سیاست اور وکالت
ملکی سیاست میں بعض وکلا کا بڑا کردار رہا ہے وہ وکالت کے ساتھ ساتھ سیاست میں بھی نمایاں ہوتے ہیں
پیپلز پارٹی سے دیرینہ وابستگی کی بنیاد پر پنجاب کے رہنے والے سابق گورنر پنجاب اور پی ٹی آئی کے نئے حامی لطیف کھوسہ ایڈووکیٹ نے کہا ہے کہ سابق وزیر اعظم محب وطن اور ایماندار ہیں۔
ان کے خلاف توشہ خانہ، سائفر سمیت تمام کیسز بے بنیاد ہیں جو ملک دشمن بیرونی آقاؤں کو خوش کرنے کے لیے بنائے گئے۔ توشہ خانہ جیسے کیس میں آئین و قانون کا جنازہ نکال کر انھیں جیل میں ڈال دیا جو 25 کروڑ عوام سے زیادتی ہے۔
انھوں نے یہ بھی کہا کہ نواز شریف پاکستان نہیں آئیں گے۔ اس سے قبل پیپلز پارٹی حکومت کے سابق وزیر داخلہ اور لاہور زمان پارک میں سابق وزیر اعظم کے پڑوسی چوہدری اعتزاز احسن بھی کہہ چکے ہیں کہ سابق وزیر اعظم کے ساتھ زیادتی ہو رہی ہے۔
یہ وہی اعتزاز احسن ہیں جو ماضی میں سابق وزیر اعظم نواز شریف کے وکیل بھی رہے۔یہ درست ہے کہ وکلا حضرات اپنے موکل سے منہ مانگی فیس لے کر یا اپنے سیاسی مفاد کے لیے اپنے پارٹی رہنماؤں کی بلا معاوضہ وکالت کرتے ہیں۔
انھیں عدالتوں میں بے گناہ قرار دینے کے لیے غیر حقیقی دلائل بھی دیتے ہیں اور سیاسی مقدمات کے باعث ہی انھیں مقبولیت اور شہرت ملتی ہے تو اپنی پارٹی کی حکومت آنے پر انھیں اہم حکومتی عہدوں سے نوازا جاتا ہے اور اسی باعث بہت سے وکیلوں کو عدلیہ میں جج تعینات ہونے کا موقعہ مل جاتا ہے اور وہ ترقی کرتے ہیں جس کے بعد ان کی آئینی و قانونی ذمے داری بنتی ہے کہ وہ سیاسی و ذاتی مفادات سے بالاتر ہو کر انصاف کے مطابق فیصلے دیں۔
ملکی سیاست میں بعض وکلا کا بڑا کردار رہا ہے وہ وکالت کے ساتھ ساتھ سیاست میں بھی نمایاں ہوتے ہیں۔ بعض وکیل اس لیے بھی سیاست کرتے ہیں کہ انھیں عوامی سطح پر کامیابی نہ ملے تو وہ سرکاری وکیل بن کر مالی فوائد اٹھائیں اور اٹارنی جنرل کے عہدے تک پہنچیں۔
بعض وکلا سیاست سے دور رہ کر خود کو وکالت تک محدود رکھتے ہیں اور سیاست کے بجائے ان کی ترجیح عدلیہ یا سرکاری وکالت ہوتی ہے اور وہ غیر جانبدار بھی شمار ہوتے ہیں۔ آج کی سیاست اصولی سے زیادہ منافقانہ ہے اور مفادات کا حصول تقریباً ہر سیاستدان کی ترجیح ہے اور سیاست کاروبار بھی بنی ہوئی ہے جس میں پیسہ لگا کر پیسہ کمایا جاتا ہے۔
سیاست میں رہ کر کوئی بھی الیکشن رقم خرچ کیے بغیر لڑا ہی نہیں جا سکتا، اسی لیے الیکشن کمیشن اسمبلیوں کے الیکشن کے لیے اخراجات کی حد مقررکرتا ہے جو غیر حقیقی ہوتی ہے۔ رکن صوبائی اسمبلی کے لیے جو مالی حد مقرر ہے اس میں تو تحصیل چیئرمین کا الیکشن بھی نہیں لڑا جاسکتا۔
