بھارت کا اقتدار انتہا پسند مودی کے ہاتھ میں
کیا جنوبی ایشیا میں امن کا خواب تعبیر سے محروم رہے گا؟
بھارت میں یہ پندرھویں پارلیمانی انتخابات تھے، اب تک کی تاریخ میں کانگریس چھ بار300 سے زائد نشستیں حاصل کرکے حکومتیں بناچکی ہے لیکن بھارتیہ جنتاپارٹی اور اس کی ساتھی جماعتوں کے اتحاد نیشنل ڈیموکریٹک الائنس( این ڈے اے) کو پہلی بار یہ اعزازحاصل ہورہاہے۔
این ڈی اے نے مجموعی طور پر 339 نشتیں حاصل کیں، سن 2009ء کے انتخابات میں اس اتحاد کی 159 نشستیں تھیں۔ یہ ایک ایسی حیران کن کامیابی ہے جس کا شاید خود بی جے پی اوراس کے اتحادی بھی سوچ نہیں رہے تھے۔ملک میں قبل ازانتخابات رائے عامہ کے جتنے بھی جائزے لئے گئے، ان میں بھی اس قدر بڑی کامیابی کا امکان نظرنہیں آرہاتھا۔ رائے عامہ کے مختلف جائزوں میں این ڈے اے( بی جے پی اور اتحادی) کو زیادہ سے زیادہ 275 نشستیں ملنے کی پیشگوئی کی جارہی تھی یعنی وہ حکومت سازی کے لئے مطلوبہ تعداد 272 بمشکل حاصل کرے گی۔
رائے عامہ کے بعض جائزوں سے ظاہر ہورہا تھا کہ یہ اتحادسب سے زیادہ نشستیں ضرور حاصل کرے گا لیکن اکثریت نہیں ملے گی، یوں اسے مخلوط حکومت تشکیل دینے کے لئے مزید اتحادی تلاش کرنا پڑیں گے، سب سے دلچسپ خود آرایس ایس کا کرایاہوا جائزہ تھا جس کے مطابق بی جے پی کو 189 سے 218 نشستیں مل سکتی ہیں، لیکن انتخابی نتائج سامنے آئے تو جھٹ پٹ میں صرف بی جے پی نے 282 نشستیں حاصل کرلیں۔
بی جے پی کے ٹریک ریکارڈز کو نہ صرف خطے کے دیگر ممالک بلکہ بھارت کے صحیح معنوں میں سیکولر حلقے بھی انتہائی متعصبانہ اور خطرناک خیال کرتے ہیں اور اس بات کا اندیشہ پوری شدت کے ساتھ موجود ہے کہ اپنی پارٹی کے بنیاد پرست عناصر کی تشفی کے لیے نریندر مودی کو ایسے اقدامات کرنے پڑیں گے جن کا وعدہ وہ انتخابی مہم کے دوران کرتے رہے ہیں۔ بھارتی انتخابات نے پاکستان کے اُن سیکولر دانشوروں کے پرزور تجزیوں کو بھی غلط ثابت کر دیا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے عوام کے لیے دونوں ملکوں کے درمیان تنازعات اب انتخابی نعرے کے طور پر کارگر نہیں رہے۔
دوسری طرف کانگریس اوراس کی ساتھی جماعتوں کے اتحاد یونائیٹڈ پروگریسو الائنس(یو پی اے) کی شرمناک شکست کی کہانی یوں بیان کی جاسکتی ہے کہ حالیہ انتخابات میں انھیں 59 نشستیں ملیں جبکہ پانچ برس قبل ان کی سیٹیں 262 تھیں یعنی 203 نشستوں کا خسارہ ہوا۔ کانگریس کو ہونے والی شکست میں کچھ نہ کچھ کردار عام آدمی پارٹی کا بھی ہے۔ انتخابات سے قبل اندازہ لگایا جارہا تھا کہ کانگریس اور بی جے پی سے بے زار جماعتوں کا اتحاد تھرڈ فرنٹ پہلے سے زیادہ سیٹیں لے کر اہم پوزیشن حاصل کرلے گا، بعضں ماہرین کے مطابق ، ہوسکتا ہے تھرڈ فرنٹ مودی کا وزیراعظم بننے کا خواب چکنا چور کردے۔
تاہم ایسا کچھ بھی نہ ہوا، جو ہوا ، وہ حیران کردینے والا تھا۔تھرڈفرنٹ کی بعض جماعتوں کا صفایاہی ہوگیا،ان میں کمیونسٹ پارٹیوں کو بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ مثلاً کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا صرف ایک نشست جیت سکی(2009ء میں4 نشستیں تھیں)، کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا(مارکسٹ) کو 9 نشستیں ملیں(2009ء میں16 نشستیں )، مایاوتی کی بھوجن سماج پارٹی کو ایک نشست بھی نہ ملی(2009ء میں 21نشستیں)، ریاست اڑیسہ میں زیادہ اثرورسوخ رکھنے والی جماعت بیجو جنتادل کو20نشستیں ملیں (2009ء میں14 نشستیں)، ملائم سنگھ یادو کی سماج وادی پارٹی کو 5 نشستیں ملیں(2009ء میں23 نشستیں)، لالوپرشاد یادو کی راشٹریہ جنتا دل کو 2009ء کی طرح اب بھی چارہی نشستیں ملیں۔
جے للیتا کی جماعتAIADMK نے حیرت انگیز طور پر 37 نشستیں حاصل کیں(2009ء میں 9 نشستیں تھیں)، ممتابینر جی آل انڈیا ترینامول کانگریس کی نشستوں کی تعداد 34 ہے(2009ء میں 19 نشستیں)، چندرابابو نائیڈو کی تلگودیشم پارٹی کو 16 نشستیں ملیں (2009ء میں6 نشستیں)، آندھرا پردیش کی ریاستی پارٹی وائی ایس آر کانگریس پارٹی نے پہلی بار قومی انتخابات میں حصہ لے کر 9 نشستیں حاصل کیں۔ پہلی بار قومی انتخابات میں حصہ لینے والی'عام آدمی پارٹی' کے حصے میں صرف چارنشستیں آئیں۔
مودی کون اور کیا ہیں؟
چند روز بعد حلف اٹھانے والے نریندر دامودر داس مودی متنازع شخصیت کے مالک ہیں، مودی کے مخالفین انھیں فسادی قراردیتے ہیں جبکہ چاہنے والے انھیں اوتار مانتے ہیں، انھیں تبدیلی اور اقتصادی ترقی کی علامت قرار دیتے ہیں، ایک ایسا مضبوط رہنما خیال کرتے ہیں جو ملک کی تقدیر بدلے گا۔
مودی نے ریاست گجرات کے ضلع مہسانہ میں ایک غریب خاندان میں جنم لیا۔ والد دامودر داس ریلوے اسٹیشن پر چائے بیچتے تھے اور والدہ ہیرا بین گزر بسر میں مدد کے لیے لوگوں کے گھروں میں کام کرتی تھیں۔ بچپن میں خود نریندر مودی اپنے والد کے ساتھ ٹرینوں میں چائے بیچا کرتے تھے۔
اس الیکشن میں انھوں نے اپنے 'غریب بیک گراؤنڈ' کا بھرپور فائدہ اٹھایا، یعنی ایک چائے بیچنے والا جو ایک 'شہزادے' (راہول گاندھی) کو چیلنج کر رہا ہے۔ انھیں اپنے بچپن میں سنیاسی بننے کا خیال آتا تھا، 17 سال کی عمر میں جشودا بین سے ان کی شادی ہوئی لیکن دونوں کبھی ساتھ نہیں رہے۔
انھوں نے جوانی میں ہی ہندو انتہاپسند تنظیم 'آر ایس ایس' میں شمولیت اختیار کر لی تھی اور 70 کی دہائی سے ہندو پرچارک یا تنظیم کے مبلغ کے طور پرکام کرنے لگے ۔ماہرین کے مطابق ان کی سیاسی تربیت آر ایس ایس میں ہی ہوئی لیکن اب ان کے کاروباردوست اقتصادی نظریے اور آر ایس ایس کے 'سودیشی' کے تصور میں براہِ راست تضاد ہے۔ وہ کئی بڑے صنعتی گھرانوں کے قریب مانے جاتے ہیں اور اس الیکشن میں کارپوریٹ انڈیا نے ان کی زبردست حمایت کی ہے۔ لیکن اس کے باوجود اس الیکشن میں آر ایس ایس نے بھی ان کی بھرپور حمایت کی۔
