غیرمعیاری جنریٹرز آلودگی میں اضافے اور آنکھوں کے انفیکشن کا سبب بننے لگے
پرانے ماڈل کے جنریٹرز زہریلی گیس خارج کرتے ہیں جس کی مقدارحد سے بڑھنے پرموت بھی واقع ہوسکتی ہے، پروفیسرڈاکٹر ضیاالحق
بجلی کے تعطل کی صورت میں بازاروں اور شاپنگ سینٹرز میں استعمال ہونے والے غیرمعیاری جنریٹرز آلودگی میں اضافے کا سبب بن رہے ہیں، ان سے خارج ہونے والے دھویں سے خریدار اور ملازمین بھی متاثر ہوتے ہیں۔
بجلی کی لوڈ شیڈنگ کے دوران مارکیٹوں ، بازاروں اورشاپنگ سینٹرز میں بجلی کے متبادل کے طور پر جنریٹر استعمال کیے جاتے ہیں ، یہ بجلی کے حصول کا متبادل ذریعہ تو ہے لیکن ماہرین کے مطابق غیرمعیاری جنریٹر رمختلف اقسام کی آلودگی کا سبب بن رہے ہیں، جنریٹرزسے نکلنے والے دھویں اورشور کی وجہ سے خریداروں کے علاوہ مارکیٹوں اورپلازوں میں کام کرنے والے ملازمین بھی متاثرہوتے ہیں۔
26 سالہ ذین العابدین لاہورکی ہال روڈ مارکیٹ کی ایک موبائل فون شاپ پر سیلزمین کے طور پرکام کرتے ہیں تاہم گزشتہ کئی ہفتوں سے ان کی آنکھوں میں انفیکشن ہے۔
ذین العابدین نے بتایا کہ پہلے انہوں نے یہ سمجھا کہ ایسا موسم کی تبدیلی اورگرمی کی وجہ سے لیکن جب کافی دنوں تک آنکھوں میں جلن محسوس ہوتی رہی اورسرخی برقراررہی توانہوں نے آنکھوں کے ڈاکٹرسے معائنہ کروایا ۔
ڈاکٹر نے بتایا کہ زہریلے دھویں کی وجہ سے آنکھوں میں انفیکشن ہوگیا ہے۔ ڈاکٹر نے کچھ آئی ڈراپس دیئے اورساتھ ہدایت کی کہ دھویں سے دور رہوں اوراگرمجبوری ہوتو چشمہ استعمال کیا جائے۔
گلبرگ حفیظ سنٹر کی بیسمنٹ کی صورتحال بھی ایسی ہی ہے جہاں بجلی کی لوڈ شیڈنگ کے دوران اس قدر حبس اورگرمی ہوجاتی ہے کہ چند منٹ کے لیے کھڑے رہنا مشکل ہوجاتا ہے۔
اس ماحول میں جب جنریٹر استعمال کیا جاتا ہے تواس سے ماحول مزید خراب ہوجاتا ہے،اسی طرح کی صورت حال گلبرگ، شالامارلنک روڈ، شاہ عالم مارکیٹ اورشہرکے دیگرعلاقوں میں ہے۔
شہر کی وہ تمام مارکیٹیں، بازار اورپلازے جن کی بیسمنٹ جہاں بجلی کی لوڈشیڈنگ کے دوران جنریٹر استعمال کیے جاتے ہیں وہاں کام کرنے والے زیادہ ترملازمین کو ذین العابدین جیسی صورتحال کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بلکہ بعض دکانداروں نے بتایا کہ جنریٹر کے شور کی وجہ سے گاہک بھی متاثرہوتے ہیں اورشوربھی بہت زیادہ ہوتا ہے۔