سینیٹ کے لیے اخراجات کی کوئی حد مقرر نہیں جب کہ ہر شخص جانتا ہے کہ اس کے لیے ارکان اسمبلی کے ووٹ خریدے جاتے ہیں اور اس خفیہ سودے بازی میں ایسے لوگ بھی آگے آ جاتے ہیں جن کی کامیابی کی توقع بھی نہیں ہوتی مگر اندرون خانہ ووٹ خرید کر سرکاری اور سیاسی پارٹیوں کے امیدواروں کو ہرا دیتے ہیں۔
ہر الیکشن میں ارکان کے خریدے جانے کے الزامات لگتے ہیں مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ ارکان اسمبلی بھی کروڑوں روپے خرچ کرکے منتخب ہوتے ہیں اور یہی سیاست ہے جو پیسے کے بغیر نہیں چلتی۔ پیسہ خرچ کرکے سیاست میں نام بنانا اور بعد میں اپنی حکومت میں عہدے لینا عام بات تھی مگر اب وکلا کی بڑی تعداد اپنی اپنی پسندیدہ جماعت کے حامی ہیں اور پی ٹی آئی حکومت میں وکلا نمایاں نہیں تھے جتنے وہ پی ٹی آئی حکومت جانے کے بعد ہوئے ہیں۔
وکلا حضرات اپنے تجربے کے باعث جان جاتے ہیں کہ کون سا کیس جھوٹا اور کون سا سچا ہے مگر ان کا کام ہی ایسا ہے کہ انھیں عدالت میں مجرم کو بھی بے گناہ قرار دے کر سزا سے بچانا ہوتا ہے۔
کوئی سزا کسی عدالت سے ہو وکلا کو اس کی حقیقت کا پتا ہوتا ہے ،کچھ لوگ بول پڑتے ہیں اور بعض سیاسی مصلحت کے باعث خاموش رہتے ہیں اور بے اصولی اختیار کر لیتے ہیں اور ان میں سچائی بیان کرنے کی جرأت نہیں ہوتی۔سب کو معلوم ہے کہ سابق وزیر اعظم پی ٹی آئی کتنے ایماندار اور بے قصور ہیں اور ان پر بنائے گئے مقدمات کی حقیقت کیا ہے ۔
ان کیسز کا فیصلہ عدالتوں نے کرنا ہے مگر مفاد پرستانہ سیاست اور بے اصولی وکالت کے لیے فیصلے خود ہی سنائے جا رہے ہیں۔
ان کے خلاف توشہ خانہ، سائفر سمیت تمام کیسز بے بنیاد ہیں جو ملک دشمن بیرونی آقاؤں کو خوش کرنے کے لیے بنائے گئے۔ توشہ خانہ جیسے کیس میں آئین و قانون کا جنازہ نکال کر انھیں جیل میں ڈال دیا جو 25 کروڑ عوام سے زیادتی ہے۔
انھوں نے یہ بھی کہا کہ نواز شریف پاکستان نہیں آئیں گے۔ اس سے قبل پیپلز پارٹی حکومت کے سابق وزیر داخلہ اور لاہور زمان پارک میں سابق وزیر اعظم کے پڑوسی چوہدری اعتزاز احسن بھی کہہ چکے ہیں کہ سابق وزیر اعظم کے ساتھ زیادتی ہو رہی ہے۔
یہ وہی اعتزاز احسن ہیں جو ماضی میں سابق وزیر اعظم نواز شریف کے وکیل بھی رہے۔یہ درست ہے کہ وکلا حضرات اپنے موکل سے منہ مانگی فیس لے کر یا اپنے سیاسی مفاد کے لیے اپنے پارٹی رہنماؤں کی بلا معاوضہ وکالت کرتے ہیں۔
انھیں عدالتوں میں بے گناہ قرار دینے کے لیے غیر حقیقی دلائل بھی دیتے ہیں اور سیاسی مقدمات کے باعث ہی انھیں مقبولیت اور شہرت ملتی ہے تو اپنی پارٹی کی حکومت آنے پر انھیں اہم حکومتی عہدوں سے نوازا جاتا ہے اور اسی باعث بہت سے وکیلوں کو عدلیہ میں جج تعینات ہونے کا موقعہ مل جاتا ہے اور وہ ترقی کرتے ہیں جس کے بعد ان کی آئینی و قانونی ذمے داری بنتی ہے کہ وہ سیاسی و ذاتی مفادات سے بالاتر ہو کر انصاف کے مطابق فیصلے دیں۔
