فلسطین کو بچانا ہوگا ورنہ…

فلسطین جو دنیا کا غریب ترین ملک ہے اور پچھلی سات دہائیوں سے حالت جنگ میں ہے

ashfaqkhan@express.com.pk

مسئلہ فلسطین دوچار برس کی بات نہیں، سات دہائیوں پر مشتمل جبر و استبداد کی طویل داستان ہے۔ ان سات دہائیوں میں دہشت گرد صیہونی ریاست اسرائیل کی جانب سے اہل فلسطین کے علاقوں پر قبضے کیے گئے۔

انھیں ان کے ہی گھروں اور زمینوں سے نکالا گیا، قبلہ اول بیت المقدس چھینا گیا، ظلم و بربریت کے پہاڑ توڑے گئے، کئی بار فلسطینیوں پر گولے برسائے گئے۔

انھیں آگ اور خون میں نہلایا گیا، مقدس سرزمین کو لہولہان کیا گیا، عورتوں کی عزتیں پامال ہوتی رہیں، بچوں، بوڑھوں اور جوانوں کی لاشیں ملتی رہیں لیکن عالمی ضمیر خواب خرگوش کے مزے لوٹتا رہا، اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی عالمی تنظیموں نے کبھی کھل کر اس دہشت گرد صیہونی ریاست کا ہاتھ روکنے کی کوشش نہیں کی۔

اس کی بہیمانہ کارروائیوں کے خلاف کبھی پرزور مذمت نہیں کی۔ وقت گزرتا رہا اور فلسطینیوں کا خون بہتا رہا۔ نہتے فلسطینی بے سروسامانی کے عالم میں صیہونی ریاست کی دہشت گردی برداشت کرتے رہے۔ اور ٹینکوں، توپوں، لڑاکا طیاروں اور میزائلوں کے مقابلے میں فلسطینی نوجوان غلیلوں سے لڑتے رہے۔

اسلامی دنیا اور خصوصاً عرب ممالک نے اسرائیل کے لیے نرم گوشہ پہلے ڈھکے چھپے الفاظ میں اور پھر برملا اظہار شروع کردیا اور دنیا سمجھ بیٹھی تھی کہ فلسطینیوں کا جذبہ آزادی ٹھنڈا پڑ چکا ہے، اب اس میں صیہونیوں کا مقابلہ کرنے کی سکت باقی نہیں رہی۔

اسرائیل کے سرپرست اور سہولت کار بھی مطمئن تھے کہ ان کا ناجائز بغل بچہ ''اسرائیل'' اب محفوظ ہے، اسے کسی مزاحمت کا سامنا نہیں ہوگا، صیہونی قیادت بھی''ریلیکس''تھی، مسلم ممالک بھی مجرمانہ خاموشی اختیار کرچکے تھے۔

خاص کر او آئی سی ( Oh I See) مسئلہ کشمیر کی طرح مسئلہ فلسطین پر مردہ گھوڑا ثابت ہوئی، بعض اسلامی ممالک نے ہوا کا رخ دیکھتے ہوئے اسرائیل سے سفارتی تعلقات قائم کرلیے اور بعض اسلامی ممالک تعلقات قائم کرنے جارہے تھے۔ مگر حماس کی ایک کارروائی نے سب کچھ الٹ کے رکھ دیا۔ جمعہ اور ہفتہ کی درمیانی شب یروشلم پر ایک دم آگ برسنے لگی، آسمان سے گولوں کی بارش شروع ہوگئی، محض دو چار نہیں ہزاروں گولے صیہونی ریاست کے طول و ارض پر برسائے گئے۔

حماس کی جانب سے اسرائیل کو سنبھلنے کا موقع بھی نہیں دیا گیا، گھر میں گھس کر مارا، سیکڑوں اسرائیلی جہنم واصل کردیے، ہزاروں زخم چاٹ رہے ہیں، سیکڑوں شہریوں اور اسرائیلی فوجیوں کو حماس کے جوانوں نے یرغمال بنا رکھا ہے۔

اس جاندار حملے نے اسرائیلی دفاعی نظام کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ اسرائیل جو کئی دہائیوں سے جدید ترین اسحلہ، ساز و سامان اور ٹیکنالوجی کا پاور ہاؤس بنا ہوا تھا، جس کے پاس دنیا کی طاقتور ترین مسلح افواج اور بہترین انٹیلیجنس ایجنسی تھی، سب زمین بوس و خاک آلود ہوگیا، اللہ نے اس کا غرور خاک میں ملا کر رکھ دیا۔

