امریکا کا مالیاتی فراڈ… دوسرا حصہ
امریکا کے کاغذی ڈالر نے 1930 کا عالمی معاشی بحران پیدا کیا ۔۔۔
معاشی غلام ملکوں کے حکمران ہمیشہ غیرملکی سرمایہ کاری کو عوامی معاشی مسائل کے حل کا ذریعہ قرار دے کر اس کی آڑ میں کمیشن کھاتے ہیں اور بڑے گھپلے کرتے ہیں۔ کرائے کے بجلی گھروں کی مثال سامنے ہے۔ پہلی جنگ 1914 سے لے کر 1928 تک امریکا نے یورپی ملکوں کے ''کرنسی ایکسچینج بحران '' کو استعمال کرکے پورے یورپ میں کاغذی ڈالر معیشت میں داخل کردیے۔ ان ڈالروں کی آمدنی امریکا کی طرف منتقل ہوتی گئی۔ ڈالر یورپی معیشت میں گردش کر رہے تھے ان کا نفع امریکا منتقل ہو رہا تھا۔
جاپان میں یہ چیز خاص طور سامنے آئی کہ بالادست طبقے کے پاس افراط زر بڑھتا یا اکٹھا ہوتا گیا اور عوام قلت زر کا شکار ہوگئے۔ عوامی قوت خرید میں کمی کے نتیجے میں کساد بازاری پیدا ہوتی گئی۔ امریکا نے مالیاتی منصوبہ بندی کرکے یورپی ملکوں کی کرنسیوں کو ڈالر کا قیدی بنالیا تھا۔ امریکی ڈالر یورپی معیشت میں "Currency Devaluation Minus Economic Development" کے ذریعے ان ملکوں کی ایکسپورٹ کو کم کرتا گیا، اس سے امریکی ایکسپورٹ بڑھتی گئی۔ امریکی قید سرمایہ داری کو امریکا نے آزاد منڈی کہا۔ لیکن یہ درحقیقت آزاد منڈی نہیں تھی، یہ امریکی کاغذی ڈالر کی غلام منڈیاں تھیں۔ امریکی کاغذی ڈالر FDI کی شکل میں یورپی ملکوں کی منڈیوں سے مقامی نفع کو امریکا کی طرف منتقل کر رہی تھی۔
معاشی غلام یورپ پر قرضوں کے سود امریکا کو منتقل ہو رہے تھے اور کرنسیوں کی قیمتوں میں ڈالر کے مقابلے مقامی صنعتی کلچر کا خاتمہ، ملکی لاگتیں بڑھنے سے امریکی اشیا سستی ہوکر ان ملکوں میں امپورٹ ہوکر نفع امریکا لے جا رہی تھیں۔ یہ تمام باتیں اکٹھی ہوکر ان ملکوں میں معاشی بحران پیدا کرنے کا سبب بن گئیں اور سب سے بڑا جرم ان ملکوں میں موجود ڈالر ٹریڈرز نے یہ کیا کہ انھوں نے ڈالر ٹریڈنگ میں مقامی کرنسیوں کی شکل میں زیادہ سے زیادہ نفع لینے کے لیے ڈالر بلیک کرکے اور بھی مقامی کرنسیوں کی قیمتوں کو ڈالر کے مقابلے میں کم کرنے کا کردار ادا کیا جو خود امریکا بھی یہی چاہتا تھا۔ 1914 کے ''یورپی کرنسی ایکسچینج بحران'' میں امریکا نے تیز رفتاری سے ان ملکوں کی تجارت کی ضرورت ڈالر بنادیا تھا۔
کتاب International Currency Experience by league of Nations 1944 کے صفحے 235 پر 1924 میں 24 ملکوں کے پاس ڈالر فارن ایکسچینج ریزرو 845.0 ملین ڈالر تھے۔ بڑھتے بڑھتے 1928 میں 2520.0 ملین ڈالر ہوگئے۔ عالمی معاشی بحران امریکی غیر پیداواری اخراجات کے بوجھ کی شکل میں ہر ملک کی معیشت و مالیت میں ڈالر کی شکل میں موجود تھا۔ 1929 میں یورپی ملکوں نے ڈالروں کو واپس سونے کے عیوض کرنا شروع کردیا تھا۔ جوں جوں امریکا سے کاغذی ڈالروں کے عوض سونا نکلتا گیا توں توں امریکی حکومت کے لیے پریشانی بڑھتی گئی۔ کیونکہ پھیلائے گئے کاغذی ڈالروں کے عوض سونا امریکا ادا نہیں کرسکتا تھا، امریکی حکومت نے ڈیفالٹر ہونے سے بچنے کے لیے ''مالیاتی گولڈ فراڈ پلان'' "Monetary Gold Fraud Plan" فوراً ترتیب دیا۔