پنجاب یونیورسٹی شعبہ ماحولیاتی سائنس کے سربراہ پروفیسرڈاکٹر ضیاالحق نے ایکسپریس ٹربیون کو بتایا کہ پرانے ماڈل کے ڈیزل پر چلنے والے جنریٹر بہت زیادہ کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج کرتے ہیں جبکہ ڈیزل اورپٹرول دونوں پر چلنے والے دونوں اقسام کے جرنیٹر کاربن مونوآکسائیڈ خارج کرتے ہیں جو انتہائی زہریلی گیس ہے۔
اس گیس کی کوئی بو اور رنگ نہیں ہوتا جس کی وجہ سے اگر کسی جگہ پراس کی مقدار ایک حد سے بڑھ جائے تو وہاں موجود جانداروں کی فوری موت واقع ہوسکتی ہے۔
ڈاکٹرضیاالحق نے کہا کہ نئے جنریٹرز میں ایسے پرزے استعمال کیے جارہے ہیں جو فیول کو اچھے طریقے سے توانائی میں تبدیل کرتے ہیں اس وجہ سے ان سے زیادہ آلودگی پیدا نہیں ہوتی۔
دوسری طرف جوڈیشل انوائرمنٹ کمیشن کے فوکل پرسن نے بتایا کہ اس وقت پنجاب میں جتنے بھی جنریٹر استعمال ہورہے ہیں خواہ وہ گھروں میں ہوں یا کسی کمرشل مارکیٹ، پلازہ اورشاپنگ سنٹر میں ہوں، انوائرمنٹ پروٹیکشن ایجنسی (ای پی اے) پنجاب کوشش کررہا ہے کہ ان کو ریگولیٹ کیا جاسکے۔
اس حوالے سے ایک سروے بھی کیا جارہا ہے تاکہ زیراستعمال جنریٹرز کا ڈیٹا بیس بنایا جاسکے اوراس بات کو یقینی بنایا جائے کہ جو ای پی اے کے ماحولیات کے حوالے سے معیار ہیں اسی کے مطابق جرنیٹرز استعمال کرنے کی اجازت دی جائے۔
فوکل پرسن نے مزید بتایا کہ اس میں جنریٹر کی آواز، دھواں، تھرتھراہٹ کو چیک کیا جائے کیونکہ عموماً لوگ انہی چیزوں سے متاثرہوتے ہیں۔ اس لیے ای پی اے یہ کوشش کررہا ہے کہ ان جنریٹرز کوریگولیٹ کیا جائے تاکہ ایسے جنریٹر جو ماحولیاتی آلودگی کا سبب بن رہے ہیں ان پرپابندی لگائی جاسکے۔
بجلی کی لوڈ شیڈنگ کے دوران مارکیٹوں ، بازاروں اورشاپنگ سینٹرز میں بجلی کے متبادل کے طور پر جنریٹر استعمال کیے جاتے ہیں ، یہ بجلی کے حصول کا متبادل ذریعہ تو ہے لیکن ماہرین کے مطابق غیرمعیاری جنریٹر رمختلف اقسام کی آلودگی کا سبب بن رہے ہیں، جنریٹرزسے نکلنے والے دھویں اورشور کی وجہ سے خریداروں کے علاوہ مارکیٹوں اورپلازوں میں کام کرنے والے ملازمین بھی متاثرہوتے ہیں۔
26 سالہ ذین العابدین لاہورکی ہال روڈ مارکیٹ کی ایک موبائل فون شاپ پر سیلزمین کے طور پرکام کرتے ہیں تاہم گزشتہ کئی ہفتوں سے ان کی آنکھوں میں انفیکشن ہے۔
ذین العابدین نے بتایا کہ پہلے انہوں نے یہ سمجھا کہ ایسا موسم کی تبدیلی اورگرمی کی وجہ سے لیکن جب کافی دنوں تک آنکھوں میں جلن محسوس ہوتی رہی اورسرخی برقراررہی توانہوں نے آنکھوں کے ڈاکٹرسے معائنہ کروایا ۔
ڈاکٹر نے بتایا کہ زہریلے دھویں کی وجہ سے آنکھوں میں انفیکشن ہوگیا ہے۔ ڈاکٹر نے کچھ آئی ڈراپس دیئے اورساتھ ہدایت کی کہ دھویں سے دور رہوں اوراگرمجبوری ہوتو چشمہ استعمال کیا جائے۔
