علم یا دولت
اوروں کو چھوڑو میں خود تمہارے اسکول میں تمہارے سامنے تعلیم حاصل کر کے نکلا ۔۔۔
ارشد ملک اس ہائی اسکول میں بحیثیت نائب قاصد ملازم رہا جہاں سے میں نے میٹرک کا امتحان پاس کیا تھا۔ عرصہ گزر چکا جب میں آخری بار ایک اسپورٹس کی تقریب میں اپنے اس اسکول میں مدعو ہوا اور مجھے وہاں ارشد ملک بھی ملا جس نے بتایا کہ وہ دو سال بعد سروس سے ریٹائر ہو جائے گا اور تب اس کا بڑا بیٹا گریجویشن کر چکا ہو گا تب وہ مجھ سے ملنے آئے گا۔ میں نے اس کی خواہش ملاقات کو خاص اہمیت نہ دی لیکن خوش دلی سے اسے ملنے کے لیے آنے کی دعوت زوردار طریقے سے دی۔
وقت گزرتے پتہ ہی نہ چلا اور ایک روز وہ میرے دفتر آ گیا اور کہنے لگا کہ میں اس کے بیٹے کو سرکاری ملازمت دلوانے میں بھرپور مدد کروں۔ جس بات پر مجھے حیرت ہوئی وہ اس کا اصرار تھا جس کے مطابق اس نے صرف چار محکموں کی نشاندہی کرتے ہوئے یوں سمجھئے کہ شرط عائد کر دی کہ اس کے بیٹے کو چاہے نائب قاصد ہی بھرتی کروا دوں لیکن ملازمت انھی محکموں میں سے کسی ایک میں ہو۔ اس نے کہا کہ گریجویٹ بیٹے کے لیے اس نے بطور انسپکٹر انکم ٹیکس و ایکسائز یا کسٹم انسپکٹر کی خواہش پال رکھی ہے۔ یہ نہ ہو تو اسے پولیس یا محکمہ مال میں ملازمت دلوا دی جائے۔ ان چار محکموں میں اگر اچھی آسامی فی الحال مشکل ہو تو وہ اسے نائب قاصد کی آسامی مل جانے پر بھی راضی ہے۔
اپنے اسکول کے اس نائب قاصد کے لیے میرے دل میں بڑا احترام تھا اور اگرچہ سرکاری نوکری دلوانے کے لیے مجھے بھی کسی گرو کو پکڑ کر منت سماجت ہی کرنا تھی لیکن جن چار محکموں کا انتخاب اس نے کیا تھا سچی بات ہے میری پوزیشن اور عہدے کی وہاں تک رسائی ناممکنات میں نظر آتی تھی۔ چند محکموں کے وزیر میرا احترام کرتے تھے اس لیے میں نے اسے محکمہ تعلیم، زراعت اور لوکل گورنمنٹ کو بھی اپنی فہرست میں شامل کرنے کا مشورہ دیا جس پر وہ قریباً ناراض ہو گیا اور بولا کہ ''سر اگر آپ میری مدد کرنے سے انکار کرنا چاہتے ہیں تو سیدھی طرح ناں کر دیں۔ میری بے عزتی تو نہ کریں میں نے تو ایک دو نہیں چار محکموں کا نام آپ کی خدمت میں پیش کیا ہے۔''
میری پہلی توجہ اس امر پر گئی کہ جو شخص محکمہ تعلیم میں نائب قاصد بھرتی ہوا اسی عہدے سے ریٹائر ہوا وہ اپنے بڑے لڑکے کو کوئی ہنر سکھا کر یا کسی قسم کا کاروبار کروا کر ترقی کی نئی اور مختلف راہ دکھا کر مالی لحاظ سے آسودہ کیوں نہیں دیکھنا چاہتا کیوں اسے بھی مہینے کی پہلی تاریخ کا تنخواہ دار بنانے پر مصر ہے۔ ارشد ملک اپنے بیٹے کو ترقی اور خوشحالی کا کوئی بہتر کیریئر تجویز کر سکتا تھا۔ و ہ اسے کولہو کا بیل ہی بنانے کی تگ و دو تک کیوں محدود رکھنا چاہتا ہے جب کہ وہ خود 35 سال کی ملازمت کے باوجود ایک پانچ مرلے کا مکان تک نہیں بنا سکا۔
