مزدور اپنے حقوق کے منتظر……
آئندہ برس مزدوروں کا عالمی دن زیادہ شان و شوکت سے منانے کے بجائے ضرورت ہے ۔۔۔
ماہ رواں کی ابتدا مزدوروں کا عالمی دن منا کر کی جاتی ہے۔ ہر سال کی طرح اس مرتبہ بھی یکم مئی کو مزدورں کا عالمی دن انتہائی جوش و خروش کے ساتھ منایا گیا، بیشتر ممالک میں اس حوالے سے خصوصی تقریبات کا مناسب اہتمام کیا گیا۔ پاکستان میں بھی اس روز عام تعطیل تھی، اس موقع پر مختلف سرکاری اور غیر سرکاری اداروں اور تنظیموں کی جانب سے مزدوروں کے حقوق کے حوالے سے پروگرامات کا انعقاد ہوا، سیاسی رہنمائوں نے بھی ہر سال کی طرح اس ضمن میں اپنے دھواں دھار بیانات جاری کیے۔
حکومتی وزراء اور شخصیات نے مزدوروں کے حقوق کی فراہمی کو ممکن بنانے کے لیے سرکاری سطح پر اقدامات کا اعادہ کیا، انسانی حقوق کی تنظیمیں بھی کسی سے پیچھے نہ رہیں، مزدوروں سے اظہار یکجہتی کے لیے سیمینارز منعقد کرائے گئے، ریلیاں نکالی گئیں، مذاکرے ہوئے، ورکشاپ کا اہتمام کیا گیا، واک کا انعقاد ہوا، حتیٰ کہ بڑے ہوٹلوں میں پرتکلف عشائیے بھی دیے گئے، شہداء مزدوروں کی یاد میں چراغ بھی جلائے گئے، مگر ان باتوں کا کوئی عملی نتیجہ سامنے نہیں آیا۔ مزدور آج بھی اپنے حقوق کے لیے کوشاں ہے، بے تحاشا مسائل اس کے دامن سے لپٹے ہوئے ہیں، وہ مراعات تو کجا اپنے بنیادی حقوق سے بھی محروم ہے۔
اس سال بھی ملک میں 6 کروڑ سے زائد مزدوروں کی اکثریت کی نگاہیں امید اور آس لگائی رہیں کہ شاید اس مرتبہ ریاست کی جانب سے ان کو حقوق کی فراہمی کے حوالے سے اقدامات کا اعلان ممکن ہوگا، مگر وہ ہی ڈھاک کے تین پات کے مصداق دہرے استحصال کا شکار مزدور بنیادی حقوق سے محروم رہے۔ اس ضمن میں سرکار نے ہمیشہ کی طرح خاموشی اختیار کیے رکھی، تاہم سندھ میں پہلی بار زراعت پر بھی صنعتی تعلقات ایکٹ 2013 لاگو ہونے سے کسانوں اور ہاریوں میں امید کی کرن پیدا ہوئی ہے۔ لیکن اس سے قطعی طور پر انکار ممکن نہیں ہے کہ بین الاقوامی ادارہ محنت (آئی ایل او) کے 28 کنونشنز پر دستخط اور پھر اس کی توثیق کرنے کے باوجود آج بھی پاکستان میں ان پر عمل درآمد نہ ہونے کے برابر ہے۔
کیا یہ ستم ظریفی نہیں ہے کہ ملک بھر میں صرف 2.8 فیصد مزدور یونین سازی کے حق سے مستفید ہورہے ہیں جس میں عوامی شعبے کا حصہ 65 فیصد سے زائد ہے۔ کیا ظلم نہیں ہے کہ گھروں پر کام کرنے والے 1 کروڑ 20 لاکھ مرد اور خواتین مزدوروں کے لیے سرے سے کوئی قانون ہی موجود نہیں تو وہ قانونی مراعات کیوں کر حاصل کر سکتے ہیں۔ نجی شعبے میں کام کرنے والے 90 فیصد پیداواری اداروں میں فیکٹری ایکٹ کے تحت رجسٹرڈ نہ ہونا کسی المیہ سے کم نہیں۔ ملکی لیبر قوانین پر عمل درآمد کیسے ممکن ہے جبکہ 95 فیصد مزدوروں کو سوشل سیکیورٹی کارڈ کی سہولت ہی میسر نہیں۔ اس پر طرہ یہ ہے کہ آج ملک میں 90 فیصد سے زیادہ غیر ہنر مند مزدور سرکاری اعلان کے مطابق کم از کم 10 ہزار روپے ماہانہ تنخواہ سے محروم ہیں۔