کتاب International Economy by John Parke Young 1963 کے صفحے 741 پر درج ہے کہ امریکی صدر روز ویلٹ نے 20اپریل 1933 کو سونے کی ایکسپورٹ پر فوراً پابندی لگادی تھی۔ اور MGEP پر عمل کرتے ہوئے 22 اکتوبر 1933کو صدر نے سونا خریدنے کا اعلان کیا اور 25 اکتوبر 1933 کو 31.36 ڈالر فی اونس سونا خریدنا شروع کیا۔ 26 اکتوبر کو 31.54 ڈالر فی اونس، 27 اکتوبر 1933 کو 31.76 ڈالر، 28 اکتوبر 1933 کو 31.82 ڈالر، 16 جنوری 1934 کو 34.45 ڈالر اور 31 جنوری 1934 کو 35.0 ڈالر فی اونس سونے کی قیمت مقرر کردی گئی۔ امریکی MGFP کے نتیجے میں جو کاغذی ڈالر واپس امریکا آرہا تھا وہ آنا بند ہوگیا۔
بلکہ الٹا امریکا سے ملک میں اور بیرونی ملکوں میں موجود ڈالر ٹریڈرز نے سونا خریدنا شروع کردیا اور امریکا بھیجنا شروع کردیا اور 1934 میں تمام شکل بدل گئی۔ امریکی سونے کی امپورٹ جمپ مار کر 1187.0 ملین ڈالر (یہ اعداد و شمار متذکرہ کتاب کے صفحے 136 سے ہی پیش کیے گئے ہیں) اور مسلسل سونے کی امپورٹ 1943 تک بڑھتی گئی۔ 1934 سے 1943 تک امریکا نے کاغذی ڈالر کے عوض 17323.0 ملین گولڈ ڈالر حاصل کرلیا تھا۔
ڈالر کی قیمت میں سونے کے مقابلے میں 69 فیصد کمی کا اثر تمام ان کرنسیوں پر منفی پڑا جن کی قیمتیں ڈالر کے مقابلے میں کم تھیں، امریکا نے اس مالیاتی، معاشی بحران کا رخ اپنی طرف سے موڑ کر واپس تمام دنیا کی معیشتوں کی طرف کردیا جو کاغذی ڈالروں کے بدلے سونا مانگ رہی تھیں۔ ان ملکوں کو دھوکا ان کے اپنے اندر ملکوں میں موجود ڈالر ٹریڈرز نے دیا، جو ڈالر ٹریڈنگ کرکے اپنے اپنے ملکوں کی کرنسیوں کو زیادہ سے زیادہ نفع کی شکل میں حاصل کر رہے تھے۔
''کتاب انٹرنیشنل کرنسی ایکسپیرینس'' کے صفحے 240 پر دیے گئے گولڈ ملین ریزرو ڈالر امریکا کے پاس 12969.0 ملین ڈالر تھے اور کتاب International Financial Statistics December 1949 Volume II Number 12. by IMF. USA کے صفحے 1 سے 128 تک تمام ملکوں کے پاس 1943 میں 8406.63 ملین ڈالر گولڈ ریزرو تھا۔ امریکا کا گولڈ ریزرو ملین 12969.0 ڈالر میں امپورٹ کردہ 17323.0 ملین ڈالر گولڈ جمع کردیا جائے تو امریکا کے پاس ٹوٹل گولڈ 30292.0 ریزرو ملین ڈالر تھا۔ اس طرح امریکا MGFP کا ہتھکنڈا استعمال کرکے پوری دنیا سے 260 فیصد زیادہ گولڈ ریزرو ملین ڈالر حاصل کرچکا تھا۔ اس کے بعد جب امریکا دوسری عالمی جنگ میں شریک نہیں ہوا تھا امریکا نے 1940 میں سیکریٹری آف اسٹیٹ Hull کو تجارتی و مالیاتی امور کے لیے Inter Departmental Group کا سربراہ مقرر کیا۔
