’’پچھلے پہر کی سرگوشی‘‘ کا شاعر ڈاکٹر محمد اجمل نیازی

ہمارے ملک کے چندایسے بڑے نام ہیں جن کی پہچان کچھ ایسی بن گئی ہے کہ ان کانام ہی اُن کی تحریریں پڑھنے پرمجبورکردیتی ہیں

کل دیکھا اک آدمی لپٹا سفر کی دھول میں

گم تھا اپنے آپ میں جیسے خوشبو پھول میں

( منیر نیازی)

تخلیق کار ہمیشہ اس جدوجہد میں رہتا ہے کہ وہ کچھ ایسا لکھے جو منفرد ہو اور اُس میں کچھ ایسا نمایاں ہو جو حقیقتاً پڑھنے سے تعلق رکھتا ہو۔ اُس کے لکھے ہوئے میں کچھ ایسا ہوکہ قاری ایک ہی نشست میں سارا نہیں توکافی سارا ضرور پڑھ لے، جو اس بات کی تائید کرے کہ ہاں یہ ایسا لکھا گیا ہے جو ہمارے اندرکی سچی آواز ہے یا یہ ہمارے ارد گرد کا ایسا ماحول ہے جو حقیقت کے قریب تر ہے۔

ہمارے ملک کے چند ایسے بڑے نام ہیں جن کی پہچان کچھ ایسی بن گئی ہے کہ ان کا نام ہی اُن کی تحریریں پڑھنے پر مجبور کردیتی ہیں اور اُن کا نام صرف نام نہیں بلکہ اُن کا کام بھی پوری آب و تاب کے ساتھ بولتا ہے۔ ایسا ہی ایک نام ڈاکٹر محمد اجمل نیازی کا ہے جنھیں پاکستانی ادب و صحافت میں شاعری، نثر نگاری اور خطابت جیسی تینوں اصناف میں بیک وقت حسنِ اظہار اور جراتِ اظہار کرنے پر وہ مقام و مرتبہ حاصل ہُوا جس کے وہ صحیح معنوں میں حق دار تھے۔ جن کی تحریروں اور تقریروں کے سبھی اسیر تھے۔

'' اجمل نیازی ایک تعارف'' میں احسان اکبر رقم طراز ہے کہ '' میں اجمل کے غزل کے سفر کو پاکستانی شناخت کے شعری سفر کے تناظر میں بھی دیکھتا ہوں اور ملت اسلامیہ کے اجتماع کی ایک بانگ درا بھی سمجھتا ہوں جس اعتماد کے ساتھ اجمل نے ان نازک لہجوں کے سفرکا آغاز کیا ہے وہ آج ہر غزل گو کی توفیق میں نہیں، میں اسی حوالے سے اجمل نیازی کو غزل میں پاکستانی غزل کا نیا سخن دیکھتا ہوں ۔''

اک شخص جزیرہ رازوں کا اور ہم سب اُس میں رہتے ہیں

اک گھر ہے اُس کی یادوں کا اور ہم سب اُس میں رہتے ہیں

رازوں کے جزیوں میں رہنے والا یہ آدمی جسے ہم سب اجمل نیازی کہتے ہیں جس کے شاعرانہ اسلوب میں اجتماعی لاشعور اُس کا ذاتی لاشعور بلکہ اُس کی شاعری کا زندہ شعور ہے، جس میں روایت فکری سطح پر ایک تسلسل کی طرح گردش کرتے ہوئے فنی سطح پر اُس کے لہجے کو ایک نیا جنم دیتی ہے۔ ان کے لہجے میں سدا بہار پھول کھلتے ہیں جو خزاں آنے پر بھی شاداب اور خوشبودار رہتے ہیں۔ وہ پچھلے پہر کی سرگوشی میں گم سرد ہوا کا رزق ہونے والے پرندوں کا نوحہ کچھ اس طرح سے بیان کرتے ہیں۔

