ووٹ کی بنیاد پر انتقال اقتدار ممکن بنایا جائے

اب وقت آگیا ہے کہ ہم جدید دنیا کے جمہوری اور انتخابی نظاموں سے سبق حاصل کریں

salmanabidpk@gmail.com

پاکستان کی سیاسی اور جمہوری تاریخ کا جائزہ لیں تو ایک بنیادی نقطہ '' ووٹ کی بنیاد پر انتقال اقتدار '' کو ممکن بنانا ہے ۔ کیونکہ جمہوری و آئینی سیاست میں عوام کے حق رائے دہی یا ان کے ووٹ کی بنیاد پر انتقال اقتدار جمہوری ساکھ کی بنیادی کنجی ہے ۔

اسی بنیاد پر جمہوری نظام کی اہمیت بڑھتی اور لوگوں کا جمہوری نظا م پر اعتماد بھی قائم ہوتا ہے۔ مگر ایک عمومی رائے قومی سیاست کے بارے میں کہی جاتی ہے کہ یہاں انتقال اقتدار اور ووٹ کی بنیاد میں کافی تضاد اور ٹکراؤ پایا جاتا ہے۔

کیونکہ جب ہم ووٹوں کو بنیاد بنانے کے بجائے طاقت کے مراکز میں جاری سیاسی کشمکش اور جوڑ توڑ یا سیاسی انجینئرنگ یا انتخابات سے قبل انتخابات نتائج کی تیاری کا عمل پورے جمہوری نظام کو ہی متنازعہ بنا دیتا ہے۔ لوگوں کا یہ یقین ہی کہ وہ ووٹ کی بنیاد پر اپنی حکومت یا نمایندوں کو منتخب کرسکتے ہیں جمہوریت کی کامیابی کا بڑا حسن ہی کہلاتا ہے ۔

پاکستان کی قومی سیاست میں '' ووٹ کو عزت دو یا ووٹ کی بنیاد پر حکومتوں کی تشکیل '' کا معاملہ ہمیشہ سے متنازعہ رہا ہے۔ یہ ہی وجہ ہے یہاں تمام انتخابات کے نتائج اور ان کی صحت کے بارے میں ہمیشہ سے تحفظات رہے ہیں۔ کسی ایک انتخاب کے بارے میں بھی ہماری مجموعی سطح کی یہ رائے نہیں کہ فلاں انتخابات شفاف تھے ۔

اسی بنیاد پر انتخابات کی شفافیت پر بنیادی نوعیت کے سوال اٹھائے جاتے ہیں ۔یہ سب کچھ ایک ایسی ریاست میں ہوتا ہے جہاں سیاسی اور جمہوری نظام مصنوعی انداز میں یا طاقت سے جڑے طبقات کے مفادات کی بنیاد پر چلایا جاتا ہے۔ ایسے نظاموں کی داخلی اور خارجی ساکھ کسی بھی صورت میں قائم نہیں ہوتی اور اس کے مقابلے میں ہمیں ایک حقیقی جمہوری نظام کی ضرورت ہے ۔

اس وقت بھی ہم ایک ایسے ہی قومی سیاسی اور جمہوری بحران کا شکار ہیں۔ سیاسی اور جمہوری قوتیں کمزور اور غیر سیاسی اور غیر جمہوری قوتوں کو زیادہ طاقت اور پزیرائی حاصل ہے۔

سیاسی جماعتیں ، میڈیا، سول سوسائٹی کی کمزوری کا عمل جمہوری نظام کی کمزوری کے عمل کے ساتھ جوڑ کر دیکھا جاسکتا ہے ۔ عام انتخابات کے بارے میں قومی سیاست میں ابہام کی صورت موجود ہے۔ اول، کیا عام انتخابات جنوری کے آخری ہفتہ میں ممکن ہوسکیں گے یا عام انتخابات ایک بار پھر تاخیر کا شکار ہونگے۔


کیونکہ بہت سے سیاسی پنڈت اور سیاسی راہنما انتخابات کے حق میں اور اس کی مخالفت میں اپنی اپنی منطق پیش کررہے ہیں۔ اس کھیل میں الیکشن کمیشن اور نگران حکومتوں کا کردار شرمناک حد تک قابل مذمت ہے جو ظاہر کرتا ہے کہ انتخابات کی ترجیحات میں ہم کہاں کھڑے ہیں ۔

