پاکستان کی خاتون اول …

سابق وزیر اعظم چیئرمین تحریک انصاف کی اہلیہ بشریٰ بی بی نے کبھی بھی خاتون اول کا کردار ادا نہیں کیا

پاکستان کی سیاسی تاریخ میں خاتون اول کا مرتبہ حاصل کرنے والی خواتین کا ذکر بہت دلچسپی کا حامل ہے۔

پاکستان کی پہلی خاتون اول لیاقت علی خان کی اہلیہ بیگم رعنا لیاقت علی خان تھیں۔ غیر منقسم ہندوستان کی آخری کابینہ میں وہ وزیر خزانہ تھے۔ بیماری کے باعث لیاقت علی خان دہلی کے جس اسپتال میں زیر علاج تھے وہیں رعنا لیاقت علی خان بحیثیت اسٹاف نرس کام کرتی تھیں۔

انھوں نے لیاقت علی خان کی جس تندہی سے تیمار داری کی اس سے متاثر ہوکر وہ ان کی جیون ساتھی بن گئیں۔ 60 کی دہائی میں وہ پاکستان کی سفیر برائے ہالینڈ تھیں جب کہ 70 کی دہائی میں ان کا تقرر بحیثیت گورنر سندھ کیا گیا تھا۔ بیگم رعنا لیاقت علی خان ایک مکمل مشرقی خاتون تھیں۔

50 کی دہائی میں محمد علی بوگرہ کو وزیر اعظم مقرر کیا گیا تو وہ امریکا سے اپنے ساتھ لبنانی قومیت کی حامل سیکریٹری کو بھی پاکستان لائے اور وہ خاتون اول ہوگئیں۔ محمد علی بوگرہ جن کا تعلق مشرقی پاکستان سے تھا، بہت مختصر عرصے تک وزیر اعظم رہے۔ 1958 میں فیروز خان نون پاکستان کے وزیر اعظم تھے، وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ وکیل اور ایک متحرک شخصیت تھے۔ اس وقت گوادر سلطنت عُمان کا حصہ تھا۔

فیروز خان نون نے گوادر کو پاکستان میں شامل کرنے کے لیے اپنی صلاحیتوں کا استعمال کر کے یہ مقدمہ جیت لیا اور پاکستان کے حوالے گوادر کو کرنے پر قوم نے سراہا تھا۔ فیروز خان نون بیگم وقار النسا سے شادی کے خواہش مند تھے مگر شادی سے قبل ان کا تعلق یہودی مذہب سے تھا، لیکن شادی کے بعد انھوں نے نہ تو یہودی مذہب سے کوئی تعلق رکھا اور نہ ہی اپنے خاندان سے۔ ان کا نام وقار النسا شادی کے بعد رکھا گیا تھا۔

اکتوبر 1958 میں جنرل ایوب خان نے اقتدار حاصل کر لیا تھا۔ ان کی اہلیہ کبھی بھی منظر عام پر نہیں آئیں اور نہ ہی صدر مملکت کے ساتھ غیر ملکی دوروں پر گئیں چونکہ صدر مملکت کے بھائی سردار بہادر خان اور دیگر رشتے دار اس بات کے سخت مخالف تھے۔ صدر ایوب خان کی صاحبزادی بیگم نسیم اورنگ زیب اپنے والد کے ہمراہ غیر ملکی دوروں میں شریک ہوتی تھیں چونکہ ملک میں صدارتی طرز حکومت کے باعث وزیر اعظم کا عہدہ نہیں ہوتا تھا۔

اکتوبر 1958 سے قبل اسکندر مرزا صدر پاکستان تھے اور ان کی اہلیہ ناہید اسکندر مرزا کو خاتون اول کا مرتبہ حاصل تھا۔ ایرانی نژاد ناہید اسکندر مرزا اس قدر آزاد خیال تھیں کہ سوشل تقریبات میں مشرقی لباس کے بجائے اسکرٹ زیب تن کرتی تھیں اور ان کی تصاویر بڑے اہتمام سے شایع ہوتی تھیں۔ اس وقت ملک میں ٹی وی نہیں آیا تھا۔1972 میں ذوالفقار علی بھٹو نے جب وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالا تو بیگم نصرت بھٹو کو خاتون اول کا مرتبہ حاصل ہوا۔ شادی سے قبل ان کا نام نصرت اصفہانی تھا اور ان کے والد بغداد سوپ فیکٹری کے مالک تھے۔ بعدازاں وہ ممبئی منتقل ہوگئے۔

ذوالفقار علی بھٹو کی پہلی بیوی کا تعلق بھٹو خاندان سے تھا مگر وہ کبھی بھی منظر عام پر نہیں آئیں۔ بیگم نصرت بھٹو اعلیٰ تعلیم یافتہ اور روشن خیال خاتون تھیں اور عوامی سطح پر بھی خاصی مقبول تھیں۔ انھوں نے ایک مرتبہ تاریخی جملہ کہا تھا کہ ''بھٹو حکمرانی کے لیے پیدا ہوئے ہیں۔'' 80 کی دہائی میں صدر ضیا الحق برسر اقتدار تھے لیکن صدر کے غیر ملکی دوروں میں ان کی اہلیہ عام طور پر شریک نہیں ہوتی تھیں لیکن جب وہ عمرہ ادا کرنے ارض مقدس جاتے تو وہ ہمیشہ ان کے ساتھ ہوتی تھیں۔ ان کو غیر سرکاری طور پر خاتون اول ہی سمجھا جاتا تھا چونکہ وزیر اعظم محمد خان جونیجو کی اہلیہ نے کبھی بھی منظر عام پر آنا پسند نہیں کیا۔