مودی کو شروع سے ہی بی جے پی کے لیڈر لال کرشن ایڈوانی کی سرپرستی حاصل رہی ہے اور انھی کی مدد سے وہ سنہ 2001 میں پہلی مرتبہ گجرات کے وزیر اعلیٰ بنے۔ سنہ 1991 میں جب رام مندر کی تعمیر کے لیے مسٹر ایڈوانی نے ملک گیر رتھ یاترا نکالی تھی تو اس کا انتظام نریندر مودی نے ہی سنبھال رکھا تھا لیکن مودی کے وزیر اعلیٰ بننے کے چند ہی مہینوں بعد فروری 2002ء میں گجرات میں ہندو مسلم فسادات ہوئے جو آج تک ان کے گلے کی ہڈی بنے ہوئے ہیں۔ فسادات میں دوہزار مسلمان شہید ہوئے اور مودی پر الزام ہے کہ انھوں نے خونریزی روکنے کے لیے کوئی کارروائی نہیں کی۔
خیال کیا جاتا ہے کہ فسادات روکنے میں ناکامی کی وجہ سے اس وقت کے وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی چاہتے تھے کہ مسٹر مودی استعفیٰ دے دیں لیکن ایل کے ایڈوانی نے ان کی کرسی بچائی۔ اسی سبب امریکا نے انھیں ہمیشہ ویزا جاری کرنے سے انکار کیا لیکن جب سے مودی نے وزیر اعظم کی کرسی کے لیے اپنے عزائم کا عندیہ دیا، تو ایڈوانی سے ان کے تعلقات بگڑنا شروع ہوگئے۔ انھوں نے ایک مرتبہ پھر اپنی آمرانہ شخصیت کی جھلک پیش کرتے ہوئے ایڈوانی، سشما سوراج اور مرلی منوہر جوشی جیسے سینیئر رہنماؤں کو کنارے کر دیا۔
ایک غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق یہ الیکشن بے جے پی کے نام پر نہیں، مودی کے نام پر لڑا گیا اور اس کا مرکزی نعرے تھے: 'اب کی بار، مودی سرکار۔' 'مودی کو ووٹ دیجیے، بی جے پی کو نہیں،' 'اچھے دن آنے والے ہیں، اور اچھے دن صرف مودی لا سکتے ہیں۔' پوری انتخابی مہم کے دوران ان کے ساتھ اسٹیج پر پارٹی کا کوئی دوسرا لیڈر نظر نہیں آیا۔
کہا جاتا ہے کہ وہ مخالفت برداشت نہیں کرتے اور اسی لیے بہت سے سیاسی تجزیہ نگار سمجھتے ہیں کہ ایک سیکولر ملک میں سب کو ساتھ لے کر چلنا اور ملک کے جمہوری اداروں اور روایات کا احترام کرنا ہی ان کی سب سے بڑی آزمائش ہوگی۔ خود نریندر مودی کے خلاف تو مذہبی فسادات کے سلسلے میں کبھی کوئی مقدمہ قائم نہیں ہوا لیکن فسادات سے متعلق ایک کیس میں ان کی وزیر مایا کوڈنانی عمر قید کی سزا کاٹ رہی ہیں۔ ان کے سب سے قریبی معتمد اور ریاست کے سابق وزیر داخلہ امت شاہ کو پولیس کے فرضی مقابلوں کے سلسلے میں قتل کے الزامات کا سامنا ہے۔
بھارت کے باشعور حلقوں میں بھی مودی کی جیت سے بے چینی واضح ہورہی ہے۔ اس بے چینی کی اصل وجہ جاننے کی ضرورت ہے۔ سبھی جانتے ہیں کہ بی جے پی آرایس ایس کا سیاسی بازو ہے۔ آرایس ایس نے اپنے عزائم کی تکمیل کے لئے سیکڑوں تنظیمیں قائم کر رکھی ہیں۔
سب کے دائرہ کار الگ الگ ہیں۔ ان میں بھارتی مزدور سنگھ، سودیشی جاگرن منچ، اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد، ونواس کلیان سمیتی قابل ذکر ہیں۔ سب کا مقصد بھارت کو ہندودھرتی بنانے میں اپنا اپنا کردار کرنا ہے۔ اس بات کا صحیح اندازہ نریندر مودی کے ایک حالیہ انٹرویو سے بھی ہوتا ہے جو انھوں نے ایک انگریزی ٹیلی ویژن چینل "Times Now" کو دیا ، جس میں ٹھیک اسرائیل کی طرز پر بھارت کو ہندولینڈ بنانے کا واضح منصوبہ پیش کیا اور یہ کہا کہ دنیا میں بسنے والے سبھی ہندوؤں کا فطری وطن ہندوستان ہے اور ہمیں ان کی فکر کرنی چاہئے۔
اس کے علاوہ انھوں نے آسام اور بنگال کے مسلمانوں کو درانداز کہہ کر ملک سے باہرنکالنے کی بات بھی کی ہے۔ گزشتہ دنوں آسام میں ایک انتخابی ریلی کے دوران یہ بات کہی گئی۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اسرائیل سے تربیت یافتہ سیاسی گروپ منصوبہ بند طریقے سے مسلمانوں کو کنارے لگانے کی سعی میں مصروف ہے۔ آسام میں بڑی تعداد ایسے لوگوں کی ہے جنھیں مشتبہ قرار دے کر ووٹ دینے سے محروم کردیاگیاہے، گویا یہاں بھی ایک غزہ پٹی قائم کی جارہی ہے۔ حالیہ انتخابی عمل کے دوران آسام میں مسلمانوں کا قتل عام اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔
کانگریس شرمناک شکست سے کیوں دوچارہوئی؟
مودی کی کامیابی میں مودی اور ان کی جماعت کا کردار کم ہے ، کانگریس کی بری کا کردگی کا زیادہ۔بعض مودی نواز میڈیاہاؤسز نے مودی کے لئے جو تشہیری مہم چلائی، اس کے تحت انھیں گجرات کے ترقیاتی ماڈل کو اس طرح پروجیکٹ کیا گیا کہ عام ووٹر اس سے متاثر ہوگئے اور اس کا جو نتیجہ ہوا، وہ سامنے ہے۔
گجرات کی ترقی کے جھوٹ کو جس طرح مودی نوازمیڈیا نے سچ بناکر پیش کیا، اس کا مقابلہ کرنے میں کانگریس بری طرح ناکام رہی ہے۔ پوری انتخابی مہم میں کانگریس کے لیڈروں میں وہ جوش وخروش نظرہی نہیں آیا جس کی ایسے موقع پر ضرورت ہوتی ہے، لیڈر اور کارکنان دونوں بجھے بجھے نظرآرہے تھے۔ ایسا لگ رہا تھا کہ وہ الیکشن سے پہلے ہی ہار قبول کرچکے ہیں۔
میڈیا میں 'اب کی بارمودی سرکار' کے نعرے کے ساتھ جس طرح کانگریسی دورحکومت کی خرابیوں کو نمایاں کیا جارہا تھا اور ووٹروں کو سب اچھا ہوجانے کے خواب دکھائے جارہے تھے، کانگریس اس میڈیا مہم کا توڑ کرنے میں ناکام رہی۔ کانگریس ٹی وی کمرشلز کی مہم چلانے کے لئے انتخابات سے چند دن پہلے میدان میں اتری جبکہ بی جے پی کئی ہفتے پہلے سے تشہیری مہم چلارہی تھی۔
کانگریس کی تشہیری مہم کا سائز مودی کی مہم کا عشرعشیر بھی نہیں تھا۔ اس تناظر میں کہا جاسکتا ہے کہ کانگریس حکومت کرکے کتنا تھک چکی تھی اور فیصلہ کرچکی تھی کہ اب اسے حکومت نہیں کرنی۔ یہ ایک ایسی کانگریس کی بات کی جارہی ہے جس کے ادوار حکومت میں منہگائی میں تشویشناک اضافہ ہوا، سنگین بدعنوانیوں اور گھپلوں کے اسکینڈلز سامنے آئے۔ بی جے پی مخالف جماعتوں کا ایک دوسرے عدم تعاون بھی مودی کی جیت کا ایک سبب رہا۔ حتیٰ کہ کانگریس نے مقبوضہ کشمیر میں اپنی ہمیشہ کی حلیف جماعت نیشنل کانفرنس سے بھی تعاون کی ضرورت محسوس نہ کی۔