اک موسم میرے پرندوں کا وہ سرد ہوا کا رزق ہُوا

اک گلشن خالی پیڑوں کا اور ہم سب اُس میں رہتے ہیں

ڈاکٹر محمد اجمل نیازی کا اولین شعری مجموعہ '' پچھلے پہرکی سرگوشی'' کے نام سے منظرِ عام پر آیا جسے ادبی حلقوں میں بہت پذیرائی ملی۔ سرگوشی کا یہ شاعر دن کے اُجالوں اور رات کی تاریکی کو ایک دلفریب انداز میں بیان کرتا ہے۔ ان کے نزدیک رات ایک راز کی طرح ہے جو رازکا پتہ صرف جاگنے والوں کو ہی دیتی ہے۔

جاگنے کی مستی صرف جاگنے والوں کی آنکھوں میں تڑپتی ہے۔ کیوں کہ پچھلے پہر کی سرگوشی صرف جاگنے والوں کو ہی سنائی دیتی ہے۔ اس کتاب کے دیباچہ میں سراج منیر رقم طراز ہے کہ '' اجمل نیازی نے ایک طرزِ احساس اور اس کے متعلق لفظیات وخیالات کا ایک پورا نظام دریافت کر لیا ہے، اپنا ایک دائرہ اثر بھی پیدا کیا ہے، لیکن اس کی موجودہ شاعری اس کے امکان کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں ہے، جس حقیقت سے ربط استوارکیا ہے، اس کا سبق تو یہ ہے کہ:

'' زشرر ستارہ جویم ز ستارہ آفتابے''

ڈاکٹر محمد اجمل نیازی کی بے ساختہ شاعری ہی ان کی شخصیت کا خاصہ ہے، وہ لفظوں کو موتیوں کی تسبیح پرونے کا ہنر بخوبی جانتے ہیں۔ انھیں اپنی طرح سانولا رنگ اور موسم سردیوں کا پسند ہے۔ وہ اپنے لفظوں میں اپنی خواہشات کا اظہار یوں کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ '' شاعری میری پہلی محبت ہے اور اس کا وہی حشر ہوا جو پہلی محبت کا ہوتا ہے، مگر محبت سفرکرتی ہے اور شاعری خواب دیکھتی ہے۔ ان دیکھے راستوں پر اور نامعلوم غزلوں کی طرف محبت میری ہم سفر ہے اور شاعری میری ہم راز ہے۔'' ان کی شاعری کہیں کہیں صبح کا پیغام یوں دیتی ہے کہ:

وہ شخص جیسے رات کے پچھلے پہرکا وقت


آئے گا گھر میں صبح کے پیغام کی طرح

ڈاکٹر صاحب کو صبح سے ملاقات کرنا، شب کے اُجالوں سے باتیںکرنا اچھا لگتا ہے۔ میرے خیال میں وہ ایک ایسے آدمی ہے جنھیں اُجالوں کی تلاش اور اندھیروں سے دوستی کی خواہش رہتی ہے۔ ایسا آدمی یقینا آسماں کے ٹوٹے ہوئے ستاروں سے محبت کرنے کا حامی ہوسکتا ہے یا دوسروں کے دکھ اپنی جھولی میں ڈالنے کا خیر خواہ۔ ایسے میں وہ رات کے پچھلے پہر میں کسی مظلوم کی سسکیوں بھری آواز سُن کر مصیبت میں اپنے اس شعر کے مانند دُعا دینے لگتے ہیں۔

یاد آتا ہے مصیبت میں دعائوں کی طرح

رات کے پچھلے پہرکی سسکیوں جیسا ہے وہ

''پچھلے پہر کی سرگوشی'' میں جہاں حمد و نعت، غزل و نظم شامل ہیں وہاں امامِ عالی مقام حضرت امامِ حسینؓ کے حضور ان کا عقیدت سے بھرا کلام بھی پڑھنے کو ملتا ہے۔ مجھے ان کی یہ منقبت ذاتی طور پر بہت پسند ہے۔ جس کا مطلع دیکھیے:

