیکن اس شدت پسندی اور بغاوت کا باعث بننے والی بین الاقوامی دہشت گردی اور اسرائیلی جارحیت ان کو دکھائی نہیں دیتی اور انھوں نے کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔
ارض فلسطین پر صیہونیوں کا غاصبانہ قبضہ ہر آنے والے دن کے ساتھ بڑھتا جا رہا ہے، صیہونی حکام بیت المقدس پر اپنا تسلط جمانے اور مذہب کے نام پر فلسطین کو تقسیم کرنے کی سازشوں میں لگے ہوئے ہیں، ظاہر ہے جن کا اسلام سے کوئی رشتہ ناتا نہیں ان کا بیت المقدس پر کوئی حق نہیں ہے۔ غاصب یہودی فلسطینیوں کے قتل و خون سے اپنے ہاتھ رنگین کر رہے ہیں، ان کے اسباب معیشت کو تباہ و برباد کرنا، ان کا مشغلہ بن گیا ہے۔
فلسطین کے علاقوں پر مسلسل قبضہ جماتے ہوئے یہودیوں کو بسایا جارہا ہے، نہتے فلسطینی مظلوموں پر فضائی حملے اسرائیل کی جارحیت کا زندہ ثبوت ہیں، کئی فلسطینی ظلم قیدوبند کی صعوبتیں جھیل رہے ہیں، صیہونی حکام ان کو غیر انسانی ظالمانہ تشدد کا نشانہ بنا رہے ہیں۔
مقبوضہ عرب علاقوں میں اسرائیلی بستیوں کے قیام کے لیے فلسطینیوں کے مکانات مسمار کیے جارہے ہیں۔ اسرائیل کو امریکا کی مکمل سرپرستی حاصل ہے، اہم امر یہ ہے کہ فلسطینیوں کو اپنے خلاف ہونے والی دہشت گردی پر احتجاج کا حق بھی حاصل نہیں۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد اقوام متحدہ نے فلسطین کو تقسیم کرکے فلسطین اور اسرائیل کے نام سے دو آزاد ریاستیں قائم کی تھیں اور ان کی سرحدوں کا تعین بھی کر دیا تھا۔ اگرچہ اس حوالے سے مسلم ممالک میں دو الگ الگ موقف پائے جاتے ہیں۔
سعودی عرب اور پاکستان سمیت بہت سے ممالک نے اس تقسیم کو تسلیم نہیں کیا اور وہ اسرائیل کو ایک جائز ریاست کے طور پر قبول نہیں کر رہے، مگر مصر، اردن اور بعض دیگر مسلم ممالک نے اس تقسیم کو تسلیم کر رکھا ہے اور اسرائیل کو ایک قانونی ریاست کا درجہ دیا ہوا ہے، بلکہ خود فلسطینیوں میں الفتح اور حماس کے موقف اس سلسلہ میں الگ الگ ہیں، لیکن فلسطین کی تقسیم کو بالفرض تسلیم کرتے ہوئے بھی اقوام متحدہ کے فیصلے کے مطابق جس آزاد فلسطین ریاست کو قائم ہونا چاہیے تھا۔
اس کا دنیا کے نقشے پر کوئی وجود نہیں ہے اور میونسپلٹی طرز کی فلسطینی اتھارٹی قائم کر کے فلسطینیوں کو ان کی اپنی حکومت کے لالی پاپ پر بہلانے کی فریب کاری تسلسل کے ساتھ جاری ہے، بلکہ اسرائیل نے اقوام متحدہ کی مقرر کردہ بین لااقوامی سرحدوں کو پامال کرکے جن علاقوں پر گزشتہ نصف صدی سے قبضہ کر رکھا ہے، ان میں بیت المقدس بھی شامل ہے۔ انھیں اسرائیل سے واگزار کرانے میں کوئی بھی سنجیدہ نہیں ہے۔
تقسیم فلسطین کے اس بین الاقوامی فیصلے کے دو بنیادی تقاضے ہیں۔ ایک یہ کہ فلسطینیوں کی آزاد اور خود مختار ریاست تسلیم کی جائے جو کسی بھی قسم کی بیرونی مداخلت اور نگرانی سے پاک ہو۔ دوسرا یہ کہ اقوام متحدہ کی مقرر کردہ سرحدوں کو پامال کرکے اسرائیل نے جن علاقوں پر قبضہ کر رکھا ہے، انھیں اس سے واگزار کرایا جائے۔
عراق نے بین الاقوامی سرحدوں کی خلاف ورزی کر کے کویت پر قبضہ کیا تھا تو ہر طرف ہاہا کار مچ گئی تھی اور امریکا نے اقوام متحدہ کی چھتری تلے فوجی کارروائی کرکے کویت کی خود مختاری کو بین الاقوامی سرحدوں کے تقدس کے نام پر بحال کرا دیا تھا، لیکن اسرائیل نے دن دہاڑے بیت المقدس پر ناجائز قبضہ کیا اور مصر، شام اور اردن کی مسلمہ سرحدوں کو روند ڈالا۔
حالانکہ اگر مسلم ممالک متفق ہو کر سلگتے ہوئے مسائل پر جرأت مندانہ موقف اور کردار اختیار کرنے کا حوصلہ کر لیں تو یہ داخلی شدت پسندی اور بغاوت خود ان مسلم ممالک کی اپنی قوت کا رخ بھی اختیار کر سکتی ہے۔
فلسطین کی مقدس سرزمین میں خون ریزی کی مستقل روک تھام کے لیے دنیا کے ہر مذہب سے تعلق رکھنے والوں کو آگے بڑھ کر اپنا کردار ادا کرنا چاہیے، آج بھی فلسطین تنازع کی کنجی اقوام متحدہ کے پاس ہے جو اپنی منظور کردہ قراردادوں کا عملی نفاذ کرانے کے لیے دو ریاستی حل کے تحت آزاد فلسطین قائم کرے، دونوں خود مختار ریاستوں کو ایک دوسرے کی عالمی تسلیم شدہ سرحدوں کا احترام کرنے کا پابند کیا جائے۔
آج دنیا کے ہر امن پسند انسان کا فریضہ ہے کہ وہ مظلوم فلسطینیوں کا ساتھ دے، طاقت کے نشے میں چُور اسرائیل کو باورکرایا جائے کہ وہ بالفور اعلامیہ کے تحت غیر یہودی مقامی آبادی کے حقوق کا تحفظ کرتے ہوئے 1967 کی سرحدوں پر واپس چلا جائے۔
خود اسرائیلی شہریوں کو سمجھنا چاہیے کہ حالیہ غزہ تصادم نے اخلاقی سطح پر ان عالمی حلقوں کو کمزور کیا ہے جو اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات میں نارملائزیشن کے خواہاں ہیں۔ عالمی برادری اسرائیل کی سفاکیت کے خلاف عملی اقدامات اٹھائے فلسطینیوں کا قتل عام شرمناک عمل ہے، ان سنگین واقعات پر خاموشی افسوسناک ہے۔