مودی سرکاربھارتی قوم کو کیادے گی؟
بھارت گزشتہ دو عشروں سے شدید معاشی مشکلات کا شکار ہے۔ مہنگائی بھارتی قوم کا سب سے سنگین مسئلہ رہی ہے۔ بی جے پی کے راہ نمامودی کی جیت کے اسباب میں ان کے وہ وعدے بھی شامل ہیں جس میں انھوں نے معاشی ڈسپلن اور بینکنگ کے شعبے میں اصلاحات کرنے کی بات کی تھی۔
جون، جولائی میں قومی بجٹ مودی سرکار ہی کو پیش کرنا ہے، وہ اس پوزیشن میں بھی نہیں ہیں کہ اپی قوم سے کہہ سکیں کہ انھیں اچھا بجٹ تیار کرنے کاوقت ہی نہیں ملا، کیوں کہ وہ اپنی قوم کو پہلے ہی باور کراچکے ہیں کہ وہ ایک مکمل منصوبے اور پوری تیاری کے ساتھ ایوان اقتدار میں قدم رکھیں گے۔
سن 2014-15ء کا بجٹ ان کے لئے ایک بڑا چیلنج ہوگا، جو ان کی مقبولیت کی موجودہ لہر کو مزید بڑھاچڑھاسکتا ہے اور اسے فوری طور پر زوال کی راہ بھی دکھا سکتا ہے۔ ایک پہلو یہ بھی ہے کہ وہ جن بڑے بڑے کاروباری گروپس کے کندھے پر چڑھ کر ایوان اقتدار تک پہنچے ہیں، وہ بھی مودی سے بہت سی توقعات وابستہ کئے ہوئے ہیں۔ انتخابی مہم کے دوران بی جے پی والے کہتے رہے ہیں کہ جس طرح مودی نے ریاست گجرات کو بدلا، اسی طرح پورے انڈیا کو خوشحالی سے ہمکنار کریں گے۔ انتہا پسندجماعت کا یہ کہنا درست تھا یا نہیں، اس سے قطع نظر اب مودی کو اس سحر طاری کرنے والے وعدے کو پورا کرنا ہوگا اور اس کی ایک جھلک اپنے حالیہ بجٹ میں دکھانی ہوگی۔
اگلے دس برسوں کے دوران بھارت میں ایک بڑی جنریشنل تبدیلی رونما ہوگی، یعنی دس کروڑ افراد روزگار مانگیں گے۔ حالیہ انتخابات میں بھی دس کروڑ نوجوانوں نے زندگی میں پہلی بار اپنا ووٹ کاسٹ کیا۔ عام طورپر یہی خیال کیاجارہاہے کہ ان کی اکثریت نے بی جے پی ہی کے حق میں اپنا ووٹ ڈالا اور اپنی بھاری بھرکم توقعات کا بوجھ مسٹرمودی اور ان کی جماعت کے کندھوں پر ڈال دیا۔
یہ توقعات بہتر طرز زندگی اور روزگار کے بہترین مواقع پر مشتمل ہیں۔ ٹرینوں میں چائے بیچنے والے غریب باپ دامودرداس کے چائے بیچنے والے بیٹے مودی کو بخوبی اندازہ ہوگا کہ غربت اور بے روزگاری کتنا بڑا عذاب ہوتی ہے۔ مودی اور ان کی جماعت کو پہلے سے بے روزگار اور نئی طلب گار نوجوان نسل کی توقعات پر پورا اترے بغیر اقتدار قائم رکھنا مشکل ہوگا۔
مودی سرکار اور پاکستان
مودی اور ان کی جماعت کانگریس کی حکومتوں کو مسلسل طعنہ دیتی رہی ہے کہ انھوں نے بھارتی قوم کو پاکستان اور چین کے دباؤ تلے دبا دیا ہے۔ اس اعتبار سے جب بی جے پی ' اب کی بار، مودی سرکار' کا نعرہ لگاتی تھی تو قوم کو باور کراتی تھی کہ وہ ایک ایسی واضح ڈپلومیسی پر عمل کرے گی جو کسی بھی قسم کی مصلحتوں اور کمزوریوں سے پاک ہوگی۔
مودی کے منشور میں کہا گیا کہ بی جے پی ایک ایسے سیاسی استحکام، ترقی اور امن پر یقین رکھتی ہے جو جنوبی ایشیا کی ترقی کے لئے ضروری ہے۔ دوسری طرف مودی پاکستان کے ساتھ مذاکرات میں سخت موقف رکھنے کے وعدے بھی کرتے تھے۔ وہ پاکستان کو مورد الزام ٹھہراتے ہوئے کہا کرتے تھے کہ پاکستان سے مذاکرات کی باتیں بموں اور گولیوں کے شور میں دفن ہوچکی ہیں۔
کارپوریٹ اداروں کے پسندیدہ مودی کے لئے اقتدار کے دوران جنگجویانہ رویہ سودمند ثابت نہیں ہوگا۔ ملک کی معاشی ترقی کے لئے ضروری ہے کہ خطے میں امن قائم رہے۔ لیکن مودی اور ان کی جماعت اب ایک مشکل صورت حال سے دوچار ہوں گے، انھوں نے ملک میں ہندوتوا کے ایجنڈے کے تحت ہندؤں کے جذبات مسلمانوں اور پاکستان کے خلاف مشتعل کئے اور ووٹ حاصل کئے، ایسے لوگوں کے جذبات کو ''تسکین'' دینے کے لئے کچھ کرنا پڑے گا، ہوسکتا ہے کہ وہ پاکستان کو دباؤ میں لانے کے لئے کچھ ایسے 'اقدامات' کریں جیسی مثالیں انھوں نے گجرات میں مسلمانوں کے خلاف قائم کیں۔
یاد رہے کہ گودھرا میں ہندؤوں سے بھری ٹرین کو نذر آتش کرنے والے واقعے کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ آگ مودی سرکار نے خود لگوائی تھی، تاکہ اس کے نتیجے میں ریاست میں ایک مسلم کش ماحول پیدا ہو اور ہندوؤں کو اپنی حمایت پر جمع کیا جائے۔
چین اور باقی خطے پر اثرات
ہمسائیہ ملک چین کی بابت مودی کے دوچہرے ہیں۔ مودی بحیثیت ریاستی وزیراعلیٰ چین کے دورے کرتے رہے ہیں اور یہاں کے سرمایہ کاروں کو گجرات میں سرمایہ کاری کی ترغیب دیتے رہے ہیں۔ مودی اپنے اس چہرے کے ساتھ آنے والے بطوروزیراعظم پہلا غیر ملکی دورہ برازیل کا کریں گے، جہاں غیرملکی سربراہان کے اجتماع کے دوران چینی وزیراعظم شی جن پنگ سے ملاقات بھی کریں گے تاہم ایک چہرہ مودی چین سے تصادم والا ہے، وہ اپنے ملک میں بارہا چین پر شدید تنقید کرتے رہے ہیں، اسے ملکی سلامتی کے لئے خطرہ قرار دیتے رہے ہیں اور اس کے خلاف جارحانہ پالیسی اختیارکرنے کے اشارے دیتے رہے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ چین جیسے طاقت ور دشمن کے ساتھ مودی کو پرامن رہنا پڑے گا۔
البتہ وہ بھارتی فوج کی ماڈرنائزیشن اور بارڈر انفراسٹرکچر کی اپ گریڈیشن پر توجہ دیں گے۔ وہ مشرقی اور جنوب مشرقی ایشیا کے ممالک بالخصوص جاپان، سنگاپور، جنوبی کوریا اور ویت نام کے ساتھ سیاسی اور معاشی تعلقات مضبوط بنائیں گے۔ تجزیہ نگاروں کی اکثریت کا کہنا ہے کہ مودی نے بھارت نے ''نیشنل ازم'' کے نام پر ملک میں جس طرح لوگوں کو چین ، بالخصوص پاکستان کے خلاف بھڑکایا۔ مودی سرکار بھارت کو خوشحال ریاست بنانا چاہتی ہے تواس اشتعال انگیزی کو واپس کرنا ہوگا۔
اب بھارتی مسلمانوں کا کیاہوگا؟