پھیلا ہُوا ہے ہر کہیں تیرا جہاں حسینؓ

تو سر زمینِ درد کا ہے آسماں حسینؓ

ڈاکٹر محمد اجمل نیازی کے غزلوں اور نظموں میں اُس کا اپنا کم اور دوسرا کا ذاتی دکھ زیادہ سنائی دیتا ہے، یہی وجہ ہے کہ سچے تخلیق کار کے دل کا آنگن سرگوشیوں سے دھڑک اُٹھتا ہے تو پچھلا پہر رومانس کی بارشوں سے مہک اُٹھتا ہے۔ بے نیازیوں والا یہ شخص خود اپنی ذات میں ایک صوفی ہے جو رومانیت اور روحانیت کی گہری کیفیتوں میں سفر کرتے ہوئے تھکن سے چور ہونے پر بھی اپنے محبوب کی بارگاہ میں دھمال ڈھالنا نہیں بھولتا۔ وہ ان دیکھے زمانوں کی طرف صبح کے اُجالے کی طرح '' مثلِ سحر'' بھیجا گیا ہے۔ اس شعر کے مصداق:

عہدِ غفلت میں مجھے مثلِ سحر بھیجا گیا

دیر تک سوئے ہوئے لوگوں کے گھر بھیجا گیا

'' پچھلے پہر کی سرگوشی'' ان کا یہ شعری مجموعہ ان کے ہم عصر دوست خالد شریف نے اپنے اشاعتی ادارے'' ماورا پبلی کیشنز'' سے شایع کیا۔ کئی کیفیتوں میں گِھرے اور انوکھی تخلیق کے جہانِ دیگر میں چھپے ہوئے شاعر کو کالم نگاری کھا گئی، یوں ان کی وجہِ شہرت ان کی کالم نگاری بنی۔

جہاں منیر نیازی کو شاعری کے خانِ اعظم کا خطاب دیا گیا وہیں کالم نگاری کے '' خانِ اعظم'' کا لقب مجھ خاکسار نے ان کے لیے تجویز کیا جو انھیں بہت پسند آیا۔ جس کی تردید ان کے دوست افتخار مجازکئی بار محافل میں اپنی تقریروں میں کر چکے تھے، مگر آج یہ بات بڑے دُکھ کے ساتھ کہنا پڑ رہی ہے کہ ڈاکٹر محمد اجمل نیازی ہمارے درمیان موجود نہیں لیکن اُن کی یادیں اور اُن کی تحریریں گلستانِ ادب کا سرمایہ افتخار رہیں گی۔

ڈاکٹر محمد اجمل نیازی سے میری طویل عرصے تک رفاقت رہی۔ ان کی شخصیت و فن کے حوالے سے بہت کچھ میری زیرِ طبع کتاب '' کالم نگاری کا خانِ اعظم'' میں بہت جلد آپ احباب کو پڑھنے کو ملے گی۔ الفاظ کے سلطان ڈاکٹر محمد اجمل نیازی کو آج ہم سے بچھڑے دو برس ہو گئے ہیں ، وہ ایک اچھے مقرر، ادیب، محقق، دانشور، کالم نگار، معلم اور خوبصورت شاعر تھے جن میں کئی خوبیاں موجود تھی۔ میں ان جیسا ملنسار، مہمان نواز اور بے نیازیوں والا انسان نہیں کم ہی دیکھا ہوگا۔ آخر میں ان کے دو اشعار ملاحظہ کیجیے۔ اشعار کے سوا اور کیا کہا جا سکتا ہے۔

سرزمینِ دل پہ اُس کا آسماں موجود ہے

ٹوٹے پھوٹے اس مکاں میں لامکاں موجود ہے

وہ نہیں ہے پھر بھی ہم جب یاد کرتے ہیں اُسے

ایسے لگتا ہے ہمارے درمیان موجود ہے
Load Next Story