ملکی سیاست میں بعض وکلا کا بڑا کردار رہا ہے وہ وکالت کے ساتھ ساتھ سیاست میں بھی نمایاں ہوتے ہیں۔ بعض وکیل اس لیے بھی سیاست کرتے ہیں کہ انھیں عوامی سطح پر کامیابی نہ ملے تو وہ سرکاری وکیل بن کر مالی فوائد اٹھائیں اور اٹارنی جنرل کے عہدے تک پہنچیں۔
بعض وکلا سیاست سے دور رہ کر خود کو وکالت تک محدود رکھتے ہیں اور سیاست کے بجائے ان کی ترجیح عدلیہ یا سرکاری وکالت ہوتی ہے اور وہ غیر جانبدار بھی شمار ہوتے ہیں۔ آج کی سیاست اصولی سے زیادہ منافقانہ ہے اور مفادات کا حصول تقریباً ہر سیاستدان کی ترجیح ہے اور سیاست کاروبار بھی بنی ہوئی ہے جس میں پیسہ لگا کر پیسہ کمایا جاتا ہے۔
سیاست میں رہ کر کوئی بھی الیکشن رقم خرچ کیے بغیر لڑا ہی نہیں جا سکتا، اسی لیے الیکشن کمیشن اسمبلیوں کے الیکشن کے لیے اخراجات کی حد مقررکرتا ہے جو غیر حقیقی ہوتی ہے۔ رکن صوبائی اسمبلی کے لیے جو مالی حد مقرر ہے اس میں تو تحصیل چیئرمین کا الیکشن بھی نہیں لڑا جاسکتا۔
سینیٹ کے لیے اخراجات کی کوئی حد مقرر نہیں جب کہ ہر شخص جانتا ہے کہ اس کے لیے ارکان اسمبلی کے ووٹ خریدے جاتے ہیں اور اس خفیہ سودے بازی میں ایسے لوگ بھی آگے آ جاتے ہیں جن کی کامیابی کی توقع بھی نہیں ہوتی مگر اندرون خانہ ووٹ خرید کر سرکاری اور سیاسی پارٹیوں کے امیدواروں کو ہرا دیتے ہیں۔
ہر الیکشن میں ارکان کے خریدے جانے کے الزامات لگتے ہیں مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ ارکان اسمبلی بھی کروڑوں روپے خرچ کرکے منتخب ہوتے ہیں اور یہی سیاست ہے جو پیسے کے بغیر نہیں چلتی۔ پیسہ خرچ کرکے سیاست میں نام بنانا اور بعد میں اپنی حکومت میں عہدے لینا عام بات تھی مگر اب وکلا کی بڑی تعداد اپنی اپنی پسندیدہ جماعت کے حامی ہیں اور پی ٹی آئی حکومت میں وکلا نمایاں نہیں تھے جتنے وہ پی ٹی آئی حکومت جانے کے بعد ہوئے ہیں۔
وکلا حضرات اپنے تجربے کے باعث جان جاتے ہیں کہ کون سا کیس جھوٹا اور کون سا سچا ہے مگر ان کا کام ہی ایسا ہے کہ انھیں عدالت میں مجرم کو بھی بے گناہ قرار دے کر سزا سے بچانا ہوتا ہے۔
کوئی سزا کسی عدالت سے ہو وکلا کو اس کی حقیقت کا پتا ہوتا ہے ،کچھ لوگ بول پڑتے ہیں اور بعض سیاسی مصلحت کے باعث خاموش رہتے ہیں اور بے اصولی اختیار کر لیتے ہیں اور ان میں سچائی بیان کرنے کی جرأت نہیں ہوتی۔سب کو معلوم ہے کہ سابق وزیر اعظم پی ٹی آئی کتنے ایماندار اور بے قصور ہیں اور ان پر بنائے گئے مقدمات کی حقیقت کیا ہے ۔
ان کیسز کا فیصلہ عدالتوں نے کرنا ہے مگر مفاد پرستانہ سیاست اور بے اصولی وکالت کے لیے فیصلے خود ہی سنائے جا رہے ہیں۔