پاکستان کے مزدور10 ستمبر 1948 کو منظور ہونے والے اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے عالمگیر اعلامیہ کے تحت ملنے والے انسانی حقوق سے آج بھی محروم ہیں۔ دوران کام مزدور کو آئینی و قا نونی تحفظ بھی حاصل نہیں، بڑھتی ہوئی مہنگائی، بے روزگاری، لاقانونیت، اداروں میں تالہ بندی، توانائی کے بحران اور چھانٹیوں کا نہ رکنے والا سلسلہ مزدوروں اور ان کے اہل خانہ پر منفی اثرات مرتب کر رہا ہے، جس سے ملک میں دہشت گردی کو فروغ ملنے کا بھی امکان بتدریج بڑھ رہا ہے۔ مزدور جہاں دو وقت کی روٹی کے لیے دن رات سرگرداں ہے، وہیں اسے سر چھپانے کا بھی آسرا میسر نہیں ہے۔
مزدوروں کے لیے رہائشی اسکیمیں ایک خواب بن کر رہ گئی ہیں، مزید برآں ریٹائرمنٹ کے بعد پنشن کے مسائل اس کی پریشانیوں میں اضافے کا باعث بن رہے ہیں، دوران کام زخمی ہونے والے مزدورں کی کوئی شنوائی نہیں ہوتی، جبکہ ناقص عدالتی نظام کے سبب مزدور بھی انصاف کے حصول کے لیے ایڑیاں رگڑتا نظر آرہا ہے۔ کیا اسے ناانصافی تصور نہیں کیا جائے گا کہ قلیل تنخواہ کے عوض روزانہ 12 سے 14 گھنٹے کام لے کر اس کا استحصال کیا جارہا ہے۔ ٹھیکے داری، کنٹریکٹ، روزانہ اجرت اور فی ٹکڑا کی بنیاد پر کام کرنے والے مزدور کسی غلام سے ہرگز کم نہیں۔
قرض فراہم کرنے والے عالمی اداروں کی شرط پورا کرنے کے لیے مجبور ہو کر ملک میں آزادی اظہار کا قانون بنانے والی ریاست نے اب یورپی یونین کی پارلیمنٹ سے 10 برس کے لیے ملنے والی GSP+ (جنرل سسٹم آف پریفرنس پلس) کی خصوصی حیثیت کے سبب آئی ایل او کے بنیادی مزدور معیارات کو لاگو کرنے کا وعدہ کرلیا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ اس ضمن میں کس قدر عمل ہوتا ہے لیکن پبلک سیکٹر میں اداروں کی نجکاری کی منصوبہ بندی مزدوروں کے لیے موت کا پیغام ہے۔ اس ضمن میں ہمیں یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ آیا ٹریڈ یونینز صنعتی اداروں میں درست سمت میں کام کررہی ہیں۔
آئی ایل او کے کنونشنز پر ریاست کے عمل درآمد اور اس حوالے سے اس کے اقدامات پر بھی توجہ کی ضرورت ہے۔ 18ویں ترمیم کے بعد وفاق سے صوبوں کو منتقل کیے جانے والے اداروں اور محکموں کے معاملات بھی توجہ طلب ہیں۔ اسی حوالے سے مزدوروں کو مروجہ قانونی مراعات جن میں کارکنان کے بچوں کو تعلیمی اسکالر شپس کا نہ دیا جانا، دنیا سے چلے جانے والے مزدوروں کی بیوائوں کو ڈیتھ گرانٹ 5 لاکھ روپے کی عدم ادائیگی، زیادہ اوقات کا ر میں خدمات کی انجام دہی پر اوور ٹائم سے محروم رکھا جانا، اقلیتی کارکنان، خواتین کارکنان، نوجوان کارکنان اور معذور کارکنان کے حقوق کی عدم ادائیگی بھی کسی المیے سے کم نہیں۔
مجبور خواتین کارکنان کو جنسی طور پر ہراساں کیا جانا بھی فکر انگیز ہے۔ سن کوٹہ کے قانون پر سختی کے ساتھ عملدرآمد کرنے کی ضرورت ہے، اس طرح مزدور کا بچہ اپنے قانونی حق کے حصول کے ساتھ اپنے گھرانے کی معاشی کفالت کی ذمے داری بھی ادا کرسکتا ہے۔ کسی کارکن کے لیے ڈیویڈنٹ کی رقم حاصل کرنا بھی جوئے شیر لانے سے کم نہیں ہے، اس مراعت سے محرومی یا تاخیر سے مزدور مالی مشکلات اور پریشانی کا ہوجاتا ہے۔