اس گروپ کی سربراہی میں ''ٹریژری ڈپارٹمنٹ آف مانیٹری ریسرچ'' کے ہنری ڈی وائٹ نے دسمبر 1941 (امریکا دوسری عالمی جنگ میں 7 دسمبر 1941 کو شریک ہوا تھا) کو ایم میمورنڈم Proposal for a Stabilization Fund of the United and Associated Nations" کے نام سے پیش کیا۔ اسی پرپوزل کے ساتھ (ورلڈ بینک) Bank for Reconstruction and Development کا پلان بھی پیش کیا۔ امریکا نے برطانیہ کو ساتھ ملاکر 27 دسمبر 1945 کو IMF کو 15 دسمبر 1923 والے EEE کی جگہ قائم کرلیا تھا۔IMF کے EEE کی طرز پر مالیاتی آپریشن پوری دنیا میں 91 سال گزرنے کے بعد بھی جاری ہیں۔ امریکی مالیاتی سسٹم نے دنیا کو دو حصوں میں نیٹو، آئی ایم ایف، ورلڈ بینک کی چھتری تلے بانٹ دیا ہے۔ اکثریتی ممالک سامراجی امریکی بلاک کے معاشی غلام ملک ہیں۔ دوسری طرف سامراجی بلاک ہے۔
امریکا کے کاغذی ڈالر نے 1930 کا عالمی معاشی بحران پیدا کیا، امریکا نے مالیاتی گولڈ فراڈ پلان MGFP کے ذریعے خود کو ڈیفالٹر ہونے سے بچا لیا تھا اور پوری دنیا میں جنگی جارحیت، سرمایہ کاری، فارن ایکسچینج ڈالر ریزرو کو رکھنا IMF کے پلیٹ فارم سے لازمی قرار دے کر دنیا کی معیشتوں میں کئی سو کھربوں ڈالر داخل کردیے۔ امریکا نے ڈالر کرنسی ایکسپورٹ کرنے کا طریقہ واضح کیا۔ کاغذی ڈالر کو جنس کے درجے پر لے جاکر کاغذی ڈالر کی صنعت کو پوری دنیا میں پھیلاکر تمام ملکوں کے فطری پیداواری ذرائع میں رکاوٹیں CDMED کی شکل میں کھڑی کردیں، ان تمام منفی امریکی اقدامات کے نتیجے میں یورپی ملکوں میں مالیاتی و معاشی عدم استحکام اور بے چینی بڑھنے کے نتیجے میں مارچ 1971 کو فرانس نے امریکا سے 28 کروڑ 20 لاکھ ڈالر کے عوض سونے کی ادائیگی کا مطالبہ کیا۔
اس کے ساتھ ہی نیدرلینڈ، سوئٹزرلینڈ، بیلجیم اور آسٹریا نے بھی ڈالروں کے عوض سونے کی ادائیگی کا مطالبہ کیا۔ امریکا سونے کی ادائیگی کرنے میں ناکام ہوگیا اور امریکی صدر نکسن نے 15 اگست 1971 کو ڈالروں کے عوض سونے کی ادائیگی پر پابندی لگا دی، اور الٹا یورپی ملکوں کو بدمعاشی دکھاتے ہوئے ان کی اشیا کی ایکسپورٹ پر امریکا میں سرٹیکس 10 فیصد لگادیا۔ (جاری ہے)
جاپان میں یہ چیز خاص طور سامنے آئی کہ بالادست طبقے کے پاس افراط زر بڑھتا یا اکٹھا ہوتا گیا اور عوام قلت زر کا شکار ہوگئے۔ عوامی قوت خرید میں کمی کے نتیجے میں کساد بازاری پیدا ہوتی گئی۔ امریکا نے مالیاتی منصوبہ بندی کرکے یورپی ملکوں کی کرنسیوں کو ڈالر کا قیدی بنالیا تھا۔ امریکی ڈالر یورپی معیشت میں "Currency Devaluation Minus Economic Development" کے ذریعے ان ملکوں کی ایکسپورٹ کو کم کرتا گیا، اس سے امریکی ایکسپورٹ بڑھتی گئی۔ امریکی قید سرمایہ داری کو امریکا نے آزاد منڈی کہا۔ لیکن یہ درحقیقت آزاد منڈی نہیں تھی، یہ امریکی کاغذی ڈالر کی غلام منڈیاں تھیں۔ امریکی کاغذی ڈالر FDI کی شکل میں یورپی ملکوں کی منڈیوں سے مقامی نفع کو امریکا کی طرف منتقل کر رہی تھی۔