حالیہ انتخابات میں مجموعی طور پر 23 مسلمان امیدواران کامیاب ہوکر پارلیمان میں پہنچے ہیں۔ قریباً 53 امیدواروں نے دوسری پوزیشن حاصل کی۔ افسوسناک پہلو یہ ہے کہ ملک کے سب سے بڑے صوبے اترپردیش سے کوئی مسلمان نہ جیت سکا۔ بھارت کی 67 سالہ تاریخ میں پہلی بارا یسا ہوا ہے۔
یاد رہے کہ یوپی میں مسلمانوں کی شرح 20 فیصد ہے۔ کل 82 نشستوں میں سے 73 نشستیں بی جے پی اور اس کے اتحادیوں کو ملی ہیں۔ ان انتخابات میں قومی وعلاقائی پارٹیوں کے علاوہ مسلمانوں کی کئی پارٹیاں میدان میں بھی تھیں لیکن انھیں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ ان میں ویلفیئر پارٹی آف انڈیا، پیس پارٹی، راشٹریہ علماء کونسل، مسلم مجلس، پرچم پارٹی، نیشنل لیگ اور ایس ڈی پی آئی کا نام بھی شامل ہے۔ انتہا پسند تنظیم راشٹریہ سیوک سنگھ کے سینئر رکن اندریش کمار کا کہنا ہے کہ ان انتخابات میں 24 فیصد مسلمانوں نے بی جے پی کو ووٹ دیا۔
بحیثیت مجموعی مسلمانوں کا ووٹ تقسیم ہوا، کانگریس کو منافقانہ طرز عمل کی وجہ سے مسلمانوں کے ووٹ سے محروم ہونا پڑا۔ حالیہ انتخابات میں مسلمانوں نے مقامی سطح پر فیصلہ کیا کہ کس امیدوار کو ووٹ دینا ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بی جے پی نے انتخابی مہم کے دوران مسلمان دشمنی پر مبنی بیانات بھی جاری کیے لیکن مسلمانوں کو اپنی طرف راغب کرنے کی کوشش بھی کی۔
بھارتی مسلمان2002ء میں ہونے والے مسلم کش فسادات(ریاست گجرات) کے بعد مودی کو اس وحشیانہ ظلم کا ذمے دار سمجھتے تھے، یہ ایک کھلا سچ ہے کہ وزیراعلیٰ مودی ہی کے اشارے پر گجراتی مسلمانوں کے ساتھ خون کی ہولی کھیلی گئی تھی۔
ہندوانتہا پسندوں نے ریاستی سرکار کے ایماپر ایک ہزار سے دوہزار مسلمانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔ ان میں مسلمان بچے بھی شامل تھے اور حاملہ خواتین بھی۔ اگرچہ مودی اس ظلم میں ملوث ہونے سے مسلسل انکاری رہے تاہم تمام تر شواہد انہی کی طرف جاتے تھے۔
بالفرض مان بھی لیا جائے کہ وہ اس میں ملوث نہیں تھے تو اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ملتا کہ انھوں نے فسادات کی روک تھام کے لئے کوئی کوشش کی ہو۔ امریکی اور برطانوی حکومتیں بھی 2002ء کے مسلم کش فسادات میں مودی کو پوری طرح ملوث سمجھتی رہی ہیں یہی وجہ ہے کہ انھوں نے دوسال تک ان کو اپنے ہاں آنے کی اجازت نہ دی۔
مودی کی پارٹی نے حالیہ انتخابات کی مہم کے دوران بھی اپنے خونی چہرے کو بے نقاب رکھا ، ان کے رہنما مسلمانوں کو بھارت چھوڑ دینے کے ''احکامات'' جاری کرتے رہے۔ سوال یہ ہے کہ مودی اور ان کی جماعت اپنے مسلم دشمن تشخص کو برقرارکھے گی یا پورے بھارت کی حکمران ہونے کے تقاضے پورے کرے گی؟
کشمیر اور کشمیریوں کا کیاہوگا؟
کشمیر کی چھ نشستوں کے لئے پانچ مراحل میں ووٹنگ ہوئی جس کے دوران کل جماعتی حریت کانفرس نے بائیکاٹ کی مہم چلائی، اس مہم کو ناکام بنانے کے لئے پولیس نے بڑے پیمانے پر گرفتاریاں کیں، ایک غیرملکی نشریاتی ادارے کے مطابق دوہزار سے زائد افراد کو گرفتار کیا گیا جبکہ حریت کانفرنس تعداد زیادہ بتارہی ہے۔
بہت سے نوجوان اٹھارہ سال سے کم عمر کے تھے لیکن انھیں ایسی جیلوں میں رکھا گیا جہاں صرف بالغ افراد کو رکھا جاتا ہے۔ پولیس نے اعتراف کیا کہ اس نے ایک ہزار سے زائد نوجوانوں کو' احتیاطی حراست' میں لیا۔انسانی حقوق کی تنظیموں کے اتحاد کولیشن آف سول سوسائٹی نے انتخابی عمل کو فوجی آپریشن قراردیتے ہوئے دعویٰ کہ دوہزار سے زائد نوجوانوں کو تھانوں اور جیلوں میں قید کیا گیا۔ ان میں سے متعدد کو پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت جیلوں میں بھیجا گیا۔ اس قانون کی رو سے عدالتی پیشی کے بغیر کسی بھی کشمیری کو کم از کم دو سال تک قید کیا جاسکتا ہے۔
اکثر ایسے قیدیوں کو کشمیر سے سیکڑوں میل دور بھارتی جیلوں میں رکھا جاتا ہے۔ غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق کشمیر میں علیحدگی پسندوں کی بائیکاٹ کی کال کا خاصا اثر رہا۔ اس دوران تشدد کی وارداتیں بھی ہوئیں اور مظاہرے بھی کئے گئے۔ بائیکاٹ مہم کا نتیجہ یہ نکلا کہ بھارتی حکومت کے مطابق کشمیر میں ٹرن آؤٹ تیس فیصد رہا۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ کشمیر میں انتخابی سیاست کو ابھی تک عوامی اعتبار حاصل نہیں ہوسکا،لوگ بھارت نواز سیاست سے متفر ہیں۔
حریت کانفرنس کے رہنما سیدعلی گیلانی نے بی جے پی اور کانگریس کو ' ایک جیسا' قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ کانگریس نہ صرف بابری مسجد کے انہدام کی ذمے دار ہے بلکہ سب سے زیادہ مسلم کش فسادات کانگریس ہی کے دور اقتدار میں ہوئے ہیں۔ میر واعظ عمر فاروق کا کہنا ہے ''اقتدار پر چاہے کسی کا بھی قبضہ ہو، کشمیر میں حالات تب تک بہتر نہیں ہوں گے جب تک حکومت ہند کشمیریوں کے ساتھ اپنا رویہ تبدیل نہیں کرتی''۔ مودی اور ان کی جماعت مقبوضہ کشمیر کے بارے میں کانگریس کی پالیسی کو ''نرم'' قرار دیا کرتی تھی اس لیے زیادہ امکانات ہیں کہ مودی سرکار سخت گیر پالیسی اختیار کریں گے۔ کشمیری بھی چاہتے ہیں کہ ان کے ساتھ کچھ بھی اچھا یا برا ہو۔ وہ 'اسٹیٹس کو' کی صورت حال سے تنگ آچکے ہیں۔ احمد نامی ایک کشمیری نوجوان کے بقول: ''کم از کم مودی میں کچھ کرنے کی صلاحیت تو ہے۔ چاہے وہ اچھا کرے یا برا۔ ہمیں پتہ چل جائے گا، ہماری قسمت میں کیا ہے اور تاریکی کا دور ختم ہو۔''
بھارتی مسلمان، پاکستان، چین اور کشمیر جیسے موضوعات پر مودی اور بی جے پی ماضی میں جو رویہ اور اندازفکر رکھتی تھی، اسے علیحدگی بھی آسان نہیں ہے لیکن اس کے مطابق پالیسیاں تشکیل دینا اور ان پر عملدرآمد بھی مشکل ہوگا۔ ایسا بھی نہیں ہوسکتا کہ ہندوتوا کا ایجنڈا ترک کر دیا جائے، اس صورت میں اپنے جذباتی ووٹروں سے محروم ہونا پڑے گا، دوسری صورت میں بھارت خوشحال نہیں ہوگا۔