اس سوچ کے فوراً بعد میں نے ان محکموں کی بابت غور کیا اور اگرچہ میں محکموں کے بجائے ان میں ملازمت کرنے والوں کی نیکی بدی، اچھائی برائی کا جائزہ لینا احسن سمجھتا ہوں مجھے ارشاد ملک کی سوچ یا پلاننگ کا ادراک ہو گیا کہ اپنے لڑکے کو کسٹم، انکم ٹیکس، پولیس یا محکمہ مال ہی میں کیوں ملازمت دلوانے کے لیے بضد ہے۔ اس کے باوجود میں نے ارشد ملک سے وضاحت چاہی کہ ملک اور صوبے میں درجنوں محکموں میں سے مذکورہ چار محکموں ہی پر اس کی نظر انتخاب کیوں اٹک کر رہ گئی ہے۔ ارشد ملک نے کچھ ہچکچاہٹ کے ساتھ صاف گوئی کا مظاہرہ کرتے ہوئے باری باری اپنی ترجیح کی وضاحت کی۔
اس کے کئی رشتہ داروں اور دوستوں کی بھی کئی محکموں میں ملازمتیں تھیں۔ اس کا چچازاد بھائی محکمہ انکم ٹیکس میں چپراسی یعنی نائب قاصد ملازم ہوا۔ ابھی وہ ملازمت ہی میں تھا کہ اس نے اپنا دس مرلے کا مکان بنا لیا۔ اپنے بیٹے کو موٹرسائیکل لے دیا اور خود ویگن پر دفتر آتا جاتا۔ اس نے اپنی بیٹی کی شادی بھی محکمہ کے ملازم سے کی اور ریٹائرمنٹ کے بعد اس نے چار رکشے خرید کر کرایہ پر چلانے کا ارادہ کر رکھا تھا۔ دوسرا واقعہ اس نے اپنے دوست کا سنایا کہ اس نے اگرچہ بڑی سفارشوں سے محکمہ کسٹم میں ملازمت حاصل کی لیکن اس کا رہن سہن بڑے ٹھاٹھ باٹھ کا ہے اور اس نے ایک جنرل اسٹور میں رشتہ دار کے ساتھ کاروباری پارٹنر شپ بھی کر رکھی ہے جہاں سے اسے معقول آمدنی ہوتی ہے اور دونوں میاں بیوی اکثر اکٹھے شاپنگ کے لیے اچھے اسٹورز میں جاتے ہیں۔
پھر اس نے پولیس کانسٹیبل دوست کا ذکر کیا کہ اس کے گھر کے ہر فرد کے پاس دو دو موبائل فون ہیں۔ گھر میں اچھے پکوان کھائے جاتے ہیں۔ اس کے لڑکے دن بھر موٹرسائیکل بھگائے پھرتے ہیں جیسے ان کا اپنا پٹرول پمپ ہو اور کانسٹیبل شام کو ڈیوٹی سے واپسی پر بھرا ہوا پھل وغیرہ کا تھیلا لاتا ہے اور اکثر ان کے گھر دوستوں کی محفل جمتی ہے۔
اب اس نے چوتھے کریکٹر کی کہانی بیان کرنا شروع کی کہ محکمہ مال کے ادنیٰ ملازم کے پاس بھی دو مربع زمین اور دو مکان ہیں اور وہ کم حیثیت شخص کو تو سرکاری کام کے لیے بھی وقت نہیں دیتا۔ اس کا ایک لڑکا دبئی میں رہتا ہے اور دوسرے بچوں کی تو شان ہی نرالی ہے۔
میں نے ارشد ملک کی بات بڑے غور سے سنی اور اس سے کہا کہ یہ چار وں افراد جن کی ادنیٰ ملازمتوں اور خوش حالی کا ذکر تم نے کیا ان سب کے اعلیٰ افسر اعلیٰ تعلیم یافتہ ہوں گے۔ تم نے ساری عمر ایک تعلیمی ادارے میں گزار دی اور اب اپنے بیٹے کے لیے ایسی ملازمت کے خواہاں ہو جس کے نتیجے میں تمہارے گھر میں پیسے کی ریل پیل ہو جائے۔ تم نے تعلیمی ادارے میں پینتیس سال گزارنے کے باوجود کبھی نہ سوچا کہ بچوں کو اچھی ہنر مند تعلیم دلواتے تا کہ وہ زندگی میں باوقار کیریئر کی ابتدا کرتے۔