ہمیں اس امر کو مدنظر رکھنا ہوگا کہ آج مزدور کو کس قدر بنیادی حقوق حاصل ہیں، ہم سب کو مل کر یہ سوچنا ہوگا کہ موجودہ پرآشوب دور میں مزدور کو جینے کا حق مل بھی رہا ہے یا نہیں۔ کہیں وہ تعصب کا شکار تو نہیں ہورہا، اسے تشدد کا نشانہ تو نہیں بنایا جارہا، قانون کی نظر میں مساوی درجہ کے حامل مزدور کی آزادانہ نقل و حمل تو متاثر نہیں ہورہی، دیگر شعبہ ہائے زندگی کی طرح مزدور طبقہ کو بھی جمہوری عمل میں شامل کرنے کے ساتھ سماجی تحفظ بھی مل رہا ہے یا نہیں۔
سب سے بڑھ کر لازمی اور اہم ترین بات یہ ہے کہ قوانین کے مطابق صنعتی اور تجارتی اداروں میں کارکنان کی رجسٹریشن کے حق پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے تاکہ وہ اپنی ٹریڈ یونین قائم کرکے نہ صرف ریفرنڈم کا جمہوری حق حاصل کریں بلکہ بعد ازاں اجتماعی سودے کاری ایجنٹ کی حیثیت سے اپنے آئینی اور قانونی حقوق کے لیے چارٹر آف ڈیمانڈ منظور کروائیں، لیکن اس کے لیے ضرورت اس امرکی ہے کہ مزدور تمام تر تعصبات، مذہب، رنگ و نسل اور زبان کے علاوہ سیاسی وابستگیوں سے بالاتر ہو کر اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کریں، جس کے لیے بے باک اور نڈر قیادت کی ضرورت ہے، جو اپنی مدبرانہ سوچ سے قومی مفاد اور ملکی استحکام میں اپنا کردار ادا کرے۔
آئندہ برس مزدوروں کا عالمی دن زیادہ شان و شوکت سے منانے کے بجائے ضرورت ہے کہ مزدوروں کو ان کے حقوق کی فراہمی کے لیے عملی اقدامات کی کوشش کی جائے۔ ریاست اور آجر مل کر مزدوروں کی مشاورت سے ان کی فلاح و بہبود اور معاشی و معاشرتی ترقی کے لیے مطلوبہ قوانین کو نافذ اور رائج کرنے کا اہتمام کریں، اس ضمن میں سیاسی جماعتوں اور میڈیا کا کردار اور ذمے داری انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔ اگر ایسا ہوگیا تو مزدور ملک کی ترقی اور تعمیر میں ایک نئے جذبے کے ساتھ شریک ہوگا اور پاکستان امن و سلامتی اور شادمانی کا گہوارہ بن جائے گا۔
حکومتی وزراء اور شخصیات نے مزدوروں کے حقوق کی فراہمی کو ممکن بنانے کے لیے سرکاری سطح پر اقدامات کا اعادہ کیا، انسانی حقوق کی تنظیمیں بھی کسی سے پیچھے نہ رہیں، مزدوروں سے اظہار یکجہتی کے لیے سیمینارز منعقد کرائے گئے، ریلیاں نکالی گئیں، مذاکرے ہوئے، ورکشاپ کا اہتمام کیا گیا، واک کا انعقاد ہوا، حتیٰ کہ بڑے ہوٹلوں میں پرتکلف عشائیے بھی دیے گئے، شہداء مزدوروں کی یاد میں چراغ بھی جلائے گئے، مگر ان باتوں کا کوئی عملی نتیجہ سامنے نہیں آیا۔ مزدور آج بھی اپنے حقوق کے لیے کوشاں ہے، بے تحاشا مسائل اس کے دامن سے لپٹے ہوئے ہیں، وہ مراعات تو کجا اپنے بنیادی حقوق سے بھی محروم ہے۔
اس سال بھی ملک میں 6 کروڑ سے زائد مزدوروں کی اکثریت کی نگاہیں امید اور آس لگائی رہیں کہ شاید اس مرتبہ ریاست کی جانب سے ان کو حقوق کی فراہمی کے حوالے سے اقدامات کا اعلان ممکن ہوگا، مگر وہ ہی ڈھاک کے تین پات کے مصداق دہرے استحصال کا شکار مزدور بنیادی حقوق سے محروم رہے۔ اس ضمن میں سرکار نے ہمیشہ کی طرح خاموشی اختیار کیے رکھی، تاہم سندھ میں پہلی بار زراعت پر بھی صنعتی تعلقات ایکٹ 2013 لاگو ہونے سے کسانوں اور ہاریوں میں امید کی کرن پیدا ہوئی ہے۔ لیکن اس سے قطعی طور پر انکار ممکن نہیں ہے کہ بین الاقوامی ادارہ محنت (آئی ایل او) کے 28 کنونشنز پر دستخط اور پھر اس کی توثیق کرنے کے باوجود آج بھی پاکستان میں ان پر عمل درآمد نہ ہونے کے برابر ہے۔