گلبرگ حفیظ سنٹر کی بیسمنٹ کی صورتحال بھی ایسی ہی ہے جہاں بجلی کی لوڈ شیڈنگ کے دوران اس قدر حبس اورگرمی ہوجاتی ہے کہ چند منٹ کے لیے کھڑے رہنا مشکل ہوجاتا ہے۔
اس ماحول میں جب جنریٹر استعمال کیا جاتا ہے تواس سے ماحول مزید خراب ہوجاتا ہے،اسی طرح کی صورت حال گلبرگ، شالامارلنک روڈ، شاہ عالم مارکیٹ اورشہرکے دیگرعلاقوں میں ہے۔
شہر کی وہ تمام مارکیٹیں، بازار اورپلازے جن کی بیسمنٹ جہاں بجلی کی لوڈشیڈنگ کے دوران جنریٹر استعمال کیے جاتے ہیں وہاں کام کرنے والے زیادہ ترملازمین کو ذین العابدین جیسی صورتحال کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بلکہ بعض دکانداروں نے بتایا کہ جنریٹر کے شور کی وجہ سے گاہک بھی متاثرہوتے ہیں اورشوربھی بہت زیادہ ہوتا ہے۔
پنجاب یونیورسٹی شعبہ ماحولیاتی سائنس کے سربراہ پروفیسرڈاکٹر ضیاالحق نے ایکسپریس ٹربیون کو بتایا کہ پرانے ماڈل کے ڈیزل پر چلنے والے جنریٹر بہت زیادہ کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج کرتے ہیں جبکہ ڈیزل اورپٹرول دونوں پر چلنے والے دونوں اقسام کے جرنیٹر کاربن مونوآکسائیڈ خارج کرتے ہیں جو انتہائی زہریلی گیس ہے۔
اس گیس کی کوئی بو اور رنگ نہیں ہوتا جس کی وجہ سے اگر کسی جگہ پراس کی مقدار ایک حد سے بڑھ جائے تو وہاں موجود جانداروں کی فوری موت واقع ہوسکتی ہے۔
ڈاکٹرضیاالحق نے کہا کہ نئے جنریٹرز میں ایسے پرزے استعمال کیے جارہے ہیں جو فیول کو اچھے طریقے سے توانائی میں تبدیل کرتے ہیں اس وجہ سے ان سے زیادہ آلودگی پیدا نہیں ہوتی۔
دوسری طرف جوڈیشل انوائرمنٹ کمیشن کے فوکل پرسن نے بتایا کہ اس وقت پنجاب میں جتنے بھی جنریٹر استعمال ہورہے ہیں خواہ وہ گھروں میں ہوں یا کسی کمرشل مارکیٹ، پلازہ اورشاپنگ سنٹر میں ہوں، انوائرمنٹ پروٹیکشن ایجنسی (ای پی اے) پنجاب کوشش کررہا ہے کہ ان کو ریگولیٹ کیا جاسکے۔
اس حوالے سے ایک سروے بھی کیا جارہا ہے تاکہ زیراستعمال جنریٹرز کا ڈیٹا بیس بنایا جاسکے اوراس بات کو یقینی بنایا جائے کہ جو ای پی اے کے ماحولیات کے حوالے سے معیار ہیں اسی کے مطابق جرنیٹرز استعمال کرنے کی اجازت دی جائے۔
فوکل پرسن نے مزید بتایا کہ اس میں جنریٹر کی آواز، دھواں، تھرتھراہٹ کو چیک کیا جائے کیونکہ عموماً لوگ انہی چیزوں سے متاثرہوتے ہیں۔ اس لیے ای پی اے یہ کوشش کررہا ہے کہ ان جنریٹرز کوریگولیٹ کیا جائے تاکہ ایسے جنریٹر جو ماحولیاتی آلودگی کا سبب بن رہے ہیں ان پرپابندی لگائی جاسکے۔