این ڈی اے نے مجموعی طور پر 339 نشتیں حاصل کیں، سن 2009ء کے انتخابات میں اس اتحاد کی 159 نشستیں تھیں۔ یہ ایک ایسی حیران کن کامیابی ہے جس کا شاید خود بی جے پی اوراس کے اتحادی بھی سوچ نہیں رہے تھے۔ملک میں قبل ازانتخابات رائے عامہ کے جتنے بھی جائزے لئے گئے، ان میں بھی اس قدر بڑی کامیابی کا امکان نظرنہیں آرہاتھا۔ رائے عامہ کے مختلف جائزوں میں این ڈے اے( بی جے پی اور اتحادی) کو زیادہ سے زیادہ 275 نشستیں ملنے کی پیشگوئی کی جارہی تھی یعنی وہ حکومت سازی کے لئے مطلوبہ تعداد 272 بمشکل حاصل کرے گی۔
رائے عامہ کے بعض جائزوں سے ظاہر ہورہا تھا کہ یہ اتحادسب سے زیادہ نشستیں ضرور حاصل کرے گا لیکن اکثریت نہیں ملے گی، یوں اسے مخلوط حکومت تشکیل دینے کے لئے مزید اتحادی تلاش کرنا پڑیں گے، سب سے دلچسپ خود آرایس ایس کا کرایاہوا جائزہ تھا جس کے مطابق بی جے پی کو 189 سے 218 نشستیں مل سکتی ہیں، لیکن انتخابی نتائج سامنے آئے تو جھٹ پٹ میں صرف بی جے پی نے 282 نشستیں حاصل کرلیں۔
بی جے پی کے ٹریک ریکارڈز کو نہ صرف خطے کے دیگر ممالک بلکہ بھارت کے صحیح معنوں میں سیکولر حلقے بھی انتہائی متعصبانہ اور خطرناک خیال کرتے ہیں اور اس بات کا اندیشہ پوری شدت کے ساتھ موجود ہے کہ اپنی پارٹی کے بنیاد پرست عناصر کی تشفی کے لیے نریندر مودی کو ایسے اقدامات کرنے پڑیں گے جن کا وعدہ وہ انتخابی مہم کے دوران کرتے رہے ہیں۔ بھارتی انتخابات نے پاکستان کے اُن سیکولر دانشوروں کے پرزور تجزیوں کو بھی غلط ثابت کر دیا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے عوام کے لیے دونوں ملکوں کے درمیان تنازعات اب انتخابی نعرے کے طور پر کارگر نہیں رہے۔
دوسری طرف کانگریس اوراس کی ساتھی جماعتوں کے اتحاد یونائیٹڈ پروگریسو الائنس(یو پی اے) کی شرمناک شکست کی کہانی یوں بیان کی جاسکتی ہے کہ حالیہ انتخابات میں انھیں 59 نشستیں ملیں جبکہ پانچ برس قبل ان کی سیٹیں 262 تھیں یعنی 203 نشستوں کا خسارہ ہوا۔ کانگریس کو ہونے والی شکست میں کچھ نہ کچھ کردار عام آدمی پارٹی کا بھی ہے۔ انتخابات سے قبل اندازہ لگایا جارہا تھا کہ کانگریس اور بی جے پی سے بے زار جماعتوں کا اتحاد تھرڈ فرنٹ پہلے سے زیادہ سیٹیں لے کر اہم پوزیشن حاصل کرلے گا، بعضں ماہرین کے مطابق ، ہوسکتا ہے تھرڈ فرنٹ مودی کا وزیراعظم بننے کا خواب چکنا چور کردے۔
تاہم ایسا کچھ بھی نہ ہوا، جو ہوا ، وہ حیران کردینے والا تھا۔تھرڈفرنٹ کی بعض جماعتوں کا صفایاہی ہوگیا،ان میں کمیونسٹ پارٹیوں کو بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ مثلاً کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا صرف ایک نشست جیت سکی(2009ء میں4 نشستیں تھیں)، کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا(مارکسٹ) کو 9 نشستیں ملیں(2009ء میں16 نشستیں )، مایاوتی کی بھوجن سماج پارٹی کو ایک نشست بھی نہ ملی(2009ء میں 21نشستیں)، ریاست اڑیسہ میں زیادہ اثرورسوخ رکھنے والی جماعت بیجو جنتادل کو20نشستیں ملیں (2009ء میں14 نشستیں)، ملائم سنگھ یادو کی سماج وادی پارٹی کو 5 نشستیں ملیں(2009ء میں23 نشستیں)، لالوپرشاد یادو کی راشٹریہ جنتا دل کو 2009ء کی طرح اب بھی چارہی نشستیں ملیں۔
جے للیتا کی جماعتAIADMK نے حیرت انگیز طور پر 37 نشستیں حاصل کیں(2009ء میں 9 نشستیں تھیں)، ممتابینر جی آل انڈیا ترینامول کانگریس کی نشستوں کی تعداد 34 ہے(2009ء میں 19 نشستیں)، چندرابابو نائیڈو کی تلگودیشم پارٹی کو 16 نشستیں ملیں (2009ء میں6 نشستیں)، آندھرا پردیش کی ریاستی پارٹی وائی ایس آر کانگریس پارٹی نے پہلی بار قومی انتخابات میں حصہ لے کر 9 نشستیں حاصل کیں۔ پہلی بار قومی انتخابات میں حصہ لینے والی'عام آدمی پارٹی' کے حصے میں صرف چارنشستیں آئیں۔
مودی کون اور کیا ہیں؟
چند روز بعد حلف اٹھانے والے نریندر دامودر داس مودی متنازع شخصیت کے مالک ہیں، مودی کے مخالفین انھیں فسادی قراردیتے ہیں جبکہ چاہنے والے انھیں اوتار مانتے ہیں، انھیں تبدیلی اور اقتصادی ترقی کی علامت قرار دیتے ہیں، ایک ایسا مضبوط رہنما خیال کرتے ہیں جو ملک کی تقدیر بدلے گا۔
مودی نے ریاست گجرات کے ضلع مہسانہ میں ایک غریب خاندان میں جنم لیا۔ والد دامودر داس ریلوے اسٹیشن پر چائے بیچتے تھے اور والدہ ہیرا بین گزر بسر میں مدد کے لیے لوگوں کے گھروں میں کام کرتی تھیں۔ بچپن میں خود نریندر مودی اپنے والد کے ساتھ ٹرینوں میں چائے بیچا کرتے تھے۔
اس الیکشن میں انھوں نے اپنے 'غریب بیک گراؤنڈ' کا بھرپور فائدہ اٹھایا، یعنی ایک چائے بیچنے والا جو ایک 'شہزادے' (راہول گاندھی) کو چیلنج کر رہا ہے۔ انھیں اپنے بچپن میں سنیاسی بننے کا خیال آتا تھا، 17 سال کی عمر میں جشودا بین سے ان کی شادی ہوئی لیکن دونوں کبھی ساتھ نہیں رہے۔
انھوں نے جوانی میں ہی ہندو انتہاپسند تنظیم 'آر ایس ایس' میں شمولیت اختیار کر لی تھی اور 70 کی دہائی سے ہندو پرچارک یا تنظیم کے مبلغ کے طور پرکام کرنے لگے ۔ماہرین کے مطابق ان کی سیاسی تربیت آر ایس ایس میں ہی ہوئی لیکن اب ان کے کاروباردوست اقتصادی نظریے اور آر ایس ایس کے 'سودیشی' کے تصور میں براہِ راست تضاد ہے۔ وہ کئی بڑے صنعتی گھرانوں کے قریب مانے جاتے ہیں اور اس الیکشن میں کارپوریٹ انڈیا نے ان کی زبردست حمایت کی ہے۔ لیکن اس کے باوجود اس الیکشن میں آر ایس ایس نے بھی ان کی بھرپور حمایت کی۔