اب تم شارٹ کٹ کے ذریعے امیر ہونا چاہتے ہو۔ اوروں کو چھوڑو میں خود تمہارے اسکول میں تمہارے سامنے تعلیم حاصل کر کے نکلا۔ سوچو کہ اگر دولت حاصل کرنے کا طریقہ ناجائز ذرائع ہو تو کوئی ملک معاشرہ یا فرد ترقی نہیں کر سکتا۔ جاؤ اپنے گریجویٹ بچے کو محکمہ تعلیم میں بھرتی کروانے کے لیے اسے استاد بنانے والی مزید تعلیم دلواؤ اور میرا پیغام دینے کے علاوہ اسے وہ کچھ کرنے کی ترغیب دو جو تم 35 سال تک نہ کر سکے۔ ناجائز ذرائع سے دولت مند ہونے والے سے ایک اچھا استاد بدرجہا بہتر انسان ہوتا ہے۔
وقت گزرتے پتہ ہی نہ چلا اور ایک روز وہ میرے دفتر آ گیا اور کہنے لگا کہ میں اس کے بیٹے کو سرکاری ملازمت دلوانے میں بھرپور مدد کروں۔ جس بات پر مجھے حیرت ہوئی وہ اس کا اصرار تھا جس کے مطابق اس نے صرف چار محکموں کی نشاندہی کرتے ہوئے یوں سمجھئے کہ شرط عائد کر دی کہ اس کے بیٹے کو چاہے نائب قاصد ہی بھرتی کروا دوں لیکن ملازمت انھی محکموں میں سے کسی ایک میں ہو۔ اس نے کہا کہ گریجویٹ بیٹے کے لیے اس نے بطور انسپکٹر انکم ٹیکس و ایکسائز یا کسٹم انسپکٹر کی خواہش پال رکھی ہے۔ یہ نہ ہو تو اسے پولیس یا محکمہ مال میں ملازمت دلوا دی جائے۔ ان چار محکموں میں اگر اچھی آسامی فی الحال مشکل ہو تو وہ اسے نائب قاصد کی آسامی مل جانے پر بھی راضی ہے۔
اپنے اسکول کے اس نائب قاصد کے لیے میرے دل میں بڑا احترام تھا اور اگرچہ سرکاری نوکری دلوانے کے لیے مجھے بھی کسی گرو کو پکڑ کر منت سماجت ہی کرنا تھی لیکن جن چار محکموں کا انتخاب اس نے کیا تھا سچی بات ہے میری پوزیشن اور عہدے کی وہاں تک رسائی ناممکنات میں نظر آتی تھی۔ چند محکموں کے وزیر میرا احترام کرتے تھے اس لیے میں نے اسے محکمہ تعلیم، زراعت اور لوکل گورنمنٹ کو بھی اپنی فہرست میں شامل کرنے کا مشورہ دیا جس پر وہ قریباً ناراض ہو گیا اور بولا کہ ''سر اگر آپ میری مدد کرنے سے انکار کرنا چاہتے ہیں تو سیدھی طرح ناں کر دیں۔ میری بے عزتی تو نہ کریں میں نے تو ایک دو نہیں چار محکموں کا نام آپ کی خدمت میں پیش کیا ہے۔''
میری پہلی توجہ اس امر پر گئی کہ جو شخص محکمہ تعلیم میں نائب قاصد بھرتی ہوا اسی عہدے سے ریٹائر ہوا وہ اپنے بڑے لڑکے کو کوئی ہنر سکھا کر یا کسی قسم کا کاروبار کروا کر ترقی کی نئی اور مختلف راہ دکھا کر مالی لحاظ سے آسودہ کیوں نہیں دیکھنا چاہتا کیوں اسے بھی مہینے کی پہلی تاریخ کا تنخواہ دار بنانے پر مصر ہے۔ ارشد ملک اپنے بیٹے کو ترقی اور خوشحالی کا کوئی بہتر کیریئر تجویز کر سکتا تھا۔ و ہ اسے کولہو کا بیل ہی بنانے کی تگ و دو تک کیوں محدود رکھنا چاہتا ہے جب کہ وہ خود 35 سال کی ملازمت کے باوجود ایک پانچ مرلے کا مکان تک نہیں بنا سکا۔
اس سوچ کے فوراً بعد میں نے ان محکموں کی بابت غور کیا اور اگرچہ میں محکموں کے بجائے ان میں ملازمت کرنے والوں کی نیکی بدی، اچھائی برائی کا جائزہ لینا احسن سمجھتا ہوں مجھے ارشاد ملک کی سوچ یا پلاننگ کا ادراک ہو گیا کہ اپنے لڑکے کو کسٹم، انکم ٹیکس، پولیس یا محکمہ مال ہی میں کیوں ملازمت دلوانے کے لیے بضد ہے۔ اس کے باوجود میں نے ارشد ملک سے وضاحت چاہی کہ ملک اور صوبے میں درجنوں محکموں میں سے مذکورہ چار محکموں ہی پر اس کی نظر انتخاب کیوں اٹک کر رہ گئی ہے۔ ارشد ملک نے کچھ ہچکچاہٹ کے ساتھ صاف گوئی کا مظاہرہ کرتے ہوئے باری باری اپنی ترجیح کی وضاحت کی۔