فلسطین جو دنیا کا غریب ترین ملک ہے اور پچھلی سات دہائیوں سے حالت جنگ میں ہے، جو اپنی بقا کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہا تھا اس لاغر اور کمزور فلسطین نے، طاقتور ترین دشمن کو ناکوں چنے چبوا دیے۔ صیہونی قیادت اور ان کے سہولت کار ابھی تک زخم چاٹ رہے ہیں۔

حماس کے حملوں نے دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا ہے کہ جو اسرائیل دفاع پر اربوں ڈالر خرچ کرتا ہے، جس نے اسمارٹ بارڈر سسٹم پر بے تحاشہ پیسہ خرچ کیا، جس نے سینسرز اور سرنگوں کی تعمیر پر خطیر رقم خرچ کی۔

جس کے پاس بہترین دفاعی نظام موجود تھا، اس کے باوجود وہ حماس کے حملوں کو نہیں روک پایا۔ حماس کے حملے صیہونیوں پر اللہ کا عذاب اور قہر بن کر نازل ہوئے، بیشک اللہ رب العزت ہر شے پر قادر ہیں، وہ ابابیلوں سے ہاتھیوں کے لشکروں کو ملیا میٹ کرسکتا ہے اور کرچکا ہے تو اسرائیل جیسی طاقتور ریاست کا غرور بھی خاک میں ملا سکتا ہے۔

ابھی چند ہفتے پہلے کی بات ہے جب اسرائیلی فوج کے غربِ اردن میں جنین پناہ گزین کیمپ پر بڑے حملے کے بعد، اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے اعلان کیا کہ ''یہ آپریشن "مساوات میں تبدیلی" کی علامت ہے۔ مشتبہ دہشت گردوں کی گرفتاری کے لیے چھوٹے پیمانے پر چھاپوں کے بجائے، جس میں فلسطینی شہری اکثر شہید یا زخمی ہوتے ہیں۔

فوج جنین میں مختلف مسلح گروہوں کے قائم کیے گئے ہتھیاروں کے ذخیروں، بم بنانے کی فیکٹریوں اور دیگر بنیادی ڈھانچے کو ختم کرنے کے لیے کام کرے گی''۔ نیتن یاہو نے اسے کھیل کا پانسا پلٹنے والی حکمت عملی قرار دیا تھا جو مغربی کنارے میں اسرائیلی فوجیوں یا شہریوں پر حملوں کی منصوبہ بندی کرنے والوں کو جنین یا کسی دوسرے شہر کو اڈے کے طور پر استعمال کرنے سے روکے گی۔ سب کی سب منصوبہ بندی دھری رہ گئی۔


اسرائیلی تدبیریں پِٹ گئیں۔ غزہ کو اسرائیل نے دنیا کی سب سے بڑی جیل بنا رکھا ہے، 23لاکھ فلسطینی اس جیل میں قید ہیں۔ ان 23 لاکھ قیدیوں نے بالآخر فیصلہ کن معرکے کا فیصلہ کرتے ہوئے اسرائیل کو اسی کی زبان میں جواب دینے کی غرض سے "الاقصی فلڈ آپریشن، طوفان الاقصیٰ" کا آغاز منتقم اللہ کا قہر بن کر کردیا ہے۔

اس وقت غزہ کے اطراف میں دو بدو جنگ جاری ہے۔ حماس کے عسکری ونگ الاقصی بریگیڈ نے مقبوضہ علاقوں میں کسی حد تک پیش قدمی بھی کی ہے۔ اسرائیل نے ان حملوں کے بعد اعلان جنگ کردیا ہے اور اب وہ کسی بڑے حملے کی تیاری میں ہے۔

فلسطین کی سرزمین پر اسرائیلی قبضے کے بعد سے اب تک فلسطین کے بچے کھچے حصے کے دفاع کے لیے بہت سے گروہ میدان میں ہیں۔ حماس سے قبل سابق فلسطینی صدر یاسر عرفات کی 1956میں قائم کردہ الفتح نمایاں جماعت تھی۔ الفتح مقبوضہ علاقوں پہ اسرائیل کا حق تسلیم کرتی تھی۔

مجموعی طور پر اس کی پالیسی فلسطینیوں کی امنگوں کی آئینہ دار نہ تھی، جس کی وجہ سے فلسطینی عوام میں بے چینی پائی جاتی تھی۔ اسی بے چینی کا نتیجہ تھا کہ نامور فلسطینی مزاحمتی رہنما شیخ احمد یاسین نے 1987 میں "حرکۃ المقاومۃ الاسلامی" نامی تنظیم کی بنیاد رکھی، جسے زبانِ عام میں حماس کہا جاتا ہے۔ حماس ہر اعتبار سے فلسطینیوں میں ایک مقبول اور نمایندہ جماعت تھی۔ اسے دنیا کی منظم ترین مزاحمتی جماعت کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔

اس تنظیم کا اپنا تعلیمی، فلاحی، سیاسی اور عسکری نظام تھا 2006 کے انتخابات میں فلسطینی عوام نے حماس کو بھاری اکثریت سے کامیاب کرایا، مگر حریفوں کی جانب سے اسے اقتدار سے محروم رکھنے کی کوششیں کی گئیں۔

وہ بیرونی طاقتیں جو صبح شام جمہوریت کا راگ الاپتے نہیں تھکتی تھیں وہ سب بھی اس منصوبے کا حصہ تھیں۔ جب نرم گفتاری اور شیریں لہجے سے مسئلہ حل نہ ہوسکا تو 2007 میں حماس نے بزورِ بازو غزہ سے الفتح کو بیدخل کرکے وہاں پہ قبضہ کر لیا۔

اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ غزہ پر حماس کے قبضے سے الفتح کو تو دھچکا لگا ہی مگر اسرائیل کے مفادات پہ بھی کاری ضرب پڑی۔ جواب میں صہیونی غاصب ریاست نے غزہ کی فضائی، سمندری اور زمینی کڑی ناکہ بندی کرکے اسے جیل میں تبدیل کردیا۔ اس جیل کے قریب پھٹکنے کی کسی میں ہمت نہیں ہے۔ بہت سے قارئین کو ترکی کی جانب سے غزہ بھیجے جانے والے بحری جہاز فریڈم فلوٹیلا کا حشر تو یاد ہوگا۔

غزہ کے ایک طرف میں سمندر، دو اطراف میں اسرائیل کا قبضہ کردہ خشکی کا حصہ ہے، جب کہ تیسرا خشک حصہ مصر کی سرحد سے ملحق ہے۔

اس جیل کا سب سے المناک پہلو یہ ہے کہ جو حصہ مصر سے لگتا ہے، اس سے بھی فلسطینیوں کو آمد و رفت اور درآمد و برآمد کی اجازت نہیں ہے۔ اخوانی حکومت کا ایک قصور یہ بھی تھا کہ اس نے فلسطینیوں کے لیے رفح کراسنگ یعنی اپنا بارڈر کھول دیا تھا۔ سیسی حکومت لائی ہی اس لیے گئی تھی تاکہ وہ اسرائیلی مفادات کا تحفظ کرسکے۔

2007 سے اسرائیل نے مقبوضہ علاقوں میں مقیم فلسطینیوں کی زندگی اجیرن کررکھی ہے۔ غزہ کی ساٹھ فی صد آبادی بیروزگار ہے اور وہاں غربت عروج پہ ہے۔ ابھی حملے سے چند روز قبل اسرائیل نے اہم کراسنگ پوائنٹس بھی بند کردیے تھے جس سے بیس ہزار محنت کش فلسطینی بے روزگار ہوگئے تھے۔

اسرائیل جب چاہتا ہے فضائی حملے کرتا ہے اور جب چاہتا ہے ڈرونز کے ذریعے فضائی ٹارگٹ کلنگ کرتا ہے۔ حماس کا تازہ حملہ عمل نہیں بلکہ ان تمام صیہونی بدمعاشیوں کا انتہائی مجبوری کے عالم میں دیا جانے والا ردِعمل ہے۔

ایک اہم بات یہ کہ پہلے فلسطینیوں کو دیگر عرب ممالک سے بہت امیدیں اور توقعات وابستہ تھیں، اب جب سے عربوں کو اسرائیل پہ پیار آیا ہے اور وہ دھڑا دھڑ اس سے سفارتی تعلقات استوار کرتے ہوئے اس کے قبضے کو جواز فراہم کرنا شروع ہوئے ہیں تب سے فلسطینیوں کی رہی سہی امیدیں بھی بجھتی چلی جارہی ہیں۔

اب انھیں لگتا ہے کہ جو اژدھا انھیں سن اڑتالیس سے لقمہ لقمہ نگلتا چلا جارہا ہے، اپنوں کی بے وفائیوں کی وجہ سے وہ اس قابل ہوچکا ہے کہ انھیں یکایک ہڑپ کرلے گا۔ اس لیے اب مارو یا مرجاؤ کا نعرہ لگاتے ہوئے فیصلہ کن ٹاکرا ناگزیر ہوچکا ہے۔ ان کے پاس اب کوئی چارہ یا دوسرا راستہ نہیں۔

(باقی باتیں آیندہ کالم میں)
Load Next Story