کیا یہ ستم ظریفی نہیں ہے کہ ملک بھر میں صرف 2.8 فیصد مزدور یونین سازی کے حق سے مستفید ہورہے ہیں جس میں عوامی شعبے کا حصہ 65 فیصد سے زائد ہے۔ کیا ظلم نہیں ہے کہ گھروں پر کام کرنے والے 1 کروڑ 20 لاکھ مرد اور خواتین مزدوروں کے لیے سرے سے کوئی قانون ہی موجود نہیں تو وہ قانونی مراعات کیوں کر حاصل کر سکتے ہیں۔ نجی شعبے میں کام کرنے والے 90 فیصد پیداواری اداروں میں فیکٹری ایکٹ کے تحت رجسٹرڈ نہ ہونا کسی المیہ سے کم نہیں۔ ملکی لیبر قوانین پر عمل درآمد کیسے ممکن ہے جبکہ 95 فیصد مزدوروں کو سوشل سیکیورٹی کارڈ کی سہولت ہی میسر نہیں۔ اس پر طرہ یہ ہے کہ آج ملک میں 90 فیصد سے زیادہ غیر ہنر مند مزدور سرکاری اعلان کے مطابق کم از کم 10 ہزار روپے ماہانہ تنخواہ سے محروم ہیں۔
پاکستان کے مزدور10 ستمبر 1948 کو منظور ہونے والے اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے عالمگیر اعلامیہ کے تحت ملنے والے انسانی حقوق سے آج بھی محروم ہیں۔ دوران کام مزدور کو آئینی و قا نونی تحفظ بھی حاصل نہیں، بڑھتی ہوئی مہنگائی، بے روزگاری، لاقانونیت، اداروں میں تالہ بندی، توانائی کے بحران اور چھانٹیوں کا نہ رکنے والا سلسلہ مزدوروں اور ان کے اہل خانہ پر منفی اثرات مرتب کر رہا ہے، جس سے ملک میں دہشت گردی کو فروغ ملنے کا بھی امکان بتدریج بڑھ رہا ہے۔ مزدور جہاں دو وقت کی روٹی کے لیے دن رات سرگرداں ہے، وہیں اسے سر چھپانے کا بھی آسرا میسر نہیں ہے۔
مزدوروں کے لیے رہائشی اسکیمیں ایک خواب بن کر رہ گئی ہیں، مزید برآں ریٹائرمنٹ کے بعد پنشن کے مسائل اس کی پریشانیوں میں اضافے کا باعث بن رہے ہیں، دوران کام زخمی ہونے والے مزدورں کی کوئی شنوائی نہیں ہوتی، جبکہ ناقص عدالتی نظام کے سبب مزدور بھی انصاف کے حصول کے لیے ایڑیاں رگڑتا نظر آرہا ہے۔ کیا اسے ناانصافی تصور نہیں کیا جائے گا کہ قلیل تنخواہ کے عوض روزانہ 12 سے 14 گھنٹے کام لے کر اس کا استحصال کیا جارہا ہے۔ ٹھیکے داری، کنٹریکٹ، روزانہ اجرت اور فی ٹکڑا کی بنیاد پر کام کرنے والے مزدور کسی غلام سے ہرگز کم نہیں۔
قرض فراہم کرنے والے عالمی اداروں کی شرط پورا کرنے کے لیے مجبور ہو کر ملک میں آزادی اظہار کا قانون بنانے والی ریاست نے اب یورپی یونین کی پارلیمنٹ سے 10 برس کے لیے ملنے والی GSP+ (جنرل سسٹم آف پریفرنس پلس) کی خصوصی حیثیت کے سبب آئی ایل او کے بنیادی مزدور معیارات کو لاگو کرنے کا وعدہ کرلیا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ اس ضمن میں کس قدر عمل ہوتا ہے لیکن پبلک سیکٹر میں اداروں کی نجکاری کی منصوبہ بندی مزدوروں کے لیے موت کا پیغام ہے۔ اس ضمن میں ہمیں یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ آیا ٹریڈ یونینز صنعتی اداروں میں درست سمت میں کام کررہی ہیں۔