اس کے کئی رشتہ داروں اور دوستوں کی بھی کئی محکموں میں ملازمتیں تھیں۔ اس کا چچازاد بھائی محکمہ انکم ٹیکس میں چپراسی یعنی نائب قاصد ملازم ہوا۔ ابھی وہ ملازمت ہی میں تھا کہ اس نے اپنا دس مرلے کا مکان بنا لیا۔ اپنے بیٹے کو موٹرسائیکل لے دیا اور خود ویگن پر دفتر آتا جاتا۔ اس نے اپنی بیٹی کی شادی بھی محکمہ کے ملازم سے کی اور ریٹائرمنٹ کے بعد اس نے چار رکشے خرید کر کرایہ پر چلانے کا ارادہ کر رکھا تھا۔ دوسرا واقعہ اس نے اپنے دوست کا سنایا کہ اس نے اگرچہ بڑی سفارشوں سے محکمہ کسٹم میں ملازمت حاصل کی لیکن اس کا رہن سہن بڑے ٹھاٹھ باٹھ کا ہے اور اس نے ایک جنرل اسٹور میں رشتہ دار کے ساتھ کاروباری پارٹنر شپ بھی کر رکھی ہے جہاں سے اسے معقول آمدنی ہوتی ہے اور دونوں میاں بیوی اکثر اکٹھے شاپنگ کے لیے اچھے اسٹورز میں جاتے ہیں۔
پھر اس نے پولیس کانسٹیبل دوست کا ذکر کیا کہ اس کے گھر کے ہر فرد کے پاس دو دو موبائل فون ہیں۔ گھر میں اچھے پکوان کھائے جاتے ہیں۔ اس کے لڑکے دن بھر موٹرسائیکل بھگائے پھرتے ہیں جیسے ان کا اپنا پٹرول پمپ ہو اور کانسٹیبل شام کو ڈیوٹی سے واپسی پر بھرا ہوا پھل وغیرہ کا تھیلا لاتا ہے اور اکثر ان کے گھر دوستوں کی محفل جمتی ہے۔
اب اس نے چوتھے کریکٹر کی کہانی بیان کرنا شروع کی کہ محکمہ مال کے ادنیٰ ملازم کے پاس بھی دو مربع زمین اور دو مکان ہیں اور وہ کم حیثیت شخص کو تو سرکاری کام کے لیے بھی وقت نہیں دیتا۔ اس کا ایک لڑکا دبئی میں رہتا ہے اور دوسرے بچوں کی تو شان ہی نرالی ہے۔
میں نے ارشد ملک کی بات بڑے غور سے سنی اور اس سے کہا کہ یہ چار وں افراد جن کی ادنیٰ ملازمتوں اور خوش حالی کا ذکر تم نے کیا ان سب کے اعلیٰ افسر اعلیٰ تعلیم یافتہ ہوں گے۔ تم نے ساری عمر ایک تعلیمی ادارے میں گزار دی اور اب اپنے بیٹے کے لیے ایسی ملازمت کے خواہاں ہو جس کے نتیجے میں تمہارے گھر میں پیسے کی ریل پیل ہو جائے۔ تم نے تعلیمی ادارے میں پینتیس سال گزارنے کے باوجود کبھی نہ سوچا کہ بچوں کو اچھی ہنر مند تعلیم دلواتے تا کہ وہ زندگی میں باوقار کیریئر کی ابتدا کرتے۔
اب تم شارٹ کٹ کے ذریعے امیر ہونا چاہتے ہو۔ اوروں کو چھوڑو میں خود تمہارے اسکول میں تمہارے سامنے تعلیم حاصل کر کے نکلا۔ سوچو کہ اگر دولت حاصل کرنے کا طریقہ ناجائز ذرائع ہو تو کوئی ملک معاشرہ یا فرد ترقی نہیں کر سکتا۔ جاؤ اپنے گریجویٹ بچے کو محکمہ تعلیم میں بھرتی کروانے کے لیے اسے استاد بنانے والی مزید تعلیم دلواؤ اور میرا پیغام دینے کے علاوہ اسے وہ کچھ کرنے کی ترغیب دو جو تم 35 سال تک نہ کر سکے۔ ناجائز ذرائع سے دولت مند ہونے والے سے ایک اچھا استاد بدرجہا بہتر انسان ہوتا ہے۔