مودی کو شروع سے ہی بی جے پی کے لیڈر لال کرشن ایڈوانی کی سرپرستی حاصل رہی ہے اور انھی کی مدد سے وہ سنہ 2001 میں پہلی مرتبہ گجرات کے وزیر اعلیٰ بنے۔ سنہ 1991 میں جب رام مندر کی تعمیر کے لیے مسٹر ایڈوانی نے ملک گیر رتھ یاترا نکالی تھی تو اس کا انتظام نریندر مودی نے ہی سنبھال رکھا تھا لیکن مودی کے وزیر اعلیٰ بننے کے چند ہی مہینوں بعد فروری 2002ء میں گجرات میں ہندو مسلم فسادات ہوئے جو آج تک ان کے گلے کی ہڈی بنے ہوئے ہیں۔ فسادات میں دوہزار مسلمان شہید ہوئے اور مودی پر الزام ہے کہ انھوں نے خونریزی روکنے کے لیے کوئی کارروائی نہیں کی۔
خیال کیا جاتا ہے کہ فسادات روکنے میں ناکامی کی وجہ سے اس وقت کے وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی چاہتے تھے کہ مسٹر مودی استعفیٰ دے دیں لیکن ایل کے ایڈوانی نے ان کی کرسی بچائی۔ اسی سبب امریکا نے انھیں ہمیشہ ویزا جاری کرنے سے انکار کیا لیکن جب سے مودی نے وزیر اعظم کی کرسی کے لیے اپنے عزائم کا عندیہ دیا، تو ایڈوانی سے ان کے تعلقات بگڑنا شروع ہوگئے۔ انھوں نے ایک مرتبہ پھر اپنی آمرانہ شخصیت کی جھلک پیش کرتے ہوئے ایڈوانی، سشما سوراج اور مرلی منوہر جوشی جیسے سینیئر رہنماؤں کو کنارے کر دیا۔
ایک غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق یہ الیکشن بے جے پی کے نام پر نہیں، مودی کے نام پر لڑا گیا اور اس کا مرکزی نعرے تھے: 'اب کی بار، مودی سرکار۔' 'مودی کو ووٹ دیجیے، بی جے پی کو نہیں،' 'اچھے دن آنے والے ہیں، اور اچھے دن صرف مودی لا سکتے ہیں۔' پوری انتخابی مہم کے دوران ان کے ساتھ اسٹیج پر پارٹی کا کوئی دوسرا لیڈر نظر نہیں آیا۔
کہا جاتا ہے کہ وہ مخالفت برداشت نہیں کرتے اور اسی لیے بہت سے سیاسی تجزیہ نگار سمجھتے ہیں کہ ایک سیکولر ملک میں سب کو ساتھ لے کر چلنا اور ملک کے جمہوری اداروں اور روایات کا احترام کرنا ہی ان کی سب سے بڑی آزمائش ہوگی۔ خود نریندر مودی کے خلاف تو مذہبی فسادات کے سلسلے میں کبھی کوئی مقدمہ قائم نہیں ہوا لیکن فسادات سے متعلق ایک کیس میں ان کی وزیر مایا کوڈنانی عمر قید کی سزا کاٹ رہی ہیں۔ ان کے سب سے قریبی معتمد اور ریاست کے سابق وزیر داخلہ امت شاہ کو پولیس کے فرضی مقابلوں کے سلسلے میں قتل کے الزامات کا سامنا ہے۔
بھارت کے باشعور حلقوں میں بھی مودی کی جیت سے بے چینی واضح ہورہی ہے۔ اس بے چینی کی اصل وجہ جاننے کی ضرورت ہے۔ سبھی جانتے ہیں کہ بی جے پی آرایس ایس کا سیاسی بازو ہے۔ آرایس ایس نے اپنے عزائم کی تکمیل کے لئے سیکڑوں تنظیمیں قائم کر رکھی ہیں۔
سب کے دائرہ کار الگ الگ ہیں۔ ان میں بھارتی مزدور سنگھ، سودیشی جاگرن منچ، اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد، ونواس کلیان سمیتی قابل ذکر ہیں۔ سب کا مقصد بھارت کو ہندودھرتی بنانے میں اپنا اپنا کردار کرنا ہے۔ اس بات کا صحیح اندازہ نریندر مودی کے ایک حالیہ انٹرویو سے بھی ہوتا ہے جو انھوں نے ایک انگریزی ٹیلی ویژن چینل "Times Now" کو دیا ، جس میں ٹھیک اسرائیل کی طرز پر بھارت کو ہندولینڈ بنانے کا واضح منصوبہ پیش کیا اور یہ کہا کہ دنیا میں بسنے والے سبھی ہندوؤں کا فطری وطن ہندوستان ہے اور ہمیں ان کی فکر کرنی چاہئے۔
اس کے علاوہ انھوں نے آسام اور بنگال کے مسلمانوں کو درانداز کہہ کر ملک سے باہرنکالنے کی بات بھی کی ہے۔ گزشتہ دنوں آسام میں ایک انتخابی ریلی کے دوران یہ بات کہی گئی۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اسرائیل سے تربیت یافتہ سیاسی گروپ منصوبہ بند طریقے سے مسلمانوں کو کنارے لگانے کی سعی میں مصروف ہے۔ آسام میں بڑی تعداد ایسے لوگوں کی ہے جنھیں مشتبہ قرار دے کر ووٹ دینے سے محروم کردیاگیاہے، گویا یہاں بھی ایک غزہ پٹی قائم کی جارہی ہے۔ حالیہ انتخابی عمل کے دوران آسام میں مسلمانوں کا قتل عام اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔
کانگریس شرمناک شکست سے کیوں دوچارہوئی؟
مودی کی کامیابی میں مودی اور ان کی جماعت کا کردار کم ہے ، کانگریس کی بری کا کردگی کا زیادہ۔بعض مودی نواز میڈیاہاؤسز نے مودی کے لئے جو تشہیری مہم چلائی، اس کے تحت انھیں گجرات کے ترقیاتی ماڈل کو اس طرح پروجیکٹ کیا گیا کہ عام ووٹر اس سے متاثر ہوگئے اور اس کا جو نتیجہ ہوا، وہ سامنے ہے۔
گجرات کی ترقی کے جھوٹ کو جس طرح مودی نوازمیڈیا نے سچ بناکر پیش کیا، اس کا مقابلہ کرنے میں کانگریس بری طرح ناکام رہی ہے۔ پوری انتخابی مہم میں کانگریس کے لیڈروں میں وہ جوش وخروش نظرہی نہیں آیا جس کی ایسے موقع پر ضرورت ہوتی ہے، لیڈر اور کارکنان دونوں بجھے بجھے نظرآرہے تھے۔ ایسا لگ رہا تھا کہ وہ الیکشن سے پہلے ہی ہار قبول کرچکے ہیں۔
میڈیا میں 'اب کی بارمودی سرکار' کے نعرے کے ساتھ جس طرح کانگریسی دورحکومت کی خرابیوں کو نمایاں کیا جارہا تھا اور ووٹروں کو سب اچھا ہوجانے کے خواب دکھائے جارہے تھے، کانگریس اس میڈیا مہم کا توڑ کرنے میں ناکام رہی۔ کانگریس ٹی وی کمرشلز کی مہم چلانے کے لئے انتخابات سے چند دن پہلے میدان میں اتری جبکہ بی جے پی کئی ہفتے پہلے سے تشہیری مہم چلارہی تھی۔
کانگریس کی تشہیری مہم کا سائز مودی کی مہم کا عشرعشیر بھی نہیں تھا۔ اس تناظر میں کہا جاسکتا ہے کہ کانگریس حکومت کرکے کتنا تھک چکی تھی اور فیصلہ کرچکی تھی کہ اب اسے حکومت نہیں کرنی۔ یہ ایک ایسی کانگریس کی بات کی جارہی ہے جس کے ادوار حکومت میں منہگائی میں تشویشناک اضافہ ہوا، سنگین بدعنوانیوں اور گھپلوں کے اسکینڈلز سامنے آئے۔ بی جے پی مخالف جماعتوں کا ایک دوسرے عدم تعاون بھی مودی کی جیت کا ایک سبب رہا۔ حتیٰ کہ کانگریس نے مقبوضہ کشمیر میں اپنی ہمیشہ کی حلیف جماعت نیشنل کانفرنس سے بھی تعاون کی ضرورت محسوس نہ کی۔