دوئم، انتخابات کا انعقاد اپنی جگہ لیکن یہ سوال بھی اہمیت رکھتا ہے کہ کیا ہمیں انتخابات کے نام پر منصفانہ اور شفاف انتخابات کا انتخابی میدان مل سکے گا۔کیونکہ اگر ہم نے ماضی کی روایت کو ہی بنیاد بنا کر انتخابات کا سیاسی ڈھونگ رچانا ہے تو پھر انتخابات کی ساکھ پر سوالیہ نشان رہیں گے۔

اس وقت انتخابات کے حوالے سے اس کی شفافیت پر جو سوالات اٹھ رہے ہیں ہم ان کو آئینی اور قانونی بنیادوں پر کم اور سیاسی بنیادوں پر زیادہ دیکھ رہے ہیں۔ لیول پلیئنگ فیلڈ کے معاملہ کو ہی دیکھ لیں تو اس میں کچھ سیاسی فریق راضی اور کچھ کو سنگین نوعیت کے عملی تحفظات ہیں۔ایک اہم اور توجہ طلب مسئلہ یہ ہے کہ کیا ہم انتخابی نظام اور نتائج میں مداخلتوں کو ختم کرسکیں گے۔

یہ حق ووٹروں کو ملنا چاہیے کہ وہ جس کو بھی اپنی مرضی کے مطابق سیاسی اقتدارکا حصہ بنانا چاہتے ہیں تو ان کی رائے کا احترام کیا جائے۔لوگوں پر زبردستی سیاسی نظام یا انتخابی نظام کے نام پر مصنوعی قیادتوں یا حکومتوں کو مسلط کرنے کا کھیل ختم ہونا چاہیے ۔

اب وقت آگیا ہے کہ ہم جدید دنیا کے جمہوری اور انتخابی نظاموں سے سبق حاصل کریں اور ان غلطیوں کو مت دہرائیں جو ہمارے جمہوری نظام کو کمزو رکرنے کا سبب بنتے ہیں ۔ سیاست اور جمہوریت کا عمل وہیں کامیاب ہوتا ہے جہاں ہم اپنی ماضی کی غلطیوں سے گریز کرکے خود سے آگے بڑھنا چاہتے ہیں ۔

ہماری سیاسی اور جمہوری قوتیں بھی غیر جمہوری قوتوں کے ساتھ ہی کھڑی ہوکر جمہوری نظام کو کمزور کرنے کے کھیل میں اپنا حصہ ڈالتی ہیں ۔یہ جو سیاسی صدائیں ہمیں سیاسی اور صحافتی پنڈتوں کی بنیاد پر سننے کو ملتی ہیں کہ آنے والے انتخابات میں اس جماعت کے لیے میدان صاف ہے اور دوسری جماعت کے لیے سیاسی میدان صاف نہیں اور نہ ہی وہ انتخابات میں جیت سکیں گے۔

یہ ہی کھیل ہے جو پورے سیاسی اور انتخابی نظام کی صحت کو ہی مشکوک بنادیتا ہے ۔نئی نسل میں ووٹ کی طاقت بڑھ رہی ہے اور تقریبا مجموعی ووٹوں کی تعداد میں 46فیصد ووٹرز نئی نسل سے تعلق رکھتے ہیں ۔ انتخابات کے نام پر جو روائتی اور فرسودہ سیاست کا نظام چل رہا ہے۔

اس کو اب آگے نہیں بڑھایا جاسکے گا اور اگر ہم نے اپنی موجودہ روش کو ہی اسی فرسودہ اور غیر شفافیت کے انداز میں چلانا ہے تو یہاں جمہوریت کا مستقبل اور زیادہ پیچھے کی طرف چلا جائے گا۔آیندہ انتخابات ہمارے سیاسی نظام کی ساکھ اور مستقبل کی جمہوری سیاست کے تعین میں کلیدی کردار ادا کریں گے۔ ووٹروں کو ہی یہ عزت دیں کہ وہ اپنی مرضی کی قیادت کا انتخاب کرسکیں اور ووٹرز کی رائے کو احترام دیے بغیر جمہوری نظام پر سوالیہ نشان موجود رہیں گے ۔
Load Next Story