انصاف کا ترازو
ہم کئی بار پڑوسی ملک گئے ہیں اور خاص طور پر وہاں کے اخبارات و رسائل دیکھے ہیں
گزشتہ چارپانچ سال سے نہ جانے کیوں ہمیں کچھ ایسا دکھائی دے رہاہے جیسے ہم کسی ملک میں نہیں بلکہ ایک بڑی سی کچہری میں رہ رہے ہیں، ''کچہری'' کا ایک نام اور بھی ہے لیکن ہم وہ نام نہیں لے سکتے کہ اس میں خطرہ آٹھ سو آٹھ وولٹ کا ہے۔
ہاں اس کا اردو مترادف ''انصاف گاہ '' کہہ سکتے ہیں، لیکن چھوڑیے نام میں کیا رکھا ہے نام تو اس کا پاکستان بھی ہے لیکن پہلے ایک لطیفہ دم ہلانے لگا ہے ۔سیفہ دین کے بارے میں پہلے بھی بتا چکا ہوں ، علاوہ دیگر خوبیوں کے اس میں یہ ''خوبی'' بھی تھی کہ وہ کبھی کوئی نام خاص طور پر لوگوں کا سیدھا اور براہ راست نام نہیں لیتا تھا بلکہ اس شخص کے نام کے آس پاس یا کسی نشانی کا نام لے دیتا تھا بلکہ اکثر تو جانوروں کے حوالے سے ذکر کرتا تھا مثلاً وہ جس کے کالے بیل ہے یا جس کے بھوری بھینس ہے یا تازی کتا ہے۔
ہمارے ایک عزیز کووہ ''اسکولی'' کہتاہے کیوں کہ اس کی بیوی اسکول میں استانی تھی ، اسی طرح ایک دن بولا، وہ وکیل آیا تھا ہم نے اپنی یادداشت گھنگالی، نہ توہمارے گاؤں میں کوئی وکیل تھا نہ ہمارے دوستوں میں ''وکیل'' نام تھا، مطلب یہ کہ دوردورتک کوئی وکیل ہمارے میں نہیں تھا ، پوچھا کون سا وکیل ؟ بولا وہی جس کی داڑھی سفید اورمونچھیں کالی ہیں۔
اب بھی کچھ سمجھ میں نہیں آیا تو وضاحت چاہی ، بولا وہ جس کے گھر میں پیپل کا بڑا سا درخت ہے ،وہ جو بہت چھینکیں مارتا ہے، ہم جان گئے تو کم بخت مارے وہ وکیل تو نہیں اس کا نام عدالت ہے ، وہی وہی ،وکیل ہے یا عدالت دونوں ہی ایک کام کرتے ہیں۔
خیرتوہم بھی دونوں کی بات کر رہے ہیں ، کبھی آپ نے دھیان دیا ہے کہ گزشتہ چارپانچ سال سے اس ملک میں ایک ہی کام ہورہاہے ، مقدمے ، عدالتیں، وکیل تقریباً اس وقت سے جب بابا جی ڈیموں والی سرکار نے ریاست مدینہ بنائی ہے اور صادق وامین ڈھونڈ نکالے ہیں یا کینیڈا والے حضرت علامہ ڈاکٹر پروفیسر بیرسٹر نے کنٹینر میں کھچڑی پکا کر ریاست کو بچایا ہے ۔
جب سے تو نے مجھے خربوزہ بنا رکھا ہے
چاقو ہرشخص نے ہاتھوں میں اٹھا رکھا ہے
اخبارات اٹھائیے چینل دیکھیے تو عدالتیں ہی عدالتیں وکیل ہی وکیل ، مقدمات ہی مقدمات ، جیسے اس ملک میں باقی سب کچھ پورا ہوچکاہے اورصرف مقدمات ہی باقی رہ گئے ہیں یہاں تک کہ سیاسی بیانات بھی بیرسٹر لوگ دینے لگے ، حکومتوں کی ترجمانی بھی وکیل کررہے ہیں۔
مثلاً امپورٹڈ حکومت مردہ باد۔ بیرسٹر کرینہ سیف ۔۔نگران حکومت زندہ باد ۔ بیرسٹر نیمروزجمال۔ بلکہ اب تو ہمیں کچھ ایسا لگ رہا ہے کہ شاید تھوڑے ہی عرصے میں حکومت اعلان کر دے گی کہ عدالتوں میں صرف سیاسی لیڈروں کے مقدمات چلیں گے، اورعوام کالانعام اپنے مقدمات دکانداروں سے فیصل کروائیں کیوں کہ ''ترازو'' ان کے پاس بھی ہوتاہے اورکونسی ایسی گلی ہوگی جہاں دکاندار ترازو لیے بیٹھے نہ ہوں ، ایک مرتبہ پھر انورمسعود کا شعریادآرہاہے کیاکمال کاشعرہے۔