اگست 1988 میں جب صدر ضیا الحق ایک فضائی حادثے کے باعث انتقال کر گئے تو عام انتخابات کے بعد بے نظیر بھٹو نے وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالا۔ وہ آکسفورڈ یونیورسٹی کی تعلیم یافتہ اور انگریزی زبان پر مکمل عبور رکھتی تھیں جس کے باعث غیر ملکی میڈیا ہمیشہ ان سے بین الاقوامی امور پر بات چیت اور انٹرویوز کا خواہش مند رہتا۔ اپنے والد کی طرح بے نظیر بھٹو بھی وسیع المطالعہ خاتون کے ساتھ ساتھ ایک زیرک سیاستدان بھی تسلیم کی جاتی ہیں۔

سابق وزیر اعظم نواز شریف کے دور اقتدار میں بیگم کلثوم نوازکو خاتون اول کا درجہ حاصل تھا۔ وہ ایک مشرقی روایات کے حامل خاندان سے تعلق رکھتی تھیں اور عام طور پر میڈیا سے فاصلے پر رہتی تھیں۔ جب جنرل پرویز مشرف نے 12 اکتوبر 1999 کو نواز شریف کی حکومت برطرف کی تو بیگم کلثوم نواز نے عوامی سطح پر متحرک کردار ادا کیا تھا۔ سعودی عرب کے ساتھ ایک معاہدے کے باعث جب نواز شریف دس برس کے لیے وہاں منتقل ہوئے تو کلثوم نواز نے بھی پاکستان کو خیر باد کہہ دیا تھا۔

سابق صدر جنرل پرویز مشرف کے دور اقتدار میں ان کی اہلیہ صہبا مشرف کو ہی خاتون اول سمجھا جاتا تھا اور وہ صدر مملکت کے ساتھ غیر ملکی دوروں میں بھی شریک ہوتی تھیں۔ صدر پرویز مشرف کے دور اقتدار میں میر ظفر اللہ جمالی اور شوکت عزیز وزیر اعظم مقرر ہوئے تھے مگر ان کی بیگمات نے خاتون اول کا مرتبہ حاصل نہیں کیا۔ صہبا مشرف کا تعلق بھارتی صوبہ اترپردیش کے شہر لکھنو سے تھا۔

صدر پرویز مشرف کے دورہ بھارت کے موقع پر میڈیا نے بھرپور کوشش کی تھی کہ وہ اپنی جنم بھومی کے بارے میں کچھ تعریفی کلمات ادا کریں مگر انھوں نے انگریزی زبان میں صرف ایک جملہ ادا کیا کہ '' اب میں پاکستانی شہری ہوں اور میرا لکھنو سے کوئی تعلق نہیں ہے۔''

سابق وزیر اعظم چیئرمین تحریک انصاف نے جب 2018 کے عام انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالا تو خاتون اول کا وجود نہیں تھا۔ ان کی سابقہ اہلیہ جمائمہ گولڈ اسمتھ سے علیحدگی ہوچکی تھی۔ وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالنے کے کچھ عرصے کے بعد پاکستانی نژاد برطانوی شہری ریحام خان سے انھوں نے شادی کرلی مگر انھیں خاتون اول کا درجہ حاصل نہیں ہوا، ایک مختصر عرصے کے بعد دونوں میں علیحدگی ہوگئی۔بعدازاں ان کی شادی بشریٰ بی بی سے ہوئی۔

پاکستانی عوام نے پہلی مرتبہ ان کو سرکاری ٹی وی پر اس وقت دیکھا تھا جب وزیر اعظم چیئرمین تحریک انصاف کی تقریب حلف برداری میں وہ اگلی صف میں موجود تھیں۔ سفید عبایا میں ملبوس صرف آنکھیں پوشیدہ نہیں تھیں۔ یہ ایک انتہائی حیرت انگیز تبدیلی تھی۔ بشریٰ بی بی نے انھی دنوں ایک انٹرویو دیا تھا جس میں وہ انھوں نے اپنے بارے میں کچھ بتایا تھا۔

''میری ساری زندگی جائے نماز پر گزری۔ میں جہاں جاتی ہوں موٹو (چیئرمین تحریک انصاف کا پالتو کتا) بھی میرے ساتھ جاتا ہے۔ میں بنی گالا جاتی ہوں تو وہ ساتھ جاتا ہے۔ خان صاحب صرف اس کو پیار کرتے ہیں، خیال اس کا میں رکھتی ہوں۔ اس صدی میں جو لیڈر ہیں وہ چیئرمین تحریک انصاف اور ترک صدر طیب اردگان ہیں۔''

سابق وزیر اعظم چیئرمین تحریک انصاف کی اہلیہ بشریٰ بی بی نے کبھی بھی خاتون اول کا کردار ادا نہیں کیا کیونکہ وہ ایک مشرقی روایات کی حامل اور پابند حجاب خاتون ہیں جنھیں عوامی تقریبات کے علاوہ وزیر اعظم چیئرمین تحریک انصاف کے ساتھ غیر ملکی دوروں میں کبھی نہیں دیکھا گیا البتہ وہ عمرے کی ادائیگی اور زیارت مقدسہ کے دوران ان کے ساتھ ہی تھیں۔
Load Next Story