معاشی غلام یورپ پر قرضوں کے سود امریکا کو منتقل ہو رہے تھے اور کرنسیوں کی قیمتوں میں ڈالر کے مقابلے مقامی صنعتی کلچر کا خاتمہ، ملکی لاگتیں بڑھنے سے امریکی اشیا سستی ہوکر ان ملکوں میں امپورٹ ہوکر نفع امریکا لے جا رہی تھیں۔ یہ تمام باتیں اکٹھی ہوکر ان ملکوں میں معاشی بحران پیدا کرنے کا سبب بن گئیں اور سب سے بڑا جرم ان ملکوں میں موجود ڈالر ٹریڈرز نے یہ کیا کہ انھوں نے ڈالر ٹریڈنگ میں مقامی کرنسیوں کی شکل میں زیادہ سے زیادہ نفع لینے کے لیے ڈالر بلیک کرکے اور بھی مقامی کرنسیوں کی قیمتوں کو ڈالر کے مقابلے میں کم کرنے کا کردار ادا کیا جو خود امریکا بھی یہی چاہتا تھا۔ 1914 کے ''یورپی کرنسی ایکسچینج بحران'' میں امریکا نے تیز رفتاری سے ان ملکوں کی تجارت کی ضرورت ڈالر بنادیا تھا۔
کتاب International Currency Experience by league of Nations 1944 کے صفحے 235 پر 1924 میں 24 ملکوں کے پاس ڈالر فارن ایکسچینج ریزرو 845.0 ملین ڈالر تھے۔ بڑھتے بڑھتے 1928 میں 2520.0 ملین ڈالر ہوگئے۔ عالمی معاشی بحران امریکی غیر پیداواری اخراجات کے بوجھ کی شکل میں ہر ملک کی معیشت و مالیت میں ڈالر کی شکل میں موجود تھا۔ 1929 میں یورپی ملکوں نے ڈالروں کو واپس سونے کے عیوض کرنا شروع کردیا تھا۔ جوں جوں امریکا سے کاغذی ڈالروں کے عوض سونا نکلتا گیا توں توں امریکی حکومت کے لیے پریشانی بڑھتی گئی۔ کیونکہ پھیلائے گئے کاغذی ڈالروں کے عوض سونا امریکا ادا نہیں کرسکتا تھا، امریکی حکومت نے ڈیفالٹر ہونے سے بچنے کے لیے ''مالیاتی گولڈ فراڈ پلان'' "Monetary Gold Fraud Plan" فوراً ترتیب دیا۔
کتاب International Economy by John Parke Young 1963 کے صفحے 741 پر درج ہے کہ امریکی صدر روز ویلٹ نے 20اپریل 1933 کو سونے کی ایکسپورٹ پر فوراً پابندی لگادی تھی۔ اور MGEP پر عمل کرتے ہوئے 22 اکتوبر 1933کو صدر نے سونا خریدنے کا اعلان کیا اور 25 اکتوبر 1933 کو 31.36 ڈالر فی اونس سونا خریدنا شروع کیا۔ 26 اکتوبر کو 31.54 ڈالر فی اونس، 27 اکتوبر 1933 کو 31.76 ڈالر، 28 اکتوبر 1933 کو 31.82 ڈالر، 16 جنوری 1934 کو 34.45 ڈالر اور 31 جنوری 1934 کو 35.0 ڈالر فی اونس سونے کی قیمت مقرر کردی گئی۔ امریکی MGFP کے نتیجے میں جو کاغذی ڈالر واپس امریکا آرہا تھا وہ آنا بند ہوگیا۔
بلکہ الٹا امریکا سے ملک میں اور بیرونی ملکوں میں موجود ڈالر ٹریڈرز نے سونا خریدنا شروع کردیا اور امریکا بھیجنا شروع کردیا اور 1934 میں تمام شکل بدل گئی۔ امریکی سونے کی امپورٹ جمپ مار کر 1187.0 ملین ڈالر (یہ اعداد و شمار متذکرہ کتاب کے صفحے 136 سے ہی پیش کیے گئے ہیں) اور مسلسل سونے کی امپورٹ 1943 تک بڑھتی گئی۔ 1934 سے 1943 تک امریکا نے کاغذی ڈالر کے عوض 17323.0 ملین گولڈ ڈالر حاصل کرلیا تھا۔
ڈالر کی قیمت میں سونے کے مقابلے میں 69 فیصد کمی کا اثر تمام ان کرنسیوں پر منفی پڑا جن کی قیمتیں ڈالر کے مقابلے میں کم تھیں، امریکا نے اس مالیاتی، معاشی بحران کا رخ اپنی طرف سے موڑ کر واپس تمام دنیا کی معیشتوں کی طرف کردیا جو کاغذی ڈالروں کے بدلے سونا مانگ رہی تھیں۔ ان ملکوں کو دھوکا ان کے اپنے اندر ملکوں میں موجود ڈالر ٹریڈرز نے دیا، جو ڈالر ٹریڈنگ کرکے اپنے اپنے ملکوں کی کرنسیوں کو زیادہ سے زیادہ نفع کی شکل میں حاصل کر رہے تھے۔