یہی معیار دیانت ہے تو کل کاتاجر
برف کے باٹ لیے دھوپ میں بیٹھا ہوگا
ہم کئی بار پڑوسی ملک گئے ہیں اورخاص طورپر وہاں کے اخبارات ورسائل دیکھے ہیں لیکن باوجود کوشش کے ہم یہ نہیں جان پائے کہ اس ملک میں ''نیائے آلے''(عدالتیں) بھی ہیں اورنیائے مورتی (ججز)بھی پائے جاتے ہیں اوروہ بھی جن کے بیانات یہاں شہ سرخیاں بنتے ہیں اورتو ہم نے کبھی نہ سنا نہ پڑھا نہ دیکھا کہ عدالتیں صرف لیڈروں نے گھیر رکھی ہیں اوران میں یہاں کی طرح عوام کے مقدمات سنے ہی نہیں جاتے۔
بیشک عدالتیں کسی ملک کی ناگزیر ضرورت ہیں بلکہ یوں کہیے کہ عوام کی آخری امید ہوتی ہیں لیکن اس نرالے ملک میں انصاف وقانون کے ان اداروں کو بھی پیشہ ور ، خاندانی اوردادا قسم کے لیڈروں نے اتنا مصروف کیاہواہے کہ وہ عوام کی طرف اگر چاہیں بھی تو توجہ نہیں دے سکتے ، ملک کے پورے نظام پر تو ان قبضہ گیروں نے قبضہ پہلے کر رکھاتھا اب عدالتوں کو بھی عوام کے لیے شجر ممنوعہ بنادیاگیاہے۔
عوام کے لیے بقول سنی دیول تاریخ پہ تاریخ ، تاریخ پہ تاریخ بلکہ ناجائز دولتوں کے ان علمبرداروں نے وکیلوں کو بھی عوام کی استطاعت سے دورکیاہواہے، جب لاکھوں کروڑوں فیس مل رہی ہوں تو تہی دست لٹے پٹے گنگال عوام کو کوئی کیوں پوچھے، تباہ ہوررہے ہیں تو ہوجائیں، رو رہے ہیں تو روتے رہیں۔
ایک چھوٹا سا مقدمہ کئی پشتوں تک چلتاہے تو چلتارہے ان کے غنچے بن کھلے رہتے ہیں تو رہیں کہ پھولوں کو بہارجافزا سے دکھلانے کاچسکا لگاہواہے ۔گویا عوام کاباقی سب کچھ تو لوٹ چکے ہیں یہ آخری امیدآخری سہارا بھی محصورہوگیاہے ۔
آگئے تھے غم دنیا سے پریشان ہوکر
جارہے تیری محفل سے پشیماں ہوکر
ہاں اس کا اردو مترادف ''انصاف گاہ '' کہہ سکتے ہیں، لیکن چھوڑیے نام میں کیا رکھا ہے نام تو اس کا پاکستان بھی ہے لیکن پہلے ایک لطیفہ دم ہلانے لگا ہے ۔سیفہ دین کے بارے میں پہلے بھی بتا چکا ہوں ، علاوہ دیگر خوبیوں کے اس میں یہ ''خوبی'' بھی تھی کہ وہ کبھی کوئی نام خاص طور پر لوگوں کا سیدھا اور براہ راست نام نہیں لیتا تھا بلکہ اس شخص کے نام کے آس پاس یا کسی نشانی کا نام لے دیتا تھا بلکہ اکثر تو جانوروں کے حوالے سے ذکر کرتا تھا مثلاً وہ جس کے کالے بیل ہے یا جس کے بھوری بھینس ہے یا تازی کتا ہے۔
ہمارے ایک عزیز کووہ ''اسکولی'' کہتاہے کیوں کہ اس کی بیوی اسکول میں استانی تھی ، اسی طرح ایک دن بولا، وہ وکیل آیا تھا ہم نے اپنی یادداشت گھنگالی، نہ توہمارے گاؤں میں کوئی وکیل تھا نہ ہمارے دوستوں میں ''وکیل'' نام تھا، مطلب یہ کہ دوردورتک کوئی وکیل ہمارے میں نہیں تھا ، پوچھا کون سا وکیل ؟ بولا وہی جس کی داڑھی سفید اورمونچھیں کالی ہیں۔
اب بھی کچھ سمجھ میں نہیں آیا تو وضاحت چاہی ، بولا وہ جس کے گھر میں پیپل کا بڑا سا درخت ہے ،وہ جو بہت چھینکیں مارتا ہے، ہم جان گئے تو کم بخت مارے وہ وکیل تو نہیں اس کا نام عدالت ہے ، وہی وہی ،وکیل ہے یا عدالت دونوں ہی ایک کام کرتے ہیں۔