مودی سرکاربھارتی قوم کو کیادے گی؟
بھارت گزشتہ دو عشروں سے شدید معاشی مشکلات کا شکار ہے۔ مہنگائی بھارتی قوم کا سب سے سنگین مسئلہ رہی ہے۔ بی جے پی کے راہ نمامودی کی جیت کے اسباب میں ان کے وہ وعدے بھی شامل ہیں جس میں انھوں نے معاشی ڈسپلن اور بینکنگ کے شعبے میں اصلاحات کرنے کی بات کی تھی۔
جون، جولائی میں قومی بجٹ مودی سرکار ہی کو پیش کرنا ہے، وہ اس پوزیشن میں بھی نہیں ہیں کہ اپی قوم سے کہہ سکیں کہ انھیں اچھا بجٹ تیار کرنے کاوقت ہی نہیں ملا، کیوں کہ وہ اپنی قوم کو پہلے ہی باور کراچکے ہیں کہ وہ ایک مکمل منصوبے اور پوری تیاری کے ساتھ ایوان اقتدار میں قدم رکھیں گے۔
سن 2014-15ء کا بجٹ ان کے لئے ایک بڑا چیلنج ہوگا، جو ان کی مقبولیت کی موجودہ لہر کو مزید بڑھاچڑھاسکتا ہے اور اسے فوری طور پر زوال کی راہ بھی دکھا سکتا ہے۔ ایک پہلو یہ بھی ہے کہ وہ جن بڑے بڑے کاروباری گروپس کے کندھے پر چڑھ کر ایوان اقتدار تک پہنچے ہیں، وہ بھی مودی سے بہت سی توقعات وابستہ کئے ہوئے ہیں۔ انتخابی مہم کے دوران بی جے پی والے کہتے رہے ہیں کہ جس طرح مودی نے ریاست گجرات کو بدلا، اسی طرح پورے انڈیا کو خوشحالی سے ہمکنار کریں گے۔ انتہا پسندجماعت کا یہ کہنا درست تھا یا نہیں، اس سے قطع نظر اب مودی کو اس سحر طاری کرنے والے وعدے کو پورا کرنا ہوگا اور اس کی ایک جھلک اپنے حالیہ بجٹ میں دکھانی ہوگی۔
اگلے دس برسوں کے دوران بھارت میں ایک بڑی جنریشنل تبدیلی رونما ہوگی، یعنی دس کروڑ افراد روزگار مانگیں گے۔ حالیہ انتخابات میں بھی دس کروڑ نوجوانوں نے زندگی میں پہلی بار اپنا ووٹ کاسٹ کیا۔ عام طورپر یہی خیال کیاجارہاہے کہ ان کی اکثریت نے بی جے پی ہی کے حق میں اپنا ووٹ ڈالا اور اپنی بھاری بھرکم توقعات کا بوجھ مسٹرمودی اور ان کی جماعت کے کندھوں پر ڈال دیا۔
یہ توقعات بہتر طرز زندگی اور روزگار کے بہترین مواقع پر مشتمل ہیں۔ ٹرینوں میں چائے بیچنے والے غریب باپ دامودرداس کے چائے بیچنے والے بیٹے مودی کو بخوبی اندازہ ہوگا کہ غربت اور بے روزگاری کتنا بڑا عذاب ہوتی ہے۔ مودی اور ان کی جماعت کو پہلے سے بے روزگار اور نئی طلب گار نوجوان نسل کی توقعات پر پورا اترے بغیر اقتدار قائم رکھنا مشکل ہوگا۔
مودی سرکار اور پاکستان
مودی اور ان کی جماعت کانگریس کی حکومتوں کو مسلسل طعنہ دیتی رہی ہے کہ انھوں نے بھارتی قوم کو پاکستان اور چین کے دباؤ تلے دبا دیا ہے۔ اس اعتبار سے جب بی جے پی ' اب کی بار، مودی سرکار' کا نعرہ لگاتی تھی تو قوم کو باور کراتی تھی کہ وہ ایک ایسی واضح ڈپلومیسی پر عمل کرے گی جو کسی بھی قسم کی مصلحتوں اور کمزوریوں سے پاک ہوگی۔
مودی کے منشور میں کہا گیا کہ بی جے پی ایک ایسے سیاسی استحکام، ترقی اور امن پر یقین رکھتی ہے جو جنوبی ایشیا کی ترقی کے لئے ضروری ہے۔ دوسری طرف مودی پاکستان کے ساتھ مذاکرات میں سخت موقف رکھنے کے وعدے بھی کرتے تھے۔ وہ پاکستان کو مورد الزام ٹھہراتے ہوئے کہا کرتے تھے کہ پاکستان سے مذاکرات کی باتیں بموں اور گولیوں کے شور میں دفن ہوچکی ہیں۔
کارپوریٹ اداروں کے پسندیدہ مودی کے لئے اقتدار کے دوران جنگجویانہ رویہ سودمند ثابت نہیں ہوگا۔ ملک کی معاشی ترقی کے لئے ضروری ہے کہ خطے میں امن قائم رہے۔ لیکن مودی اور ان کی جماعت اب ایک مشکل صورت حال سے دوچار ہوں گے، انھوں نے ملک میں ہندوتوا کے ایجنڈے کے تحت ہندؤں کے جذبات مسلمانوں اور پاکستان کے خلاف مشتعل کئے اور ووٹ حاصل کئے، ایسے لوگوں کے جذبات کو ''تسکین'' دینے کے لئے کچھ کرنا پڑے گا، ہوسکتا ہے کہ وہ پاکستان کو دباؤ میں لانے کے لئے کچھ ایسے 'اقدامات' کریں جیسی مثالیں انھوں نے گجرات میں مسلمانوں کے خلاف قائم کیں۔
یاد رہے کہ گودھرا میں ہندؤوں سے بھری ٹرین کو نذر آتش کرنے والے واقعے کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ آگ مودی سرکار نے خود لگوائی تھی، تاکہ اس کے نتیجے میں ریاست میں ایک مسلم کش ماحول پیدا ہو اور ہندوؤں کو اپنی حمایت پر جمع کیا جائے۔
چین اور باقی خطے پر اثرات
ہمسائیہ ملک چین کی بابت مودی کے دوچہرے ہیں۔ مودی بحیثیت ریاستی وزیراعلیٰ چین کے دورے کرتے رہے ہیں اور یہاں کے سرمایہ کاروں کو گجرات میں سرمایہ کاری کی ترغیب دیتے رہے ہیں۔ مودی اپنے اس چہرے کے ساتھ آنے والے بطوروزیراعظم پہلا غیر ملکی دورہ برازیل کا کریں گے، جہاں غیرملکی سربراہان کے اجتماع کے دوران چینی وزیراعظم شی جن پنگ سے ملاقات بھی کریں گے تاہم ایک چہرہ مودی چین سے تصادم والا ہے، وہ اپنے ملک میں بارہا چین پر شدید تنقید کرتے رہے ہیں، اسے ملکی سلامتی کے لئے خطرہ قرار دیتے رہے ہیں اور اس کے خلاف جارحانہ پالیسی اختیارکرنے کے اشارے دیتے رہے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ چین جیسے طاقت ور دشمن کے ساتھ مودی کو پرامن رہنا پڑے گا۔
البتہ وہ بھارتی فوج کی ماڈرنائزیشن اور بارڈر انفراسٹرکچر کی اپ گریڈیشن پر توجہ دیں گے۔ وہ مشرقی اور جنوب مشرقی ایشیا کے ممالک بالخصوص جاپان، سنگاپور، جنوبی کوریا اور ویت نام کے ساتھ سیاسی اور معاشی تعلقات مضبوط بنائیں گے۔ تجزیہ نگاروں کی اکثریت کا کہنا ہے کہ مودی نے بھارت نے ''نیشنل ازم'' کے نام پر ملک میں جس طرح لوگوں کو چین ، بالخصوص پاکستان کے خلاف بھڑکایا۔ مودی سرکار بھارت کو خوشحال ریاست بنانا چاہتی ہے تواس اشتعال انگیزی کو واپس کرنا ہوگا۔
اب بھارتی مسلمانوں کا کیاہوگا؟
حالیہ انتخابات میں مجموعی طور پر 23 مسلمان امیدواران کامیاب ہوکر پارلیمان میں پہنچے ہیں۔ قریباً 53 امیدواروں نے دوسری پوزیشن حاصل کی۔ افسوسناک پہلو یہ ہے کہ ملک کے سب سے بڑے صوبے اترپردیش سے کوئی مسلمان نہ جیت سکا۔ بھارت کی 67 سالہ تاریخ میں پہلی بارا یسا ہوا ہے۔