''کتاب انٹرنیشنل کرنسی ایکسپیرینس'' کے صفحے 240 پر دیے گئے گولڈ ملین ریزرو ڈالر امریکا کے پاس 12969.0 ملین ڈالر تھے اور کتاب International Financial Statistics December 1949 Volume II Number 12. by IMF. USA کے صفحے 1 سے 128 تک تمام ملکوں کے پاس 1943 میں 8406.63 ملین ڈالر گولڈ ریزرو تھا۔ امریکا کا گولڈ ریزرو ملین 12969.0 ڈالر میں امپورٹ کردہ 17323.0 ملین ڈالر گولڈ جمع کردیا جائے تو امریکا کے پاس ٹوٹل گولڈ 30292.0 ریزرو ملین ڈالر تھا۔ اس طرح امریکا MGFP کا ہتھکنڈا استعمال کرکے پوری دنیا سے 260 فیصد زیادہ گولڈ ریزرو ملین ڈالر حاصل کرچکا تھا۔ اس کے بعد جب امریکا دوسری عالمی جنگ میں شریک نہیں ہوا تھا امریکا نے 1940 میں سیکریٹری آف اسٹیٹ Hull کو تجارتی و مالیاتی امور کے لیے Inter Departmental Group کا سربراہ مقرر کیا۔
اس گروپ کی سربراہی میں ''ٹریژری ڈپارٹمنٹ آف مانیٹری ریسرچ'' کے ہنری ڈی وائٹ نے دسمبر 1941 (امریکا دوسری عالمی جنگ میں 7 دسمبر 1941 کو شریک ہوا تھا) کو ایم میمورنڈم Proposal for a Stabilization Fund of the United and Associated Nations" کے نام سے پیش کیا۔ اسی پرپوزل کے ساتھ (ورلڈ بینک) Bank for Reconstruction and Development کا پلان بھی پیش کیا۔ امریکا نے برطانیہ کو ساتھ ملاکر 27 دسمبر 1945 کو IMF کو 15 دسمبر 1923 والے EEE کی جگہ قائم کرلیا تھا۔IMF کے EEE کی طرز پر مالیاتی آپریشن پوری دنیا میں 91 سال گزرنے کے بعد بھی جاری ہیں۔ امریکی مالیاتی سسٹم نے دنیا کو دو حصوں میں نیٹو، آئی ایم ایف، ورلڈ بینک کی چھتری تلے بانٹ دیا ہے۔ اکثریتی ممالک سامراجی امریکی بلاک کے معاشی غلام ملک ہیں۔ دوسری طرف سامراجی بلاک ہے۔
امریکا کے کاغذی ڈالر نے 1930 کا عالمی معاشی بحران پیدا کیا، امریکا نے مالیاتی گولڈ فراڈ پلان MGFP کے ذریعے خود کو ڈیفالٹر ہونے سے بچا لیا تھا اور پوری دنیا میں جنگی جارحیت، سرمایہ کاری، فارن ایکسچینج ڈالر ریزرو کو رکھنا IMF کے پلیٹ فارم سے لازمی قرار دے کر دنیا کی معیشتوں میں کئی سو کھربوں ڈالر داخل کردیے۔ امریکا نے ڈالر کرنسی ایکسپورٹ کرنے کا طریقہ واضح کیا۔ کاغذی ڈالر کو جنس کے درجے پر لے جاکر کاغذی ڈالر کی صنعت کو پوری دنیا میں پھیلاکر تمام ملکوں کے فطری پیداواری ذرائع میں رکاوٹیں CDMED کی شکل میں کھڑی کردیں، ان تمام منفی امریکی اقدامات کے نتیجے میں یورپی ملکوں میں مالیاتی و معاشی عدم استحکام اور بے چینی بڑھنے کے نتیجے میں مارچ 1971 کو فرانس نے امریکا سے 28 کروڑ 20 لاکھ ڈالر کے عوض سونے کی ادائیگی کا مطالبہ کیا۔
اس کے ساتھ ہی نیدرلینڈ، سوئٹزرلینڈ، بیلجیم اور آسٹریا نے بھی ڈالروں کے عوض سونے کی ادائیگی کا مطالبہ کیا۔ امریکا سونے کی ادائیگی کرنے میں ناکام ہوگیا اور امریکی صدر نکسن نے 15 اگست 1971 کو ڈالروں کے عوض سونے کی ادائیگی پر پابندی لگا دی، اور الٹا یورپی ملکوں کو بدمعاشی دکھاتے ہوئے ان کی اشیا کی ایکسپورٹ پر امریکا میں سرٹیکس 10 فیصد لگادیا۔ (جاری ہے)