خیرتوہم بھی دونوں کی بات کر رہے ہیں ، کبھی آپ نے دھیان دیا ہے کہ گزشتہ چارپانچ سال سے اس ملک میں ایک ہی کام ہورہاہے ، مقدمے ، عدالتیں، وکیل تقریباً اس وقت سے جب بابا جی ڈیموں والی سرکار نے ریاست مدینہ بنائی ہے اور صادق وامین ڈھونڈ نکالے ہیں یا کینیڈا والے حضرت علامہ ڈاکٹر پروفیسر بیرسٹر نے کنٹینر میں کھچڑی پکا کر ریاست کو بچایا ہے ۔
جب سے تو نے مجھے خربوزہ بنا رکھا ہے
چاقو ہرشخص نے ہاتھوں میں اٹھا رکھا ہے
اخبارات اٹھائیے چینل دیکھیے تو عدالتیں ہی عدالتیں وکیل ہی وکیل ، مقدمات ہی مقدمات ، جیسے اس ملک میں باقی سب کچھ پورا ہوچکاہے اورصرف مقدمات ہی باقی رہ گئے ہیں یہاں تک کہ سیاسی بیانات بھی بیرسٹر لوگ دینے لگے ، حکومتوں کی ترجمانی بھی وکیل کررہے ہیں۔
مثلاً امپورٹڈ حکومت مردہ باد۔ بیرسٹر کرینہ سیف ۔۔نگران حکومت زندہ باد ۔ بیرسٹر نیمروزجمال۔ بلکہ اب تو ہمیں کچھ ایسا لگ رہا ہے کہ شاید تھوڑے ہی عرصے میں حکومت اعلان کر دے گی کہ عدالتوں میں صرف سیاسی لیڈروں کے مقدمات چلیں گے، اورعوام کالانعام اپنے مقدمات دکانداروں سے فیصل کروائیں کیوں کہ ''ترازو'' ان کے پاس بھی ہوتاہے اورکونسی ایسی گلی ہوگی جہاں دکاندار ترازو لیے بیٹھے نہ ہوں ، ایک مرتبہ پھر انورمسعود کا شعریادآرہاہے کیاکمال کاشعرہے۔
یہی معیار دیانت ہے تو کل کاتاجر
برف کے باٹ لیے دھوپ میں بیٹھا ہوگا
ہم کئی بار پڑوسی ملک گئے ہیں اورخاص طورپر وہاں کے اخبارات ورسائل دیکھے ہیں لیکن باوجود کوشش کے ہم یہ نہیں جان پائے کہ اس ملک میں ''نیائے آلے''(عدالتیں) بھی ہیں اورنیائے مورتی (ججز)بھی پائے جاتے ہیں اوروہ بھی جن کے بیانات یہاں شہ سرخیاں بنتے ہیں اورتو ہم نے کبھی نہ سنا نہ پڑھا نہ دیکھا کہ عدالتیں صرف لیڈروں نے گھیر رکھی ہیں اوران میں یہاں کی طرح عوام کے مقدمات سنے ہی نہیں جاتے۔
بیشک عدالتیں کسی ملک کی ناگزیر ضرورت ہیں بلکہ یوں کہیے کہ عوام کی آخری امید ہوتی ہیں لیکن اس نرالے ملک میں انصاف وقانون کے ان اداروں کو بھی پیشہ ور ، خاندانی اوردادا قسم کے لیڈروں نے اتنا مصروف کیاہواہے کہ وہ عوام کی طرف اگر چاہیں بھی تو توجہ نہیں دے سکتے ، ملک کے پورے نظام پر تو ان قبضہ گیروں نے قبضہ پہلے کر رکھاتھا اب عدالتوں کو بھی عوام کے لیے شجر ممنوعہ بنادیاگیاہے۔
عوام کے لیے بقول سنی دیول تاریخ پہ تاریخ ، تاریخ پہ تاریخ بلکہ ناجائز دولتوں کے ان علمبرداروں نے وکیلوں کو بھی عوام کی استطاعت سے دورکیاہواہے، جب لاکھوں کروڑوں فیس مل رہی ہوں تو تہی دست لٹے پٹے گنگال عوام کو کوئی کیوں پوچھے، تباہ ہوررہے ہیں تو ہوجائیں، رو رہے ہیں تو روتے رہیں۔
ایک چھوٹا سا مقدمہ کئی پشتوں تک چلتاہے تو چلتارہے ان کے غنچے بن کھلے رہتے ہیں تو رہیں کہ پھولوں کو بہارجافزا سے دکھلانے کاچسکا لگاہواہے ۔گویا عوام کاباقی سب کچھ تو لوٹ چکے ہیں یہ آخری امیدآخری سہارا بھی محصورہوگیاہے ۔
آگئے تھے غم دنیا سے پریشان ہوکر
جارہے تیری محفل سے پشیماں ہوکر