یاد رہے کہ یوپی میں مسلمانوں کی شرح 20 فیصد ہے۔ کل 82 نشستوں میں سے 73 نشستیں بی جے پی اور اس کے اتحادیوں کو ملی ہیں۔ ان انتخابات میں قومی وعلاقائی پارٹیوں کے علاوہ مسلمانوں کی کئی پارٹیاں میدان میں بھی تھیں لیکن انھیں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ ان میں ویلفیئر پارٹی آف انڈیا، پیس پارٹی، راشٹریہ علماء کونسل، مسلم مجلس، پرچم پارٹی، نیشنل لیگ اور ایس ڈی پی آئی کا نام بھی شامل ہے۔ انتہا پسند تنظیم راشٹریہ سیوک سنگھ کے سینئر رکن اندریش کمار کا کہنا ہے کہ ان انتخابات میں 24 فیصد مسلمانوں نے بی جے پی کو ووٹ دیا۔
بحیثیت مجموعی مسلمانوں کا ووٹ تقسیم ہوا، کانگریس کو منافقانہ طرز عمل کی وجہ سے مسلمانوں کے ووٹ سے محروم ہونا پڑا۔ حالیہ انتخابات میں مسلمانوں نے مقامی سطح پر فیصلہ کیا کہ کس امیدوار کو ووٹ دینا ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بی جے پی نے انتخابی مہم کے دوران مسلمان دشمنی پر مبنی بیانات بھی جاری کیے لیکن مسلمانوں کو اپنی طرف راغب کرنے کی کوشش بھی کی۔
بھارتی مسلمان2002ء میں ہونے والے مسلم کش فسادات(ریاست گجرات) کے بعد مودی کو اس وحشیانہ ظلم کا ذمے دار سمجھتے تھے، یہ ایک کھلا سچ ہے کہ وزیراعلیٰ مودی ہی کے اشارے پر گجراتی مسلمانوں کے ساتھ خون کی ہولی کھیلی گئی تھی۔
ہندوانتہا پسندوں نے ریاستی سرکار کے ایماپر ایک ہزار سے دوہزار مسلمانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔ ان میں مسلمان بچے بھی شامل تھے اور حاملہ خواتین بھی۔ اگرچہ مودی اس ظلم میں ملوث ہونے سے مسلسل انکاری رہے تاہم تمام تر شواہد انہی کی طرف جاتے تھے۔
بالفرض مان بھی لیا جائے کہ وہ اس میں ملوث نہیں تھے تو اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ملتا کہ انھوں نے فسادات کی روک تھام کے لئے کوئی کوشش کی ہو۔ امریکی اور برطانوی حکومتیں بھی 2002ء کے مسلم کش فسادات میں مودی کو پوری طرح ملوث سمجھتی رہی ہیں یہی وجہ ہے کہ انھوں نے دوسال تک ان کو اپنے ہاں آنے کی اجازت نہ دی۔
مودی کی پارٹی نے حالیہ انتخابات کی مہم کے دوران بھی اپنے خونی چہرے کو بے نقاب رکھا ، ان کے رہنما مسلمانوں کو بھارت چھوڑ دینے کے ''احکامات'' جاری کرتے رہے۔ سوال یہ ہے کہ مودی اور ان کی جماعت اپنے مسلم دشمن تشخص کو برقرارکھے گی یا پورے بھارت کی حکمران ہونے کے تقاضے پورے کرے گی؟
کشمیر اور کشمیریوں کا کیاہوگا؟
کشمیر کی چھ نشستوں کے لئے پانچ مراحل میں ووٹنگ ہوئی جس کے دوران کل جماعتی حریت کانفرس نے بائیکاٹ کی مہم چلائی، اس مہم کو ناکام بنانے کے لئے پولیس نے بڑے پیمانے پر گرفتاریاں کیں، ایک غیرملکی نشریاتی ادارے کے مطابق دوہزار سے زائد افراد کو گرفتار کیا گیا جبکہ حریت کانفرنس تعداد زیادہ بتارہی ہے۔
بہت سے نوجوان اٹھارہ سال سے کم عمر کے تھے لیکن انھیں ایسی جیلوں میں رکھا گیا جہاں صرف بالغ افراد کو رکھا جاتا ہے۔ پولیس نے اعتراف کیا کہ اس نے ایک ہزار سے زائد نوجوانوں کو' احتیاطی حراست' میں لیا۔انسانی حقوق کی تنظیموں کے اتحاد کولیشن آف سول سوسائٹی نے انتخابی عمل کو فوجی آپریشن قراردیتے ہوئے دعویٰ کہ دوہزار سے زائد نوجوانوں کو تھانوں اور جیلوں میں قید کیا گیا۔ ان میں سے متعدد کو پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت جیلوں میں بھیجا گیا۔ اس قانون کی رو سے عدالتی پیشی کے بغیر کسی بھی کشمیری کو کم از کم دو سال تک قید کیا جاسکتا ہے۔
اکثر ایسے قیدیوں کو کشمیر سے سیکڑوں میل دور بھارتی جیلوں میں رکھا جاتا ہے۔ غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق کشمیر میں علیحدگی پسندوں کی بائیکاٹ کی کال کا خاصا اثر رہا۔ اس دوران تشدد کی وارداتیں بھی ہوئیں اور مظاہرے بھی کئے گئے۔ بائیکاٹ مہم کا نتیجہ یہ نکلا کہ بھارتی حکومت کے مطابق کشمیر میں ٹرن آؤٹ تیس فیصد رہا۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ کشمیر میں انتخابی سیاست کو ابھی تک عوامی اعتبار حاصل نہیں ہوسکا،لوگ بھارت نواز سیاست سے متفر ہیں۔
حریت کانفرنس کے رہنما سیدعلی گیلانی نے بی جے پی اور کانگریس کو ' ایک جیسا' قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ کانگریس نہ صرف بابری مسجد کے انہدام کی ذمے دار ہے بلکہ سب سے زیادہ مسلم کش فسادات کانگریس ہی کے دور اقتدار میں ہوئے ہیں۔ میر واعظ عمر فاروق کا کہنا ہے ''اقتدار پر چاہے کسی کا بھی قبضہ ہو، کشمیر میں حالات تب تک بہتر نہیں ہوں گے جب تک حکومت ہند کشمیریوں کے ساتھ اپنا رویہ تبدیل نہیں کرتی''۔ مودی اور ان کی جماعت مقبوضہ کشمیر کے بارے میں کانگریس کی پالیسی کو ''نرم'' قرار دیا کرتی تھی اس لیے زیادہ امکانات ہیں کہ مودی سرکار سخت گیر پالیسی اختیار کریں گے۔ کشمیری بھی چاہتے ہیں کہ ان کے ساتھ کچھ بھی اچھا یا برا ہو۔ وہ 'اسٹیٹس کو' کی صورت حال سے تنگ آچکے ہیں۔ احمد نامی ایک کشمیری نوجوان کے بقول: ''کم از کم مودی میں کچھ کرنے کی صلاحیت تو ہے۔ چاہے وہ اچھا کرے یا برا۔ ہمیں پتہ چل جائے گا، ہماری قسمت میں کیا ہے اور تاریکی کا دور ختم ہو۔''
بھارتی مسلمان، پاکستان، چین اور کشمیر جیسے موضوعات پر مودی اور بی جے پی ماضی میں جو رویہ اور اندازفکر رکھتی تھی، اسے علیحدگی بھی آسان نہیں ہے لیکن اس کے مطابق پالیسیاں تشکیل دینا اور ان پر عملدرآمد بھی مشکل ہوگا۔ ایسا بھی نہیں ہوسکتا کہ ہندوتوا کا ایجنڈا ترک کر دیا جائے، اس صورت میں اپنے جذباتی ووٹروں سے محروم ہونا پڑے گا، دوسری صورت میں بھارت خوشحال نہیں ہوگا۔