آئی ایل او کے کنونشنز پر ریاست کے عمل درآمد اور اس حوالے سے اس کے اقدامات پر بھی توجہ کی ضرورت ہے۔ 18ویں ترمیم کے بعد وفاق سے صوبوں کو منتقل کیے جانے والے اداروں اور محکموں کے معاملات بھی توجہ طلب ہیں۔ اسی حوالے سے مزدوروں کو مروجہ قانونی مراعات جن میں کارکنان کے بچوں کو تعلیمی اسکالر شپس کا نہ دیا جانا، دنیا سے چلے جانے والے مزدوروں کی بیوائوں کو ڈیتھ گرانٹ 5 لاکھ روپے کی عدم ادائیگی، زیادہ اوقات کا ر میں خدمات کی انجام دہی پر اوور ٹائم سے محروم رکھا جانا، اقلیتی کارکنان، خواتین کارکنان، نوجوان کارکنان اور معذور کارکنان کے حقوق کی عدم ادائیگی بھی کسی المیے سے کم نہیں۔
مجبور خواتین کارکنان کو جنسی طور پر ہراساں کیا جانا بھی فکر انگیز ہے۔ سن کوٹہ کے قانون پر سختی کے ساتھ عملدرآمد کرنے کی ضرورت ہے، اس طرح مزدور کا بچہ اپنے قانونی حق کے حصول کے ساتھ اپنے گھرانے کی معاشی کفالت کی ذمے داری بھی ادا کرسکتا ہے۔ کسی کارکن کے لیے ڈیویڈنٹ کی رقم حاصل کرنا بھی جوئے شیر لانے سے کم نہیں ہے، اس مراعت سے محرومی یا تاخیر سے مزدور مالی مشکلات اور پریشانی کا ہوجاتا ہے۔
ہمیں اس امر کو مدنظر رکھنا ہوگا کہ آج مزدور کو کس قدر بنیادی حقوق حاصل ہیں، ہم سب کو مل کر یہ سوچنا ہوگا کہ موجودہ پرآشوب دور میں مزدور کو جینے کا حق مل بھی رہا ہے یا نہیں۔ کہیں وہ تعصب کا شکار تو نہیں ہورہا، اسے تشدد کا نشانہ تو نہیں بنایا جارہا، قانون کی نظر میں مساوی درجہ کے حامل مزدور کی آزادانہ نقل و حمل تو متاثر نہیں ہورہی، دیگر شعبہ ہائے زندگی کی طرح مزدور طبقہ کو بھی جمہوری عمل میں شامل کرنے کے ساتھ سماجی تحفظ بھی مل رہا ہے یا نہیں۔
سب سے بڑھ کر لازمی اور اہم ترین بات یہ ہے کہ قوانین کے مطابق صنعتی اور تجارتی اداروں میں کارکنان کی رجسٹریشن کے حق پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے تاکہ وہ اپنی ٹریڈ یونین قائم کرکے نہ صرف ریفرنڈم کا جمہوری حق حاصل کریں بلکہ بعد ازاں اجتماعی سودے کاری ایجنٹ کی حیثیت سے اپنے آئینی اور قانونی حقوق کے لیے چارٹر آف ڈیمانڈ منظور کروائیں، لیکن اس کے لیے ضرورت اس امرکی ہے کہ مزدور تمام تر تعصبات، مذہب، رنگ و نسل اور زبان کے علاوہ سیاسی وابستگیوں سے بالاتر ہو کر اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کریں، جس کے لیے بے باک اور نڈر قیادت کی ضرورت ہے، جو اپنی مدبرانہ سوچ سے قومی مفاد اور ملکی استحکام میں اپنا کردار ادا کرے۔
آئندہ برس مزدوروں کا عالمی دن زیادہ شان و شوکت سے منانے کے بجائے ضرورت ہے کہ مزدوروں کو ان کے حقوق کی فراہمی کے لیے عملی اقدامات کی کوشش کی جائے۔ ریاست اور آجر مل کر مزدوروں کی مشاورت سے ان کی فلاح و بہبود اور معاشی و معاشرتی ترقی کے لیے مطلوبہ قوانین کو نافذ اور رائج کرنے کا اہتمام کریں، اس ضمن میں سیاسی جماعتوں اور میڈیا کا کردار اور ذمے داری انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔ اگر ایسا ہوگیا تو مزدور ملک کی ترقی اور تعمیر میں ایک نئے جذبے کے ساتھ شریک ہوگا اور پاکستان امن و سلامتی اور شادمانی کا گہوارہ بن جائے گا۔